اتوار، 25 اکتوبر، 2015

بلوچستان، سب سے خونریز جنگ :تحریر : لارا سیکورن پیلیٹ


اگر آپ گوگل پر ’’پاکستان‘‘ لکھ کر سرچ کریں تو آپ کو دہشتگرد حملوں، ملالہ کی تصاویر یا ’ہوم لینڈ‘ کی اگلی اقساط کے ٹریلرز کے ایک سیلاب کا سامنا ہوگا۔ دراصل، مندرجہ بالا سب چیزیں آپکو ملیں گی۔ لیکن اس ملک کا ایک ایسا خطہ ہے جسکے بارے میں یقیناًآپکو نتائج کے پہلے چند درجن صفحات پر کچھ نظر نہیں آئیگا: وہ ہے بلوچستان۔
تقریباً جرمنی جتنا، یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور غریب ترین صوبہ ہے۔ اور یہ ایک طویل اور خونی خانہ جنگی کا مسکن بھی ہے جو کئی دہائیوں سے چل رہی ہے۔ ایک طرف پاکستان کی مرکزی حکومت ہے۔ دوسری طرف بلوچ قومپرست ہیں جو پاکستان کی پیدائش کے سال 1947ء کے بعد سے اپنی آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو بلوچستان لبریشن آرمی (بلوچ لبریشن آرمی) اور بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ جیسے باغی گروہوں کے ناموں کیساتھ منظم کیا ہوا ہے۔ حکومت بلوچ پر ’’دہشتگر‘‘ کا لیبل لگاتی ہے جبکہ بلوچ فوج پر نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹراٹیجک اسٹڈیز کے مطابق: اس بے یار و مددگار تنازعے کے آغاز کے بعد سے اب تک 11,375 افراد ہلاک اور دیگر ہزاروں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
بلوچ اپنی زبان، روایات اور ثقافت کیساتھ ایک نسلی اقلیت ہیں۔ وہ ایران، پاکستان اور افغانستان میں بھی موجود ہیں لیکن اسلام آباد میں حکومت کی طرف اپنے آپ کو شدت کیساتھ محروم اور الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے تنازعے کی شدت کے بہاؤ میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ 1977ء میں ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد یہ دھیمی ہوئی، لیکن 2005 میں مبینہ طور پر ایک فوجی افسر کے ہاتھوں ایک بلوچ ڈاکٹر (غیر بلوچ لیڈی ڈاکٹر شازیہ خالد) کی عصمت دری کے بعد یہ نئے سرے سے دوبارہ شروع ہوئی۔ اس سے دونوں اطراف میں تشدد اور جوابی حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، بلوچستان کے دوروں کے دوران اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو قتل کرنے کی دو کوششوں سمیت۔
بلوچ مرکزی حکومت سے کوئی وفاداری نہیں رکھتے۔ لندن میں اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں مطالعہ پاکستان کے مرکز سے تعلق رکھنے والے بْرزین واغمر کہتے ہیں کہ، ’’پاکستان نے پہلے ہی سے بلوچستان کھو دیا ہے، لیکن وہ اسے جانے نہیں دیں گے۔‘‘ وہ اسلئے کہ ملک کا غریب ترین، سب سے زیادہ کم آبادی والا علاقہ ہونے کے باوجود یہ تیل، گیس اور دیگر معدنیات جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور تین سرحدوں، بحیرہ عرب کے ساحل اور گہرے سمندر کی بندرگاہ تک رسائی کیساتھ اسٹراٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔
تمام جنگوں کی طرح اس میں بھی دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر غیر انسانی کارروائیوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بلوچ کارکنوں کے اغواء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں رپورٹ کیا ہے۔ لاشیں اکثر خالی جگہوں یا گلیوں میں پھینک دی جاتی ہیں، 2013ء میں 116 لاشیں پھینکی گئیں، اور پاکستانی فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کیخلاف بڑے پیمانے پر ماورائے عدالت قتل،
تشدد، جبری نقل مکانی اور مظاہرین کیخلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ جنوری 2014ء4 میں بلوچستان میں تین اجتماعی قبریں پائی گئیں۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کا دعویٰ ہے کہ وہاں سینکڑوں لاشیں برآمد ہوئی ہیں جنکا تعلق بلوچ نواز تنظیموں کے اراکین سے ہے جنہیں پاکستانی فورسز کی طرف سے اغوا کیا گیا تھا۔ لیکن ایک عدالتی کمیشن نے فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کسی بھی طرح کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دے دیا۔
یہ بات بھی یقینی ہے کہ مسلح عسکریت پسند گروہ (اسلام آباد جن پر نئی دہلی کی طرف سے مالی مدد کا الزام لگاتا ہے) اندھا دھند تشدد سے ناآشنا نہیں ہیں۔ اگرچہ امریکہ بلوچستان کے باغیوں پر دہشتگرد کا لیبل نہیں لگاتی ہے، تاہم ان پر بھی ہزارہا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا ہے جیسا کہ سویلین پشتون ’’آبادکاروں‘‘ کا قتل، ڈاکٹروں سے لیکر تعمیراتی کارکنوں کا قتل، اور صحافیوں کو دھمکانہ اور یہاں تک کہ قتل کرنا۔ مگر پھر بھی اب تک اس طرح کے بیشتر الزامات کی صحیح معنوں میں توثیق کرنا مشکل ہے اسکی وجہ خاص طور پرسے اس علاقے میں رپورٹنگ کرنا کتنا خطرناک ہے۔
پاکستانی فوج بلوچستان میں کسی بھی غیر ملکی صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ 2006ء کے بعد سے نیو یارک ٹائمز کے رپورٹر ڈیکلن والش اور کارلوٹا گیل سمیت کئی نامہ نگاروں کو بلوچستان میں خفیہ طور پر جاکر رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں ملک بدر کیا گیا ہے۔ اور مقامی نامہ نگار بھی ایسی کوشش کرنے سے بہت خوفزدہ ہیں: امریکہ میں جلاوطن ایک پاکستانی صحافی ملک سراج اکبر، جو بلوچستان میں ایک اخبار کے ایڈیٹر رہے ہیں ، کا کہنا ہے کہ، ’’وہاں ایک غیر تحریر شدہ اتفاق موجود ہے کہ جو بھی بلوچستان پر رپورٹنگ کر رہے ہیں وہ عظیم تر ’قومی مفاد‘ کیخلاف جا رہے ہیں۔‘‘
خواہ یہ کوئی حد مقرر کرے یا نہیں مگر اموات کی تعداد میں اضافہ جاری ہے۔ واغمر کہتے ہیں کہ امن کے قیام کیلئے نشانہ سادھنے کیلئے دونوں اطراف سے سیاسی رضامندی کی ضرورت پڑے گی اور اس تنازعے کے چھ سے زائد دہائیاں گزرنے کے بعد کسی کو بھی مذاکرات کی میز پر آنے کی جلدی نہیں ہے۔


بشکریہ: اوزی ڈاٹ کام، 15 اکتوبر 2015
http://www.ozy.com/acumen/balochistan۔the۔bloodiest۔war۔youve۔never۔heard۔of/63187 


ترجمہ: لطیف بلیدی
(نوٹ: راقم نے مضمون میں چند غلطیاں کی ہیں جن کی تصحیح بریکٹ میں دی گئی ہیں)


0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں