پیر، 30 نومبر، 2015

’’ آئی ایس آئی ایس‘‘ سے’’ آئی ایس آئی‘‘ تک تحریر : ذولفقار بلوچ



نائین الیون کے بعد بہت سے دانشوروں نے پیشن گوئی کی تھی کے آنے والے دس سالوں تک امریکی پالیسیز
 دہشتگردی کے گرد ہی گھومتی رہیں گے لیکن آج اگر عالمی حالات پر طائرانہ نگاہ ڈال کر جانچا جائے تو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے دس سال مزید امریکی پالیسیاں اور ترجیحات دہشتگردی اور مذہبی جنونیت کے خاتمے کے گرت ہی گھومتی رہیں گے ۔ 2001 سے ابتک امریکہ نے جتنے معرکے سر کیئے ، جہاں جہاں فتح کے جھنڈے گاڑھے ان سب کا حاصل و حصول مذہبی شدت پسندی کے مزید بڑھوتری کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ عراق سے امریکی فوج کی انخلاء کے بعد وہاں ایک طرف تو شیعہ سنی فسادات نے عراق کے وحدت پر بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے تو دوسری طرف سے سنی انتہاء پسند جماعت آئی ایس آئی ایس جسے عرب داعش کہہ کر پکارتے ہیں شام کے بعد عراق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرکے اپنے خلافت کا اعلان کردیا ہے ۔ آنے والے دنوں میں مشرق وسطی ٰ سمیت جنوبی ایشیاء اور خاص طور پر بلوچستان پر اس بدلتے عالمی منظر نامے کا کیا اثر ہوگا یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے ، کیونکہ اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ 2014 میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد تحریکِ طالبان افغانستان داعش جنگجووں کی طرح افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کریں گے ، اسی طرح شمالی و جنوبی وزیرستان، سوات ، وانا وغیرہ اور ان سے منسلک علاقوں میں جہاں تحریکِ طالبان پاکستان خاص طور پر ملا فضل اللہ گروپ ، سجنا گروپ ، منگل باغ گروپ ، حافظ گل بہادر گروپ ، اعظم طارق گروپ ، شہریار محسود گروپ ، ازبکستان اسلامک موومنٹ اور ایسٹ ترکستان موومنٹ اپنا محفوظ جنت بنا چکے ہیں وہ بھی پیش قدمی کرنے اور اپنے علاقوں میں خلافت طرز کا کوئی ریاست بنانے کیلئے کوشش کرسکتے ہیں ۔ عراق میں آئی ایس آئی ایس کی پیش قدمیوں اور فتوحات کا افغانستان و پاکستان میں موجود گروہوں پر کیا اثر ہوگا یہ سوال اسی خطے میں ایک آزاد ریاست کے جدوجہد میں مصروف بلوچوں کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، کیونکہ اگر مستقبل میں یہاں بھی امریکی انخلاء کے بعد مذہبی شدت پسند گروہ پیش قدمی کرکے خلافت قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر کیا بلوچوں میں کردوں کی طرح اتنی طاقت ہے کہ وہ لڑ کر ان مذہبی شدت پسندوں کو اپنے علاقوں میں داخل ہونے سے روک سکیں گے ؟ کردوں نے اپنے خطے کے اس بدلتے صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آزادی کا اعلان کیا ہے ، اور بہت جلد وہ اس پر ریفرنڈم بھی کرانے کی تیاریاں کر رہے ہیں ، لیکن اس سے پہلے کردوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ اس مذہبی شدت پسندی سے خود کو محفوظ رکھنے کی قابلیت رکھتے ہیں بلکہ بوقتِ ضرورت وہ ان سے مقابلہ بھی کرسکتے ہیں ، تادم تحریر YPG کے کرد جنگجو اپنے علاقے ’’ کوبانے ‘‘ کی حفاظت کیلئے آئی ایس آئی ایس سے لڑرہے ہیں ، کردوں کو آزادی پلیٹ میں سجی نہیں مل رہی بلکہ اس کے پیچھے انکی نا صرف سو سالہ قربانیوں اور جدوجہد کی تاریخ ہے بلکہ صحیح موقعوں پر صحیح فیصلے کرنا بھی اس میں شامل ہے ، میرے خیال میں عالمی صورتحال کی پرکھ اور سیاسی بالیدگی کی جتنی ضرورت بلوچ قوم تحریک کو آ ج ہے شاید کبھی نہیں تھی ، اسلئے ہر بدلتے صورتحال کا تجزیہ اور اس پر غور اور اس کے اثرات کا بلوچ کاز پر اثرات کی جانچ ہی صحیح معنوں میں بلوچ سیاسی کارکنوں کا کام ہے تاکہ بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے مستقبل کیلئے موزوں حکمت عملیوں پر عمل پیر ا ہوا جاسکے ۔ ہم اپنے ار گرد کسی بھی وقوع پذیر واقعے سے چشم پوشی کے متحمل نہیں ہوسکتے ، یہاں تو پورے مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ ہی بدلنے والا ہے بلکہ کافی حد تک بدل چکا ہے ، آئی ایس آئی ایس نے خلافت کا اعلان کردیا ہے کرد اپنے آزادی کا اعلان کرنے والے ہیں ۔ اس حوالے سے بلوچ سیاست کیا رخ اختیار کرسکتی ہے اور کونسا رخ اختیار کرنا چاہئے ایک انتہائی اہم موضوعِ بحث ہے ، اسی موضوع کو مدنظر رکھ کر میں موجودہ حالات کا ایک مختصر خاکہ اپنے محدود علم و دانست کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کرنا چاہوں تو بحث کا آغا ز عراق اور آئی ایس آئی ایس سے ہی ہوگا۔ 
