جمعرات، 19 نومبر، 2015

پنجابی کے آگے سرینڈر کرنے والے بگھوڑوں کے نام :تحریر: نود بندگ بلوچ



میں کافی دن سے تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، آج موقع ہے تو کہہ دیتا ہوں۔

سنو! تم جو بھی ہو، جس قبیلے سے بھی تعلق رکھتے ہو، جس علاقے کے بھی باسی ہو، جس تنظیم کا بھی حصہ تھے، تْف ہے تم پر ، تم ایک بگھوڑے اور بزدل ہو۔ تم اس موت سے ڈر کر اپنے مادر وطن کا سودا کرنے نکلے جو موت ایک حادثے ، ایک بخار حتیٰ کے باتھ روم میں پھسل کر بھی آسکتی ہے؟ تم نے موت کے خوف سے اپنے عظیم ماں اپنے وطن کا سودا کیا ، اگر تم مادر وطن کا سودا کرسکتے ہو تو پھر تم کل کو اسی موت کے خوف سے اپنے سگی ماں کا سودا بھی اس پنجابی کتے فوج کے ہاتھوں کرسکتے ہو۔ تمہیں معلوم ہے اپنی ماں کا سودا کرتے وقت بھی تمہیں شرم نہیں آئے گا کیونکہ جس بزدل شخص کو اپنے مادر وطن کا سودا کرتے وقت غیرت نہیں آیا اسے اپنے سگی ماں بہن کا سودا کرتے وقت بھی غیرت نہیں آتا۔ تم وہ بد بخت انسان ہو جس نے چند سال زندگی اور چند پیسوں کیلئے عظمت بیچ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ذلالت خرید لی ہے۔
سنو! تم میں سے اکثر اپنے بگائی اور بزدلی کی وجہ تحریک کی کمزوری کو بیان کرتے ہیں۔ میں مانتا ہوں تحریک میں کمزوریاں ہیں ، میں مانتا ہوں اختلافات ہیں ، میں مانتا ہوں ہمیں کمزور کرنے والے عناصر ہم میں گھسے ہوئے ہیں ، میں مانتا ہوں ہمارے اندر بیوقوفوں اور مفاد پرستوں نے ہمیں نقصانات دی ہیں لیکن ان سب کے باوجود میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ کسی کی ماں بیمار ہو تو وہ اسکی تیمارداری کرتا ہے اسے فروخت نہیں کرتا۔ تمہیں کمزوریاں دِکھ رہی تھیں تو تم اختلاف رکھتے ، تنظیموں سے اختلاف رکھتے شخصیتوں سے اختلاف رکھتے لیکن انہیں بنانے کی کوشش کرتے۔ تحریک میں کیا ہماری شرکت کی شرط کامیابی ہی تھی؟ نہیں ہم تحریک کا حصہ اپنے قومی فرض اور قومی غیرت کی وجہ سے بنے ہیں ، ہم اس بات کو مان کر حصہ بنے کہ " غلامی کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے" ، ہم اس لیئے حصہ بنے تاکہ ہم آغاز کرسکیں جو تشکیل پاکر بالآخر آزادی پر منتج ہو۔ تم کو سب غلط بھی دِکھتے لیکن اگر تم میں غیرت ہوتی تو تم تنہا ہی جدوجہد کرتے لیکن قوم کا سودا نہیں کرتے لیکن نہیں یہ محض بہانے ہیں، اپنی بزدلی کو چھپانے کے بہانے ہیں حقیقت میں تم ایک خوفزدہ ، بزدل اور بکاو انسان ہو۔ جو شفو مینگل اور مالو خبیث اعلیٰ کی طرح بے نسل پنجابی فوجیوں کے جوتے چاٹ کر مراعات چاہتے ہو۔ کل تمہیں تحریک سے کچھ مِلنے کی امید تھی تو اسکے ساتھ تھے اب لونڈو پنجابیوں سے امید ہے تو وہاں دم ہِلا رہے ہو۔ تم اس کتے کی مثال ہو جو زبان نکالے ہر اس دروازے کی طرف دوڑتا ہے جہاں سے اسے ہڈی ملنے کی امید ہو۔
سنو! تمہیں پتہ ہے پیدا ہوتے ہی ہمارا ہر ایک سانس موت کے جانب ایک قدم ہوتا ہے۔ موت کو کوء نہیں ٹال سکتا ، تم آج ان پنجابیوں کے جتنی بھی تھالی چٹی کرو تمہیں موت ضرور آئے گا لیکن اس موت کے ساتھ تمہیں پتہ ہے تم اور تمہاری نسل تاریخ میں غدار ، بَگا ، بگھوڑے ، بکاو اور بزدل کے ناموں سے پہچانے جاو گے اور وہ جو حالات اور موت سے نہیں ڈرے وہ شہید کہلائیں گے۔ تمہیں پتہ ہے شہید کسے کہتے ہیں وہ جو سچاء کا گواہی دیتا ہے اور جب تک سچاء اس دنیا میں زندہ ہے وہ شہید اس دنیا میں زندہ رہیں گے اور تم صرف ایک ذلیل یاد بن کر رہ جاو گے۔ سوچو ، تم موت سے ڈر کر بھی مر جاو گے اور وہ جو موت سے نہیں ڈرے وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں گے۔ تمہیں لگتا ہے تم کم ذات
پنجابی فوج کیلئے دلال بن کر اپنے بچوں کی زندگی سنوارو گے ایسا سوچنا بھی نہیں ، تم رہو یا نا رہو بلوچستان آزاد ہر حال میں ہوگا اور تمہارے آنے والی نسلوں کی حیثیت آزاد بلوچستان میں پاکستان کا ساتھ دینے والے ان بہاریوں کی طرح ہوگا جو بنگلہ دیش میں ایک لیٹرین تک کیلئے ترستے ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ تمہارے نام سے شرمندہ رہیں گے اور شرمندگی کا یہ طوق اپنے گلوں میں لٹکائے وہ تم پر لعنت بھیجتے رہیں گے۔
سنو! تمہیں پتہ ہے کچھ دن بعد 13 نومبر ہے ، یہ شہیدوں کا دن ہے ، یہ ان بہادروں اور نر مزاروں کا دن ہے جنہوں نے تمہاری طرح عزت اور غیرت کا سودا نہیں کیا، انہوں نے دشمن کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر موت کو ہنستے ہوئے گلے لگایا۔ ان میں سے ہر ایک نے مجھ سمیت دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے ہر ایک بلوچ کا سر اونچا کردیا، ان میں سے بہت سے شاید تم جیسے کسی دلال کی وجہ سے شہید ہوئے لیکن تم محض ایک ذلیل سی وجہ ہو ورنہ وہ شہادت کو تسلیم کرتے ہوئے ہی اس تحریک کا حصہ بنے تھے۔ ہم سب انہیں یاد کررہے ہیں ، انکی تصویریں دیکھ کر انکے نام پڑھ کر ہی ہمارے اندر عزت اور تعظیم پیدا ہوتی ہے۔ ہم فخر سے انکی تصویریں آویزاں کرتے ہیں، تمہیں پتہ ہے عزت صرف انہیں نصیب نہیں ہوء بلکہ انکے خاندان کے کسی بھی فرد کو بھی ہم دیکھتے ہیں اسے عزت دیتے ہیں۔ ذرا دیکھو آج اپنے لخت جگروں کو کھونے کے باوجود ان شہیدوں کے ماوں کے سر فخر سے اونچے ہیں اور حیف ہے تم پر اے بزدل انسان موت کے ڈر سے سرینڈر کرتے ہوئے ، تم نے زندہ رہ کر بھی اپنے ماں کے نظروں کو شرمندہ کرکے جھکا دیا۔

سنو! تم سے بات کرنے کے بعد میں نے اپنے لکھے کو دیکھا تو سوچا کہ اس میں کء ایسے الفاظ ہیں جو مجھے کسی بلوچ کے بارے میں نہیں کہنی چاہیئے لیکن پھر میں نے سوچا کہ نہیں کوء کچھ بھی کہے تم اس سے بدتر کے حقدار ہو کیونکہ " جو بلوچ ہے وہ پاکستانی نہیں اور جو پاکستانی ہے وہ بلوچ نہیں " پنجابی صرف وہ نہیں جس کا باپ پنجابی ہے بلکہ وہ بلوچ بھی پاکستانی بے نسل پنجابی ہے جو اپنے مادر وطن کی دلالی ان پنجابی فوجیوں کیلئے کرتا ہے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں