جمعہ، 11 اپریل، 2014

قلات آپریشن

قلات آپریشن 
سیاسی گدھ اورکرگزی سوچ

تحریر نود بندگ بلو
کرگز (گدھ) کی عجیب فطرت ہے کہ وہ ایک گوشت خور پرندہ ہونے کے باوجود کبھی شکار نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ آسمان پر منڈلاتے ہوئے بس اس تاک میں رہتا ہے کہ جیسے ہی کوئی جانور خود مرجائے یا کوئی شکاری جانور اپنا بچا ہوا چھوڑے تو وہ جھپٹ کر دوسروں کے شکار کو نوچنا شروع کردیں۔ اسی لئے گوشت خور ہونے اور اونچی اوڑان بھرنے کے باوجود بھی ہم کبھی گدھ کو شاہین نہیں کہہ سکتے،کہتے ہیں کہ انسان کسی دور میں کوئی بندر نما جانور ہوا کرتے تھے اور جانوروں کے ساتھ رہا کرتے تھے،ایک طویل ارتقائی عمل کے بعد آج انسان عقل شعور اور تہذیب کے اِس معراج کو پانے میں کامیاب ہوا ، لیکن اس طویل ارتقائی عمل کے باوجود شاید انسانوں کی جبلت میں ابھی تک کچھ جانوروں کے خصائل موجود ہیں،اسی گدھ کے ہی مثال کو دیکھیں اور پھر پاکستانی سیاست پر ایک نظر دوڑائیں کے کیسے انکی پوری سیاست لاشیں نوچنے پر کھڑی ہے۔ کیسے ایک \" شہید بھٹو \" ایک \" گدھ بھٹو \" کو جنم دیتا ہے ،کیسے وہاں ایک وزیر آکر کوئی پروجیکٹ شروع کرتا ہے تو دوسرا آتے ہی اس پروجیکٹ پر اپنے نام کا تختی لگوا کر افتتاح کر دیتا ہے ، کیسے کسی زلزلے ،سیلاب اور آفت کی صورت میں ان کے سیاستدانوں کی فوٹو شوٹنگ شروع ہوجاتی ہے،یہ درحقیقت سیاست میں وہی \" کرگزی سوچ \" ہے کہ موقع کے تلاش میں رہا جائے اور بغیر محنت کے کسی مردے یا کسی کے بچے ہوئے شکار کو نوچا جائے۔
یہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ \" کرگزی سوچ \" بلوچ سیاست میں بھی اب بدرجہ اتم پائی جارہی ہے،باقی کئی خصائل کی طرح ہم نے یہ \" کرگزی سوچ \" بھی اپنے قابض سے من و عن مستعار لیا ہوا ہے۔ ماما قدیر کے لانگ مارچ کو کیش کرنے کیلئے کیسے ہماری سیاسی جماعتوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا وہ ہمارے سامنے ہے ، حالانکہ وہی سیاسی پارٹیاں ماما کو ایک گلاس ٹھنڈا پانی تک نا پلا سکے لیکن ان کے خشک اخباری بیانوں میں اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں سے اپیل نما دھمکیوں کا ایسا تانتا بندھا ہوا تھا کہ جیسے ماما نے انکی اجازت سے ہی لانگ مارچ کرنے کی جسارت کی تھی، حقیقت تو یہ ہے کہ جب ماما محنت کر رہا تھا تو یہ گدھ کی طرح آسمان پر منڈلا رہے تھے جیسے ہی اور جہاں بھی ماما کو تھوڑا میڈیا کوریج کی صورت میں کوئی پھل ملنے لگتا تو یہ سیاسی گدھ اپنے ناخن تیز کئے اسے نوچنے کیلئے امڈ آتے ، مارچ کے کراچی پہنچتے وقت آپ اس سوچ کی اچھی خاصی جھلک باآسانی دیکھ سکتے تھے۔ ذرا غور کریں کہ 13 نومبر کے دن یوم شہداء منانے سے یہ سیاسی گدھ کیوں کتر ارہے تھے ؟ ظاہر ہے کہ جب نوچنے کیلئے ہردن انہیں ایک علیحدہ شہید کی لاش میسر ہو تو پھر وہ کیونکر خود کو محدود کرکے ایک دن میں قید کردیں۔ 11 اگست ہو یا 27 مارچ یا کوئی اور قومی سانحہ کا دن ان کو کیش کرنے کیلئے جیسے ایک دوڑ لگی ہے، کہیں دشمن نے بلوچوں کا خونِ ناحق بہایا ہو تو دکھ کا احساس بعد میں ہوتا ہے پہلے تو آنکھوں میں چمک آجاتی ہے کہ \" مل گیا سرخیوں میں زندہ رہنے کا ایک اور موقع \"۔ ہڑتالیں کر کر کے عوام کو ہلکان کردیں گے لیکن مجال ہے کہ ایک بار بھی لاش نوچنے کا موقع ضائع کریں،کیا آج تک کسی سیاسی تنظیم نے کبھی تجزیہ کِیا ہے کہ ان ہزاروں نیم ہڑتالوں کا ہمیں کتنا فائدہ یا نقصان ہوا ہے ، کوئی سوچے بھی تو کیوں ؟ گدھ کا فطرت سوچنا نہیں صرف نوچنا ہوتا ہے۔
باقی بلوچ سیاست کو چھوڑیں صرف کل کے دن کا ہی جائزہ لے لیں تو بندہ حیران ہوجائے کہ اس \" کرگزی سوچ \" پر رووں یا ہنسوں، قلات میں پاکستانی فوج ایک آپریشن کرتی ہے ، کچھ دیر بعد اطلاع آتی ہے کہ انکا ایک ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوا ہے پھر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک آپریشن میں انہوں نے 30 بلوچ مزاحمت کاروں کو شہید کیا ہے، بس ان خبروں کا آنا تھا کہ سارے گدھ آسمان پر منڈلانے لگے، سب سے پہلا جھپٹا بی این ایف نے حسبِ روایت ماردی کہ صرف پاکستانی میڈیا کی طرف سے دی جانے والی معلومات پر اکتفاء کرکے شٹر ڈاون ہڑتال کی کال دے دی، کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ پوری خبر ہی جھوٹی ہوتی ؟ کیا یہ واجب نہیں تھا کہ ہڑتال کی کال دینے سے پہلے بی این ایف تھوڑا انتظار کرتی اور مصدقہ معلومات کے بعد کوئی فیصلہ کرتی ؟ لیکن ایسا نہیں ہوا ، کیوں ؟ کیونکہ اگر بی این ایف ان چکروں میں پڑتی تو ہڑتال کی کال دینے کے ریس میں بی آر پی یا بی ایس ایف اس سے بازی لیجاتے، میں یہاں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ہڑتال ہونی چاہئے تھی یا نہیں میں صرف یہاں آپ کے سامنے وہی \" کرگزی سوچ \" واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کیسے بچے ہوئے لاش پر جھپٹا مارنے کیلئے گدھ ایک دوسرے سے بازی لیجانے کی کوشش میں ہوتے ہیں اس ہڑتال کے پیچھے اگر واقعی کوئی سیاسی سوچ ہوتی تو میرا یقین کریں ہڑتال کی یہ کال جیو کی پٹیاں دیکھ کر نہیں دی جاتی،کیا فرنٹ ایک بارتحمل سے سوچنے اور جانچنے کے بعد یہ ہڑتال کی کال نہیں دے سکتی تھی ؟ لیکن کوئی سوچے بھی تو کیوں ؟ گدھ کا فطرت سوچنا نہیں صرف نوچنا ہوتا ہے۔
اس گدھ کے بعد دوسرے گدھ کی باری آئی ، اچانک سے یو بی اے کا ایک بیان سامنے آیا کہ گرنے والے ہیلی کاپٹر کو ان کے سرمچاروں نے مار گرایا تھا۔ عجیب اتفاق ہے جو ہیلی کاپٹر گری اس پر حملہ \"پارود\" کے پہاڑوں میں سے ہوا تھا اور ذمہ داری یو بی اے نے قبول کرلی ، معلومات لی تو پتہ چلا کہ پارود و نیمرغ کے علاقوں میں تو یو بی اے کا کوئی کیمپ ہی نہیں ، یو بی اے پر شاید اسپلنجی اور جوہان کے علاقوں میں کوئی آپریشن ہوا تھا جس میں ہیلی کاپٹر بھی شریک تھے، جب یو بی اے نے یہ اطلاع سنی کہ قلات میں ایک ہیلی کاپٹر گرا ہے تو پھر وہی \" کرگزی سوچ \" امڈ کر باہر آئی ہے ، یار لوگوں نے سوچا کہ موقع یہی ہے جلدی سے قبول کرلو کس کو پتہ چلے گا کہ کس نے مارا تھا یا کسی نے مارا بھی تھا کہ نہیں، بس اخباروں کے سرخیوں میں رہنے کا اچھا موقع ہے، جن دوستوں کو پارود سے جوہان کے بیچ کا فاصلہ پتہ نہیں تو معلومات کرلیں ہنسی چھوٹ جائے گی،کیا یو بی اے اتنا نہیں سوچ سکتا تھا کہ اگر اس واقعے کی تفصیلات بعد میں آگئی اور پتہ چلا کے یہ نشانہ کہیں اور سے بنا تھا تو پھر ان کی کتنی جگ ہنساء ہوگی اور عوام کا اعتماد کتنا اٹھ جائے گا ؟ لیکن کوئی سوچے بھی تو کیوں ؟ گدھ کا فطرت سوچنا نہیں صرف نوچنا ہوتا ہے۔
غالباً جس علاقے میں آپریشن ہوا وہاں بی ایل اے کے کیمپ سے بی آر اے کا کیمپ اتنا دور نہیں، آپریشن شروع ہوا تو بی آر اے کے سرمچار صحیح سلامت حصار سے نکلنے میں کامیاب ہوئے، وہ پھر آپریشن کے آخری وقت میں شاید بی ایل اے کے دوستوں سے کہیں ملے لیکن سرباز بلوچ صاحب کو شاید کہیں اور سے کچھ اور الہام ہوا۔ جب ان کا بیان آیا تو پہلے 10 کمانڈو ہلاک کرنے کا دعویٰ اور پھر خود ہی بی ایل اے کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ دعویٰ کے انہوں نے مشترکہ طور پر یہ جنگ لڑی ہے،اب اگر آپ کبھی اہل علاقہ یا پھر انہی بی آر اے کے سرمچاروں سے پوچھیں گے تو وہ ان باتوں پر ہنسیں گے اور حیرت کا اظہار کریں گے کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ وہاں مزاحمت آخری وقت تک بی ایل اے کے دوست کرتے رہے اور ہیلی کاپٹر پر حملہ وہیں ہوا اور وہیں سے ہیلی کاپٹر دھواں چھوڑتے ہوئے جاکر قلات میں گر گیا، بی آر اے کے دوست شاید کہیں مزاحمت کررہے ہوں لیکن وہ اس وقت کم از کم مشترکہ طور پر ایک علاقے میں مزاحمت نہیں کر رہے تھے،لیکن پھر یہ از خود بی ایل اے کی ترجمانی کرکے مشترکہ جدو جہد کی نوید کیونکر ؟ کیونکہ یہاں پھر سے \" کرگزی سوچ \" ہڈیاں نوچنے آیا تھا۔ اس کرگزی سوچ کو اس وقت مایوسی ہوئی جب بی ایل اے کا بیان آیا اور اس میں مشترکہ والی کوئی بات نظر نہیں آئی ( کیونکہ تھی ہی نہیں )۔ پھر یار لوگ اس گِلے میں لگ گئے کہ ہمارے منہ سے وہ گوشت کا ٹکڑا کیوں چھینا گیا ، حالانکہ کوئی گلہ بنتا ہی نہیں تھا بی ایل اے نے اپنے بیان میں اپنا روئیداد بیان کیا تھا اور کوئی لگی لپٹی کے بغیر پیش کیا ، حالتِ جنگ میں آپ کو پتہ نہیں چلتا کے آپ نے کتنے دشمن مارے ہیں اس لئے واضح تعداد کے بجائے صرف متعدد کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ اگر کوئی تنظیم تعداد بتانے میں بھی اتنا محتاط ہو تو پھر وہ کیسے از خود وہ باتیں بیان کرے ( مشترکہ جنگ) جو وقوع پذیر ہوئے ہی نہیں ؟چلو چاہے ہیلی کاپٹر اور دشمن کو جس نے بھی مارا ہو آخر خوشی کی بات ہے کہ دشمن کا ہیلی گرا اور اسے نقصان ہوا لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس میں تاج پہنے اور وہ بھی شریکی تاج کی کیا ضرورت ہے ، کیا عوام کا حوصلہ جھوٹ سے بلند کیا جائے گا ؟ سرباز بلوچ کا یہ بیان کے بی ایل اے نے اپنے بیان میں میرا نام کیوں نہیں لیا ہے کم از کم میرے سمجھ سے بالا تر ہے،کیا بی آر اے ایک بار نہیں سوچ سکتا تھا کہ فوراً کیش کرنے کے بجائے تھوڑا حقیقت حال کو جانچ کر سچائی سے کام لیتی؟لیکن کوئی سوچے بھی تو کیوں ؟ گدھ کا فطرت سوچنا نہیں صرف نوچنا ہوتا ہے۔
میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ میں ایک آدھ زخمی و مردہ ہیلی کاپٹروں کا تاج کسی کے سر پر سجانے کی کوشش کروں ، یہاں صرف اتنا اگر ہم غور کریں کہ وہ \" کرگزی سوچ \" کیسے ہماری تحریک کو پراگندہ کر رہی ہے تو پھر شاید اس سے چھٹکارے کی کوئی راہ بھی واضح ہوجائے۔ کیونکہ یہی \" کرگزی سوچ \" ہی ہمارے سیاست میں تقسیم در تقسیم ، موقع پرستی اور کدورتوں کو جنم دے رہا ہے۔ جب تک ان ردِ انقلابی رویوں سے ہم چھٹکارہ حاصل نہیں کرتے تب تک ہم صرف \" رد \" ہی رہیں گے کبھی \" انقلابی \" نہیں بن سکیں گے۔