آئی ایس آئی ایس جس کا انگریزی مخفف Islamic state in Iraq and Syria ہے عرب دنیا میں داعش کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ یہ القاعدہ سے ٹوٹ کر بننے والی ایک سنی مذہبی انتہاء پسند جماعت ہے ۔ یہ اپنے نام کی حد تک محدود ایک ریاست نہیں بلکہ اب یہ ایک عملی ریاست کا شکل اختیار کرچکا ہے ( گوکہ ناجائز) یہ شام کے شہر الرقع سے لیکر عراقی شہر فلوجہ تک پھیلی ہوئی ہے ۔ یہ اپنے زیر قبضہ علاقوں پر ناصرف مکمل کنٹرول رکھتا ہے بلکہ وہاں پورے نظامِ زندگی کو چلا رہا ہے ، انکی عدالتیں ، اسکولیں حتیٰ کے میونسپل کمیٹی بھی کام کر رہے ہیں ، یہ اپنے زیر قبضہ علاقوں میں تیل کے کنووں سے پورا ٹیکس وصول کر رہے ہیں اور کافی حد تک عوام کو بنیادی ضروریاتِ زندگی بھی مہیا کر رہے ہیں ۔ آئی ایس آئی ایس اصل میں 2006 کے دوران سامنے آنے والی سیاسی جماعت اسلامک اسٹیٹ آف عراق سے نکلی ہوئی مسلح جماعت ہے ، اس کا پہلا امیر امریکی حملے میں مارے جانے والے زرقاوی کو کہا جاتا ہے ۔ زرقاوی پہلے افغانستان میں ایک گروپ کو لیڈ کر رہے تھے لیکن بعد میں انہیں عراق بھیجا گیا جہاں انہوں نے القاعدہ سے منسلک مسلح تنظیم بنائی ۔ آئی ایس آئی ایس کے نام سے یہ جماعت 2013 میں سامنے آئی اور بہت جلد عراق اور شام میں حکومتوں کے خلاف لڑنے والے مسلح تنظیموں میں اسکا نام سر فہرست آنے لگا ۔ اس کے امیر کا نام ابو بکر البغدادی ہے ۔ شام میں باتھسٹ اسد حکومت کے خلاف مذہبی جنونیوں کے بغاوت کے آغاز کے وقت یہ سب القاعدہ سے منسلک جماعت ’’ جبہت النصریٰ ‘‘ کے پلیٹ فارم سے لڑ رہے تھے ، لیکن بغدادی یہ چاہتے تھے کہ جبہت النصریٰ کے امیر ابو محمد الگولانی انہیں امیر تسلیم کریں اور اس کے حکمت عملیوں کے مطابق چلے ، لیکن الگولانی نے اس سے انکار کردیا جس کی وجہ سے بغدادی نے آئی ایس آئی ایس قائم کرکے خود کو الگ کردیا ، اس کے اعلان کے ساتھ ہی کہا جاتا ہے کہ جبہت النصریٰ کے آدھے سے زیادہ جنگجوو ں نے آئی ایس آئی ایس میں شمولیت اختیار کرلی ۔اس کے فوراً بعد القاعدہ نے داعش جنگجووں سے قطع تعلقی کا اعلان کردیا اور اس کے کسی بھی عمل کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردیا ہے ۔ ماہرین کے مطابق القاعدہ کے اندر یہ اختلافات 1999 میں سامنے آئے تھے جب زرقاوی نے اسامہ بن لادن سے اختلاف رکھنا شروع کیا تھا ان اختلافات کے دو بنیادی وجوہات تھے زرقاوی کو لگتا تھا کہ القائد ہ شیعوں کے خلاف اتنی شدت سے کاروائی نہیں کر رہا جتنا کرنا چاہئے ، زرقاوی شیعہ فرقے کے خلاف ایک مکمل جنگ چھیڑنا چاہتے تھے وہ اپنے گروپ کی مدد سے عراق میں کئی شیعہ تاریخی مقامات کومنہدم کرچکے تھے لیکن القائدہ اپنی توجہ شیعہ فرقے سے زیادہ مغرب کی طرف کرنا چاہتا تھا دوسرا اختلاف انکے طریقہ کار پر تھا زرقاوی ایک اسلامی ریاست اور خلافت چاہتے تھے تاکہ وہیں سے وہ پوری دنیا پر اپنے حملوں کی تیاری کریں لیکن اسامہ اس کے خلاف تھے ۔اسی اختلاف نے 15 سال بعد آئی ایس آئی ایس کو جنم دیا جو زرقاوی کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے پیش قدمی کر رہے ہیں ۔ شام میں آئی ایس آئی ایس ، جبہت النصریٰ سمیت کئی اور مذہبی شدت پسند تنظیمیں النصریٰ فرنٹ کے نام سے اسد حکومت کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے،ابتداء میں آئی ایس آئی ایس قائم ہونے کے بعد بھی القائدہ سے جڑا ہوا تھا لیکن شام میں دوران جنگ ان کے ایمن الظواہری سے اختلافات شروع ہوگئے ۔ ابوبکر البغدادی چاہتے تھے کہ ایک طرف سے اسد حکومت کے خلاف لڑی جائے تو دوسری طرف سے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں حکومت کا اعلان کرکے یہاں اسلامی ریاست بنائی جائے لیکن ایمن الظواہری آئی ایس آئی ایس کے طریقہ کار سے نالاں تھے انہوں نے ان کے طریقہ کار جس میں عام آبادیوں پر بلا امتیاز حملے شامل تھے کو القائدہ کیلئے نقصاندہ قرار دیا اور بغدادی کو حکم دیا کے وہ شام چھوڑ کر اپنی توجہ صرف عراق پر مرکوز کریں اور شام کی ذمہ داری القاعدہ سے دوسری منسلک جماعت النصریٰ فرنٹ کے ہاتھوں میں دے دی، یہاں سے اختلافات نے شدت اختیار کی اور آئی ایس آئی ایس مکمل الگ ہوگیا ۔ اسکے بعد انہوں نے پیش قدمی کرکے نا صرف عراق کے کئی مرکزی شہروں پر قبضہ کیا ہوا ہے بلکہ شام کے اہم علاقوں پر بھی ان کا قبضہ ہے ۔اسکے بعد کچھ علاقوں پر کنٹرول کیلئے آئی ایس آئی ایس او النصریٰ فرنٹ کے بیچ کئی جھڑپیں ہوچکی ہیں جن میں ان کے کئی جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایک انتہائی قلیل مدت میں آئی ایس آئی ایس کا ابھر کر سامنے آنا اور اتنی بڑی طاقت بننے کے پیچھے ان کے کرشماتی لیڈر ابوبکر البغدادی جو ابو دعا کے نام سے بھی مشہور ہیں کا ہاتھ ہے جن کے حکمت عملیوں کے بدولت نا صرف آج آئی ایس آئی ایس ایک وسیع رقبے پر قابض ہے بلکہ اس سے متاثر ہوکر آج مغربی ممالک سے بھی کثیر تعداد میں مسلمان آئی ایس آئی ایس کے پلیٹ فارم سے لڑ رہے ہیں۔43 سالہ بغدادی عراق کے شہر سمارہ میں پیدا ہوئے،وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلامک اسٹیڈیز ، شاعری اور تاریخ میں گریجویشن کی ہے ۔وہ 2005 سے لیکر 2009 تک امریکی فوج کے ہاتھوں گرفتار رہے تھے ۔ رہائی کے بعد انہوں نے دوبارہ اپنی تنظیم اسلامک اسٹیٹ ان عراق میں کام شروع کیا اور 2010 میں اس کے امیر بن گئے ، لیکن دوسری طرف بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ بغدادی کے کردار سے زیادہ داعشوں کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے عراق کے سابق صدر صدام حسین کے بعث پارٹی سے الحاق کیا ہے آج بعث پارٹی کے کئی سابق کارکن اور صدام حسین کے کئی وفادار سابق جنرلز اور فوجی ان کے ساتھ ہیں کیونکہ نورالمالکی کے شیعہ حکومت کے آنے کے بعد سنی باتھسٹ خود کو نظام سے الگ تھلگ پاتے تھے ۔ ماہرین کے مطابق عراقی شہروں پر حملوں کے سارے منصوبے صدام حسین کے سابق جنرلز تیار کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف سے بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ داعشوں کے کامیابی کے پیچھے سب بڑا راز ان کامالی طور پر بے انتہاء امیر ہونا ہے ایک طرف سے عرب دنیا کے امراء بشار الاسد کے خلاف لڑنے کیلئے انہیں بے تحاشا پیسہ فراہم کر رہے ہیں تو دوسری طرف سے وہ تیل کے کنووں سے بھی کمائی کر رہے ہیں بہت سے تیل کے کنویں قبضے کے بعد انہوں نے شامی حکومت کو دوبارہ مہنگے داموں بیچیں جہاں سے انہوں خطیر رقم ملی ہے۔ اس کے علاوہ شام کے علاقے النبوک پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں کے قدیم جگہوں سے نوادرات نکال کر بیچی گئی ہے، جن کی مالیت 36 ملین ڈالر ہوتی ہے ، جن میں 8000 سال پرانے نوادرات شامل ہیں ۔امریکی خفیہ اداروں کے ایک رپورٹ کے مطابق عراق کے شہر موصل پر قبضہ کرنے سے پہلے ان کے پاس 875 ملین ڈالر تھے لیکن موصل پر قبضہ کرنے کے بعد داعشوں نے وہاں کے تمام بینکوں کو لوٹا جس سے ان کا بجٹ اب 2بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور دوسری طرف موصل کے فوجی چھاونی پر قبضے کے دوران ہاتھ آنے والے جدید ہتھیاروں سے انکے عسکری قوت میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوچکا ہے ۔
آئی ایس آئی ایس کے قیام سے لیکر ان کے مضبوط ہونے تک جو بھی وجوہات ہوں لیکن آج یہ ایک حقیقت بن چکی ہے کہ وہ ایک بہت بڑے طاقت کی صورت میں سامنے آئیں ہیں انہوں نے نا صرف عراق کے زیادہ تر سنی علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے بلکہ اب وہ نا صرف مغربی ممالک بلکہ سعودی عرب ، ایران اور ترکی کیلئے بھی بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں ۔ انہوں نے اپنے مستقبل کے حوالے سے ایک نقشہ بھی شائع کیا ہے جس میں ان تمام علاقوں کو ظاھر کیا گیا ہے جہاں وہ پیش قدمی کا ارادہ رکھتے ہیں اور اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں ۔اس نقشے میں بلوچستان بھی شامل ہے ۔ اب ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ پاکستان و افغانستان میں موجود مذہبی شدت پسند گروہوں کے ساتھ ملکر اس خطے میں پیش قدمی کریں گے سب سے اہم کیا اس پیش قدمی میں بلوچستان شامل ہوگا ؟ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں موجود شدت پسند گروہوں کے شام کے شدت پسندوں سے گہرا تعلق ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ابتک تحریک طالبان اپنے کئی جنگجو شام بھیج چکا ہے ، جو پاکستان اور ترکی کے حکومتوں کی معاونت سے کراچی سے خاص طور پر ترکی کے طیاروں میں ہوتے ہوئے شام پہنچے ہیں ۔جس سے شامی باغیوں اور تحریک طالبان کا تعلق ظاھر ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود دو اہم وجوہات ایسے ہیں جن کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ داعش جنگجو اس خطے میں خاص طور پر بلوچستان کی طرف مستقبل قریب میں پیش قدمی کرنے کی کوئی کوشش نہیں کریں گے ۔
۱۔پاکستان و افغانستان میں موجود طالبان القاعدہ سے منسلک ہیں ۔ ان کے قیام سے لیکر ابتک القاعدہ انہیں مکمل طور پر مالی ، عسکری اور عددی لحاظ سے کمک کرتا رہا ہے، اس وجہ سے یہ ہمیشہ سے اپنا امیر اعلیٰ اسامہ بن لادن کو سمجھتے رہے ہیں اور اسامہ کے بعد یہ سب ایمن الظواہری کے پابند ہیں ۔ آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ کے بیچ اختلافات اور بعد میں علیحدگی کی وجہ سے پاکستانی شدت پسندوں کے تعلقات داعش جنگجووں سے بگڑ گئے ہیں ۔ القاعدہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے تحریکِ طالبان ابتک اپنے تمام جنگجو النصریٰ فرنٹ کے مدد کیلئے بھیجتا رہا ہے جو شام میں داعشوں کا سب سے بڑا حریف ہے جن کے بیچ علاقوں کے کنٹرول کے حصول پر لڑائیاں ہوچکے ہیں ۔ دوسری طرف سے ابوبکر البغدادی نے خود کو خلیفہ قرار دیتے ہوئے تمام مسلمانوں کو بیعت اور اطاعت کا کہا ہے لیکن القاعدہ اور طالبان یہاں پہلے سے ہی خلیفہ ملا عمر کو مانتے ہیں ، جس کے وجہ سے اب انکے بیچ نیا تنازعہ کھڑا ہوچکا ہے ۔
۲۔ دوسری اہم وجہ بلوچ زمینی حقائق ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو داعشوں نے عراق کے تمام ان علاقوں پر حملہ اور قبضہ کیا ہے جہاں سنی اکثریت میں رہتے ہیں کیونکہ صدام حسین کے بعد امریکا نے عراق کی حکومت نورالمالکی کے سربراہی میں شیعہ فرقے کے ہاتھوں میں دے دی جس کی وجہ سے وہاں کے سنی حکومت سے خائف ہیں ۔ نورالمالکی نے بھی تمام وزارتیں اور اہم عہدے شیعوں کو دے کر سنی مسلک کو الگ تھلگ کردیا ہے جس کی وجہ سے سنی دوبارہ اقتدار کے طلبگار ہیں ۔ اس حوالے سے پہلے ہی داعشوں کی سیاسی جماعت سابقہ اسلامک اسٹیٹ آف عراق نے کئی شیعہ مخالف سنی احتجاج بھی کروائے کئی جلسے بھی منعقد کرکے عوامی رائے اپنے حق میں ہموار کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب داعش ان سنی اکثریتی شہروں میں داخل ہوئے تو انہیں کوئی خاص مزاحمت کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ایک تو طویل شیعہ سنی فسادات اور اختلافات کی وجہ سے سنیوں میں شیعہ مخالف اور مذہبی جنونی جذبات بھی غالب تھے جو آئی ایس آئی ایس کو ان علاقوں میں نظریاتی گراونڈ بھی فراہم کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے عراق کے دارلحکومت بغداد سے چند کلومیٹر دور ہونے کے باوجود وہ بغداد پر حملہ نہیں کر رہے کیونکہ وہاں انہیں وہ نظریاتی گراونڈ نظر نہیں آرہی ۔ اگر بلوچ سماج کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات صاف عیاں ہوتی ہے کہ بلوچ سیکیولر روایات کی وجہ سے بلوچ مذہبی طور پر معتدل ہیں اور کسی بھی مذہب، فرقے یا مسلک کو جذب و برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ بلوچ اکثریت اعتدال پسند ہیں اور مذہبی جنونیت کی نفی کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ہمیشہ سے بلوچستان میں ترقی پسند قوم پرست نظریات کو پذیرائی تو حاصل رہی ہے لیکن مذہبی جنونیت کبھی اتنا جڑ نہیں پکڑ سکا ہے ۔ داعش کے علاوہ اگر کبھی تحریک طالبان پاکستان یا افغانستان بھی کبھی یہاں علاقوں پر کنٹرول حاصل کرکے خلافت قائم کرنا چاہیں بھی تو انہیں کبھی بلوچستان میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ چھوٹی افرادی قوت کے باوجود بڑے شہروں اور علاقوں پر قبضہ کرنے اور قبضے کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ان علاقوں میں آپ کو عوامی حمایت حاصل ہو آپ کیلئے نظریاتی گراونڈ موجود ہو ۔ طالبان کئی دہائیوں سے فاٹا وغیرہ میں بآسانی اس لیئے رہ رہے ہیں کیونکہ وہاں انہیں کسی نا کسی حد تک نظریاتی گراونڈ میسر ہے وہاں لوگ زیادہ تر مذہبی کٹر پن کا شکا ر ہیں جو ان مذہبی جنونیوں کو اپنے تئیں جگہ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
ان سب عوامل کے باوجود یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر ایک طرف سے دنیا کیلئے آئی ایس آئی ایس خطرہ بنا ہوا ہے اور اپنے مذہبی جنونیت کے ساتھ علاقوں پر قبضہ کرکے وہاں کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف آئی ایس آئی ایس کے ایجنڈے کے طرز پر بلوچستان میں آئی ایس آئی اپنے مذہبی شدت پسندوں کو بلوچ سماج میں داخل کر رہا ہے اور مذہبی جنونیت کو بڑھوا دینے کی سعی کر رہا ہے ۔ بلوچستان پر قبضہ کے بعد سے ابتک پاکستان یہاں کئی بڑے پیمانے کے فوجی آپریشن کرچکا ہے جن میں ہزاروں بلوچوں کو شہید اور ہزاروں کو لاپتہ کیا جاچکا ہے ۔ اپنی اس بربریت کی وجہ سے پاکستان 4 بڑے بلوچ مزاحمتی تحریک کچل چکا ہے لیکن ہر بار کچل دینے کے باوجود بلوچ تحریک نے دوبارہ سر اٹھایا ہے اور پہلے سے بھی زیادہ شدت اور جدت کے ساتھ بلوچ تحریک آزادی کے کاروان کو آگا بڑھاتا رہا ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ مذہبی شدت پسندی سے دور ہونے کی وجہ سے بلوچ سماج میں ترقی پسند خمیر موجود ہے اور یہ ترقی پسند سوچ ہی پاکستان کے اس ناجائز رشتے جو مذہب کے نام سے جڑا ہے کو مسترد کرکے قوم پرستی کو وہ نظریاتی گراونڈ میسر کرتی ہے جو کسی بھی تحریک کا اساس ہوتا ہے ۔ گذشتہ دس سالوں کا اگر ہم جائزہ لیں تو پاکستان نے یہاں ظلم و بربریت کے ہر حربے کو استعمال کیا ہے ۔ فضائی بمباری ہو یا لوگوں کے گھر جلانا ، لاپتہ کرنا ہو یا مسخ شدہ لاشیں پھینکنا پاکستان ہر طرح سے اس تحریک کو دبانا یا کچلنا چاہتا ہے لیکن ان تمام مظالم کے باوجود تحریک ایک جگہ سے تھوڑا معدوم ہوکر دوسری جگہ زور پکڑتا ہے پھر اسی طرح دوسری جگہ سے تیسری جگہ شہروں میں زیادہ سختی ہو تو پہاڑوں میں تحریک شدت پکڑتی ہے پہاڑوں میں اگر سختی ہو تو پھر شہروں میں تحریک زور پکڑتا ہے ۔ پاکستان گذشتہ 10 سالوں کے دوران عملاً 20000 سے زائد بلوچوں کو شہید یا لاپتہ کرچکا ہے جن میں کئی سرکردہ لیڈر بھی شامل ہیں لیکن اس کے باوجود تحریک کے وقعت و وسعت پر کوئی اثر نہیں آرہا دوبارہ اس کی سب سے بڑی وجہ بلوچ سماج میں قوم پرستی و ترقی پسند رجحانات کا ہونا ہے جو بلوچ تحریک کو خام مال مہیا کرنے اور تسلسل سے مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اب پاکستان بلوچ قومی تحریک کے اس بنیاد پر نظریاتی حملہ کرنا چاہتا ہے ۔ قابض یہاں ایک سلسلہ وار منصوبے کے تحت اپنے مذہبی شدت پسند اور شدت پسند نظریات کو بنیادی سطح سے لانا چاہتا ہے۔ جس کا آغاز بلوچستان کے کونے کونے میں مدارس قائم کرنے سے ہوا، اس وقت بلوچستان میں سرکاری فنڈ سے چلنے والے سینکڑوں مدارس قائم ہیں جنہیں مکمل طور پر ریاست کی طرف سے اسپانسر کیا جاتا ہے دوسرے مرحلے میں پاکستان نے تبلیغی جماعتوں کی صورت میں اپنے پروپگینڈے کا آغاز کیا ، ہر جگہ تبلیغی مرکز قائم کیئے گئے ، بلوچستان کے ہر کونے میں تبدیلی جماعتیں بھیجیں گئی ، ہر سال کئی بڑے بڑے تبلیغی اجتماعات منعقد کی جاتی ہے ۔اب پاکستان کے اسی منصوبے کا تیسرا مرحلہ آچکا ہے جہاں پاکستان لشکرے جھنگوی طرز کے مذہبی شدت پسند عسکری جماعتوں کو بلوچستان میں داخل کر رہا ہے ۔ ایک طرف سے ان مذہبی جنونیوں کو پنجاب سے لاکر آئی ایس آئی یہاں منتقل کرکے انہیں کھلی چھوٹ دے رہی ہے تو دوسری طرف سے اپنے گماشتے اور جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ڈیتھ اسکواڈز کو مذہبی رنگ دیکر ان سے کاروائیاں کراکے یہ تاثر بھی ابھار رہا ہے کہ بلوچ سماج میں مذہبی شدت پسندی وجود رکھتی ہے ۔ بلوچستان میں شیعہ مسلک پر حملے ، عورتوں پر تیزاب پھینکنا ، پنجگور میں تعلیمی اداروں میں بچیوں کے تعلیم پر پابندی لگانا اور حملے کرنا سب اسی منصوبے کے شاخسانے ہیں ۔ اس کے پاکستان دو فوری فائدے حاصل کرنا چاہ رہا ہے ایک تو عالمی سطح پر یہ ظاھر کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ بلوچ سماج اصل میں افغانستان کی طرح مذہبی جنونیت اپنے اندر رکھتا ہے تاکہ دنیا بھر میں بلوچ کا جو سیکیولر چہرہ ظاھر ہے اسے مسخ کیا جائے اور مستقبل میں اس خطے میں ہونے والے کسی بھی تبدیلی کے وقت رائے عامہ بلوچ کے حق میں نہیں جا پائے تو دوسری طرف ان کاروائیوں سے پاکستان بلوچ خاموش اکثریت کو طاقت سے مرعوب کرکے مذہبی شدت پسند گروہوں کی طرف مائل کرنا چاہتا ہے وہ ایسا تاثر قائم کرنا چاہتا ہے کہ جو شخص بھی اگر ان مذہبی شدت پسندوں کی طرف ہوگا تو وہ محفوظ رہے گا تاکہ بلوچ سماج کے مذہبی اعتدال پسند اقتدار پر نظریاتی حملہ کرکے مذہبی جنونیت کی جڑیں یہاں قائم کی جائیں جس سے بلوچ ترقی پسند و قوم پرست نظریات کو کوئی گراونڈ نا مل سکے اور وہ بار بار سر نا اٹھا سکیں ۔ مستقبل میں وہ مزید شدت کے ساتھ ایسی کاروائیاں کریں گے اور گاہے بگاہے شاید ایسے بہت سے اقدامات سامنے آئیں جن سے مذہبی جنونیت کو یہاں فروغ اور بڑھاوا ملے ۔
ان سارے عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بآسانی کہی جاسکتی ہے کہ عراق میں دنیا کا سر درد بنے آئی ایس آئی ایس ہو یا پھر بلوچ نسل کشی کا مرتکب بلوچستان میں آئی ایس آئی ہو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں دونوں اپنے اپنے طریقے سے ایک مخصوص علاقے میں مذہبی جنونیت اور شدت پسندی کو بڑھاوا دے رہے ہیں ۔ دونوں کے اعمال سے نا صرف متاثرہ خطے بربادی کا شکار ہونگے بلکہ یہ عالمی امن و آتشی کیلئے ایک خطرہ بنے رہیں گے ۔ میرے خیال میں جہاں دنیا آئی ایس آئی ایس کے جنگجووں کے خلاف صف بندی کر رہا ہے اور عراقی حکومت کی ہر ممکن مدد کر رہا وہیں دنیا کو آئی ایس آئی کے خلاف بھی ایک واضح حکمت عملی کے ساتھ آنا ہوگا اور بلوچوں کی ہر ممکن مدد کرنی پڑے گی تاکہ مذہبی شدت پسندی اور عدم رواداری کے سامنے بند باندھا جائے ، جس طرح کرد آج ایک طرف سے ان مذہبی شدت پسندوں کے سامنے بہت بڑی دیوار بن چکے ہیں ، لیکن ان سب کے باوجود ہماری لیڈر شپ اور سیاسی جماعتوں و کارکنوں کو وہ سیاسی بالیدگی اور حکمت عملی دکھانے کی ضرورت ہے جو کردوں نے عراق میں دکھائی ۔ ہمیں ایک طرف سے بلوچستان میں پاکستان کی طرف سے پھیلائے جانے والے مذہبی جنونی پروپگینڈہ اور کاروائیوں کا اب مقابلہ کرنا ہوگا تو دوسری طرف سے ایک واضح حکمت عملی کے ساتھ بلوچ عوام سے جڑ کر اسے اس مذہبی جنونیت کے لہر کے خلاف تیار کرنا ہوگا اور اپنے اس نظریاتی گراونڈ کا حفاظت کرنا ہوگا جو ہمیشہ سے بلوچ قومی تحریک کو ایندھن و خام مال فراہم کرتا رہا ہے ۔آج بلوچ صرف ایک دشمن سے مد مقابل نہیں ہے بلکہ تین دشمنوں سے ایک ساتھ لڑ رہا ہے ایک پاکستان کی صورت میں قابض ہے دوسری سرمایہ دارانہ سامراجیت و کمرشلائزیشن کا غلبہ ہے تو تیسری طرف سے سعودی عرب ، ایران ،پاکستان کی طرف سے اسپانسرڈ مذہبی شدت پسندی ہے اب ان تین دشمنوں کے بیچ میں سے کہا ں مقابلہ کرنا ہے کہاں توازن برقرار رکھ کر چلنا ہے اور کہاں سمجھوتہ کرنا ہے بے انتہاء سیاسی بالیدگی ، عاقبت اندیشی اور وسیع النظری کا متقاضی ہے ۔ یہ جنگ بہت وسیع ہے اور جب جنگ وسعت اختیار کرلے پھر تنگ نظرانہ سیاست ، محدودیت اور گروہیت اپنے ہی زوال کا باعث بن جاتا ہے اس وسیع جنگ میں ان تین دشمنوں سے نمٹنے کیلئے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے اپنے تئیں موجود تنگ نظرانہ سیاست ، محدودیت اور گروہیت کو ختم کرنا اتنا ہی ضروری بن چکا ہے جتنا کہ یہ جنگ بذاتِ خود جتنی ضروری ہے ۔ 
(نوٹ : یہ مضمون اگست 2014میں لکھی گئی ہے ) 

جمعہ، 27 نومبر، 2015

بلوچ قومی تحریک انتہاء پسندی کا مکمل ضد ہے،: بی ایل اے کمانڈر بلوچ خان -

بلوچ قومی تحریک انتہاء پسندی کا مکمل ضد ہے، بی ایل اے کمانڈر بلوچ خان 
انٹرویو۔ کارلوس زرتوزا
ذرائع ابلاغ بلوچستان کو محض ایک شورش زدہ علاقہ ظاہر کرنے پر تکیہ کئے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے اس حصے میں ایک حقیقی جنگ چل رہی ہے۔ بلوچستان بلوچوں کی سرزمین ہے جسے آج وہ تین ملکوں پاکستان ، ایران اور افغانستان میں منقسم پاتے ہیں ، اسکا وسیع رقبہ فرانس جتنا ہے جو قدرتی معدنیات گیس ، سونا ، تانبا ، تیل اور یورنیم وغیرہ کے ذخائر سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ آبنائے ہرمز کے بالکل منہ پر ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحل کے بھی مالک ہیں ۔پاکستان کے زیرقبضہ بلوچستان نے اگست 1947 میں برطانوی راج سے اپنی آزادی کا اعلان کیا لیکن محض نو ماہ بعد پاکستانی آرمی نے بلوچستان پر چڑھائی کرکے اسے بزور قوت اپنے ساتھ شامل کیا جس سے اس مزاحمت کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ اب تجربہ کار باغی کمانڈروں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان داعش کے جنگجووں کو بلوچ سرزمین پر اڈے فراہم کرکے ان کی تربیت کررہا ہے۔ آئی پی ایس نے پاکستان اور افغانستان کے سرحد ی علاقے سر لٹ کے علاقے میں ایک خفیہ مقام پر بلوچ جہد کاروں سے ملاقات کی ۔یہ علاقہ طالبان کا افغانستان کے جنوب مشرقی مضبوط گڑھ قندھار اور پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ سے مساوی فاصلے پر واقع ہے ۔ جنگجووں نے دعویٰ کیا کہ وہ آئی پی ایس کے رپورٹروں سے ملاقات کرنے کیلئے 12 گھنٹے کا مسافت طے کرکے آئیں ہیں ۔وہ چار تھے جن میں بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر بلوچ خان ، ماما ، حیدر اور محمد شامل تھے جو اپنی اصل شناخت ظاہرنہیں کرنا چاہتے تھے ۔ کمانڈر بلوچ خان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ  اس علاقے میں طالبان کی کثیر تعداد ہے لیکن وہ اپنے رستے پر ہوتے ہیں اور ہم اپنے رستے پر ہمارا بمشکل ہی کبھی ایک دوسر ے سے سامنا ہوتا ہے انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ  میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بلوچ قومی تحریک انتہاء پسندی کا مکمل ضد ہے ،آج ہم بلوچوں کے سات مختلف مزاحمتی تنظیموں کا ذکر کرتے ہیں جو بلوچستان کے آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں لیکن ان سب کے ہدف ایک، مکمل قومی آزادی ہے  سالہ بلوچ کمانڈر نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی ایک بلوچ گوریلا جنگجو کے حیثیت سے گزاری ہے انکا کہنا ہے کہ انہوں نے زمانہ طالبعلمی میں ہی اس محاذ کا چناو کیا تھا ۔سینئر بلوچ کمانڈر بلوچ خان نے جنگجووں کی تعداد ظاہر کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے کہا کہ محض پاکستان کے زیر قبضہ مشرقی بلوچستان میں انکے 25 کیمپ ہیں۔ کمانڈر بلوچ خان نے اپنے تنظیم اور کردستان ورکرز پارٹی PKK کے مشترکہ اقدارکو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ  ہم خود کو کردوں سے بہت قریب سمجھتے ہیں ، آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے کزن ہیں ہماری طرح انکی سرزمین پر بھی انکے ہمسایوں نے قبضہ جمایا ہوا ہے  انہوں نے بلوچوں اور کردوں کو یک نسلی ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ آخرالذکر کا چار ریاستوں ایران ، عراق ، شام اور ترکی میں بٹ جانے پر بھی روشنی ڈالی ۔ تاریخی طور پر خانہ بدوش قوم بلوچ اسلام کے بارے میں ایک معتدل نظریہ رکھتے ہیں لیکن بلوچ خان نے الزام لگایا کہ اسلام آباد اب یہاں ایک منصوبے کے تحت فرقہ وارانہ فسادات برپا کرنا چاہتا ہے ۔  سال 2000 تک بلوچستان میں ایک بھی شیعہ قتل نہیں ہوا تھا، لیکن آج پاکستان ہر طرح کے مذہبی شدت پسندوں کا رخ بلوچستان کی جانب موڑ رہا ہے جن میں سے بہت سوں کا تعلق بلاواسطہ طالبان کے ساتھ ہے  بلوچ جنگجو نے اس دعویٰ کے ساتھ مزید اضافہ کیا کہ  لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ اور جبری گمشدیاں اب ہماری سرزمین پر عام ہوچکی ہیں  گمشدہ بلوچوں کے لواحقین کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ مسنز جو پر امن طریقہ سے لاپتہ افراد کے بازیابی کیلئے جدوجہد کررہا ہے وہ بلوچستان میں سنہ 2000سے جبری طور پر لاپتہ کیئے گئے بلوچوں کی تعداد 19000 بتاتی ہے حالانکہ بالکل درست تعداد بتانا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ آج تک کوئی بھی آزاد تحقیق اس بابت نہیں ہوئی ہے ، لیکن اس سال اگست میں انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان سے اپیل کی ہے کہ پاکستانی حکومت فوری طور پر اپنے خفیہ اداروں کے ان بہیمانہ کاروائیوں کو روکے جن میں وہ ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو بغیر بتائے اغواء کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کرتے ہیں تاہم بلوچ مسلح تنظیموں پر بھی عام شہریوں کو قتل کرنے کے الزامات ہیں ، اگست 2013 میں بلوچ لبریشن آرمی نے 13 لوگوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی جنہیں بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے تقریباً 50 کلومیٹر دورمچھ کے مقام پر جنگجووں نے بسوں سے اتار کر قتل کیا تھا ۔ پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بے گناہ شہری تھے جو پنجاب اپنے گھروں کو رمضان کی چھٹیاں منانے جارہے تھے لیکن کمانڈر بلوچ خان تصویر کا دوسرا رخ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ  وہاں دو بسوں میں 40 افراد سوار تھے ان میں سے 25 کو ہم نے گرفتار کرکے ان سے تحقیقات کی پھر آخر میں ان میں سے 13 کو سزائے موت دی گئی کیونکہ ان سب کا تعلق پاکستان کے فوج سے تھا  انہوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی میڈیا مکمل طور پر پاکستانی حکومت کے بیانات پر انحصار کرتی ہے اسلئے حقائق سے آگاہ نہیں ۔ جب پوچھا گیا کہ  کیا اسکاٹ لینڈ طرز کا کوئی بھی ریفرنڈم بلوچستان کے مسئلے کو حل کی جانب لے جاسکتا ہے ؟ تو کمانڈر بلوچ خان نے تشکیک آمیز جواب دیتے ہوئے کہا کہ  اگر ایسا کوئی بھی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس سے پہلے ہمیں اپنے قومی اور جغرافیائی سرحدوں کا دوبارہ تعین کرنا ہوگا کیونکہ ہمارے زمین کا ایک بڑا حصہ سندھ اور پنجاب میں تقسیم کی گئی ہے ، اسکے علاوہ بلوچستان میں آبادکاروں کی کثیر تعداد آباد کی گئی ہے اور پورا بلوچستان بشمول انتخابی نظام مکمل طور پر آرمی کے ہاتھوں میں ہے ، صرف حمایت کے بجائے اقوام عالم سے مکمل اخلاقی ، عسکری اور معاشی مدد اور مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے بلوچ خان نے کہا کہ  مہذب اقوام عالم کو پاکستان کے بجائے ہماری مدد کرنی چاہئے ، اس ملک کی آخر کیوں پرورش کی جائے جو شدت پسندوں کی پوری دنیا میں پرورش کررہا ہے یہ مطالبہ کرنے کے بعد کمانڈر بلوچ خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے کیمپ کی طرف واپسی کے سفر کا آغاز کردیا ۔ بلوچستان اور اس سے آگے :۔ بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر سے ملاقات صرف افغانستان کے ذریعے ہی ممکن تھی کیونکہ پاکستان نے اس جنوب مغربی صوبے کو ایک  نوگو ایریا بنادیا ہے ۔ احمد راشد جو پاکستان کے ایک اعلیٰ پایے کے دانشور اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے معروف مبصر ہیں ، جو اپنے نوجوانی میں بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے ایک متحرک کارکن رہے ہیں نے آئی پی ایس کو بتایا  پاکستان میں صحافیوں کے حوالے سے سب سے خطرناک خطہ بلوچستان ہے ،یہاں بہت سے صحافی قتل ہوئے اس لیئے یہاں کے مقامی صحافی جیل ، دھمکی اور قتل سے بچنے کیلئے خبروں کو سینسر کردیتے ہیں ، دریں اثناء عالمی صحافیوں کو بلوچستان میں جانے کی کوشش کی صورت میں فوری طور پر ملک سے بیدخلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس رپورٹر پر ویزہ پابندیوں کے باوجود انہوں نے بلوچ لبریشن فرنٹ کے کمانڈر انچیف ڈاکٹر اللہ نظر سے ان کا نقطہ نظر سیٹلائٹ فون پر معلوم کی ۔ اس سابقہ میڈیکل ڈاکٹر نے کمانڈر بلوچ خان کے موقف کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ  پوری بلوچ قومی تحریک کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے  مزید انہوں نے اسلام آباد کا شدت پسندوں کی پشت پناہی کے تجزیے پر بی ایل اے کے کمانڈر کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کیلئے شدت پسندوں کی پرورش کررہا ہے لیکن وہ اس میں مکمل طور پر ناکام ہورہا ہے ، اب وہ مذہبی کو ایک آلہ استعمال کرکے دنیا کی توجہ بلوچ قومی تحریک سے ہٹانا چاہتا ہے  ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر اللہ نظر نے مکران کے ایک نامعلوم مقام سے کیا جسے بی ایل ایف کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔اس سربراہ کے مطابق شدت پسندی کا یہ خطرہ بلوچستان کے سرحدوں سے باہر جاسکتا ہے ، کمانڈر نظر نے چار ایسے ٹریننگ کیمپوں کا محل وقوع بیان کیا جہاں پاکستانی فوج کے پشت پناہی میں داعش کے جنگجووں کو تربیت دے کر مشرق وسطیٰ روانہ کیا جاتا ہے ، انہوں نے کہا  ایک کیمپ یہاں مکران میں ہے اور دوسرا وڈھ میں ہے جو کوئٹہ سے بالترتیب 990 اور 315 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں، تیسرا زہری کے علاقے مِشک میں ہے جو کوئٹہ کے جنوب میں 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے یہاں سو سے زیادہ مسلح لوگ ہیں جن میں زیادہ تر عرب ، پشتون اور پنجابی ہیں جنہیں وہاں کے مقامی سردار اور پاکستانی وزیر ثنا ء اللہ زہری کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور چوتھا کیمپ کوئٹہ کے علاقے چلتن میں واقع ہے  ڈاکٹر نظر نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی خفیہ ادارہ آئی ایس آئی نا صرف داعش کو متحرک کررہی ہے بلکہ انکی مدد بھی کرتی ہے ، داعش یہاں بالکل موجود ہے حتیٰ کے وہ ہمارے گلی کوچوں میں اپنے پمفلٹ بھی پھینکتے ہیں تاکہ یہاں سے بھرتیاں کرسکیں  اکتوبر 2014 میں پاکستانی طالبان کے چھ کمانڈروں جن میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان بھی شامل تھے نے داعش کے ساتھ اپنے اتحاد کا اعلان کیا تھا ، انسانی حقوق کے کارکن میر محمد علی تالپور نے آئی پی ایس کو بتایا کہ  داعش طالبان کی ترقی یافتہ شکل ہے جو فطری طور پر پاکستانی اسٹبلشمنٹ سے ہمدردی حاصل کررہی ہے، تالپور جنہیں سچ لکھنے کی پاداش میں مسلسل حملوں اور دھمکیوں کا سامنا ہے طالبان کے قیام کے بارے میں کہتے ہیں کہ  یہ اس ریاست کا بنیادی پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ پوری دنیا پر اسلام کی حکومت دیکھتے ہیں  تواتر کے ساتھ پاکستانی حکام کو کال اور ای میل کرنے کے باوجود انہوں نے آئی پی ایس سے بات کرنے سے انکار کیا تاہم پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار کے پارلیمنٹ میں اس بیان کہ بعد یہ ایک کھلا راز بن چکا ہے جس میں انہوں کہا تھا کہ  حتیٰ کے پاکستان کے کراچی نیول بیس میں بھی مذہبی شدت پسند گروہوں کے کاروائیوں کیلئے ہمدردی پائی جاتی ہے 

جمعرات، 19 نومبر، 2015

پنجابی کے آگے سرینڈر کرنے والے بگھوڑوں کے نام :تحریر: نود بندگ بلوچ



میں کافی دن سے تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، آج موقع ہے تو کہہ دیتا ہوں۔

سنو! تم جو بھی ہو، جس قبیلے سے بھی تعلق رکھتے ہو، جس علاقے کے بھی باسی ہو، جس تنظیم کا بھی حصہ تھے، تْف ہے تم پر ، تم ایک بگھوڑے اور بزدل ہو۔ تم اس موت سے ڈر کر اپنے مادر وطن کا سودا کرنے نکلے جو موت ایک حادثے ، ایک بخار حتیٰ کے باتھ روم میں پھسل کر بھی آسکتی ہے؟ تم نے موت کے خوف سے اپنے عظیم ماں اپنے وطن کا سودا کیا ، اگر تم مادر وطن کا سودا کرسکتے ہو تو پھر تم کل کو اسی موت کے خوف سے اپنے سگی ماں کا سودا بھی اس پنجابی کتے فوج کے ہاتھوں کرسکتے ہو۔ تمہیں معلوم ہے اپنی ماں کا سودا کرتے وقت بھی تمہیں شرم نہیں آئے گا کیونکہ جس بزدل شخص کو اپنے مادر وطن کا سودا کرتے وقت غیرت نہیں آیا اسے اپنے سگی ماں بہن کا سودا کرتے وقت بھی غیرت نہیں آتا۔ تم وہ بد بخت انسان ہو جس نے چند سال زندگی اور چند پیسوں کیلئے عظمت بیچ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ذلالت خرید لی ہے۔
سنو! تم میں سے اکثر اپنے بگائی اور بزدلی کی وجہ تحریک کی کمزوری کو بیان کرتے ہیں۔ میں مانتا ہوں تحریک میں کمزوریاں ہیں ، میں مانتا ہوں اختلافات ہیں ، میں مانتا ہوں ہمیں کمزور کرنے والے عناصر ہم میں گھسے ہوئے ہیں ، میں مانتا ہوں ہمارے اندر بیوقوفوں اور مفاد پرستوں نے ہمیں نقصانات دی ہیں لیکن ان سب کے باوجود میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ کسی کی ماں بیمار ہو تو وہ اسکی تیمارداری کرتا ہے اسے فروخت نہیں کرتا۔ تمہیں کمزوریاں دِکھ رہی تھیں تو تم اختلاف رکھتے ، تنظیموں سے اختلاف رکھتے شخصیتوں سے اختلاف رکھتے لیکن انہیں بنانے کی کوشش کرتے۔ تحریک میں کیا ہماری شرکت کی شرط کامیابی ہی تھی؟ نہیں ہم تحریک کا حصہ اپنے قومی فرض اور قومی غیرت کی وجہ سے بنے ہیں ، ہم اس بات کو مان کر حصہ بنے کہ " غلامی کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے" ، ہم اس لیئے حصہ بنے تاکہ ہم آغاز کرسکیں جو تشکیل پاکر بالآخر آزادی پر منتج ہو۔ تم کو سب غلط بھی دِکھتے لیکن اگر تم میں غیرت ہوتی تو تم تنہا ہی جدوجہد کرتے لیکن قوم کا سودا نہیں کرتے لیکن نہیں یہ محض بہانے ہیں، اپنی بزدلی کو چھپانے کے بہانے ہیں حقیقت میں تم ایک خوفزدہ ، بزدل اور بکاو انسان ہو۔ جو شفو مینگل اور مالو خبیث اعلیٰ کی طرح بے نسل پنجابی فوجیوں کے جوتے چاٹ کر مراعات چاہتے ہو۔ کل تمہیں تحریک سے کچھ مِلنے کی امید تھی تو اسکے ساتھ تھے اب لونڈو پنجابیوں سے امید ہے تو وہاں دم ہِلا رہے ہو۔ تم اس کتے کی مثال ہو جو زبان نکالے ہر اس دروازے کی طرف دوڑتا ہے جہاں سے اسے ہڈی ملنے کی امید ہو۔
سنو! تمہیں پتہ ہے پیدا ہوتے ہی ہمارا ہر ایک سانس موت کے جانب ایک قدم ہوتا ہے۔ موت کو کوء نہیں ٹال سکتا ، تم آج ان پنجابیوں کے جتنی بھی تھالی چٹی کرو تمہیں موت ضرور آئے گا لیکن اس موت کے ساتھ تمہیں پتہ ہے تم اور تمہاری نسل تاریخ میں غدار ، بَگا ، بگھوڑے ، بکاو اور بزدل کے ناموں سے پہچانے جاو گے اور وہ جو حالات اور موت سے نہیں ڈرے وہ شہید کہلائیں گے۔ تمہیں پتہ ہے شہید کسے کہتے ہیں وہ جو سچاء کا گواہی دیتا ہے اور جب تک سچاء اس دنیا میں زندہ ہے وہ شہید اس دنیا میں زندہ رہیں گے اور تم صرف ایک ذلیل یاد بن کر رہ جاو گے۔ سوچو ، تم موت سے ڈر کر بھی مر جاو گے اور وہ جو موت سے نہیں ڈرے وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں گے۔ تمہیں لگتا ہے تم کم ذات
پنجابی فوج کیلئے دلال بن کر اپنے بچوں کی زندگی سنوارو گے ایسا سوچنا بھی نہیں ، تم رہو یا نا رہو بلوچستان آزاد ہر حال میں ہوگا اور تمہارے آنے والی نسلوں کی حیثیت آزاد بلوچستان میں پاکستان کا ساتھ دینے والے ان بہاریوں کی طرح ہوگا جو بنگلہ دیش میں ایک لیٹرین تک کیلئے ترستے ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ تمہارے نام سے شرمندہ رہیں گے اور شرمندگی کا یہ طوق اپنے گلوں میں لٹکائے وہ تم پر لعنت بھیجتے رہیں گے۔
سنو! تمہیں پتہ ہے کچھ دن بعد 13 نومبر ہے ، یہ شہیدوں کا دن ہے ، یہ ان بہادروں اور نر مزاروں کا دن ہے جنہوں نے تمہاری طرح عزت اور غیرت کا سودا نہیں کیا، انہوں نے دشمن کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر موت کو ہنستے ہوئے گلے لگایا۔ ان میں سے ہر ایک نے مجھ سمیت دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے ہر ایک بلوچ کا سر اونچا کردیا، ان میں سے بہت سے شاید تم جیسے کسی دلال کی وجہ سے شہید ہوئے لیکن تم محض ایک ذلیل سی وجہ ہو ورنہ وہ شہادت کو تسلیم کرتے ہوئے ہی اس تحریک کا حصہ بنے تھے۔ ہم سب انہیں یاد کررہے ہیں ، انکی تصویریں دیکھ کر انکے نام پڑھ کر ہی ہمارے اندر عزت اور تعظیم پیدا ہوتی ہے۔ ہم فخر سے انکی تصویریں آویزاں کرتے ہیں، تمہیں پتہ ہے عزت صرف انہیں نصیب نہیں ہوء بلکہ انکے خاندان کے کسی بھی فرد کو بھی ہم دیکھتے ہیں اسے عزت دیتے ہیں۔ ذرا دیکھو آج اپنے لخت جگروں کو کھونے کے باوجود ان شہیدوں کے ماوں کے سر فخر سے اونچے ہیں اور حیف ہے تم پر اے بزدل انسان موت کے ڈر سے سرینڈر کرتے ہوئے ، تم نے زندہ رہ کر بھی اپنے ماں کے نظروں کو شرمندہ کرکے جھکا دیا۔

سنو! تم سے بات کرنے کے بعد میں نے اپنے لکھے کو دیکھا تو سوچا کہ اس میں کء ایسے الفاظ ہیں جو مجھے کسی بلوچ کے بارے میں نہیں کہنی چاہیئے لیکن پھر میں نے سوچا کہ نہیں کوء کچھ بھی کہے تم اس سے بدتر کے حقدار ہو کیونکہ " جو بلوچ ہے وہ پاکستانی نہیں اور جو پاکستانی ہے وہ بلوچ نہیں " پنجابی صرف وہ نہیں جس کا باپ پنجابی ہے بلکہ وہ بلوچ بھی پاکستانی بے نسل پنجابی ہے جو اپنے مادر وطن کی دلالی ان پنجابی فوجیوں کیلئے کرتا ہے۔