جمعرات، 31 مئی، 2018

ایران : سفاک جیل میں عورتوں سے غیر انسانی سلوک



1979ء میں ایران میں انقلاب کے وقت ہزاروں عورتیں سڑکوں پر نکلی تھیں اور وہ بھی اپنے مردو ں کی طرح محمد رضا شاہ پہلوی کی آمرانہ حکمرانی کا خاتمہ چاہتی تھیں۔

لیکن جب آیت اللہ روح اللہ خمینی نے ملک کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور گرد بیٹھ گئی ،تو آزادی کے لیے لڑنے والے بہت سے لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ ان کے نئے سپریم لیڈر بھی وہی آمرانہ مطلق العنانیت پیش کررہے تھے جو رضا پہلوی کا خاصہ تھی اور پھر خواتین کے حقو ق کو فوری طور پر محدود کردیا گیا تھا۔

خواتین کو جب ایران کی نئی مذہبی قیادت سے التباس نظر کا سامنا ہوا تو ان میں کی اکثریت نے حزب ِاختلاف کے گروپوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ وہ ایک مرتبہ پھر شاہراہوں پرتھیں اور آیت اللہ خمینی کے اقتدار کے خلاف مظاہرے کررہی تھیں۔چنانچہ خمینی نظام نے بڑھتی ہوئی بے امنی اور گڑ بڑ پر قابو پانے کے لیے حکومت مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا، بہت سی خواتین کو گرفتار کر لیا گیا۔پھر انھیں ایک سے ایک سفاک جیل میں گھمایا جانے لگا۔

ان ابتدائی ایام کے بعد سے ایرانی نظام نے سیاسی قیدیوں کے ساتھ ایسا ہی ناروا سلوک کیا ہے۔جیلوں میں ہزاروں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔لاتعداد زیر حراست افراد کو ان کی صنف سے قطع نظر جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے پیش نظر خواتین کارکنان کی اکثریت نے حکومت سے اختلاف کرنا ہی چھوڑ دیا اور آزادی کے حصول کی اس جدوجہد میں ان کی ایک بڑی تعداد ملک سے راہ فرار اختیار کر گئی۔

جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو اس کے جیلوں کے نظام میں خواتین سے ہونے والے ناروا سلوک سے نازیوں کے تاریک ایام کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔تب جیلوں میں قیدیوں سے روزانہ ہر طرح کا انسانیت سوز سلوک کیا جاتا تھا۔ان سے ناروا سلوک کا ہر حربہ آزمایا جاتا تھا۔

جب آیت اللہ روح اللہ خمینی نے اپنی مطلق العنان حکمرانی قائم کر لی تو خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے محمد رضا پہلوی کے دور میں نافذ کردہ قوانین کو بھی بیک جنبشِ قلم منسوخ کردیا تھا۔رضا شاہ نے ملک میں 1967ء اور 1973ء میں خاندانی تحفظ کا قانون متعارف کرایا تھا۔ مذہبی قائدین کی اس نئی حکومت نے اس کو پہلوی کے جدیدیت پر مبنی نظریے سے تعبیر کیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ایسے قوانین کو منسوخ کردیا تھا۔

شاہ نے جو قوانین متعارف کرائے تھے،ان میں ایک یہ تھا کہ لڑکیوں کی پندرہ سال سے کم عمر میں شادی نہیں کی جائے گی لیکن خمینی نے اس قانون میں ترمیم کرکے بچیوں کی شادی کی حد عمر نو سال کردی تھی۔ موجودہ جدید دور میں جب ایرانی خواتین کو انٹر نیٹ کے ذریعے بیرونی دنیا تک رسائی حاصل ہے تو وہ یہ دیکھ سکتی ہیں کہ بیرونی دنیا میں تو خواتین کو ان سے کہیں زیادہ آزادیاں حاصل ہیں۔

ایران میں حکومت کی اتھارٹی کو کھلے عام چیلنج کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ وہ سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کررہی ہیں۔ اگر بسیج ملیشیا کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں ان کے چہروں پر تیزاب نہیں بھی پھینکا جاتا ہے تو پھر انھیں جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے مدافعین

خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی کارکنان کو اکثر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔بہت سی ایسی خواتین جنھوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے کے لیے مہم چلائی تھی ، انھیں انجام کار جیل جانا پڑا۔ان میں سے بیشتر نے تو پُرامن اجتماعات میں حصہ لیا ،بعض نے پارکوں میں خاموش احتجاج کیا یا پھر وہ خاموش تماشائی بنی رہیں۔ان میں سے بیشتر کو اگرچہ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد رہا کردیا جاتا رہا ہے لیکن بعض کو کوڑے مارنے یا قید کی سزا سنا دی گئی۔

ایران میں اس وقت خواتین کے حقوق کی صورت حال پست ترین سطح پر ہے۔اس ملک میں کسی عورت کو اپنی عصمت ریزی کرنے والے درندے سے لڑنے کی کوشش پر پھانسی دی جاسکتی ہے ۔اس ملک کے جیل نظام میں آپ کو ظلم وزیادتی کی ہرقسم اور شکل ملے گی۔عورتوں اور مردوں دونوں ہی سے جسمانی طور پر ناروا سلوک کیا جاسکتا ہے۔ایران کی بدنام زمانہ انتظامیہ سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔

جیل کے محافظوں کے ہاتھوں اپنی عزتیں لٹانے والی بیشتر متاثرہ عورتوں کی آخری منزل پھانسی کا پھندا ہوتی ہے۔ایسے واقعات کے عینی شاہدین کے بیانات بڑے چشم کشا ہیں۔جنسی عصمت ریزی سے متعلق بیشتر واقعات متاثرین کی جیل کوٹھڑیوں کے ان ساتھیوں نے بیان کیے ہیں، جو بچ جانے میں کامیاب ہوگئے اور اپنی جیل کی مدت پوری ہونے کے بعد رہائی میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔ان میں سے بعض نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو ان ہوشربا تفصیلات سے آگاہ کیا۔

جب سے دُہری شہریت کی حامل نازنین زغری ریٹکلف ایران کی بدنام زمانہ ایوین جیل میں قید ہیں ،اس وقت سے یہ عقوبت خانہ اہل ِمغرب کی نظروں میں ہے۔ایک عورت کے لیے ایوین جیل میں جانا ہی ایک شرمناک اور اذیت ناک تجربہ ہوسکتا ہے۔

اس کا خوف ناک ڈھانچا تہران میں البرز کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔اس کی بلند وبالا دیواریں ہیں اور ان کے اوپر خار دار تار لگائے گئے ہیں۔اس کے درمیان میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واچ ٹاورز ہیں حالانکہ ایوین جیل ہمہ وقت مسلح محافظوں کے پہرے میں ہوتی ہے۔

اس جیل میں قید عورتوں سے ایک نرمی یہ برتی جاتی ہے کہ انھیں قید تنہائی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وہاں سے روزانہ ایسی قیدی عورتوں کو تفتیش کے لیے لے جایا جاتا ہے اور اس عمل کے دوران میں اکثر تشدد کے حربے آزمائے جاتے ہیں ،سوالات کے دوران میں گالم گلوچ کو ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔

موسم گرما کے انتہائی درجہ حرارت والے مہینوں میں ان جیلوں میں سڑاہند عام دنوں سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔قیدیوں سے کھچا کھچ بھری جیل کوٹھڑیوں میں کیڑے پتنگے اور کاکروچ عام ہوتے ہیں اور وہ قیدیوں کی اذیت وتکالیف میں اور بھی اضافہ کردیتے ہیں۔20 مربع میٹر کی ایک کوٹھڑی میں 28 تک قیدیوں کو ٹھونس دیا جاتا ہے،حفظان صحت کا کچھ خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ 200 تک قیدیوں کے لیے صرف ایک غسل خانہ ہوتا ہے۔پھر ان قیدیوں کو تو سونے کے لیے بھی کہیں جگہ نہیں ملتی ہوگی۔

تشدد کی مختلف شکلیں

ایران کے جیل نظام میں تشدد کی مختلف شکلیں ہیں۔قیدیوں کو مارا پیٹا جاسکتا ہے،انھیں لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔انھیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔وہ یوں کہ انھیں دوسرے قیدیوں کو تختہ دار پر لٹکانے کے جعلی مناظر دکھائے جاتے ہیں،انھیں جگائے رکھا جاتا ہے۔ان کے قید تنہائی کے دورانیے کو طویل کردیا جاتا ہے۔

بعض اوقات انھیں یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ ان کے خاندان کے افراد کو گرفتار کر لیا جائے گا یا انھیں نقصان پہنچائے گا۔انھیں خاندان کے افراد سے ملوایا نہیں جاتا ،ٹیلی فون پر خاندان کے افراد سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔بعض قیدیوں پر یخ ٹھنڈا پانی انڈیل دیا جاتا ہے یا پھر کڑی دھوپ میں انھیں کئی کئی گھنٹے کھڑا رکھا جاتا ہے۔بیشتر قیدیوں کو حفظان ِ صحت سے محروم رکھا جاتا ہے ، انھیں غسل خانے ایسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔

ایرانی جیل نظام میں جنسی تشدد تو ایک روایت بن چکا ہے۔اس کو تشدد کے کسی بھی دوسرے حربے کی طرح قیدیوں پر آزمایا جاتا ہے۔جیلوں اور حراستی مراکز میں عورتوں پر یہ حربہ آزمایا جاتا ہے اور وہاں وہ اپنا دفاع بالکل بھی نہیں کرسکتی ہیں۔

ایران میں تو 13 سال کی عمر تک کی لڑکیوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا ہے۔انھیں ایک خوب صورت نام والے اقامتی یونٹوںمیں رکھا جاتا ہے جہاں وہ محافظوں کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں۔ان یونٹوں کو دراصل  ریپ کیمپیا پھر  عدم واپسی کی جگہ قرار دیا جاتا ہے۔یہاں ان لڑکیوں کو شرمناک طریقے سے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔پھر انھیں پھندے پر لٹکا دیا جاتا اور جو کسی طرح بچ نکلتی ہیں تو وہ ذہنی مریض بن جاتی ہیں۔

جب عورتوں کو عصمت ریزی ایسے خوف ناک تجربے سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اس کے بعد وہ پھانسی کے پھندے سے بھی بچ نکلتی ہیں تو وہ اپنے ساتھ روا رکھے گئے اس شرم ناک سلوک کے بارے میں مزید سبکی سے بچنے کے لیے کسی سے بات نہیں کرتی ہیں اور خاموش رہنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتی ہیں۔بعض اپنے خاندان کے افراد سے ناروا سلوک کی دھمکی پر خاموش رہتی ہیں۔ان کی عصمت ریزی کے مرتکبین اکثر یہ دھمکیاں دیتے ہیں کہ اگر انھوں نے کچھ بولا تو ان کے خاندان سے بھی ایسا سلوک کیا جاسکتا ہے یا پھر پورے خاندان ہی کو موت کی نیند سلایا جاسکتا ہے۔

مرد کے برعکس جیل میں وقت گزارنے والی عورتوں کو رہائی کی صورت میں سماجی دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ دباؤ یہی ہوتا ہے کہ وہ جیل میں قید رہ چکی ہوتی ہیں ۔یوں ان کی شہرت ، عزت سب کچھ تباہ ہوجا تا ہے۔جب ان کی عصمت ریزی کی خبر ان کے خاندان تک پہنچتی ہے تو بعض صورتوں میں خاندان کے افراد بھی غیرت کے نام پر انھیں موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔المختصر یہ کہ ایک مرتبہ جیل کی ہوا کھانے والی ایرانی عورت کے مصائب کبھی ختم نہیں ہوتے۔

منگل، 29 مئی، 2018

اپنے عاشقوں کو زندہ نذر آتش کرنے والی افریقی ملکہ



تاریخ کی کتابوں میں کئی حیرت انگیز واقعات درج ہیں اور ان میں افریقی ملک انگولا کی ملکہ اینجنگا ایمباندی بھی ہیں جو ایک ہوشیار اور بہادر جنگجو کے طور پر نظر آتی ہیں۔
انھوں نے 17 ویں صدی میں افریقہ میں یورپی استعماریت کے خلاف جنگ کا طبل بجایا تھا لیکن بعض تاریخ نویس انھیں ظالم خاتون کے طور پر بیان کرتے ہیں جنھوں نے اقتدار کے لیے اپنے بھائی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اتنا ہی نہیں ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے حرم میں رہنے والے مردوں کے ساتھ ایک بار جنسی تعلق قائم کرنے کے بعد انھیں زندہ نذر آتش کروا دیا کرتی تھیں۔
تاہم تاریخ دانوں میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ افریقہ کی سب سے مقبول خواتین میں سے ایک تھیں۔


ملکہ یا اینگولا

ایمباندو قبیلے کی رہنما اینجنگا جنوب مغربی افریقی علاقے اینڈونگو اور متامبا کی ملکہ تھیں۔

لیکن مقامی زبان میں کمباندو میں اینڈونگو کو انگولا کہا جاتا تھا اور اسی نام سے پرتگالی اس علاقے کا ذکر کرتے تھے۔
اور بالآخر اس علاقے کو دنیا بھر انگولا کے نام سے ہی جانا گیا۔
اس علاقے کو یہ نام اس وقت دیا گیا جب پرتگال کے فوجیوں نے سونے اور چاندی کی تلاش میں اینڈونگو پر حملہ کر دیا۔

لیکن جب انھیں سونے اور چاندی کی کانیں نہیں ملیں تو انھوں نے اپنی نئی کالونی برازیل میں یہاں سے مزدور بھیجنے شروع کر دیے۔

اینجنگا پرتگالی حملے کے آٹھ سال بعد پیدا ہوئیں اور انھوں نے اپنے والد بادشاہ ایمباندی کیلنجی کے ساتھ بچپن سے ہی حملہ آوروں کے خلاف جدوجہد میں شرکت کی۔


سنہ 1617 میں بادشاہ ایمباندی کی موت کے بعد ان کے بیٹے اینگولا ایمباندی نے حکومت سنبھالی لیکن ان میں نہ اپنے والد کا کرشمہ تھا اور نہ ہی اپنی بہن جیسی ہوشیاری۔

اینگولا ایمباندی کو یہ ڈر ستانے لگا کہ ان کے وفادار ہی ان کے خلاف اور ان کی بہن کے حق میں سازش کر رہے ہیں۔
اور اسی خوف کے سبب اینگولا ایمباندی نے اینجنگا کے بیٹے کو سزائے موت سنا دی۔
لیکن جب نئے بادشاہ کو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ یورپی حملہ آوروں کا سامنا کرنے میں ناکام ہیں اور یورپی فوج رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہی ہے اور بہت زیادہ جانی نقصان ہو رہا ہے تو ایسے میں انھوں نے اپنے ایک معتمد کا مشورہ مانتے ہوئے اپنی بہن کے ساتھ اقتدار کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔


پرتگالی مشنریوں سے پرتگالی زبان سیکھنے والی اینجنگا بہت ہی با صلاحیت اور جنگی حمکت عملی بنانے والی خاتون تھیں۔

اس صورت حال میں جب وہ مذاکرات کے لیے لوانڈا پہنچیں تو انھوں نے وہاں کالے گورے اور مختلف قبائلیوں کو دیکھا۔
اینجنگا نے ایسا منظر پہلی بار دیکھا تھا تاہم وہ ایک دوسری چیز دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں۔
انھوں نے دیکھا کہ غلاموں کو قطار در قطار بڑے بڑے جہازوں پر لے جایا جا رہا تھا اور چند ہی سالوں میں لوانڈا افریقہ میں غلاموں کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔

لیکن جب وہ پرتگالی گورنر جواؤ كوریے ڈے سوؤسا کے ساتھ امن مذاکرات کرنے ان دفتر پہنچیں تو ان کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کا ذکر مورخين نے تفصیل سے کیا ہے۔

وہ جب وہاں پہنچیں تو انھوں نے دیکھا کہ پرتگالی اہلکار تو آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے تھے جبکہ ان کے لیے زمین پر بیٹھنے کے انتظامات کیے گئے تھے۔
اس سلوک پر اینجنگا نے ایک لفظ نہیں کہا جبکہ ان کے اشارے پر ان کا ایک ملازم کرسی بن کر ان کے سامنے بیٹھ گیا۔


پھر وہ اس ملازم کی پیٹھ پر بیٹھ گئیں اور اس طرح وہ پرتگالی گورنر کے رو برو ان کے برابر پہنچ گئیں۔

اینجنگا نے اس طرح یہ واضح کر دیا کہ وہ مساوی بنیادوں پر مذاکرات کرنے کے لیے آئی ہیں۔
مذاکرات کے طویل دور کے بعد طرفین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پرتگالی فوج اینڈینگو سے نکل جائے گی اور ان کی حاکمیت قبول کرے گی۔
اور اس کے بدلے میں اینجنگا نے اس علاقے کے کاروباری راستے کی تعمیر کے لیے رضامندی دی۔

پرتگال کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے اینجنگا نے مسیحی مذہب اختیار کیا اور اپنا نیا نام اینا ڈی سوزا اختیار کیا۔ اس وقت ان کی عمر 40 سال تھی۔

لیکن دونوں کے درمیان تعلقات زیادہ دنوں تک بہتر نہیں رہے اور پھر نئی جنگ شروع ہو گئی۔


سنہ 1624 میں ان کے بھائی ایک چھوٹے سے جزیرے پر رہنے لگے جہاں ان کی موت واقع ہو گئی جس کے متعلق مختلف قسم کی کہانیاں رائج
 ہیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اینجنگا نے اپنے بیٹے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے اپنے بھائی کو زہر دیا۔
جبکہ بعض دوسرے ان کی موت کو خود کشی قرار دیتے ہیں۔

لیکن ان سب قیاس آرائیوں کے درمیان میں اینجنگا ایمباندے نے پرتگاليوں اور چند اپنے لوگوں کی جانب سے کھڑے ہونے والے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے ایندونگو کی پہلی ملکہ بننے کا افتخار حاصل کیا۔

انگولا کی نیشنل لائبریری کے ڈائریکٹر جاؤ پیڈرو لارینکو کا کہنا ہے کہ 'افریقہ میں قدیم زمانے سے جاری خواتین کے استحصال کے خلاف اینجنگا ایمباندے ایک بلند آواز کی طرح ہیں۔'


'انھی کی طرح کئی دوسری شخصیات ہیں جو ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ افریقہ میں اقتدار کے ڈھانچے میں فٹ نہ ہونے کے باوجود ان خواتین نے اس براعظم کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔'

بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ایک ملکہ کی حیثیت سے اینجنگا کا انداز ظالمانہ تھا۔
مثال کے طور پر اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے ان کا ریاست کی سرحد پر رہنے والے امبانگالا جنگجوؤں کی مدد حاصل کرنا تاکہ وہ اپنے حریفوں کو خوفزدہ کر سکیں۔
کئی سالوں تک اپنی سلطنت پر حکومت کرنے کے بعد انھوں نے اپنی پڑوسی ریاست پر قبضہ کر لیا۔
اس کے علاوہ انھوں نے اپنی سلطنت کی سرحدوں کو بخوبی محفوظ کیا۔


برازیل کے پرتگالی مصنف جوز ایڈوارڈو اگوالوسا کہتے ہیں کہ ملکہ اینجنگا میدان جنگ میں صرف ایک عظیم جنگجو نہیں بلکہ ایک عظیم حکمت عملی بنانے والی اور سیاست داں تھیں۔



انھوں نے پرتگالیوں کے خلاف جنگ کی اور دوسری طرح ڈچ کے ساتھ دوستی کی۔ اور جب ان کی پڑوسی سلطنتوں سے جنگ ہوتی تھی تو وہ پرتگالیوں سے مدد حاصل کرتی تھیں۔



جنسی غلام کے متعلق کہانی

فرانسیسی فلسفی مارکس دے سادے نے اطالوی مشنری جیوانی کاویز کی کہانیوں پر مبنی ایک کتاب 'دا فلاسفی آف دا ڈریسنگ ٹیبل' تصنیف کی ہے۔

کاویز کی کہانیوں میں یہ کہا گیا ہے اینجنگا اپنے عاشقوں کے ساتھ سیکس کرنے کے بعد انھیں جلاکر مار دیتی تھیں۔
ملکہ اینجنگا کے حرم کو 'چبدوس' کہا جاتا تھا اور اس میں رہنے والے مردوں کو خواتین کے کپڑے پہنائے جاتے تھے۔


اتنا ہی نہیں جب ملکہ کو اپنے حرم میں موجود کسی مرد کے ساتھ سیکس کرنا ہوتا تھا تو اس کے لیے حرم کے لڑکے مرتے دم تک آپس میں لڑتے اور پھر ان میں جو فاتح ہوتا اس کے ساتھ ملکہ ہم بستری کرتی۔

تاہم یہ کہا جاتا ہے کہ جیتنے والے کے ساتھ زیادہ خطرناک سلوک ہوتا تھا۔ دراصل ان کے ساتھ سیکس کے بعد انھیں جلا کر مار ڈالا جاتا تھا۔
اس بارے میں دوسرا خیال یہ ہے کہ کاویز کی کہانیاں دوسرے لوگوں کے دعووں پر مبنی ہیں جبکہ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس کے مختلف ورژن موجود ہیں۔

جمعرات، 24 مئی، 2018

کہانی انسانی تاریخ کو کیسے بدلتی ہے؟



یونانی بادشاہ الیگزینڈر یا سکندر کو دنیا سکندر اعظم کہتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے بہت ہی کم عمر میں یورپ سے ایشیا تک اپنی سلطنت قائم
 کر لی تھی۔
محض 32 سال کی عمر میں مرنے سے پہلے سکندر نے یونان کے صدیوں پرانے دشمن فارس کو گھٹنے ٹیکنے کے لیے مجبور کر دیا تھا اور تہذیبوں کا مرکز کہلائے جانے والے مشرق وسطیٰ پر حکومت قائم کر لی تھی۔
سکندر کے عظیم بننے اور کامیابی حاصل کرنے میں ان کے استاد ارسطو کی تعلیم کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ارسطو نے سکندر کو کیا سکھایا؟

ارسطو نے سکندر کو ایک کہانی سنائی تھی اور یہ کہانی حقیقت اور فسانے کے امتزاج سے بنی تھی۔
یہ کہانی ٹرائے کی جنگ کی کہانی تھی جس کا یونانی شاعر ہومر نے اپنی رزمیہ الیڈ میں مفصل ذکر کیا ہے۔
یہ کہانی انسانی جذبات کا نچوڑ ہے۔ اس میں عشق و محبت ہے، نفرت ہے، یہ رزم کی داستان بھی ہے اور بزم کی بھی۔ اس میں انسانوں کے کارناموں کا بیان بھی ہے اور ان کی ناکامیوں کا ماجرا بھی۔

ایلیڈ ایک ایسا رزمیہ ہے جس نے سکندر کو جیت کے جذبے سے سرشار کر دیا۔ انھوں نے ٹرائے کی جنگ سے یونانی بادشاہوں کی یک جہتی اور جنگی حکمت عملی سیکھی اور پھر دنیا پر فتح حاصل کی۔

کہانیاں ہماری تہذیب و ثقافت میں پیوست ہوتی ہیں۔ مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک دنیا کے ہر گوشے میں اور انسانی تہذیب کی ترقی کے ہر دور میں قصہ گوئی موجود رہی ہے۔

ہر کہانی سے ہمیں ایک سبق ملتا ہے۔ اس کے علاوہ الفاظ کے ذریعہ اس دور کا خاکہ کھینچا جاتا ہے تاکہ اس دور کے رسم و رواج، عادات و اطوار اور ديگر چیزوں کی معلومات ملے۔

قصہ گوئی کا رواج ہر دور میں رہا ہے۔ عرب ممالک میں الف لیلہ کی کہانیاں رہی ہیں تو انڈیا میں پنچ تنتر اور بھی مہا بھارت اور راماین جیسی رزمیہ داستانیں ہیں۔
کہانیاں صرف کتابوں کی زینت نہیں بلکہ ان کی انسانی زندگی میں بھی قدر و قیمت رہی ہے۔
ارسطو کا کہنا تھا کہ ادب اور کہانیاں صرف انسانوں کی تفریح کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کا سبق سکھانے اور قا‏‏عدے قانون بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ان کے علاوہ شاعری انسانی جذبات کی عکاسی کرتی ہے اور ہمیں بہتر انسان بنانے میں کردار ادا کرتی ہے۔
یہ نہیں ہے کہ دنیا بھر میں ادب کی ابتدا رزمیہ سے یا اس دور کے بادشاہوں کی شکست و فتح کی کہانیوں سے ہوئی ہے۔ بہت سی جگہوں پر ادب کا آغاز نظم و شعر سے ہوا۔

مثلاً چین میں ادب کی ابتدا میں شعر کہنے کا کام صرف شاعروں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ اعلیٰ عہدوں کے لیے شعر گوئی کا امتحان دینا ہوتا تھا، اور تمام بڑے حکومتی عہدیداروں کے لیے شعر کہنے اور شعر فہمی کی صلاحیت لازمی تصور کی جاتی تھی۔
چین سے متاثر ہو کر جاپان میں بھی شاعری کو خوب عروج حاصل ہوا۔
قدیم زمانے میں جاپان میں خواتین کو ادب پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن یہاں جہاں چاہ وہاں راہ کے مصداق پابندی کے باوجود دنیا کا سب سے پہلا ناول ٹیل آف گینجی وہیں لکھا گیا اور اس کی ناول نگار مراساکی شیکیبو ایک خاتون تھیں۔

اس خاتون نے اپنے بھائی کو پڑھتے دیکھ کر لکھنا سیکھا تھا، پھر انھوں نے تقریباً ایک ہزار صفحات کا شاہکار ناول لکھا۔ اسے کلاسیکی ادب بنانے کے لیے انھوں نے اپنے ناول میں 800 کے لگ بھگ نظمیں بھی شامل کیں۔
ادب یا قصے کہانیوں کی دنیا میں انقلاب لانے کا سہرا عرب ممالک کو جاتا ہے جنھوں نے چین سے کاغذ بنانے کی تکنیک سیکھ کر اسے ایک بہت کامیاب کاروبار کے طور پر آگے بڑھایا۔
کاغذ کی ایجاد سے پہلے کہانیاں نسل در نسل زبانی ادب کے روپ میں پہنچ رہی تھی۔

جب انسان نے لکھنا شروع کیا تو اس نے اپنے خیالات درختوں کی چھالوں اور پتوں پر درج کرنے شروع کیے، پتھروں پر کندہ کیے۔ کاغذ کی دریافت کے بعد سارا منظر ہی بدل گيا اور عرب میں الف لیلہ کی کہانیاں اسی طرح یکجا کی گئيں۔

کہانیاں ہوں یا نظمیں یا پھر رزمیہ داستان یہ سب انسانی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ بہشت اور جہنم کا تصور بالکل مذہبی ہے۔ لیکن اطالوی شاعر دانتے نے اسے بہت ہی خوبصورت انداز میں اپنی تصنیف ڈیوائن کامیڈی میں پیش کیا ہے۔
کاغذ کی ایجاد نے ادب کو تحفظ فراہم کیا اور اسے یکجا کرنے کا کام کیا۔ پرنٹنگ کی ایجاد اسے گھر گھر پہنچایا۔ پرنٹنگ کے بعد ناول لکھنے کا رواج پروان چڑھا۔

خاص طور پر خواتین کے لیے ناول بڑے پیمانے پر لکھے جانے لگے۔
نئے ابھرتے ہوئے ممالک نے اپنی آزادی کے لیے جدید ناول کا استعمال کیا۔ دراصل سیاسی آزادی کے لیے ثقافتی آزادی بہت اہم ہے اور ناول اس کی مکمل آزادی دیتا ہے۔

جوں جوں ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی، لوگوں تک ادب تک رسائی بھی بڑھ گئی۔ اس میں تعلیم کی بڑھتی ہوئی سطح نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ زیادہ قارئین پیدا ہونے لگے تو زیادہ کہانیاں لکھنے والے بھی آنے لگے۔ آج مختلف قسم کی کہانیاں لکھنے اور پڑھنے والے موجود ہیں۔

آج ہم انٹرنیٹ دور میں رہ رہے ہیں۔ ایک کلک پر دنیا بھر کا ادب ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ اگرچہ تمام چیزوں کی آن لائن دستیابی کا کتابوں کی اشاعت پر برا اثر پڑا ہے لیکن اس سے کہانیاں سننے اور سنانے والوں کے جنون میں کوئی کمی نہیں آئی۔

خواہ کوئی ہاتھ میں کتاب لیے پڑھتا نظر نہ آتا ہو لیکن سب کے پاس ایسے گیجٹس ہیں جس کے ذریعے جب چاہے پڑھ سن سکتا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈیجیٹل ورلڈ میں ہم ادب لکھنے کا ایک نئی آغاز کر رہے ہیں۔

زمانہ خواہ کتنا ہی کیوں نہ بدل گیا ہو، راجہ رانی تبدیل ہو گئے ہوںت لیکن قصے کہانی کا دور جاری ہے اور کہانی کی حکومت ہمارے دلوں پر قائم ہے۔
(بی بی سی )

پیر، 21 مئی، 2018

ماہین بلوچ — تعلیم کا شعور اجاگر کرنے کی ایک کرن




اٹھارہ سالہ ماہین بلوچ کا تعلق کراچی کے علاقے لیاری سے ہے، جنہوں نے کم عمر میں اپنے علاقے کے بچوں کو جرائم اور منشیات سے بچا کر ان کا مستقبل محفوظ بنانے کی کوشش شروع کی۔

ماہین بلوچ نے اپنے گھر کے ایک کمرے میں 4 بچوں کو پڑھانے سے یہ کام شروع کیا، پھر آہستہ آہستہ تعداد بڑھتی گئی۔ وہ اب لیاری میں ایک انجمن سے لی گئی جگہ پر اسکول میں بچوں کو پڑھا رہی ہیں۔

لیاری کی یہ لڑکی محدود وسائل میں 100 بچوں کو تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی سامنے لانے کے لیے کوشاں ہیں۔

ماہین اپنے اس مشن کا مقصد بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ جب وہ میٹرک میں تھیں، تب سے انہوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ ان کے علاقے میں بچے اسکول نہیں جاتے، اسی لیے والد سے بات کرکے انہیں خود پڑھانا شروع کیا۔

انہیں اس کام میں والد اور بڑی بہن کی مکمل حمایت حاصل ہے۔


خود کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ماہین کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ مسئلہ ان کی اپنی تعلیم کا تھا، کیونکہ ان بچوں کو پڑھانے کے لیے کوئی علیحدہ سے اساتذہ موجود نہیں، دوسرا مسئلہ جگہ کا تھا، کیونکہ ان کا گھر چھوٹا ہے اور اتنی زیادہ تعداد میں ایک ساتھ بچوں کو بیٹھانے کی گنجائش موجود نہیں تھی۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ بچوں کو بنیادی تعلیم دینے کے بعد اسکول میں داخل بھی کروایا گیا، جس سے وہ اپنی آگے کی تعلیم مکمل کرسکیں۔


ماہین کا کہنا تھا کہ وہ بچوں کو آرٹ کے ذریعے بھی تعلیم دیتی ہیں، اس طرح سے بچے پڑھنے میں دلچسپی لیتے ہیں اور وہ کبھی تھکاوٹ محسوس نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ کام ہمیں خود کرنا ہوگا، کیونکہ ہمیں اس ملک سے ان اندھیروں کو ختم کرنا ہے اور میں چاہتی ہوں ناصرف لیاری، بلکہ پورے ملک میں ایسے اسکولز قائم کیے جائیں جہاں بچوں میں موجود ٹیلنٹ کو بھی اجاگر کیا جاتا ہو جو یقیناً بہت ضروری عمل ہے'۔

ماہین اس کام کو آئندہ بھی جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

ہفتہ، 19 مئی، 2018

ہر سال لاکھوں پرندے ہجرت کیوں کرتے ہیں ؟



کیا کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ ہر سال کیوں لاکھوں پرندے سردیاں شروع ہوتے ہی برفانی علاقوں سے میدانی خطوں کی طرف پرواز شروع کر دیتے ہیں اور پھر جیسے ہی موسم بدلنا شروع ہوتا ہے، تو ان میں سے وہ خوش قسمت پرندے واپسی کی اڑان بھر لیتے ہیں جو شکاریوں کا نشانہ بننے سے بچ جاتے ہیں۔

اس کا ایک سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ وہ خوراک کی تلاش کے لیے ہزاروں میل کی پرواز کرتے ہیں۔ اپنے منتخب ٹھکانوں پر پہنچنے کے لیے انہیں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے پرندے پاکستان بھی آتے ہیں اور وہ دریاؤں اور جوہڑوں کے کنارے ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ ان مسافر پرندوں میں کونج بھی شامل ہوتی ہے جو پاکستان کی کئی علاقائی زبانوں کے لوگ گیتوں کا خاص موضوع ہے۔

اب تک یہ ماہرین یہی قیاس کرتے رہے ہیں کہ سائبیریا اور دوسرے برف پوش علاقوں سے پرندے موسم سرما کے آغاز پر خوراک کی تلاش میں ہجرت کرتے ہیں، خاص طور پر اپنے ان بچوں کو پالنے کے لیے سردیوں میں جن کی خوراک کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر نسبتاً معتدل میدانی علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور جب موسم گرم ہونے لگتا ہے تو نئے بچے پیدا کرنے کے لیے اپنے آبائی وطن کی جانب پر پھیلا دیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جب ہزاروں میل کی کھٹن اور تھکا دینے والی پرواز کے بعد انہیں خوراک مل جاتی ہے تو پھر وہ چند مہینوں کے بعد واپس کیوں چلے جاتے ہیں اور ان جگہوں پر مستقل سکونت کیوں اختیار نہیں کر لیتے جہاں خوراک موجود ہو تی ہے ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاںآج ایسے بہت سے ایسے پرندے اور جانور موجود ہیں، جن کا یہ وطن نہیں ہے۔ وہ دوسرے علاقوں سے نقل مکانی کر کے یہاں آئے تھے ، مگر انہیں یہ علاقے اتنے بھائے کہ انہوں نے واپس جانے کی بجائے مقامی موسمی اور جغرافیائی حالات سے مطابقت پیدا کر لی اور یہی کے ہو رہے۔

لیکن ہزاروں برسوں کی نسل در نسل پروازوں کے باوجود مسافر پرندوں اپنے لیے یہ راستہ کیوں نہیں چن رہے۔یہ سوال بہت عرصے سے سائنس دانوں کے ذہنوں میں کلبلا رہا تھااور وہ اس بارے میں تحقیق کر رہے تھے ، بالآخر وہ اس راز سے پردہ اٹحانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

سائنسی جریدے نیجر اکالوجی اینڈ ایولوشن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ میدانی علاقوں میں مختلف اقسام کے پرندوں کی بہتات ہوتی ہے اور خوراک کا حصول آسان نہیں ہوتا۔ تاہم ہجرت کرنے والے پرندوں کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے جب کہ برفانی موسم میں ان کے اپنے آبائی وطن میں کھانے کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا۔

خوراک کے لیے لڑنا جھگڑنا اور زیادہ تگ و دو کرنا غالباً ہجرت کرنے والے پرندوں کے مزاج میں ہوتا، اس لیے موسم بدلنے پر وہ اپنے آبائی وطن واپسی کو ترجیج دیتے ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ زولوجی کے سائنس دان مارس سومول جو اس تحقیق کے شریک مصنف بھی ہیں ، کہتے ہیں کہ مسافر پرندے سردیاں ختم ہونے پر گرم علاقوں سے اپنے وطن شمالی نصف کرے کی جانب اس لیے پرواز کر جاتے ہیں کیونکہ وہاں انہیں خوراک کے حاصل کرنے کے لیے مسابقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

ان برفانی اور چٹانی علاقوں میں پرندوں کی نسلیں اور ان کی تعداد بھی میدانی علاقوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس لحاظ سے گرمیوں میں انہیں اپنے وطن میں خوراک کی وافر مقدار دستیاب ہوتی ہے۔

یہ تازہ تحقیق اس قدیم سوال کا جواب فراہم کرتی ہے کہ برف پوش شمالی نصف کرے میں رہنے والے پرندوں نے ہزاروں برسوں سے خانہ بدوشی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔

اچھی نیند کے نسخے



ماہرین کے مطابق کئی ایسے کام ہیں جو ہم انجانے میں کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ ہماری نیند کو کس حد تک متاثر کرتے ہیں۔
نیند پوری نہ ہونے یا ہمارے جسم کے اندر کی گھڑی یعنی باڈی کلاک متاثر ہونے سے ہم ڈیپریشن اور بائی پولر ڈس آرڈر جیسے امراض کی زد میں بھی آ سکتے ہیں۔ اس لیے اچھی نیند کی ضرورت کو سمجھنا بہت اہم ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ نیند میں خلل نہ پڑے۔


شام کو روشنی کی حد مقرر کیجیے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


موبائل فون اور لیپ ٹاپ کا استعمال ان دنوں نشے کی طرح عام ہو رہا ہے۔ متعدد افراد تو لیپ ٹاپ پر گھنٹوں ڈرامے اور فلمیں دیکھتے رہتے ہیں لیکن کم ہی جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہماری نیند بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

یہ الیکٹرانک آلات ایک خاص طرح کی طاقتور نیلی روشنی چھوڑتے ہیں۔ اس روشنی کی وجہ سے جسم میں میلاٹونن ہارمون ٹھیک سے نہیں چھوٹ پاتا ہے۔ یہ وہ ہارمون ہے جو نیند کے لیے ذمہ دار ہے۔


سرے یونیورسٹی کے پروفیسر میلکم فون شانتز کا مشورہ ہے کہ سونے سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ان آلات کا استعمال بند کر دینا چاہیے۔

نیلی روشنی کے علاوہ شام کو گھر میں، خاص طور پر سونے والے کمرے میں روشنی کے دیگر ذرائع بھی کم کر دینے چاہییں. ایسا لیمپ کی مدد سے کیا جا سکتا ہے۔ سونے کے کمرے میں اندھیرا کرنے کے لیے گہرے رنگ والے پردے بھی لگائے جا سکتے ہیں۔


وقت کے پابند رہیے
ـــــــــــــــــــــــــ


ختتامِ ہفتہ سے پہلے والی رات دیر تک جاگنے کا دل تو بہت کرتا ہے لیکن اچھی نیند برقرار رکھنے کے لیے وقت کی پابندی ضروری ہے۔

ہر روز ایک ہی وقت پر سونا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ روز سونے کے وقت میں جتنی زیادہ تبدیلی ہو گی صحت کو اتنا ہی زیادہ خطرہ ہو گا۔



خواب گاہ آرام دہ ہو
ـــــــــــــــــــــــــــــ

بستر کے ارد گرد لیپ ٹاپ اور چارجر کے علاوہ دیگر سامان کا بکھرا رہنا کئی لوگوں کے لیے عام بات ہے لیکن اگر ہم اچھی نیند سونا چاہتے ہیں تو یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آپ کا سونے کا کمرا جتنا آرام دہ ہوگا نیند اتنی ہی اچھی آئے گی۔

بہتر یہ ہوتا ہے کہ فون، لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرانک عالات دوسرے کمرے میں رکھے جائیں۔ فون میں الارم لگانے کی بجائے ایک الارم والی گھڑی خرید لینی چاہیے۔

کمرے میں ٹھنڈک بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گرم کے مقابلے ٹھنڈے ماحول میں سونا جسم کے لیے زیادہ آسان ہوتا ہے۔



دن کی روشنی
ـــــــــــــــــــــــ

ہماری باڈی کلاک سورج کے اگنے اور ڈھلنے کے اوقات کے مطابق کام کرتی ہے۔ لیکن ہم میں سے کئی لوگ صبح دیر تک سونے کی وجہ سے دن کی روشنی سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں۔

صبح گھر کے پردے کھول دینے سے آپ دن کی زیادہ روشنی حاصل کر سکتے ہیں۔

اگر ہو سکے تہ صبح کا وقت ورزش میں لگانا چاہیے۔ ایسا کرنے سے رات کو نیند اچھی آتی ہے۔ .

سونے سے پہلے کرنے والے کام
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سونے سے پہلے کرنے والے کچھ کام اگر آپ ہر روز کیا کریں تو جسم کو پتا چل جاتا ہے کہ اب یہ سونے کا وقت ہے۔

کتابیں پڑھنا، گانے سننا، نہانا کچھ ایسے ہی کام ہیں۔

جیسے ہی آپ انھیں کرنا شروع کریں گے جسم خود ہی سونے کے لیے تیار ہونے لگے گا۔


بیشتر والدین بچوں کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں۔ کئی والدین بچوں کو سلانے سے پہلے انہیں دودھ پلاتے ہیں یا انھیں نہلاتے ہیں۔ انھیں اکثر سونے سے پہلے کہانیاں بھی سناتے ہیں۔

ایسا ہر روز کرنے سے بچے کے جسم کو اس کی عادت ہو جاتی ہے اور جسم سمجھ لیتا ہے کہ یہ سونے کا وقت ہے۔



کیفین سے دور رہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ

آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ دیر رات کافی پینے سے نیند اڑ جاتی ہے۔ اس کی وجہ کافی میں موجود کیفین ہوتی ہے۔

لیکن کیفین صرف کافی میں ہی نہیں ہوتی بلکہ چائے اور کئی ٹھنڈے مشروبات میں بھی ہوتی ہے۔

شام کو پی جانے والی چائے یا کافی بھی آپ کی نیند کو متاثر کر سکتی ہے کیوں کہ کیفین کا اثر ہمارے جسم پر پانچ سے نو گھنٹے تک رہتا ہے۔

ہفتہ، 5 مئی، 2018

نیشنلزم کیا ہے؟



نیشنلزم کیا ہے؟

تاریخ میں نیشنل ازم نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔کردار کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ سوال ابھرتا ہے کیا اس کے نتائج مثبت ہوئے یا منفی ؟ نیشنلزم نے یورپ میں قومی ریاستوں کو پیدا کیا اس کے نتیجہ میں کالونیل ازم اور امپیرل ازم پھیلا ، جس کے ردعمل میں تسلط شدہ ملکوں میں نیشنلزم کے تحت تحریکیں اُٹھیں اور انہوں نے کالونیل کے تسلط سے آزادی حاصل کی ۔ آزادی کے بعد ان ملکوں میں اسی نیشنل ازم کو حکمران طبقوں نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اور یہ نو آزاد ریاستیں ٹوٹ پھوٹ ، انتشار اور فوجی آمرتوں کا نشانہ بنیں ۔ اب ایک بار پھر گلوبلائزیشن نو امپیرل ازم کی شکل میں پوری قوت اور طاقت سے آرہا ہے اس لیے یہ سوال کہ کیا اُسے نیشنل ازم کے ذریعے روکا جا سکے گا یا اب نیشنل ازم کا نظریہ فرسودہ اور بے کا ر ہو کر اپنی اہمیت کھو چکا ہے اور معاشرہ اس کی بے معنویت اور کھوکھلے پن سے آگاہ ہوچکی ہے ؟ اس مضمون میں ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔

قوم کا تصور

آج ان معنوں اور مفہوم میں قوم کا لفظ استعمال کرتے ہیں یہ ماضی میں نہیں تھا کیونکہ الفاظ کے معنی معاشرے کی ترقی اور تبدیلی کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ کوہن(Kuhn ) نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ یونانیوں اور یہودیوں میں ایک جماعت ہونے کا احساس اور گہرا شعور تھا یونانی اپنے علاوہ دوسروں کو باربیرین یا غیر مہذب کہتے تھے ۔ یہودی خود کو خدا کا پسندیدہ مخلوق اور باقی کو اپنے سے جدا سمجھتے تھے چونکہ ان کا تعلق ایک ہی نسل سے تھا ماضی بھی مشترک تھی اور خوش حال مستقبل کے لیے ایک مسیحا کا انتظار تھا کہ جن کی آمد کے امید میں وہ اذیتوں اور تکالیف کو برداشت کررہے تھے ، اس لیے ان میں ایک ہونے کی قدر گہرے طور پر موجود تھی۔
**لیکن ہم آج جن معنوں میں قوم کا لفظ استعمال کرتے ہیں یہ یورپ میں انیسویں صدی میں سیاسی حالات اور تبدیلوں کی وجہ سے ابھرا ۔اس سے پہلے لوگ گاؤں اور دیہات میں علیحدہ علیحدہ حصوں میں بٹے ہوئے تھے ان کو آپس میں جوڑنے کے لیے کوئی قومی شعور نہیں تھا ۔ یہ قومی شعور جمہوری عمل کی وجہ سے آہستہ آہستہ ابھرا اور بکھرے لوگوں کو آپس میں ملایا۔ عہدِ وسطیٰ میں برطانوی یا فرانسیسی قوتیں تو تھیں مگر ان میں قومی شعور نہیں تھا ۔

 عہدِ وسطیٰ میں ہی معاشرہ امراء اور رعایا میں بٹا ہوا تھا لیکن جب قومی شعور آیا تو لوگ یا عوام ایک قوم بن گئے کہ جس میں امیر اور غریب سب ہی شامل تھے ۔
 یورپ کے دانشوروں نے قوم کی جو تعریف کی ہے اس کے مطابق فریڈریش لسٹ( LIST ) کا کہنا ہے ایک قوم کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس وسیع رقبہ ہو اور فطری ذرائع ہوں اس کے مقابلے میں اگر کسی قوم کے پاس کم رقبہ ہو اس کی زبان بھی کم اہلیت ہو اس کا ادب اور سماجی ادارے ناپختہ ہوں تو اس صورت میں چھوٹی قومیں کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گی ۔
اسی وجہ سے اسٹیوارٹ مل کا کہنا تھا کہ ویلز ، اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کا ضم ہونا ،ان کے لیے بہتر ہوا۔

قوم کے سلسلے میں عام طور پر اسٹالن کی تعریف کو ضرور بیان کیا جاتا ہے اس کے مطابق اس کا تعلق سرمایہ دار نظام کے ابھار سے ہے یہ ایک مضبوط اور مستحکم کمیونٹی ہوتی ہے جس میں کئی ایتھنک گروپس(نسلی گروہیں ) شامل ہوتی ہیں اور آپس میں مل کر ایک قوم کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔ وہ اس کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ قوم کی ایک زبان ہوتی ہے اس کا مخصوص علاقہ ہوتا ہے معاشی طور پر مختلف جماعتیں ایک دوسرے سے بندھی ہوئی ہوتی ہیں جو ایک قوم کردار اور خصوصیات کو پیدا کرتی ہیں ۔
لیکن اس تعریف پر اعتراض ہے کہ کئی قوموں میں ایک زبان سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں دوسری بات یہ ہے کہ کالونیل دور میں نوآبادیات پر معاشی طور پر مغربی طاقتوں کا قبضہ تھا مگر اس کے باوجود ان ملکوں میں قومی شعور ابھرا۔
اس لیے قوم کی تعریف کو کئی طرح سے وضح کیا جاتا ہے قوم کی تشکیل میں مشترک ادارے ،رسم و رواج اور ہم آہنگی کے احساس کو اہمیت دی جاتی ہے اب جب قوم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے تحت لوگ اور شہری آجاتے ہیں اب دساتیر میں اقتدار اعلیٰ قوم کے پاس ہے فرد، جماعت کے پاس نہیں ۔

 ہابس باؤم کے مطابق قوم تاریخی طور پر ریاست سے تعلق رکھتی ہے اس کے پس منظر میں ایک طویل ماضی ہوتا ہے جو حال کو تسلسل کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اس کے پاس طبقہ اعلیٰ کا تحقیق کردہ کلچر ہوتا ہے اور آپس میں متحد کرنے کے لیے ایک زبان ہوتا ہے ۔
 بینے ڈیکٹ اینڈ رسن(benedeict andersion) نے قوم کی تشکیل میں چھاپہ خانہ کی ایجاد کو اہمیت دی ہے اس کے مطابق اس سے پہلے قوم کی شکل تصوراتی تھی کیونکہ مختلف جماعتیں اور برادریاں جو بعد میں ایک قوم بنیں وہ ایک دوسرے سے واقف نہیں تھیں یہ لوگ نہ ان سے ملے ہوتے تھے اور نہ ان کے بارے میں سنا ہوتا تھا لیکن ان کے بارے میں جن سے وہ واقف نہیں تھے تخیلاتی یا تصوراتی آگہی ضروری تھی ۔ لیکن پرنٹ میڈیا نے یورپ کے معاشرے میں زبردست انقلابی تبدیلی کی 1500 ء میں یورپ میں دو کروڑ کتابیں چھپیں ، اس وقت اس کی کل آبادی دس کروڑ تھی اس وقت لاطینی علمی زبان تھی اس کو ریفارمیشن نے چیلنج کیا اور مقامی زبانوں کو اس کے بعد فروغ ہوا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب علم مقامی زبانوں میں منتقل ہو کر لوگوں تک پہنچا تو ان میں قومی اور سیاسی شعور آیا اس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ جب لوتھر نے 1517ء میں اپنے 99 نکات ،جو چرچ کے خلا ف تھے وہ جرمن زبان میں شائع کرائے تو یہ پوری جرمنی میں پھیل گئے اور اسے جرمن حکمرانوں کے ساتھ ساتھ جرمن عوام کی بھی حمایت مل گئی ۔جرمن زبان میں اس کے بائبل کے ترجمے کے 430 ایڈیشن شائع ہوئے ۔

چونکہ کیتھولک ممالک میں چرچ نے سنسر شپ عائدکر رکھی تھی تا کہ مخالفانہ نظریات کو روکا جاسکے اس مقصد کے لیے چرچ انڈیکس کے ذریعے ممنوع کتابوں کی فہرست شائع کرتا تھا جب کہ پروٹسٹنٹ ملکوں میں تیزی سے کتابوں کی اشاعت ہونے لگی ، چونکہ عوام کی اکثریت لاطینی زبان سے ناواقف تھی اس لیے مقامی زبانوں میں سستے ایڈیشن چھپتے تھے ، جس سے لوگوں میں پڑھنے کا شوق پیدا کیا اور اس سے سیاسی و مذہبی شعور آیا۔
شائع شدہ زبان میں جو لڑیچر پھیلا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ جوزبان تو ایک ہی بولتے تھے لیکن ان کے لہجے مختلف تھے اس کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے واقف ہو گئے اس عمل میں ایک معیاری زبان کا ارتقاء ہوا جو تحریری تھی ۔ اس نے ایک زبان بولنے کے تصورسے ایک دوسرے سے ملایا جس نے آہستہ آہستہ قومی شعور کو اجاگر کیا لہٰذا قوم کی تشکیل میں چھاپے خانے کی ٹیکنالوجی کو بڑا دخل ہے۔
اٹھارویں اور انیسویں صدیوں میں مقامی زبانوں میں ادب اور عملی تحقیق کی ابتداء ہوئی ۔ اخبارات ،کتابیں ،رسالے اور پمفلٹوں کی اشاعت نے زبانوں کو مقبول بنایا ۔ جس کی وجہ سے زبان سے لوگوں کا رشتہ مضبوط ہوا ۔

قوم کی تشکیل کے عمل کو تیز تر کرنے میں تاریخ ،یاداشتیں ، علامتیں ، رسم و رواج اور عادات کا دخل ہوتا ہے جو ابلاغ کے ذریعے لوگوں کو ان سے واقف کراتی ہے اور ان میں باہمی یگانگت کا احساس پیدا کرتی ہے ۔ابلاغ ہی ایک معیاری زبان بنانے میں مددگار ہوتا ہے اس کے ذریعے آرٹ،مجسمہ سازی ، موسیقی اور دوسرے علوم و فنون میں یک جہتی پیدا کرتی ہے اس کی ایک مثال سوئزرلینڈکی ہے جہاں چار زبانیں بولی جاتی ہیں مگر ابلاغ کی وجہ سے تاریخ، آرٹ اور علامتیں ایک ہوگئی ہیں ۔ حالانکہ دوسرے ممالک میں بھی کئی زبانیں بولی جاتی ہیں مگر وہ ایک دوسرے کے قریب نہیں ہیں کیونکہ ان میں ابلاغ کی کمی ہے۔

** موجودہ دور میں صورتحال بدل رہی ہے اب میڈیا کئی زبانیں بولنے والی جماعتوں کو آپس میں قریب لا رہی ہے موجودہ دور میں قوم ایک مقدس شکل اختیار کر چکی ہے ۔ اب لوگوں کی وفاداریاں قوم کے ساتھ ہوتی ہے ، اب قوم سے وفاداری بہت اہم ہوگئی ہے جو قوم سے غداری کرتے ہیں انہیں معاف نہیں کیا جاتا ہے یہ سب سے گھناؤنا جرم مانا جاتا ہے۔

(14) اگر اینڈرسن کی دلیل کو برصغیر ہندوستان پر اطلاق کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہاں بیسویں صدی کی ابتدائی دہائی میں جب الہلال ،ابلاغ ، پیغام ،ہمدرد اور زمیندار اخبارات شائع ہونے شروع ہوئے تو انہوں نے پورے ملک میں بکھرے ہوئے مسلمانوں میں یکجہتی کے احساس کو پیدا کیا انہیں اخبارات نے جب بلقان کی جنگوں میں ترکی کی شکستوں اور بعد میں خلافت کے بارے میں خبریں اور مضامین چھاپے تو اس نے پان اسلام ازم کے جذبات کو ابھارا۔ اخباروں کی زبان چونکہ اردو تھی اس لیے اسلامی نیشنل ازم کے احساسات کو پیدا کرنے میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔جو نفرتوں اور دہشت گردی کے اسباب بن رہے ہیں۔

نیشنل ازم کی تشکیل

نیشنل ازم کے بارے میں مفکرین اور دانشوروں کے مختلف نظریات ہیں لیکن ان سب میں انہوں نے ان عناصر کی نشاندہی کی ہے کہ جو گروپوں ،جماعتوں اور برادریوں کو آپس میں ملاتے ہیں اور ایک قوم کی صورت میں متحد کر کے ان میں نیشنل ازم کا جذبہ پیدا کرتے ہیں ۔ مان ٹسکواس عمل کو جغرافیہ اور آب و ہوا کی وجہ بتاتا ہے جب کہ جرمن مفکرین جن میں ہرڈراورفشٹے شامل ہیں اسے زبان کلچر اورتاریخ کا سبب قرار دیتے ہیں برک اور ماذنی اس عمل کو رضائے الہیٰ سے منسوب کرتے ہے جب کہ ٹراسٹشکے (Treitschke) لیباں وغیرہ اس اتحاد کے عمل میں نسلی عنصر کو اہم سمجھتے ہیں ان کے مقابلے میں دانشوروں کی ایک اکثریت ہے کہ جو نیشنل ازم کو صنعتی اور سرمایہ داری کے عروج کے ساتھ منسلک کر کے اسے ایک جدید نظریہ سمجھتے ہیں لیکن نیشنل ازم اہم تاریخی واقعات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے جیسے امریکہ کی جنگِ آزادی نے امریکی ریاستوں کو آپس میں ملادیا اور برطانیہ کی آزادی کی جنگ میں ان ریاست کی اکثریت شامل ہو گئی یہی صورت 1789 ء کے فرانسیسی انقلاب کے وقت پیش آئی کہ جب انقلاب نے لوگوں کو شہنشاہیت سے آزاد کیا اور یہ لوگ اپنے حقوق کے دفاع کی خاطر یورپ کی حملوں کے خلاف متحد ہوگئے ۔ اس پس منظر میں سب سے پہلے 1798 ء میں نیشنل ازم کا لفظ استعمال ہوا ۔ اس کے بعد 1830 کے یورپی انقلاب میں اس الفاظ کو دہرایا گیا ۔ اس سے پہلے لوگوں میں اس کا مطلب قوم سے وفاداری ہوتی تھی ، ریاست سے نہیں لیکن اب قوم اور ریاست دونوں سے وفاداری کا اظہار ہوا۔

کوہن نے نیشنل ازم کے ابھار کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر دیے ہیں اس کی دلیل کے مطابق جن لوگوں میں عوام یا عوام کے نمائندے طاقتور تھے جیسے امریکہ، برطانیہ ،فرانس وہاں نیشنل ازم سیاسی اور معاشی طاقت کے ساتھ ابھرا لیکن جہاں یہ کمزور تھے جیسے جرمنی،اٹلی اور مشرقی یورپ کے ممالک وہاں اس کا اظہار کلچر کے ذریعہ ہوا۔

**چونکہ اکثر ملک صنعتی عمل سے دوچار نہیں ہوئے تھے بلکہ سرمایہ دار ی عروج کے ساتھ جوکالونیل ازم اور امپیرل ازم ابھرا اس کے شکار ہوئے تھے اس لیے دنیا کے اکثر ملکوں میں نیشنل ازم کلچر تاریخ کے ذریعہ وجود میں آیا ایسی صورتحال میں ماضی کی تلاش اس کا اہم حصہ ہوجاتا ہے کہ جس کا مقصد قدیم روایات اور اداروں کا احیا ء ہوتا ہے مثلاََ یورپ میں یونان اور روم ایک ماڈل کے طور پر ابھرے ۔ اسلامی معاشرے میں اسلامی تاریخ کے ابتدائی دورکے احیاء کی کوشش ہوئیں ، ہندؤوں میں ویدک دور کو ترقی کے لیے لازمی قرار دیا جانے لگا۔
تاریخ کے ابتدائی دورکے احیاء کی کوشش ہوئیں ، ہندؤوں میں ویدک دور کو ترقی کے لیے لازمی قرار دیا جانے لگا۔

چنانچہ اس کے زیر اثر تاریخ میں سُنہری دور کی تلاش شروع ہوگئی ۔اٹلی میں جب فاش ازم ابھرا تو مسولینی نے قدیم روم کی شان و شوکت کو جذباتی طور پر ابھارا۔ گاندھی جی نے ہندوستان میں رام راج کا نعرہ لگایا کہ جسے ہندستان کی تاریخ میں سُنہرا دور قرار دیا گیا۔مسلمانوں میں عباسیہ عہد اور اندلس سنہرے دور کے طور پر سامنے آئے کہ جن ادوار میں انہوں نے ترقی کی اور عروج پر پہنچے ، سنہری دور کو ایک طرف خالص روایات و قدروں کا عہد تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اس دور کی سادگی پر زور دیا جاتا ہے تو دوسری فتوحات اور شان و شوکت فخر و عظمت سمجھا جاتاہے ۔لہٰذا ماضی فرار کا باعث بھی ہوتی ہے اورپناہ کا بھی۔

سُنہرے دور اور قدیم روایات کے احیاء کے سلسلے میں ترکوں کی مثال دی جاسکتی ہے کہ جنہوں نے اس نظریہ کو مقبول بنایا کہ وہ ابتدائی دور میں فیاض ،سخی اور روادار تھے ۔ ان کی یہ خوبیاں ایرانیوں اور بازنطینیوں کے ساتھ مل کر ختم ہوگئیں ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان روایات اور اوصاف کو دوبارہ سے واپس لایا جائے اور ترک قوم کے مستقبل کی تعمیر کی جائے۔
 اس دلیل کو عرب قوم پرست بھی دیتے ہیں کہ ان کی خالص اور سادہ روایات ایرانیوں کے زیر اثرآکر خراب ہوئیں۔
لیکن جب ماضی کے احیاء کی بات ہوتی ہے تو اس مرحلہ پر جو طبقات نیشنل ازم کے حامی ہوتے ہیں وہ اپنے مقاصد کے تحت ان روایات یا اداروں کا انتخاب کرتے ہیں کہ ان کے مفادات کو پورا کریں اس لیے اگر بورژواطبقہ سرگرم عمل ہوتا ہے تو اس کا انتخاب اس کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے لیکن اگر نچلے طبقے کے لوگ نیشنل ازم یا انقلاب کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ان کی علامتیں ان کے منصوبوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔

چونکہ نیشنل ازم کی بنیاد عقل کے بجائے جذبات پر ہوتی ہے اس لیے ان جذبات کو ابھارنے کے لیے اور ذہنوں کوفخر و عظمت سے متاثر کرنے کے لیے رسم و رواج اور تہواروں کو اہمیت دی جاتی ہے ان میں قومی دن کو جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، آتش بازی چھوڑی جاتی ہے ،پُرزور تقاریر کی جاتی ہیں ،ماضی کی رہنماؤں کی قربانیوں کا ذکر ہوتا ہے ، مستقبل کے منصوبے بیان کیے جاتے ہیں قومی یادگاروں پر حاضری دی جاتی ہے ، یوں اس ذریعے سے پوری قوم میں ہم آہنگی کے احساس کو پیدا کیا جاتا ہے ۔

نیشنل ازم کا اظہار پبلک عمارتوں کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے ، نو آزاد ملکوں نے اپنے شہر تعمیر کر کے ان کے ذریعے اپنے قومی جذبات کا اظہار کیا ۔ نئے ائیرپورٹس، پلازہ اور تجارتی سینٹروں کے ذریعے بھی ان کے جذبات کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ اکثر ملکوں میں قومی ہیروز کے مجسمے جگہ جگہ ایستادہ کیے جاتے ہیں اور ان کے مقبرے تعمیر کیے جاتے ہیں ۔ گمنام سپاہی کامقبرہ ،ایک علامتی یادگار بن جاتا ہے کہ جس پر غیر ملکی مہمان پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں ،قومی جھنڈا اور قومی ترانہ ،نیشنل ازم کے دو اہم عناصر ہیں کہ جنہیں تقدس کا درجہ دیا گیا ہے ۔
**نیشنل ازم کے جذبات اس وقت گہرے طور پر ڈرامائی انداز میں ابھرتے ہیں کہ جب ملک حالتِ جنگ میں ہو ،اس وقت دشمن سے نفرت اور انتقام کے جذبات لوگوں کو انسانی ہمدردی اور محبت سے دور لے جاتا ہے ،اس طرح دو ملکوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلوں میں یہ جذبات شدت اختیار کرتے ہیں دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ اگر ملک کسی بحران کا شکار ہو ،زلزلہ ،طوفان یا وبا میں مبتلا ہوجائے تو لوگوں میں یہ جذبات ہمدردی کی شکل میں ابھرتے ہیں۔

لیکن نیشنل ازم کی ایک شکل نہیں ہے یہ مختلف شکلوں ، حالات میں ابھرتا ہے مقبول ہوتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کی تبدیل ہوتی شکلوں کا اظہار ،ہر ملک کے اپنے حالات،طبقاتی مفادات اور سیاست پر ہوتا ہے اس لیے یہ مذہبی ،قدامت پرست،آزاد خیال،فاشسٹ،کمیونسٹ،سیاسی ، کلچرل ، حفاظتی(Protectionist) ملانے والا ،علیحدہ کرنے والا ،ڈائیس پورا (Diaspora) اور قدیم تاریخی طور پر تعلق رکھنے والے علاقوں کی واپسی کے جذبہ کا مظہر ہوتا ہے ۔جس وجہ سے نیشنل ازم اہمیت کا حامل ہوتا ہے ،اس کے تین عناصر ہیں خودمختاری،اتحاد اور شناخت یہ تین اہم کردار اسے آگے کی جانب بڑھاتے ہیں ۔ یہ معاشرے کو ذہنی طور پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ ایک آزاد ملک و معاشرے کے لیے جدوجہد کریں اور اگر ضرورت پڑے تو اس کے لیے قربانی دینے سے گریز نہ کریں۔

ہابس باؤم نے ایم ہروش کے حوالے سے نیشنل ازم کے بارے میں لکھا ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں نیشنل ازم کی تحریک اٹھتی ہے تو اس کے نتیجے میں قومی شعور غیر مساوی طور پر ابھرتا ہے اس لیے اس جذبات میں طبقاتی،جماعتی اور علاقائی طور پر فرق ہوتا ہے یہ قومی شعور کسانوں ، مزدوروں اور نچلے طبقے میں سب سے آخر میں آتا ہے۔  لیکن بعض حالات میں یہ محض اوپر کے طبقوں میں محدود رہتاہے۔
ہابس باؤم کے نزدیک انیسویں صدی میں نیشنل ازم نے قومی ریاستیں قائم کر کے ایک مثبت کردار ادا کیا ،لیکن موجودہ دور میں اس کا کردار منفی ہے کیونکہ اس کے زیر اثر چھوٹی ریاستیں ابھر رہی ہیں جب کہ قومی ریاست کا ادارہ فرسودہ ہوچکا ہے ۔
اس کا منفی کردار یہ بھی ہے کہ یہ ایک کمیونٹی کے لیے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرتا ہے مگر اس کا جائزہ نہیں لیتا ہے کہ اس میں ریاست کے وجود کو برقرار رکھنے اور انتظام کو چلانے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔

نیشنل ازم کے دو اہم خصوصیات کہ جنہوں نے یورپ میں اثر ڈالا اور جس سے آگے چل کر ایشیاء اور افریقہ کے آزاد ممالک متاثر ہوئے وہ فرانسیسی اور جرمن ماڈلزتھ کوہن(kuhn) ان میں سے ایک کو سیاسی کہتا ہے کہ جو عقلیت پر مبنی ہے اور دوسرے کو کلچرل کہ جس کی بنیاد تصوف یا روحانیت پر ہے ۔ سیاسی نیشنل ازم انگلستان ،فرانس،ہالینڈ،امریکہ اور سوئزرلینڈ میں ابھرا کہ جہاں متوسط تعلیم یافتہ طبقہ ریناساں (نشاۃ ثانیہ) کے بعد طاقتور اور بااثر ہوا تھا ریاستوں کی سرحدیں متعین تھیں ۔ لہٰذا انہیں بادشاہتوں سے بدل کر عوامی اورقومی ریاستیں بنادیا گیا ۔ اس کے برعکس مشرقی یورپ کے ممالک کی سرحدیں بدلتی رہتی تھیں یہاں سیکولر مڈل کلاس نہیں تھیں ، زرعی معاشرہ تھا کسان اور زمیندار کے طبقات تھے چونکہ یہ سیاسی اور سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ تھے اس لیے انہوں نے سیاسی نیشنل ازم کو رد کر کے کلچر ازم کا سہارا لیا۔

یورپ میں جن دو نیشنل ازم کے درمیان تصادم ہوا وہ فرانسیسی اور جرمن تھے ریناں نے فرانسیسی نیشنل ازم کے نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قوم باہمی ثقافتی روایات سے نہیں بنتی ہے بلکہ یہ حکمران خاندانوں کی فتوحات ،سرحدوں کی تبدیلی کہ جن کی وجہ سے مختلف جماعتیں ایک علاقہ میں آکر مل جاتی ہیں یہ ایک تاریخی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے فرانسیسی قوم اسی عمل کے نتیجہ میں بنی ہے قدیم جماعتوں کی علیحدہ شناخت ابھرتی ہے قوم کی ساخت مستقل نہیں ہوتی ہے اس میں برابر تبدیلی آتی رہتی ہے کیونکہ مختلف نسلی گروپ اور جماعت آتی جاتی رہتی ہیں قوم کی تشکیل میں زبان بھی اہم نہیں ہے اور نہ ہی اس میں جغرافیہ اور آب و ہوا کا دخل ہے ۔اس میں نئی جماعتوں کی شمولیت جبر سے نہیں بلکہ رضا مندی سے ہوتی ہے کوئی نسل خاص نہیں رہی ہے ۔ ریناں کی نیشنل ازم کا یہ تصور جمہوری اور لبرل ہے کیونکہ یہ تاریخی عمل کی پیداوار ہے اس لیے یہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

اس کے مقابلے میں جرمن نیشنل ازم نپولین کی فتوحات کے رد عمل میں پیدا ہوا چونکہ اس وقت جرمنی کئی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اس لیے وہاں ایک جرمن ریاست مفقود تھی ۔جرمنی فرانس کی طرح ایک کالونیل طاقت بھی نہیں تھا کہ جو دوسرے قوموں کو اپنے میں ضم کر رہا ہو ۔اس لیے اس کی نیشنل ازم کی بنیاد زبان ،کلچر اور تاریخ پر رکھی گئی یہ ایک رومانوی تصور تھا کہ جس نے روشن خیالی کو رد کیا اس کا زور جرمن قوم کی روح (Geist) پر ہے فرانسیسی ماڈل میں قوم ریاست کے بغیر برقرار نہیں رکھ سکتی ہے جب کہ جرمن ماڈل میں قوم ایک کلچرل کمیونٹی ہے ۔ چونکہ جرمن نیشنل ازم کا مقصد ملک کی آزادی تھا اس لیے اس میں جمہوری عناصر کو نظر انداز کر دیا گیا ۔ مزید اس کی سرپرستی حکمران طبقوں نے کی اس لیے قدامت پرست روایات و قدروں کاا حیاء ہوا ۔ جن جرمن مفکرین نے اس کی تشکیل میں حصہ لیا ان میں ہرڈر(Herder) خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کی دلیل تھی کی انسانی تہذیب کی نشوونما آفاقی ماحول میں نہیں ہوتی ہے بلکہ قومی ماحول اس کے کردار کو بناتا ہے ۔ معاشرہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار مادری زبان کے تحت ہی کر سکتا ہے اس وجہ سے جرمن ادیبوں ،شاعروں اور محققوں نے جرمن زبان کو زرخیز بنایا ۔ لوگوں نے کہا نیوں اور داستانوں کو دریافت کر کے انہیں شائع کرایا ۔جرمن زبان کی اہمیت نے معاشرہ کی تحقیقی روح کو بیدار کیا اور لوگوں کو ملا کران میں شناخت کے احساس کو پیدا کیا ۔

**زبان کمیونٹی کے اندر رہ کر سیکھی جاتی ہے اس لیے اس کا تعلق کمیونٹی کے کلچراور فکر سے ہوتا ہے ہر زبان ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ ہر کمیونٹی کی فکر جدا ہوتی ہے زبان میں اگر چہ تبدیلی آتی ہے اس میں نئے الفاظ شامل ہوتے ہیں مگر اس کی فکر ایک سی رہتی ہے اس لحاظ سے کوئی زبان ادنیٰ یا بر تر نہیں ہوتی زبان کو ترجمہ کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا ہے اس کو صرف سیکھ کر اس کی روح تک پہنچا جا سکتا ہے۔

اس کے برعکس ہابس باؤم کا کہنا ہے کہ جہاں تک قومی زبان کا تعلق ہے یہ مصنوعی طور پر تشکیل کی جاتی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو مناسب ہوگا کہ اسے ایجاد کیا جاتا ہے تا کہ اسے قومی زبان بنایا جائے چونکہ نیشنل ازم کی اہم بنیاد زبان ہوتی ہے اس لیے تعلیم یافتہ طبقے کئی بولیوں اور لہجوں میں سے ایک کا انتخاب کر لیتے ہیں ۔ مثلاََ فرانس میں 1789 میں 50% لوگ فرانسیسی نہیں بولتے تھے اٹلی میں اتحاد کے وقت 1/2 2 اطالوی زبان روزمرہ کے استعمال کی حد تک جانتے تھے مگر دونوں ملکوں میں ایک معیاری زبان کو قومی زبان بنایا گیا۔

جرمن رومانویت نے دریاؤں اور گھنے جنگلوں کو قوم کے کردار سے لاد دیا کہ جس طرح دریا بہاؤ کے عالم میں رہتے ہیں اور زمین کو سیرآب کرتے ہیں اس طرح سے جرمن ذہن تخلیقی عمل میں مصروف رہتا ہے جس طرح گھنے جنگل خاموشی اور غور و فکر کا احساس پیداکرتے ہیں یہی عناصر جرمن قوم میں فلسفیانہ خیالات و افکار کی تخلیق کا باعث ہوتے ہیں ۔

جرمن نیشنل ازم میں فرد سے زیادہ ریاست کی اہمیت ہے جب کہ برطانیہ میں فرد کی آزادی کو اہمیت دی گئی دوسرا جرمن مفکر جس نے جرمن نیشنل ازم کو مزید طاقتور بنا دیا وہ نفشٹے تھااس نے جرمن زبان پر اور اس کی اہمیت پر زور دیا یہاں تک کہ جرمن کلچرغیر ملکی عناصر سے داغدار نہ ہو فرسڈمن لڈوں باں نے اس کو عملی تحریک کی شکل دیتے ہوئے محب وطن نوجوانوں کی فوجی جماعت بنائی ۔ ملبوس رضا کاروں کی فوج کو تیار کیا تاکہ ملک کا دفاع کیا جاسکے ۔ اس کے نظریہ کے مطابق جرمنی کو ایک طاقتور رہنما کی ضرورت ہے جو قوم کو آزاد کرائے اسے متحد کرے ۔ اس سے نیشنل ازم بہت زیادہ پُر اثر اور مقبول ہوتا ہے کیونکہ تشبیہات ، استعارے ، گیت ،داستانیں اور قصے کہانیاں احساسات کا اظہار بھی کرتے ہیں اور انہیں متاثر بھی کرتے ہیں

** باصم طبی نے اپنی کتاب عرب نیشنل ازم میں تفصیل سے جائزہ لیا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے عرب دانشوروں نے فرانسیسی اور انگلش نیشنل ازم کے ماڈل کو رد کر دیا کیونکہ ان دونوں طاقتوں نے ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی تھی ان حا لات میں جرمن نیشنل ازم کا لسانی ماڈل موزوں تھا ۔ الحصری نے خاص طور سے نیشنل ازم میں زبان کے عنصر کو مقبول بنادیا اور دلیل دی کہ زبان کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس کے ذریعے ہی مذہب کو سمجھا جا سکتا ہے اگر مذہب غیر زبان میں ہوتو وہ اتحاد کا باعث نہیں بن سکتا۔ یہودی چونکہ ایک قومی مذہب ہے اس لیے اس نے انہیں متحد کر دیا عربوں کا یہ لسانی نیشنل ازم سیکولرشکل میں ابھرا اور اس نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک قوم کی شکل دی۔ زبان جس قدر مضبوط ہوگی اس قدر نیشنل ازم کی جڑیں گہری ہونگی ۔

 ان دانشوروں نے تاریخ کو بھی سیکولر بنادیا فلپ کی کتاب کا ٹائیٹل ہے ہسٹری آف دی عرب اسی طرح البرٹ حورابی کی کتاب ہسٹری آف دی عرب پیپلز ۔ عربی زبان کی سرحدیں کسی ایک ریاست میں نہیں تھیں بلکہ یہ ماورائے ریاست تھا اس میں عربی زبان بولنے والے چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو قوم کا حصہ تھے۔

کالونیل دور میں ایشیاء و افریقہ کے ملکوں میںآزادی کی جو تحریکیں ابھریں ان کی بنیاد بھی کلچرل نیشنل ازم پر تھی ان قومی تحریکوں کے رہنما متوسط یورپ کے ترقی یافتہ افکار و خیالات کے لیے معاشرے میں جگہ نہیں تھی روشن خیال اور عقلیت پرستی ان کے ذہن کو بنانے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکی ۔ انہوں نے قومی تحریکوں کو کلچر ازم کی بنیادجس چیز پر رکھا وہ رومانویت تھی چونکہ ان تحریکوں کا مقصد کالونیل ازم سے آزادی تھی اس لیے انہوں نے مغربی افکار و نظریات کو چیلنج کیا اور ردعمل کے طور پر کالونیل سے کلچر کے احیاء کی تبلیغ کی کہ جس نے جاگیردارانہ روایات ، تاریخی ہیروز اور ماضی کے سُنہری دور کی خوبصورتی اور عظمت کو ذہنوں میں بٹھادیا۔

تیسری دنیا کے نیشنل ازم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پسماندہ ہے مغرب کے دانشوروں نے اس کی پسماندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے دلیل دی چونکہ یورپ کی اقوام میں ایک تسلسل ہے ان کے ہاں قوم کی شناخت ،تاریخی کلچر اورروایات سے ہے لہٰذا ان میں نیشنل ازم کی تخلیق سے قومی شعور اور شناخت موجود تھی جب کہ کالو نیل ازم سے آزاد ہونے والے ملکوں کی سرحدیں بدلی گئیں ایتھنک اور لسانی جماعتوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا گیا اس لیے ان کے ہاں قوم کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ان کے لیے اتحاد اور ہم آہنگی کی جڑیں تلاش کرنا مشکل تھااس وجہ سے کچھ دانشور اس نیشنل ازم کو محض انتظامی ضرورت کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہیں اس کو یورپ کے نیشنل ازم سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی ہے۔کیونکہ یہ کالونیل دور میں ابھرا ۔ اس کی تاریخی جڑیں نہیں ہیں اسے کالونیل ازم کے خلاف نیشنل ازم کہا جاسکتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔

 ہندوستانی قوم پرستی پر جی ایلویسس نے اپنی کتابNationalism without a national in india,1997 اس کے اہم کرداروں میں اس کا طبقہ اشرافیہ جس میں جاگیر دار بورژوا دونوں شامل تھے ان کے مفادات کے تحت ہندوستان میں قوم پرستی وجود میں آئی ۔ جب ماضی کا احیاء کیا گیا تو یہ دراصل برہمن ازم کا احیاء تھا گپت دور ہندوستان کا سُنہرا دور کہلایا کیونکہ اس میں برہمنوں کا اقتدار بحال ہوا تھا ذات پات کا معاشرہ مستحکم ہوا تھا نیشنلزم کے اس پہلو پر نچلی ذات کے لوگوں نے احتجاج بلند کیا نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا کے ذات پات کے نظام کی تعریف کی ہے ان کے ہاں آریا تہذہب اور برہمن ازم ہندو کلچر کا حصہ ہیں اس لیے اس میں نچلی ذات کے لوگوں اور مذہب کے ماننے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے وہ ہندو معاشرے کے تسلسل پر زور دیتے ہیں تبدیلی پر نہیں 

ایلویسس گاندھی جی پر بھی تنقید کرتا ہے کیونکہ وہ بھی تاریخ کے اسی تسلسل کو برقرار رکھنے کے حامی تھے اور معاشرتی سماجی ڈھانچہ میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتے تھے ۔ وہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ گاندھی نے مذہب کو سیاست کاحصہ بنا کر سیکولرازم کو کمزور کیا انہوں نے عوام کو مذہبی نعروں کے ذریعے اکھٹا کیا جن میں گائے کا تحفظ،ذات پات کا تحفظ اور قدیم روایات کا احیاء شامل تھا اس کی دلیل کے مطابق ہندوستان کو انقلاب یا تبدیلی کے عمل سے دور رکھنے کے لیے انہوں نے گاؤں کی زندگی کے احیاء کی مخالفت کی تھی۔

 اسی پس نظر میں گاندھی جی کی قوم پرستی،مساوات،صلاحیت،حرکت اور تبدیلی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس سے مراد ایک ایسا نیشنل ازم ہے کہ جس میں ہندوؤں کے علاوہ دوسرے مذہب کے مانے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اسی وجہ سے اس کے زیر اثر مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ہوا، فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور ہندوستان کی سیکولر روایات و ادارے کمزور ہوئے۔اس تناظر میں اگر پاکستان میں نیشنل ازم کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں بہت زیادہ پیچیدگی نظر آئے گی کیونکہ دو قومی نظریے کی وجہ سے اس کی نیشنل ازم کی بنیاد مذہب پرتھی جب برطانیہ نے اپنی نئی کالونی کی وجہ رکھی تو اس کی یہی تعریف کی جاتی رہی تو اس نے بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے دائرے سے نکال دیا ۔ لیکن یہ مذہبی نیشنل ازم اپنی لفاظی اور جذبات کے باوجود پاکستانی قوم کی تشکیل نہیں کر سکا اس کے خلاف جو علاقائی یا حقیقی فطری نیشنل ازم پیدا ہوئے ان میں بنگال اور سندھ نے زبان کی بنیاد پر مرکزی نیشنل ازم کا مقابلہ کیا جبکہ بلوچ ننے تاریخی حقائق الگ ریاست، زبان،پہچان کی بنیاد پر اپنی نیشنل ازم کی بنیادوں کو مزید اُجاگر کیا جو آج تناور درخت کے طور پر دنیا کے سامنے الگ ریاست کی جستجو میں منظر عام پر ہے۔

کالونیل ازم سے آزادی میں نیشنل ازم کا اہم کردار رہا ہے مگر جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے چونکہ اس کی بنیاد کلچر پر تھی اس لیے اس نے احیاء کی بات کی ماضی کی طرف دیکھا ،مستقبل سے گریز کیا جن طبقات نے ان کی رہنمائی کی چونکہ ان کا تعلق مراعات یافتہ لوگوں سے تھا اس لیے انہوں نے عام لوگوں کے جذبات کو تو ابھارا مگر انہیں اقتدار میں شریک نہیں کیا اور اپنے اقتدار کومستحکم کر نے کی جدوجہد کی ، انہوں نے عوام کو سماجی اور معاشی بندھنوں سے آزاد نہیں کیا بلکہ ان کو کالونیل اداروں اور روایات میں برقرار رکھا جو ان کے اقتدار کو تحفظ دیتے تھے قومی شعور کے برعکس انہوں نے نسل پرستی، قبائلی تعصبات، مذہبی جھگڑوں اور فرقہ وارانہ فسادات کو بڑھاوا دیا ۔ کیونکہ انہوں نے ماضی کی روایات کا احیاء کیا جس نے فوجی آمریت ،جاگیردارانہ تسلط اور بورژوا طبقہ کے مفادات کا تحفظ کیا۔

