ہفتہ، 11 جنوری، 2014

مسئلوں کا تعین ..تنقید و تحقیق کی بنیاد پر


۔۔تحریر۔۔۔زامر بلوچ
بلوچستان میں بلوچ قومی آزادی کے سیاست کے حوالے سے دعوے ،ردوخلاف اور تردید و تشریح کا جو سلسلہ چل پڑا ہے یہ بلوچ سیاسی و سماجی حوالوں سے کوئی تاریخی پس منظر نہیں رکھتا بلکہ جو کچھ ہورہا ہے وہ بالکل ایک نئی ریت ہے، سوال اٹھانے کا عمل اور انحراف کو بھانپ کر اسے پیشگی طور پر نپٹنے کا عمل اس حوالے سے بھی یکتا ہے کہ اب لیڈر شپ کی دامن پکڑ کر چلنے کی روایت دم توڑ رہی ہے،اب ہاتھ دامن پکڑنے کے بجائے گریبانوں کی طرف بڑھ رہے سامراج کی غلامی سے باخبر قوم اب اپنی ذہنی و فکری غلامی سے گلوخلاصی کے لئے پر تول رہی ہے اور امر اطمینان بخش ہے کہ اب سوال اٹھانے اور جواب مانگنے جرات پروان چڑھ رہی ہے، اس کو لیکر عام لوگ تو خیر مگر بڑے بڑے عقل دانش کے دعویدار بھی اپنی دامن بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں بنیادی طور پر انہیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ بحث کہاں جاکر اختتام پذیر ہوگی اور اسکے نتائج کیا نکلیں گے اور اچھے اور برے نتائج کی ذمہ داری کس کی گردن پہ ہوگی۔
پہلے مسئلے کا تعین ہونا لازمی ہے۔۔۔
اگر ہم ہر چیز پر مطمئن ہیں اور ہمارے درمیان اور ہماری عقلی حدود کے مطابق کوئی بھی ایسا نقطہ موجود نہیں کہ جس کو لے کر ہمیں کوئی پریشانی ہو، تو پھر یہ بات کرنا کہ یہ کام غلط ہے یہ طریقہ ناقص ہے وہ ہونا چاہیے اور وہ نہیں ہونا چاہیے ،کیونکہ بذاتِ خود ہم مطمئن ہیں اور ایک مطمئن انسان کو مسائل کی فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوگی،لیکن اگر کہیں سے کوئی اور آکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ جی نہیں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے بلکہ خامیاں اور کوتاہیاں موجود ہیں اور وہ ان تمام امور کی نشاندہی بھی کروالے پھر تو بات ٹھن جاتی ہے، کیونکہ لازمی بات ہوگی کہ وہ شخص باقی تمام لوگوں کے برعکس معاملات کے بارے میں ایک الگ نقطہ نظر رکھتا ہے اور اسکی رائے باقیوں سے یکسر مختلف ہے، مطلب یہ کہ منفی یا مثبت سے برعکس وہ ان تمام لوگوں کی عقلی دائروں سے کہیں باہر نکل کر سوچ رہا ہے، اب لازمی بات ہے اس چیز پر دو رائے ہونگے اور چیزوں میں موجود یکسانیت کا عنصر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا، اب مسئلہ یہ ہوگا کہ بحث و تکرار کی ایک کیفیت جنم لے گی اور اس میں یا تو وہ قائل ہوگا یا پھر قائل کرے گا، کوئی دو متضاد سوچ طویل دورانیہ تک ایک ہی نقطے پر اٹک کر نہیں رہیں گے۔
اگر دونوں اپنی اس بات پر قائم رہیں کہ جی میں ٹھیک ہوں اور تم غلط ہو تو پھر دو متضاد نظریات کا جنم اور ان پر بھر پور انداز میں کام کرنے سے کوئی ایک فریق دوسرے کو روک نہیں سکتا اور اسکے بعد یہ لازمی امر ہے کہ بات ان مخصوص دائروں سے نکل کر عام عوام یا ارد گرد موجود لوگوں تک پہنچ جائے کیونکہ حقیقت شناسی کا لازمی طلب یہ ہوگا کہ آپکی اس رائے کو عمومیت کی بنیادوں پر پذیرائی ملے اور مخالف کا نقطہ نظر مسترد کردیا جائے، یہ کوئی انہونی بات نہیں ہوگی کہ چیزیں کیوں سرِ عام بحث کی جارہی ہیں بلکہ چیزوں کا باہر نکلنا خود اسی اختلافی تسلسل اور اسکی وجودکا ایک کھڑی ہے، کیونکہ اختلاف ان سطحوں یا نقاط پر ہوئے ہیں کہ جن کو حل کرنے کے لئے وہ اندرونی روایتی سوچ کسی بھی حالت میں تیار نہیں ہے۔پہلے ہر کوئی اپنے دعوے کی استرداد و قبولیت کے لیئے اسے عام کردے گا اس کی حق میں مطلوبہ دلائل بھی فراہم کرے گا، اور اسی بنا پر یہ دیکھا جائے گا کہ کیا میں اور میرے ساتھی جو اختلافی نقطہ نگاہ رکھتے ہیں واقعی عام لوگوں کی ذہنوں میں اور زمینی حقائق کی بنیاد پر وہ تمام باتیں مسترد یا قبول کی جاتی ہیں کہ نہیں، سب سے پہلے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تم کہتے ہو کوئی مسئلہ موجود نہیں اور میں کہتا مسئلے موجود ہیں اور انکی حل بھی نکالا جاسکتا ہے اسی قبولیت و استرداد کے دوران ہم سب سے اولین جو کام کرتے ہیں یہ کہ ہم کسی چیز کی وجود کو ثابت یا رد کرنے کوشش کرتے ہیں اور اسمیں شامل دونوں فریق اپنا اپنا پھر پور طاقت استعمال کریں گے، چونکہ انسانی سماجی زندگی کا ارتقائی عمل اسی مسئلے کی تعین اور اسکی حل ڈھونڈنے میں مضمر ہے،اگر ہمارے پیش روؤں نے یہ سوچا ہی نہیں ہوتا کہ فطرت کے ان تمام مہیاشدہ عوامل میں انسان کو اجتماعی حیثیت سے کوئی اہم مسئلہ درپیش ہی نہیں تو ہم کیوں نہ اسی پتھر کے زمانے میں جی رہے ہوتے،مسئلے کا تعین دراصل جدت کی جانب سفر کرنے کا اولین قدم ہے۔۔۔
تجاہلِ عارفانہ cogniitive dissonance
تجاہلِ عارفانہ کا جو تصور ہے وہ 1950میں Leon Festingerنے پیش کی تھی اور اسکو تجرباتی بنیادوں پر ثابت کردیا کہ لوگ کس طرح اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو جان بوجھ کر رد کرتے ہیں اور اسے ایک زریعہ بناتے ہیں خود کو صحیح ثابت کرنے کے لیئے، کو ئی بھی انسان ایسا نہیں جسکا عمل کسی محرک سے وابستہ نہ ہو اگر وہ محرک شعوری یا جسمانی طور پر موجود نہ تو اس کام سر انجام پانا بذاتِ خود ایک عبث بات ہوگی ہر کام اورہر بات کے پیچھے ایک محرک کار فرما ہے جو ہمیں اکساتا ہے عمل کرنے کے لیئے، اب اگر میں غلط کررہاہوں اور کوئی آکر مجھے سمجھانے کی کوشش کرے اول تو میں مانوں گا ہی نہیں کیونکہ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ غلط ہے تو میں ارادہ وہ کام ہی کیوں کرتا اور اگر میں ارادی طور پر اس کام میں مشغول ہوں تو مجھے پہلے سے پتہ ہے کہ میں غلط سمت میں جارہاہوں اور غلط کام کررہاہوں تو میں کسی اور کہ کہنے سے کیوں مانوں بلکہ میں وہ عمل کسی اور مقصد سے انجام دے رہا ہوں جو کہ کسی دوسرے کو معلوم نہیں اور میں اپنے اس عمل کا دفاع کسی بھی صورت اور کسی بھی قیمت پر کرنے کو تیار رہوں گا۔
کیونکہ بسا اوقات انسان اپنے اعمال کی انجام دہی میں بہت ساری غلطیوں،کوتاہیوں اورکمزوریوں کو درگزر کردیتا ہے کیونکہ اسکے مطابق یا تو وہ غلطی کے زمرے میں ہی نہیں آتے یا پھر وہ جو کام کررہاہے اس کام کے مقابلے میں یہ غلطیاں اسکی عشرِعشیر تک نہیں ہیں،اس حوالے سے ہمیں بچپن میں پڑھی ہوئی وہ کہانی یاد ہے کہ انگور کٹھے ہیں، ’’کیونکہ لومڑی ان تک پہنچ نہیں سکتا اور وہ یہ قبول کرنے سے انکاری ہے میں پہنچ نہیں سکتا بلکہ وہ اس حوالے اپنے دل کو تسکین دیتا ہے کہ انگور مجھے واقعی میں نہیں چاہیءں کیونکہ انگور کٹھے ہیں‘‘ یہی چیز تجاہل عارفانہ(جان بوجھ کر غلطی کرنا)کی بنیادی اسباب ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہوئے بھی ماننے سے انکاری ہیں اور تجاہل عارفانہ سماجی و سیاسی حوالوں سے تباہ کن ہے کیونکہ سیاست میں دراصل جذباتی پن کا بہت زیادہ عمل دخل ہے اور یہ عمل دخل بہت سارے دیگر لوگوں کے لیئے ان تمام باتوں کی حقیقت ہونے کی دلیل ہوگی کہ فلاں شخص نے یہ باتیں کی ہیں لہذا وہ سند کا درجہ رکھتی ہیں،اور وہ اس تجاہل عارفانہ کی روش کو باآسانی سمجھنے سے قاصر ہیں اور نتیجتاَ وہ اسکے پیچھے ہو لیتے ہیں،
اس روش کی بنیاد پراصل میں حقیقی مسائل کو لے کر لوگوں کا دھیان بانٹنے کا یہ عمل ایک منظم بنیادوں پر کی جاتی ہے، جس کی بنا پر وہ لوگ جو مسائل سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہوئے بھی مسائل کو اس انداز اور سلیقے کے ساتھ گھما پھرا دیتے ہیں کہ جیسے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مسئلہ اصل میں موجود ہی نہیں ہے،وہ بحث بھی کرتے ہیں دلیل و حجت سے کام لیتے ہوئے وہ غلبہ پانے کی ضرور کوشش کرتے ہیں مگر نادم ہوکر اور کئی دیگر طریقے بھی آزماتے ہیں، انکا صرف ایک متعین مقصد ہوتا ہے کہ اصل بات تک لوگوں کی سوچ کسی بھی صورت نہ پہنچے،کیونکہ لوگوں کی سوچ اگر اس مدار تک پہنچ گئی تو پھر الٹ پلٹ کرنے کا کوئی خاص امکان بھی باقی نہیں رہے گا اور اسکا سب سے بہترین حل تو یہ ہوگا کہ اصل میں اسی بات کو حل کئیے بغیر اسکو دبایا جائے، مگر طویل مدت تک یہ امر ممکن نہیں۔ 
کیا مسئلے کی جستجو و تلاش نقصان دہ ہےجستجو اور تلاش اس چیز کا لازمی ہے کہ جو موجود تو ہے مگر زہنوں اور آنکھوں سے شاید اوجھل ہے، مثلاَ انقلابی جنگوں،سیاسی و عسکری عملداریوں سمیت دنیا کے بہت سارے تزویراتی فیصلوں میں تقریباَ تمام تر چیزیں راز داری سے سرانجام پاتی ہیں اور ان میں اگر کوئی مسئلہ بھی موجود ہو تو اسے اندرونی تہہ خانوں میں نمٹا کر صلح صفائی کی جاتی ہے مگر جب چیزیں اندرونی سطحوں سے ابھر کر باہر آنا شروع ہوجائیں تو جستجو اور تلاش فرض بن جاتا ہے،اور ایسے معاملات عام طور پر باہر نہیں لائے جاتے اور اگر کبھی انکو عام حوالوں سے آشکار کیا گیا تو اسکے پیچھے چھپے محرکات کا سمجھنا بھی لازمی ہے،کیا سر بستہ رازوں کو طشت از بام کرکے وہ لوگ کوئی مراعات یا مادی فوائد کا حصول چاہتے ہیں؟ کیا ان رازوں کو افشاں کرنے کے ساتھ ان لوگوں نے اپنی ذمہ داریاں بھی چھوڑ دی ہیں؟کیا وہ لوگ اس دورانیے میں اپنے نصب العین سے منحرف ہوئے ہیں؟ کیا انہوں نے ان تما م سوالات کی نشاندہی کرتے ہوئے انکی مجوزہ حل کو اپنی ذاتی پسند نا پسند تک محدود کردیا ہے ؟ یہ اور ان جیسے بہت سارے دیگر سوالوں کے جوابات ہمیں ہرحال میں حاصل کرنے ہونگے، اطلاعات کی حصول اور اسکو چھان بین نقصاندہ امر نہیں ہے بلکہ اطلاعات کو من و عن قبول کرنایا پھر اسے آنکھیں بند کرکے مسترد کردینا تباہی کی علامات ہیں، مسئلے کی وجود، معیار اور دعوے کی جامعیت کے لیئے ہم چیزوں کو انکو پس منظر اور تاریخ وردات کی شکل میں جانچ سکتے ہیں، کوئی بھی دعوی یا الزام خلا سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ ہم جیسے انسانوں کی مادی و دنیائی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، اور اسی دنیا میں ہمارے سماج کے صفوں کے اندر ہونے والے ان سرگرمیوں سے متعلق الزامات کی باتیں کی جاتی ہیں جنہیں ہم شب و روز اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، اور ان کی تجربات سے ہم براہ راست استفادہ کررہے ہوتے ہیں۔لہذا ان تمام حقیقتوں اور ان کے پس پردہ محرکات و عوامل کو غور و خوض کے بعد سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔مسئلے کے بارے میں تحقیق نقصاندہ امر نہیں ہے مگر ان لوگوں کے لیئے جو پہلے سے یہ سمجھ چکے ہیں کہ مسئلہ اگر واضح ہوگیا تو ان کے کرتوت واضح ہوجائیں گے لہذا ان کے لیئے اس مسئلے کو لے کر بات کرنا بہرصورت نقصاندہ امر ہوگی لیکن بحیثیت قوم ہم نقصانات کو مجموعی اعتبار سے دیکھتے ہیں نہ انفرادی حوالوں سے، البتہ غور و تحقیق سے ملزمان کا تعین اور مستقبل میں ان غلطیوں کے دہرانے کا سدباب ضرور ہوگا۔
کیا تعمیری اختلافات دشمن کے مفاد میں ہونگے۔
اگر اختلافات و انحرافات اس قدر بڑھ جائیں کہ رسمی و تنظیمی سطحوں پر انکا حل ہونا نا ممکن ہو تو اختلافات کو سمجھنے اور انہیں دوسروں کو سمجھانے کے لیئے عوام کے سامنے رکھنا لازمی امر بن جاتا ہے کیونکہ دیگر تمام اختیاری تدابیر ختم ہوجاتے ہیں اور مسائل اپنی سطح پر باقی رہ جاتے ہیں، لیکن اس امر کو سمجھنا لازمی ہے کہ اختلاف پر تنقید و غور فکر کرنے سے دشمن کو عارضی طور پر تو شاید نقصان نہ ہو مگر طویل دورانیے میں قومی سیاسی اداروں کی ساخت اس طرح مضبوط بن کر ابھری گی کہ دشمن کا ان پر وار کرکے انہیں شکست سے دوچار کرنا مشکل بن جاتا ہے، دشمن کو بلواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ اس صورت میں پہنچ سکتا ہے کہ کسی طرح کی تنقید اور اختلاف کو ابھارنے میں دشمن خود ملوث ہو، مگر اس طرح کہ تنقید و تحقیق کا عمل ایک آزاد حیثیت میں شروع ہوکر بغیر کسی دباؤ کے محض معروضی حقائق کا تجزیہ کرتے ہوئے انکو ایک منطقی انجام تک پہچانے کی کوشش کرے اور اس عمل میں بد نیتی کا شائبہ تک موجود نہ ہو تو پھر دشمن کس طرح فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔
تنقید و تحقیق کا جو نچوڑہوگا وہی قومی اداروں کی تشکیل کی راہیں کھول دے گا، تنقید سے ڈر نے والے وہ ہونگے جو اسکے زد میں آنے کی خوف سے منہ پر تالے لگائے ہوئے ہوتے ہیں، اگر بغیر غور و تحقیق کے قومی ادارے تشکیل پاتے اور اس طرح راتوں رات انقلابی عمل کی آبیاری ہوتی تو ہم بحیثیت ایک قوم پچھلے کئی سالوں سے گرتے پرتے مگر لڑتے ہوئے آرہے ہیں تو آج حالت کیا ہے، وہی قومی تنظیم اور پارٹیاں جنہیں ہم بہ زعم خود ادارے سمجھتے تھے آج انکی کیا حالت ہوچکی ہے، اگر سیاسی میدان کی بات کریں یا پھر جنگی محاز کی ہمیں جس شدت سے آج ادارہ سازی کی ضرورت محصوص ہو رہی ہے وہ شاید پہلے کبھی نہ تھی اور یہی سبب ہیکہ ہم بغیرغور وتحقیق کے عمل کرتے رہے اور محض چند کوتاہیوں نے آج پوری جنگ اور سیاست کی بساط ہمارے سامنے واضح کردی ہے، اس تنقیدی عمل کو منطقی انجام تک چلنا پڑے گا کہ جہاں پہنچ کر سیاہ و سفید کا فیصلہ کن مرحلہ آئے، اس سے دشمن کو کامیابی کچھ نہیں مل سکتی ہاں دشمن یہ ضرور چاہے گا کہ کسی طرح اس غور و فکر اور خامیوں و کوتاہیوں کی نشاندہی و سدباب کے عمل کو بند کیا جائے کیونکہ دشمن سمیت ہم سب کو معلوم ہے کہ جب احتساب کا عمل ہوگا تو اسمیں سردار و نواب سے لیکر ایک عام بلوچ تک سب کی اچھائیوں اور برائیوں کا فیصلہ بھی ہوگا اور اس عمل سے ایک نئی رجحان اور روایت جنم لے گا جو آئندہ کی ممکنہ کوتاہیوں اور خامیوں کی تدارک کے لیئے ایک تسدیدی حیثیت کا حامل ہوگا۔۔۔۔۔۔تنقید و تحقیق انقلابی عمل کا اساس ہیں۔۔۔