منگل، 26 اپریل، 2016

ہفتہ، 16 اپریل، 2016

سوچنے کی باتیں : تحریر : مہر گہوش



(غور و فکر کیلئے چند الفاظ )
تضادات و اختلافات ، بحث و مباحثہ، تلخی و الزامات کے بعد بھی اگر قومی مفاد اور وقت کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر قوم کو مایوسی کی دلدل سے نکالنے کی ایک امید پیدا ہوئی ہے اور اگر اس اہم وقت اور اقدام پہ حیرانگی کا اظہار کرکے اسی سوچ پہ قائم رہنا کہ اگر متحد ہونا تھا تو پھر اتنے وقتوں سے یہ تلخی اور بحث و مباحثہ کیوں ؟ اس نقطے یا اعتراض کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر تضادات نہ ہوتے تو اتنی تلخی و بد گمانی جنم لیتے ؟؟ اور ساتھ ہی اس حقیقت کو ہماری بدنصیبی کہا جائے یا ناتجربہ کاری کہ جنم لینے والے اور سامنے آنے والے تضادات بھی حقیقی ہیں ، اور تمام اہل سیاست کو یہ سمجھنا ہوگا کہ تضادات کی موجودگی کا قطعاََ مطلب یہ نہیں کہ انھیں ویسے ہی رہنے دیا جائے اس لئے ان کا اب کوئی قابل قبول حل نکالنا ضروری ہے ،کیونکہ گذشتہ دو تین سال کی بحث و مباحثے کا کوئی نتیجہ قوم کے سامنے لانا ہوگا اور اگر بغیر نتیجہ کے ہم صرف بحث برائے بحث ہی کو ذہن میں رکھا ہے تویہ عمل بذات خود غیر سیاسی و غیر انقلابی عمل کے زمرے میں آتا ہے ، اگر شعوری انداز میں شروع کی گئی بحث کو اب ایک نتیجہ خیر فیصلے تک نہ پہنچا سکے اور سب کچھ اللہ پاک کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خاموشی اختیار کرلی تو یہ بلوچ قوم کیلئے ایک بڑے المیے و سانحہ سے کم نہ ہوگا ۔لہذا اب موجودہ حوصلہ افزاء اشتراکی عمل جو کہ سنگت حیربیار کی جانب سے پہل ہوا سب آزادی پسند قومی ذمہ داروں پہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس عمل کو سرد خانے کی نذر کرنے بجائے اور روایتی طنز و شغان اور بحث و مباحثے کے ایک متفقہ پلیٹ فارم کی تمام تر پہلوؤں پہ غور و غوص کر کے اسے باقاعدہ سنجیدگی سے آگے لے جانا چاہیے!
(میرا نقطہ نظر) 
مختلف چیزوں یا معاملات کو مختلف نقطہ نظر سے ہٹ کر ایک ہی نقطہ نگاہ سے دیکھنا، سمجھنا، اور پرکھنا دلیل و منطقی بحث و مباحثے اور ایمانداری کے ساتھ مثبت رویے اور سوچ کے ساتھ کوشاں رہنا ، اور ناممکنات لمحوں سے باہر نکل کر عملی صورت میں میدان عمل میں آنا شعور ، پختہ سوچ اور موثر فیصلہ کی ضمانت ہے ، چند چیزیں ضد ، جذباتی پن ہمیشہ مثبت عمل اور پیش رفت کو الجھن ، انتشار و بگاڑ میں لاکر نزدیکی اور ہم خیال بنانے کے بجائے مزید نفرت اور دوری کی فضا کو قائم کردیتے ہے ، طنز شغان، اور ہر قدم پہ بدگمان ہوکر شک کی پہلو کو ذہن میں رکھ کر منفی انداز میں سوچنا اور رائے قائم کرنا ، فیصلہ لینا اور ساتھ ہی ’’ میں ‘‘ اور ’’ ہم ‘‘ والا پالیسی ہمیں روشنی کے بجائے مزید تاریکی میں دھکیل دے گا ، اس لئے وقت و حالات کی نزاکت کے پیش نظر غیر ضروری بحث سے اجتناب کرکے غیر سیاسی اور غیرسنجیدہ سوالات و خیالات کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے خاموشی اختیار کرنا سب سے موثر عمل ہوگا ، کیونکہ غیر سنجیدہ اور غیرسیاسی رویوں کے مقابلے میں جذباتی ہوکر وہی عمل اور سوچ اپنانا بذات خود کم علمی و جاہلی کا ثبوت ہے، اس لئے اب ضروری ہے کہ ہمیں اپنا ہر قدم انتہائی سوچ بچار کے ساتھ آگے بڑھانا ہے ، اگر اس دفعہ خدا نہ کرئے ماضی کی طرح ایک بار پھر بے پناہ نوجوانوں کی لہو سے جلنے والی آگ سرد پڑ گیا تو اس کے پیچھے اور کچھ نہیں ہوگا سوائے جذباتی پن ، اندھی تقلید ، غلط فہمی، لاپرواہی، ضد، انا ، غیر ذمہ داری اور غیر سنجیدگی کے !!
(فکر اور مقصد )
فکر ایک مقصد کیلئے ہوتا ہے اور مقصد کیلئے فکرکا ایک ہونا لازمی ہے ۔شعور مقصد کاتعین کرتا ہے اور مقصد کو پانے کیلئے سفر کے صحیح سمت کے تعین کے ساتھ ہی مسلسل عمل کا ہونا بھی لازمی ہے اور ساتھ ہی ایک ہی فکر کے مختلف الخیال انسانوں کو ایک مقصد کی طرف آگے لے جانے کیلئے ایک مضبوط ،دوراندیش ،معاملہ فہم، نڈراور با عمل وبا کردار لیڈرکا ہونا ضروری ہے وہی لیڈر کے ساتھ ایک باصلاحیت ٹیم کا ہونا بھی اہمیت کا حامل ہے منزل یا مقصد کی طرف جانے والے لیڈر سے لیکر تمام مسافر جب ایک سخت اصول اور ضابطہ اخلاق کے پابند ہوں گے تو شعوری تشکیل کر دہ ڈسپلن یا اصول ہی تنظیم یا پارٹی کہلاتا ہے۔وقت حالات کے مطابق عارضی فیصلوں کو تبدیل کرنا اورازسر نو پالیسی مرتب کرکے فیصلہ لینا یا وقت و حالات کی نزاکت سے باخبر رہ کر سابقہ پالیسیوں سے لاحاصل نتائج یا نقصان وغیرہ کو مد نظر رکھ کر نئے سرے سے پالیسی ترتیب دینا اور ان کو قبول کرنا یا اختیار کرنابا علم و صحت مند ذہین اورشعور کی علامت ہوتی ہے۔سابقہ ناکام یا غلط پالیسوں یا رویوں کو بر قرار رکھ کر ایک ہی جگہ پہ اٹکے رہنے والے کو باشعور یا مضبوط انسان کانام نہیں دیا جاسکتا ہے ۔حقائق کو تسلیم کرنا اور وقتی معاملات و چیزوں پر رائے تبدیل کرنے کو عیب تصور کرنا جہالت اور بے شعوری کے زمرے میں آتا ہے۔فکر و مقصد یا تعین کردہ راستہ کو تبدیل کرنا عیب یا بے شعوری ہوسکتا ہے لیکن عارضی پالیسیوں وطریقہ کار کو مقصد سمجھ کر ان سے چمٹ جانا کم عقل ذہین کی عکاسی کرتا ہے۔اگر کسی چیز کو ذہین قبول نہیں کرتا ہے لیکن اس کے باوجود اسی کی نشوونما پہ توانائی خرچ کی جائے تو اس کو ترک کرنے کا واحد حل کسی با اعتبار پر اعتبار کرنا اگر کسی پر اعتبار نہیں ہے یا نہیں ہوسکتا تو پھر ایک ہی راہ بچ جاتا ہے اور وہ ہے مایوسی ، اور مایوسی کا علاج خود میں موجود ہوتا ہے یاوقت پھر چھوڑ دیا جائے کہ وہ وقت پر ختم ہوگی یا مزید پختہ ہوگی۔
(مایوس وناکام انسان)
میں مایوس ہوں لیکن میں نہیں جانتا کہ میں مایوس ہو،میرے ہر عمل و فعل، رہین سہن اور اظہار رائے سے مایوسی کے آثار نظر آتے ہیں لیکن احترام جہاں کی خاطر کبھی کبھی یہ اظہار کیا جاتا ہے کہ میں مایوس نہیں ہوں ،جب انسان اپنے خود اختیار کردہ نظریہ اور عمل پر تذبذب کا شکار ہوں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آپ کا پہلا انتخابِ قدم ہی رائیگاں گیا ہے ،جب نظریہ وعمل کو روز سو دفعہ صحیح و غلط کے ترازو میں ڈالا جائے تو مایوسی کی بے ذائقہ و بے بو کیفیت دماغ پہ کافی آسانی سے اثر انداز ہو گا اورتجھے معلوم بھی نہیں ہوگا اور آخر تک بے خبر ہو کر مایوسی ہی کی زندگی سے چھٹکارہ نہیں پا سکے گا۔جب یہ کیفیت طاری ہو تو پھر نتیجہ ہر چھوٹے یا بڑے مقصد میں ناکامی مقدربن جاتی ہے،صلاحیت وتوجہ کی طاقت کمزور ہو کر ختم ہوجاتاہے پھرناکامی کی تصور کو ذہین میں بٹھا کر میں کچھ نہیں کرسکتا ہوں مجھ میں صلاحیت نہیں ہے،پھر بعض اوقات کچھ کر گزرنے کی تڑپ و چاہ ہوتے ہوئے بھی مایوسی کی مرض کی وجہ سے ہمت ہار جاتا ہے صرف اس وجہ سے کہ ذہین میں یہ خیال پختہ ہوچکا ہے کہ مجھ میں صلاحیت نہیں حالانکہ وہ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ اس کے اندر صلاحیت موجود ہیں۔ جب ہم کسی مقصد کو حاصل کرنے یا کام کو سرانجام دینے کی خاطر اپنی تمام تر توجہ و صلاحیتوں کو ایک دائرے میں مرکوز کریں تو تب جاکر منفی سوچ و خیال کے سامنے بند بندھانے میں کامیاب ہوجائیں گے، کسی عمل کو تسلسل کے ساتھ سرانجام دینے اور اسے منزل تک پہنچانے کیلئے لازمی ہے کہ اپنی پوری توجہ کو ایک جگہ مرکوز کیا جائے ، کیونکہ جب توجہ منتشر ہوگا تو انسان چھوٹے چھوٹے معاملوں اورچیزوں و باتوں میں پھنس جاتا ہے آخر کار ناکامی اور مایوسی کی وباء اسے اپنی لپیٹ میں لے گا۔ یہ میرا مشاہدہ ہے کہ زندگی کی سب سے بڑی سبق یہی ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ کیوں کررہے ہیں ہمیں کیا ایسا کرنے پر مجبور کر رہا ہے انسانی رویوں کو کیا چیز بناتی ہے بگاڑتی ہے؟ان سولات کے جوابات سے ہم ان باتوں کو جان سکیں جو ہماری روشن مستقبل کی راہ کا تعین کرتا ہے 
(طویل المدت اور قلیل المدت) 
جب کسی چیز یا معاملے کے متعلق انسان اپنی انفرادی سوچ ، خواہش و جذبات اور خاص کر ذاتی نقطہ نظر و خیال کو لیکر اپنی من پسند نتائج کی خواہاں ہوں اور پھر ان ہی نتائج پہ مکمل اطمینان کا اظہار بھی کرلیں تو اسی سوچ و ذہنیت سے تشکیل پانے والے پالیسی محدود وقت و مدت کے لئے ہوسکے فائدہ مند ثابت ہوں لیکن یہ مشاہدے و تجربے کی بات ہے کہ محدود ماحول اور جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلے طویل المدت نتائج نہیں دے سکتے ہیں ، اور پھر ایسی کیفیت میں مبتلا فیصلے کرنے والے مایوسی ، بے چینی، ذہنی انتشار کے شکار ہوکر بند گلی میں خود پائیں گے ۔ اختلاف رائے و مدمقابل کی سوچ کو دشمنی کے زمرے میں لائے بغیر اس کی رائے اور سوچ پہ باریک بینی سے غور وغوص کرنا اکثر اوقات انسان کو صحیح و غلط سمت کے تعین کرنے میں مدد دیتی ہے، اگر کوئی اپنی دل کو یہ تسلی دیں کہ میں کبھی غلط نہیں سوچ سکتا یا غلط پالیسی نہیں بناسکتا اور دن رات کنواں کی مینڈک کی طرح ایک ہی سمت اور زوایہ پہ سفر جاری رکھیں تو ایسے انسان بلند سوچ و میعار کے بجائے مایوسی کی وادی میں گر کر اپنی محدود صلاحیتوں کو بھی تباہ و برباد کر دے گا ، جب صلاحیت ختم و سوچ محدود ہوں اور ساتھ ہی سیکھنے و سمجھنے کا عمل بھی مفلوج ہوں تو انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے غیر ضروری بحث و مباحثے میں ایسا الجھ جاتا ہے کہ اسے یہ معلوم تک نہیں ہوتا کہ اس کی سوچ اپنے آس پاس کے لوگوں کے لئے ندامت و اذیت کا باعث بنتا جارہا ہے ۔ اگر انسان اپنی انفرادی و محدود ماحول و سوچ سے نکل کر جب باہر کی دنیا پہ نظر ڈالے گا تو اسے وہاں حقیقت کے آئینے میں ایسا جذباتی ماحول بھی ملے کہ وہ آئینہ توڑنے کی کوشش بھی کرئے گا کیونکہ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں دکھاتا ، اور جب انسان کو حقیقت کے آئینے میں اپنی اصلیت معلوم ہوگا تو وہ پھر انکار و الزام تراشی کی رو میں بہہ کر یہ تکرار کرئے گا کہ میں تو باعمل ہوں ، باصلاحیت ہوں ، بہادر ہوں ، مخلص ہوں ، قربانی دینے والا ہوں میں کیسے غلط ہوسکتا ہوں ، تو پھر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے ہی رویے و مزاج کے مالک فرد یا تنظیم و جماعت تحریک و قوم کی زوال کے باعث بنیں گے ، اور ایسی سوچ کی موجودگی میں کامیابی کی امید رکھنا خود کو دھوکے میں رکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے 
(غلط فہمی)
زندگی میں سب سے زیادہ اگر مجھے کسی چیزکا خوف ہے تو وہ ہے غلط فہمی ہے،کیونکہ یہ انسان کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہے وہ آپ کے مد مقابل کی ہاتھ میں ہے کہ وہ کب اور کہاں آپ کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہو ۔غلط فہمی وہ بے آواز وبے خبر تلوار ہے جو مضبوط سے مضبوط رشتوں کو منٹوں میں کاٹ دیتی ہے اگر وقت اور حالات یا کسی موقع پر بھی رشتے بحال ہو جائیں تو پھر بھی وہ پرانے رشتے کی نوعیت باقی نہیں رہتی اور غلط فہمی کی عمر جتنی طویل ہوگی اتنا ہی غلط فہمی کی وباء میں مبتلا ہونے والوں انسانوں میں نفرت ودوری زیادہ اثر کرتارہے گا۔کسی بھی مسئلے یا معاملے پہ اگر آپ مثبت رویہ اپنانے کے بجائے اپنے ہی دل و دماغ میں فیصلہ یا حتمی رائے قائم کرکے خاموشی اختیار کریں تب آپ کادماغ ایک ہی پہلو یارُخ پہ پھنس جائے گا تو پھرآپ مزید پیچیدگیوں کا شکار ہونگے نتیجہ پھرمختلف نفسیاتی امراض انسان کی ذہن کولپیٹ میں لیکر زندگی کو کرب و مشکلات سے دوچار کر دے گا۔اور پھر انسان کی اصل صلاحیت اورقوت عمل خود اس کی اپنی ہی ذہنی امراض دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر مفلوج کر دے گا۔ہر معاملے و مسئلہ چاہیے وہ آپ کے سامنے رونما ہوا ہو، لیکن اس کے باوجود یہ ایک مثبت انسانی خاصا ہے کہ اس پہ مزید سو چ و بچار اور تحقیق کرکے اوراپنی ذاتی خواہش کے برعکس تمام دیگر پہلوؤں کومد نظر رکھ کر پھر راہے قاہم کرنا چاہیے اور وہ بھی حتمی رائے نہ ہو ۔
(امید و یقین)
تحریکوں سے لیکر معمولاتِ زندگی کے کسی بھی چھوٹے بڑے ہدف کی حصول کے اگر پُر امید و پختہ یقین نہ ہوں تو انسان کو ہر قدم پہ اور ہر مقصد پر ناکامی سے دوچار ہونا پڑے گا ۔عمل کیلئے ہر لمحہ متحرک رہناہی کسی منصوبہ و حکمت عملی پایہ تکمیل تک لے جائے گا ۔ باعمل اور متحرک زندگی کی پہلی سیڑھی ہی اُمید پر قائم ہے اگر پہلی سیڑھی پہ پہلاقدم ہی ناامیدی تذزب کی حالت میں رکھا جائے تو آخر عمل بندگلی میں جاکر دم توڑ دے گا ،اُمید اور نااُمیدی کی پرورش خود آپ کے ذہنی سوچ پہ منحصر ہے کہ کون سا عنصر آپ کے دل و دماغ پہ زیادہ اثر کرئے گا ۔ اس لئے ہر ایسی خیال و سوچ سے مکمل پر ہیز کرنا چاہیے جو خود آپ اور دوسروں کے لیے ناامیدی کی سبب بنے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض اوقات ہم اپنی خیال کے مطابق صحیح سوچ یا نیت سے گفتگو کرتے ہیں لیکن ہمیں محسوس تک نہیں ہوتا کہ ہمارا باتوں سے دوسرے انسانوں کی امیدوں کے محل کو مسمار کررہے ہیں کیونکہ دوسرے کے مثبت امیدوں کو توڑنا اس کے کردار ،عمل اورمتحرک زندگی کو مکمل مفلوج رکھنے کی مترادف ہے۔اور مفلوج زندگی سے ایک مثبت کردار وعمل کی توقع رکھنا بے معنی ہے۔ہمیشہ پُر امید رہنا ناممکن تصور کو ممکن بنا دے گا، سائنسی نقطہ نظر سے لیکر ذاتی تجربہ اور مشاہدہ سے بھی یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ہر انسان میں چھپے ہوئے بے شمار صلاحیت موجود ہوتے ہیں انھیں بیدار کر کے استعمال میں لاناہے۔ اور چھپے ہوئے صلاحیت اس وقت آشکارا ہوں گے جب آپ امید کی رسی کو مضبوطی تھام لیں اور دلچسپی و توجہ کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کی ماحول و مزاج سے مکمل صحیح زانت کے ساتھ ہمیشہ ذہن میں یہ رکھنا کہ میں سب کچھ کرسکتا ہوں اور مجھے میں کرنے کی صلاحیت ہیں۔ضرور ہر انسان کا صلاحیت دوسرے سے مختلف، کم اور زیادہ ہوتے ہیں۔لیکن نامیدی اور اپنی صلاحیتوں سے عدم آگاہی انسانی سوچ کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔
(غلامانہ سماج و غلامانہ رویے )
کسی بھی مخصوص و اچانک رونما ہونے والے حالت و کیفیت سے متاثر ہوکر جلد ہی حتمی رائے قائم کرکے فیصلے کرنا کبھی بھی دیرپا ثابت نہیں ہوسکیں گے ، کیونکہ ایسی رائے اور فیصلے انسانی ذہن کو علم ،سوچ و بچار کی قوت سے محروم کرکے ہر قدم پر جذباتی لہروں کی جانب لے جاکر اسے اصلیت و حقیقت کی پہچان سے دور کردیتا ہے ، ایسے منفی اور مضر ذہنی امراض غلامانہ سماج کی بدولت پرورش پاتے ہیں ، اور پھر انسان کو علم کے حصول اور عمل کی جانب حرکت کرنے سے روک دیتے۔ وقتی حالت و کیفیت سے متاثر ہوکر رائے قائم کرنے اور جذباتی فیصلوں سے بچاؤ کا حقیقی طریقہ یہی ہے کہ ہر سمت کا بغور مشاہدہ و تجزیہ کرکے اور ساتھ علمی و عملی رجحان کی جانب متوجہ ہوں تب جاکر انسان غلامانہ سماج کی پیدا کردہ منفی امراض سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔دعوے یا گفتار کی حد تک یا ازخود فیصلوں سے ہٹ کر باعلم و باعمل انسان ہی غلامانہ سماج میں ہوتے ہوتے فکری طور پر آزاد ہوتے ہیں اور جب تک کوئی انسان ذہنی و فکری طور پر آزاد نہیں ہوگا وہ کبھی بھی غلامی کے خلاف اور آزاد سماج کے حصول کیلئے کوئی بھی موثر کردار ادا نہیں کرسکے گا ۔غلامانہ سماج دراصل مختلف ذہنی امراض کی فیکٹری ہوتی اور ان ذہنی یا باالفاظِ دیگر نفسیاتی امراض کا علاج یا احتیاطی تدابیر علم و عمل پہ منحصر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے سماج کی نبض پہ ہاتھ رکھ کر موثر و دیر پا حکمت عملی تشکیل دینا ہے بصورت دیگر سماج آہستہ آہستہ غلامانہ امراض کی وباء میں ایسا مبتلا ہوگا کہ پھر سماجی تبدیلی و ترقی صرف ایک خواب ہی ہوگا ۔
(ماضی ، حال اور مستقبل )
اگر میں کل غلط تھا پھر آج کیسے صحیح ، اگر آج صحیح ہوں تو پھر کل کیوں میں غلط تھا، زندگی کے اس پیچیدہ سفر میں زیادہ دور جانے کی ضرور نہیں صرف دو سال پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ ہم سوچ اور نقطہ نظر کے حوالے سے کہاں کھڑے تھیں ، معاملوں کو کس نظر دیکھتے تھے، اور آج اگر ہم یہ کہیں کہ میرا دو سال پہلے والا نقطہ نظر غلط تھا تو پھر آج کیا گارنٹی ہے کہ آپ صحیح ہو یا پھر دو سال بعد بھی واپس اپنے آج کو غلط نقطہ نظر میں شمار کرتے ہو ، اس لئے انسانی عقل و شعور کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے مقصد و منزل کے علاوہ مسائل ، معاملات اور واقعات پہ مکمل سوچ بچار اور تحقیق سے ہٹ کر جذباتی و حتمی رائے قائم اور پھر ان پہ سختی سے ڈٹ جانا لاشعوری کے زمرے میں آتا ہے اور یہ مشاہدہ ہے کہ لاشعوری و جذباتی رائے و فیصلوں سے انسان کو مستقبل میں سوائے پشیمانی اور کچھ بھی ہاتھ نہیںآتا ۔ اور پھر ایسے انسان کی سوچ و ذہنیت کے بارے میں ہمیشہ یہ سوچ انسان میں حاوی رہتا ہے کہ یہ آج جو کچھ کہہ رہا ہے اس کو کل پھر غلط قرار دے گا ، تو پھر کیوں اس کی نقطہ نظر سے اتفاق رکھوں ، جلد متاثر ہونے والی ذہن سے انسان کا بھروسہ آہستہ آہستہ کمزور پڑتا ہے ، کیونکہ اس بات سے کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا ہے کہ میں جو کل تھا آج بھی وہی ہوں اس طرح نہیں ہوسکتا ، ذہنی و فکری ترقی ، تجزیہ اور شعور و سوچ کی پختگی اورمثبت تبدیلیوں کو کوئی بھی رد نہیں کرسکتا ،اور جب انسانی ذہن کی ترقی و نشوونما رُک جائے تو وہ پھر انسان نہیں بلکہ حیوانوں میں شمار ہوتا ہے ۔جب انسان یہ سوچ لیں کہ میں کیوں ایسا تھا ، اور کیوں ایسا سوچتا تھا اور کیوں ایسے فیصلے کیے ، تو پھر جواب میں اس کی زندگی کا باقی سفر انتہائی محتاط انداز میں گزرے گا اور جلد رائے دینے اور فیصلے لینے سے گریز کرئے گا ۔ کیونکہ گھر کے پردوں کی طرح روز روز اپنی موقف اور نقطہ نظر کو تبدیل کرنا پختہ ، بلند اور دوراندیشن سوچ کی علامت نہیں ہوتی ۔

پیر، 11 اپریل، 2016

خودکش حملوں کا تاریخی اور نفسیاتی جائزہ




خودکشی! اگر عمومیت میں جا کر بات کی جائے تو خودکشی کے رجحانات کم و بیش ہر فرد میں موجود ہوتے ہیں اور یہ رجحانات بلا تخصیص ہر معاشرے میں بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں- لیکن وقت کے ساتھ خودکشی کے رجحان میں بھی تنوع پیدا ہوا ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ خودکشی کی بھی اقسام ہیں، انفرادی خودکشی، اجتماعی خودکشی (جس میں افراد کا گروہ باہمی رضامندی سے خودکشی کرتا ہے) تیسری قسم خودکش حملہ ہے جس میں کسی مخصوص مقصد کے پیش نظر مخصوص لوگوں کو ٹارگٹ بنایا جاتا ہے، آئیے ایک نظر خودکش حملوں کی تاریخ پر ڈالتے ہیں.خودکش حملوں کی تاریخ بہت پرانی ہے، پہلی صدی عیسوی میں زیلوٹس  یہودی فرقہ جو دراصل رومن ایمپائر کے خلاف اٹھا اس فرقہ کے ارکان جو دہشت گردی اور قتل و غارت میں ملوث ہوگئے انہیں سیکاری  کے نام سے جانا جاتا ہے، زیلوٹس کو سکاری خنجر رکھنے کی وجہ سے کہا جاتا ہے، سیکا  سے مراد خنجر ہے جو وہ ہمہ وقت ان کے پاس موجود ہوتا تھا، اکثریت سیکاری عوامی مقامات پر موجود ہوتے تھے خنجروں کو چھپائے ہوئے اور ہر اس شخص پر حملہ کرتے تھے جو روم کی طرف دوستانہ رویہ رکھتا تھا، یہودی سکاری  فرقہ ہیلی نائزڈ یہودیوں کو اپنا غیر اخلاقی حلیف سمجھتے تھے کیونکہ وہ روم کی طرف مثبت رویہ رکھتے تھے، روم کے خلاف پہلی بغاوت (66-70) میں زیلوٹس نے نمایاں کردار ادا کیا مسادا  میں 73 میں ہتھیار ڈالنے کی بجائے خودکشی کر لی، سول وار کے دوران ان میں سے بہت سے یروشلم میں رومن جرنل ٹائٹس  کے ہاتھوں مارے گئے جو بعد ازاں شہنشاہ بنا (دور حکومت 79-81) یا لڑائی کے دوران شہر کے گرنے پر مارے گئے.اساسیون  کا نام قرون وسطی کے نظاری اسماعیلیوں کیلیے استعمال کیا جاتا ہے، نظاری اسماعیلی اسلام کا ہی اک فرقہ تھا جو گیارہویں صدی میں اسماعلیت سے الگ ہوگیا اور اب خود موجودہ شیعہ اسلام کی شاخ ہے، حشیشین اساسیون جس کی شناخت ایک بزرگ لیڈر تھا جو اچانک سے پہاڑوں کے عقب سے نمودار ہوتا تھا، حشیشین کو لیکر بہت سی کہانیاں مشہور ہیں اور اس لفظ پر بھی خاصے اختلافات ہیں بعض لوگ حشیشن سے مراد حسن کے پیروکار لیتے ہیں جبکہ مارکوپولو نے جب اس علاقے کا سفر کیا تو اس کے علم میں آیا کہ حشیشین انہیں حشیش کے استعمال کی وجہ سے کہا جاتا ہے جس کے ذریعے اساسیون کو قتل کی تربیت دی جاتی تھی، تاہم اساسیون کا بانی حسن صباء تھا الموت کے قلعے پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے جنت نما ایک باغ تعمیر کیا، کیا کچھ نہ تھا وہاں جس کی کوئی شخص آرزو کرے، حسن صباء اپنے پیروکاروں کو حشیش کھلا کر اسی جنت میں لے جاتا تھا جہاں کمسن خوبصورت لڑکیاں(حوریں) ان کی خدمت پر مامور ہوتی تھیں اور انہیں جام پیش کرتیں، رقص اور سرود کی محفلیں بپا ہوتیں، لیکن ہائے اس ہوش سے آنے میں ہوش گوا دینا زیادہ گھاٹے کا سودا معلوم نہیں ہوتا، ہوش میں آتے ہی پھر سے واپس جانے کی طلب تیزی سے انگڑائیاں لینے لگتی تھی اور یہی تو وہ کمزوری تھی جسے حسن صباء استعمال میں لاتا تھا اور پھر بہت آسان تھے باقی کے مراحل قتل کرنے کیلیے اور پھر ہتھیار ڈالنے کی بجائے خود کو مار ڈالنا بہت ہی آسان لگنے لگتا تھا، جس جنت سے بے دخل کر دیے گئے تھے وہاں واپس جانے کا بس ایک یہی تو راستہ تھا کہ خود کو اس مادی دنیا سے آزاد کر لیا جائے اور پھر نہ ختم ہونے والی عیاشی منتظر تھی، کیا ہی عقلمند دماغ پایا تھا حسن صباء نے، یہ دوسروں کی اور اپنی جان لینے کی نہایت ہی طاقتور تحریک تھی اور آج بھی ہے.علماء، مولوی منبروں پر چڑھ کر جس طرح جنت کا نقشہ کھینچتے ہیں اچھوں اچھوں کے پسینے چھوٹ جائیں (خوف سے نہیں، سمجھدار کیلیے اشارہ کافی ہے) طارق جمیل کے حوروں پر بیانات حوروں کے جسم کی ساخت کا علم جتنا مولانا طارق صاحب کو ہے شاید ہی کسی کو ہو، حوروں کی چھاتیوں کے ابھار، ان کی قدو قامت، حور کی اندام نہانی تک کا سفر اور فاصلہ نوجوان سن کر مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگتے ہیں جیکٹ تک کا سفر مزید مشکل نہیں رہا، یہ لفظی حشیش ہی ہے جو یہ مُلا ہماری نسلوں کو دے رہے ہیں، یہ سننے میں تو کانوں کو بہت دلنشین لگتی ہے لیکن جب نشہ اترتا ہے تو پھر اس کی طلب ہوتی ہے اور پھر بالآخر اس نہج تک یہ نشہ لے آتا ہے کہ شراب و شباب تک پہنچنے کیلیے خودکش حملہ آور بننا آسان اور شارٹ کٹ راستہ ہے.کیوں جابجا اسلام میں سیکس پر پابندی ہے اور کیوں اس کے مقابلے میں خیالی حور و شمائل کا ذکر ہے، کیا آپ نے کبھی اس نقطہ پر سوچا؟ سیکس کی طرف شدت پسند رویے جنسی گھٹن کو بڑھانے کا سبب بنتے ہیں انسان کو فرسٹریڈ کرتے ہیں، زندگی میں ہیجانی پژمردگی بڑھتی ہے نتیجے میں جوش و جذبہ میں کمی واقع ہوتی ہے، زندگی کی امنگ ختم ہونے لگتی ہے، بے جا پابندیوں سے پھر اچانک جنت الفردوس کے قصے ان میں حوروں کی خوبصورتی اور پھر ان کے ساتھ فری سیکس دماغ کیلیے تازہ ہوا کے جھونکے ہیں اور پھر تسلسل کے ساتھ ایسے بیانات، اب آپ بالکل تیار ہیں ممکنہ اہداف کو پورا کرنے کیلیے، آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں اپنے ٹارگٹ سمیت خود کو اڑانے کا پہلا سہرا کس شخص نے اپنے سر باندھا، نام نکلتا ہے ایک روسی شخص کا جس کا نام ایگنیٹی گرین وٹسکی تھا اس نے زار الیگزینڈر دوئم  کو قتل کرنے کیلیے بم پھینکنے والا یونٹ (جو بطور خاص الیگزینڈر شہنشاہ دوئم کو مارنے کیلیے بنا تھا) جوائن کیا،قتل سے ایک رات قبل اگنیٹی گرین وٹسکی نے خط لکھا جو ان الفاظ پر مشتمل تھا:
الیگزینڈر دوئم ضرور مرے گا، اور اس کے ساتھ اس کا دشمن جس نے اسے مارا وہ بھی مرے گا، آزاد ہونے سے پہلے ہمارا ناخوش ملک اپنے بیٹوں سے کتنی قربانیاں مانگے گا، میری عمر مرنے کیلیے ابھی بہت کم ہے, میں ہماری فتح کے روشن موسم میں ایک دن ایک گھنٹہ نہیں جی پاؤں گا، لیکن مجھے یقین ہے موت کے ساتھ ہی میں اپنا فرض ادا کردوں گا، اور اب اس دنیا میں کوئی اس سے زیادہ مجھ سے طلب نہیں کر سکتا13 مارچ 1881 کو روس کا شہنشاہ الیگزینڈر دوئم اپنی بگھی پر سفر کر رہا تھا، ہتھیاروں سے لیس کاسک اس کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھا تھا جبکہ چھ کاسک ہتھیاروں سے لیس اس کی بگھی کے پیچھے چل رہے تھے، جیسے ہی بگھی گلی کے نکڑ پر کیتھرائن نہر کے قریب پہنچی تو پیپلز ول   کے بائیں بازو کے دہشت گردوں نے حملہ کر دیا، الیگزینڈر دوئم زخمیوں کو دیکھنے کے لیے باہر نکلا تو ایگنیٹی جو نہر کی باڑ کے ساتھ جھکا ہوا تھا نے الیگزینڈر کے پاؤں میں بمب پھینک دیا یوں ایگنیٹی نے خودکش حملہ کر کے 62 سالہ شہنشاہ الیگزینڈر دوئم کو اڑا دیا اور ساتھ ہی خود بھی ہلاک ہوگیا، یہ پہلا ڈائنا مائٹ سے کیا جانے والا خود کش حملہ تھا، شہنشاہ دوئم نے روس کو ماڈرنائز کرنے میں اور لبرلائز کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا.
پہلا ملٹری خودکش حملہ جاپان کے کامی کاز  پائلٹس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کیا، یہ قدم ملٹری آرڈرذ کے تحت اٹھایا گیا، حملہ قومیت اور حکم بجا لانے کی تحریک کے تحت تھا، واضح رہے کہ حملے کے وقت دنیا دوسری جنگ عظیم سے گزر رہی تھی، 1980 میں باقاعدہ طور پر خودکش حملے دہشتگردی کی تحریکوں کا حصہ بنے، تامل ٹائیگرز کی مشہور تکنیک خودکش حملے تھے 1980 سے 2000ء تک تامل باغیوں نے 168 خودکش حملے کیے اور عوام کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچایا، اس تنظیم کے محرکات علیحدگی پسندی، قومیت پرستی اور سوشلزم تھے، ہندوستان کے وزیرِ اعظم راجیو گاندھی کو 1993 میں اور سری لنکا کے صدر رانا سنگھے پریم داسی  کو 1993 میں تامل باغیوں نے خودکش حملے میں مارا، خودکش بیلٹ کے موجد بھی تامل باغی ہیں اور خواتین کی خودکش حملوں میں استعمال کرنے کی داغ بیل بھی انہوں ہی نے ڈالی.مسلم دہشت گرد تنظیموں نے خودکش حملوں کو نیا عروج بخشا، خودکش حملہ آور کے دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے؟ وہ دنیا کو کیسے دیکھتا ہے؟ مختلف وڈیوز اور انٹرویوز سنے جن کا لب لباب یہ تھا کہ یہ دنیا عارضی ہے بے کار ہے، میں خدا سے ملوں گا جنت میں جاؤں گا جہاں حوریں مجھے بطور انعام ملیں گی، دو ناکام خودکش حملہ آوروں کے انٹرویوز سنے ان میں سے ایک خاتون بھی تھیں دوران انٹرویو اس سے سوال کیا گیا کہ مرد خودکش حملہ اس لیے کرتے ہیں کہ بطور انعام انہیں حوریں ملیں گی لیکن خواتین کا خودکش حملے کا کیا محرک ہے تو اس نے جواب دیا مردوں اور عورتوں کو مساوی انعام ملے گا انہیں بھی برابر تعداد میں مرد ملیں گے، میرے لیے یہ کافی مضحکہ خیز بات تھی، آپ نے بھی شاید پہلی بار ایسا بیان سنا ہو، ایک بات کا اور تذکرہ بھی کروں گی، پاکستان میں طالبان خودکش حملہ آور کی معاشی مدد کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس افغانستان میں بچوں کو زبردستی خودکش حملہ آور بننے پر مجبور کیا جاتا ہے جن میں مختلف عمروں کے بچے بھی شامل ہیں ایک بچہ انٹرویو کے دوران بتا رہا تھا کہ مجھے طالبان نے آفر کی کہ تم خودکش حملہ کرو ہم تمہیں پیسے دیں گے بچے نے جواب دیا کہ جب میں مر جاؤں گا تو قبر میں میں ان پیسوں کا کیا کروں گا بچہ بہت ہی کم عمر تھا بمشکل سات آٹھ سال کا.خودکش حملوں کا بنیادی محرک قومیت اور علیحدہ ریاست کا قیام ہے، آپ کسی بھی مذہب کو پڑھ لیں، کسی بھی الہامی کتاب کا مطالعہ کرلیں آپ کو یہ رنگ نمایاں نظر آئیں گے، زیادہ دور نہیں جاتے، مذہب اسلام کی ہی بات کرلیتے ہیں، قرآن کی کچھ آیات دیکھ لیں جس میں قومیت پرستی پر جابجا زور دیا گیا ہے اور دوسری قوموں سے نفرت کا درس جا بجا ملتا ہے، قرآن میں ایک جگہ درج ہے:ترجمہ: ایمان والو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناؤ کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے کوئی انہیں دوست بناۓ گا تو ان ہی میں شمار ہو جائے گا-اب ان خودکش حملوں کا ذکر جنہوں نے خودکش حملوں کی تاریخ کو جدت بخشی:11 مئی 1945 دوسری جنگ عظیم کاماکازی  مشن ملٹری خودکش حملہ، ایئر کرافٹ کے ذریعے دشمن کے بحری جہاز پر اپنا ایئر کرافٹ تباہ کر دیا..11 ستمبر 2011 کو ایک خودکش حملہ امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہوا جس میں جہاز کو بلڈنگ سے ٹکرا کر کریش کیا گیا تاہم یہ دہشت گردی کی کمپین کا حصہ تھا.
9-11ان تینوں حملوں میں ایک کامن بات یہ تھی کہ ان میں جہازوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا، تاہم اغراض و مقاصد میں فرق تھا، یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہازوں کو استعمال میں لاتے ہوئے یہ خودکش حملے، خودکش حملوں کی تاریخ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں.موجودہ دور میں خوکش حملوں کا محرک مخصوص آئیڈیالوجی ہے، خودکش حملہ وارفیئر کا ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے مخصوص آبادی کے لوگوں کے دماغ میں خوف بھرا جاتا ہے اور حکمت عملی کے تحت ان جگہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں عوام خود کو محفوظ سمجھتی ہے بھروسے کی وہ فضا جو معاشروں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر رکھتی ہے اس اعتماد اور بھروسے کو توڑنا دھشتگردوں کا ٹارگٹ ہوتا ہے.انسانی دماغ جہاں ان گنت تخلیقی اور پیدواری کاموں کی آماجگاہ ہے وہاں کچھ لوگوں کے دماغ اس طرح تیار کیے جاتے ہیں کہ وہ روئے زمین پر بسنے والے لوگوں کیلیے خطرناک بائیولوجیکل ہتھیار بن جاتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو موت سے ہمکنار کر دیتے ہیں.انسانی دماغ ماحول کے ساتھ اشتراک، خاندان اور دوستوں کے ساتھ تعلقات اس وسیع دنیا کے ساتھ تعامل ثقافتی اور مذہبی تعلیمات کے زیر اثر مسلسل اپنی تجدید کرتا رہتا ہے مثلاً پاتھ ویز کی ریفائننگ اور فائن ٹیوننگ ایکٹویٹی وغیرہ- یہ تبدیلیاں نئے کرداری ردِ عمل متعارف کراتی رہتی ہیں.تو کیا تشدد کا رویہ اچانک پنپتا ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں، تشدد حیرت کی طرف لے جاتا ہے، تاہم نیورل سطح پر اسے بننے کیلیے سالوں درکار ہوتے ہیں، خاص قسم کے لوگوں میں پر تشدد رویہ جات پنپنے کے رحجانات ہوتے ہیں ایک قسم کے افراد وہ ہیں جو مطمئن، سرد اور بے گانے لوگ اور یہ لوگ بے رحم نظریات کیلیے زرخیز زمین ہیں اور دوسری قسم کے لوگ اینٹی سوشل لوگ ہیں جن کی زندگی جذباتی لحاظ سے مردہ ہوتی ہے، اول الذکر قسم کے لوگ اینٹی سوشل لوگوں میں اپنے ٹارگٹ کے خلاف نفرت اور انہیں تکلیف میں مبتلا کرنے کی وجوہات فراہم کرتے ہیں، تلخ اور زہریلی تنقید ان کے دماغ میں بھرتے ہیں، اینٹی سوشل لوگ ان کیلیے اپنا زہر انڈیلنے کے بہترین سٹور ثابت ہوتے ہیں، اور یوں اینٹی سوشل لوگوں کی زندگی جو پزمردہ ہوتی ہے جذباتی لحاظ سے اس میں جوش بھر جاتا ہے.اور پھر یوں یہ دونوں فریقین کینہ پرور خدا میں اپنا اتحادی تلاش کر لیتے ہیں جو ان کے دشمنوں کا خاتمہ چاہتا ہے، رسمی تربیت کے دوران ان کی ناراضگی غیض و غضب میں بدل جاتی ہے، ان سے احساس جرم جیسے احساسات چھین لیے جاتے ہیں اور اس نہج پر لے آیا جاتا ہے جہاں یہ قتل سوچے سمجھے بغیر کریں، اور یوں قاتلوں کی ٹیم تیار ہے۔

مصنف: Abeeha Ayan