نو آزاد ملکوں میں حکمران طبقوں نے نیشنل ازم کو ریاست کی سرپرستی میں لوگوں پر مسلط کیا اور ایسے جذبات کے تحت ایک اسی طرح کا آمرانہ حکومت قائم کیا جس میں اختلاف کرنے والوں کی کوئی گنجائش نہیں رہی ۔لوگوں کے ذہنوں پر نیشن یا قوم کو پوری طرح مسلط کر دیا یعنی قومی جھنڈا، قومی ترانہ اور قومی ہیروز سے لے کر قومی لباس ،قومی کھانا ،قومی کھیل ،قومی پھول ، قومی رنگ ،قومی کردار ،قومی شاعر،قومی دولت اور قومی زبان وغیرہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان قومیائے ہوئے ماحول میں تخلیق اور تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں رہی ۔ سیاسی طور پر لوگوں کے احتجاج کو قومی مفادات  میں رد کیا جاتا ہے وہ تمام اصلاحات یا پالیسیاں جو حکمران طبقوں کے مفاد میں ہوتے ہیں وہ سب قومی منصوبے بن جاتے ہیں اس تناظر میں فرد کے مفادات سے مختلف ہوجاتے ہیں مگر اسے قومی مفادات کے نام پر اپنے مفادات کو قربان کرنا ہوتا ہے جب نیشنل ازم انتہا پسندی کی حدوں کو چھو کر فاشزم کی شکل اختیا رکر لیتا ہے تو یہ انسانیت سے کٹ جاتا ہے یہ ہٹلر کے جرمنی اور مسولینی کے اٹلی میں فاشسٹ آمریت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔

وہ یورپی دانشور ، جو اس وقت لبرل اور امپیرل ازم کے حامی ہیں وہ تیسری دنیا کے نیشنل ازم کو اور اس کی پسماندگی کو نشانہ بناتے ہیں ان کے نزدیک چونکہ یہ پسماندہ فرسودہ اور قدامت پرست ہیں اس لیے اس نے آزادی کے بعد اپنے ملکوں میں ترقی کے بجائے انہیں اور زیادہ پسماندہ بنایا۔

امپیریل طاقت نے جس اسٹرکچر کو بنایا تھا اسے توڑ کر معاشرے میں انتشار اور کنفیوژن کا شکار کردیا ان کے نزدیک یہ ایک وائرس ہے جو تیزی سے معاشرے کو بیمار کررہا ہے اس لیے ان کی دلیل ہے کہ لبرل امپیریل ازم ہی اس پسماندگی کا علاج ہے اب یہ تیسری دنیا کے ملکوں کے دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کا فریضہ ہے کہ وہ اس پر غور کریں کہ اس پسماندہ نیشنل ازم کو کیسے تبدیل کریں اور کیا اقدامات کریں کہ یہ معاشرہ پسماندگی سے نکل کر آگے کی جانب بڑھ سکیں ۔

نیشنل ازم کی ایک خصوصیات یہ ہے کہ اس کے ذریعے قومی ریاست وجود میں آتی ہے ۔ ریاست کا ادارہ وقت اور ماحول میں بدلتا ہے ۔ قدیم دور میں ہم شہری ریاست کی وجود کو دیکھتے ہیں عہد وسطیٰ میں ریاست کی شکل یونیورسل تھی جدید دور میں قوم کی حیثیت سے قومی ریاست ہوگئی ۔ ایک دوسرے مفہوم میں یہ عہد وسطیٰ میں علاقائی تھی۔ ویسٹ فیلیا (1648) کے معاہدے کے بعد خودمختار اقتدار اعلیٰ کی حامل ریاست کے طور پر ابھری ، فرانسیسی انقلاب نے قومی ریاست کو جنم دیا ۔

جدید دنیا میں ریاست کی اہمیت اس قدر ہوگئی کہ صرف اسے قوم سمجھا جاتاہے کہ جو ایک ریاست کی تشکیل کرتی ہے اب صرف قومی ریاست ہی عالمی اداروں کی رکن بن سکتی ہے قومی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد دنیا کی تاریخ پر کیا اثرات مرتب ہوئے تو اس کا اندازہ اس عمل سے ہوتا ہے کہ جب 19ویں صدی میں یورپ میں قومی ریاستوں کا وجود عمل میں آیاتو اس نے جارحانہ امپیریل ازم ، نسل پرستی ، فاشزم اور حب الوطنی کی انتہا پسندی کو پیدا کیا ۔ چونکہ قومی ریاست کا وجود ابھرتے ہوئے سرمایہ دار نظام میں ہوا تھا ۔ اس لیے ان ریاستوں کو اپنے مال کی کھپت کے لیے منڈیاں چاہیے تھیں ۔ انہوں نے کالونیل ازم اور امپیریل ازم کو پیدا کیا ۔ ایشیاء اور افریقہ کے ملکوں کے قبضے کے لیے ہوس بڑھتی گئی اور ہر یورپی قومی ریاست کی خواہش تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ ممالک پر قبضہ کر کے ان کے ذرائع کو استعمال کرے۔ اس دوڑ میں یورپ کے دانشور وں نے بھی اپنی اپنی ریاستوں کی حمایت کی اور کالونیز پر قبضہ کو تہذیبی مشن کے طور پر پیش کیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کالونیل طاقتوں نے اپنے مقبوضہ ممالک کے استحکام کلچر اور روایات کو توڑ کر وہاں اپنے کلچر اور زبان کو فروغ دیا۔ جس نے ان معاشروں میں جدید و قدیم کے درمیان تصادم کو پیدا کیا ، بلکہ ان کی شناخت کو بھی پیچیدہ بنادیا۔

قومی تحریکوں کے نتیجہ میں جب نئے ملک آزاد ہوئے تو ان کی قومی ریاستیں مصنوعی طور پر تشکیل دی گئیں ۔ ان کی سرحدوں کا تعین سیاسی مفادات کی خاطر کیا گیا ، ان کی آبادیوں کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ، ان کی زبان اور کلچر کو توڑکر علیحدہ علیحدہ خانوں میں بانٹ دیا گیا مثلاََ مشرقِ وسطیٰ میں اردن اور اسرائیل نئے ممالک بنائے گئے عراق ، لبنان اور ترکی کی سرحدوں کا دوبارہ سے تعین کیا گیا ۔ خلیج فارس میں عرب امارات کی تشکیل کی گئی برصغیر ہند کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا پاکستان کی صورت میں کالونی بنا کر مذہبی انتہا پسندی اور عالمی سامراج کے لئے ایک مورچہ تشکیل دیا گیا۔ یہی صورت افریقہ کی گئی ساؤتھ ایشیاء میں کوریا،ویتنام کو تقسیم کیا گیا وغیرہ وغیرہ ۔ اب ان کے بارے میں کہا جارہاہے کہ یہ قومی ریاستیں نہیں ہیں بلکہ انتظامی یونٹس ہیں ۔

اس وقت تیسری دنیا میں قومی ریاستوں پر یاتو فوجی آمروں کا قبضہ ہے یا مطلق العنان اور نام نہاد بادشاہتیں ہیں اور اگر کہیں جمہوریت ہے تو اس پر طبقہ اعلیٰ کی حکمراں طبقہ ریاستی حب الوطنی کا پرزور پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔اخبارات ،رسائل ،ریڈیواور ٹی وی کے علاوہ نصابی کتب کے ذریعے ریاستی وفاداری کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے اور ریاست عوام پر اپنے تسلط کو مضبوط کرتی ہے قومی ریاست کی وفاداری کو اس حد تک ذہنوں پر حاوی کردیا جاتا ہے کہ اس کی ذرا سی مخالفت غدار وطن بنا دیتی ہے اس لیے یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ قومی ریاستیں عوام کو آزادی دے رہی ہیں یا انہیں تنگ نظر اور انتہا پسند بنارہی ہیں ۔

لیکن موجودہ صورتحال میں یہ قومی ریاستیں گلوبلائزیشن اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پھیلاوے سے خطرے میں ہیں جو ان کی طاقت اور اختیارات کے دائرے کو محدود کررہی ہیں اس لیے یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا قومی ریاست ختم کر دیا جائے ۔ اگر یہ ہوتا ہے پھر لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کون کرے گا ؟ اگر قومی ریاست کو برقرار رکھا جائے تو پھر ضرورت ہے کہ اس کے اسٹرکچر (ساخت ) کی تشکیل نو ہو جو جدید حالات کے مطابق ہوا ور جس میں چند طبقوں کی اجارہ داری نہ ہو بلکہ عوام کو ان کی حقوق ملنے کی ضمانت ہو ۔

نیشنل ازم کی تاریخ سے ہمارے سامنے جو نتائج آئے ہیں ان کے پیش نظر کہا جاتا ہے کہ اس نے تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یہ ایک موثر طاقت کے طور پر ابھرا اور اپنی قوت سے اس نے ہیپس برگ امپائراور عثمانی خلافت کا خاتمہ کر کے ان کے آزاد علاقوں میں قومی ریاستیں قائم کیں اس کے زیر اثر یورپ میں کالونیل ازم اور امپیریل ازم ابھرا جنہوں نے کمزور ملکوں کو اپنی نو آبادیات بناکر وہاں حکومت کی ۔ لیکن اس کے زیر اثر مقبوضہ ملکوں میں قومی تحریکیں ابھریں کہ جنہوں نے اپنے ملکوں کو ان سے آزاد کرایا۔

نیشنل ازم آج بھی امریکی امپریل ازم کا بنیادی ستون ہے کہ جس کے سہارے وہ اپنے تسلط کو عالمی طور پر بڑھا رہا ہے نو آباد ملکوں میں اب بھی نیشنل ازم علیحدگی پسند جماعتوں کے لیے ایک نظریہ ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ۔
لیکن نیشنل ازم کے منفی پہلو بھی ہمارے سامنے ہیں جب اس کی بنیاد کلچر پر ہوتی ہے تو اس میں انتہا پسندی اور تعصب آجاتا ہے اپنے کلچر کی برتری اس قدر ذہنوں میں سما جاتی ہے کہ دوسری ثقافتوں سے سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی ہے یہ قوم پرستوں کو انسانیت سے کاٹ کر علیحدہ علیحدہ خانوں میں مقید کر دیتی ہے ۔

یورپ کے دانشوروں کا یہ کہنا کہ ایشیاء و افریقہ کا نیشنل ازم پسماندہ ہے جب کہ یورپی نیشنل ازم ترقی یافتہ۔ مگر یورپ کے ترقی یافتہ نیشنل ازم نے دنیا پر تسلط قائم کرکے ، جنگ قتل و غارت گری اور معاشی لوٹ مار کا بازار گرم کیا ، نسلی برتری کے ذریعے دوسری اقوام کو ادنیٰ درجہ قرار دیا اور آج بھی امریکی نیشنل ازم عالمی بربریت کا مظہر ہے اس کے مقابلے میں تیسری دنیا کے پسماندہ نیشنل ازم نے عالمی استحصال کے بجائے اپنے لوگوں کا استحصال کیا ، لہٰذا اس صورت میں دونوں قسم کے نیشنل ازم نے انتہا پسندکو بڑھایا اور عالمی و ملکی طور پر لوگوں کو بحرانوں سے دوچار کیا ۔

**اس وقت جب کہ یورپ قومی ریاستوں کو ختم کر کے متحدہو رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے جغرافیائی علاقے اس ماڈل کو اختیار کریں گے یا بدلتے حالات میں انہیں قدیم اور فرسودہ اداروں کو برقرار رکھیں گے ؟
آج بلوچ خالص نیشنلزم کی جدید جدوجہد میں ایک آزاد ریاست کی جستجو میں ہے جو قومی برابری کی بنیادوں پر ہوگا ۔امیر،سرمایہ دار میر و معتبر اسکی مخالفت اس لئے کر رہے ہیں کہ آزاد بلوچ ریاست جہاں برابری قومی برابری کے اصولوں بنیاد پر قائم ہوگا انکو اپنی موت نظر آ رہی ہے جسکی وجہ سے وہ اسکی مخالفت کر رہے ہیں،برطانوی کالونی پاکستان چونکہ سرمایہ دارانہ نظام پہ چل رہی ہے اسی میں یہ قبیل خود کی بقا اور پروش جان ہو کر پاکستانی نیشنلزم کی پر چار کر رہے ہیں جسکا نہ کو ئی سر ہے نہ پاؤں۔
................................
(یہ مضمون بی این ایم کے ترجمان زرمبش کے شمارہ نمبر 7مئی2012 سے لیا گیا ہے )