جمعرات، 15 اکتوبر، 2015

قانون میں ڈی این اے ٹیسٹ سے مجرم کی کیسے شناخت کی جاتی ہے


فورینزک سائنس وہ علم ہے جو قانونی مسائل حل کرنے میں عدالتوں کی مدد کرتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک وسیع موضوع ہے لیکن گزشتہ تیس سالوں کے دوران تفتیشی معاملات میں ڈی این اے کے نمونوں کے استعمال نے اس علم کو جدت اور تکمیل کی نئی بلندیوں سے روشناس کرایا ہے۔ ڈی این اے کی حیثیت جانداروں کیلئے ایک آئین کی سی ہوتی ہے جس میں لکھی ہوئی ہدایات پر اس جاندار کے تمام ظاہری خدوخال اور افعال کا دارومدار ہوتا ہے۔

یہ چار بنیادی اکائیوں، جنہیں نیوکلیوٹائیڈز کہتے ہیں، سے بنا ہوتا ہے۔ ان نیوکلیوٹائیڈز کو اختصار کی غرض سے انگریزی حروف اے، سی، جی اور ٹی کے طور پر لکھا جاتا ہے۔

چونکہ ہرجاندار میں ڈی این اے ہوتا ہے اور ڈی این اے کی ترتیب میں ایسا تنوع پایا جاتا ہے کہ اس کی مدد سے اس جاندار کو شناخت کرنا ممکن ہے، لہٰذا فوجداری نوعیت کے مقدمات میں اگر کوئی حیاتیاتی نمونہ بطور شہادت میسر ہو تو اس نمونے میں سے ڈی این اے حاصل کرکے اس کے ماخذ تک پہنچا جاسکتا ہے۔
ڈی این اے کو قانونی معاملات میں استعمال کرنے کا خیال برطانوی ماہرجینیات ڈاکٹر الیک جیفری نے پیش کیا۔ وہ موروثی بیماریوں پر تحقیق کے دوران ولدیت اور امیگریشن کے تنازعات کو جینیاتی بنیادوں پر حل کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
لیسٹر یونیورسٹی میں اپنی تحقیق کے دوران انہوں نے دریافت کیا کہ تمام انسانوں کے ڈی این اےمالیکیول میں مخصوص مقامات پر نیوکلیوٹائیڈز کی تنوع پزیر ترتیب پائی جاتی ہے تاہم اس ترتیب کی لمبائی ہر انسان کے ڈی این اے میں مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ایک انسان میں اس ترتیب کی لمبائی اسّی نیوکلیوٹائیڈز ہے تو دوسرے میں بیاسی یا چوراسی نیوکیوٹائیڈزہوگی یا ہوسکتاہے کہ اٹھہتر یا چھہتر نیوکلیوٹائیڈز ہو۔ یہ مخصوص مقامات جینیٹک مارکر کہلاتے ہیں۔
ڈاکٹر جیفری کو خیال آیا کہ جینیٹک مارکرز کے اس تنوع کو انسان کی شناخت کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس تکنیک کو جینیٹک فنگر پرنٹنگ کا نام دیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ ہر انسان کا جنیٹک فنگر پرنٹ منفرد ہوتا ہے اور سوائے ہمشکل جڑواں بھائیوں/بہنوں کے کوئی دو انسان ایک طرح کے جینیٹک فنگرپرنٹس کے حامل نہیں ہوتے۔ فوجداری معاملات میں ایک سے زیادہ )عموماً 10-13( مارکرز استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہ رہے۔ڈاکٹر جیفری کی دریافت کا فورنزکس میں استعمال سب سے پہلے اسی شہر کی پولیس نے کیا جب لیسٹر یونیورسٹی کا آس پاس کے علاقے ہی میں قتل کی دو وارداتیں ہوئیں۔ تاریخ میں پہلی دفعہ کسی کی بریت یا سزا کا فیصلہ جینیٹک فنگر پرنٹنگ کے ذریعے ہونا تھا۔
1983ء میں یونیورسٹی کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں پندرہ سالہ لنڈا مان کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ تین سال بعد ایک اور پندرہ سالہ لڑکی ڈان اشورتھ کوبھی جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ سترہ سالہ رچرڈ بکلینڈ پولیس کی حراست میں تھااور اس نے دوسری واردات کا اقبال جرم کر رکھا تھا۔ اس اقبال جرم نے تفتیش کاروں کے ذہن میں شکوک و شبہات کو جنم دیاتھا کیونکہ اگر دونوں قتل بکلینڈ نے کئے ہوتے تو پہلے جرم کے وقتاس کی عمر صرف 14 سال ہوتی۔ گتھی سلجھانے کیلئے سراغرسانوں کی ٹیم نے ڈاکٹر جیفری سے مدد طلب کی جنہوں نے دونوں لاشوں پر سے حاصل کئے گئے نطفے سے ڈی این اے کا بکلینڈ کے ڈی این اے کیساتھ موازنہ کرکے اسے بیگناہ قرار دیا۔ ڈی این اے کے موازنے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ دونوں جرائم کا ارتکاب ایک ہی شخص نے کیا ہے۔ ان شواہد کی بنیاد پر قانون نافذ کرنے والے ادارے نے قاتل کو پکڑنے کیلئے ایک بےمثل کام کاعزم کیا۔ چونکہ قاتل کے خون کا گروپ 145اے146 تھا، اوروہ ایک انزائم 147پی جی ایم ون کیلئے پازیٹیو تھا، لہٰذا تین قصبوں سے کل 4582 مردوں کے خون کا گروپ اور ان میں مذکورہ انزائم کی موجودگی کو چیک کیا گیا۔ دس فیصد افراد ان کوائف پرپورے اترے۔ چنانچہ ان افراد کے خون سے ڈی این اے حاصل کرکے اسکا تجزیہ کیا گیا۔کولن پیچفورک نامی ایک مقامی نانبائی نے اپنا خون نہیں دیا تھا۔ اس نے اپنے دوست آئن کیلی کیساتھ ساز باز کی اور اس کی تصویر اپنے پاسپورٹ پر لگاکر اسے اپنی جگہ خون دینے بھیجا۔
کئی مہینے بعد یہاں کے ایک رہائشی نے مقامی شراب خانے میں کیلی کی گفتگو سنی جس میں اس نے پیچفورک سے رقم لیکر اسکی جگہ اپنا خون دینے کا اعتراف کیا۔ اس رہائشی نے پولیس کو مطلع کردیا جس پر پولیس نے ستائیس سالہ پیچفورک کو گرفتار کرلیا- اس کے ڈی این اے کا قاتل کے ڈی این اے سے موازنہ کرنے پر پتا چلا کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ پیچفورک نے کیس لڑنے کے بجائے دونوں لڑکیوں کی عصمت دری اور قتل کا اعتراف کرلیا۔ 1987ء میں پیچفورک ڈی این اے کی مدد سے شناخت کئے جانے والا پہلا مجرم بن گیا۔ اسے عمر قید کی سزا ہوئی جو کم از کم تیس سال تک کی ہوتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں ترقی یافتہ مملک سائنس اور ٹیکنالوجی کو انصاف کے حصول کیلئے بڑھ چڑھ کر استعمال کررہے ہیں، اور جہاں پر ڈی این اے کی بنیاد پر مجرموں تک پہنچنے کا کام لگ بھگ تیس سال پہلے شروع ہوگیا تھا، وہیں ہمارے ملک میں اس معاملے کو ملاء کی جہالت کی نظر کردیا گیا۔ کچھ سال قبل مزار قائد کے احاطے میں ایک اٹھارہ سالہ لڑکی جنسی زیادتی کا نشانہ بنی۔ لڑکی نے اپنے مجرموں کو پہچان لیا اور ان کے ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت بھی ہوگیا کہ مجرم وہی تھے لیکن پانچ سال بعد کراچی کی ایک عدالت نے یہ کہہ کر کہ چونکہ کسی نے ریپ ہوتے دیکھا نہیں اور ڈی این اے کا ثبوت قابل قبول نہیں ہے، ملزمان کو باعزت بری کردیا۔ اسی ہفتے اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے اجلاس کے اعلامیہ میں کہا کہ ڈی این اے کی 
شہادت کو ملزموں کو سزا دینے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔..!!
( بشکریہ سائنس کی دنیا)

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں