اگر ہم بلوچستان کی مجموعی صور ت حال اور یہاں کے مختلف عوامل اورعناصرکا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ بلوچ کی زمین کی اہمیت دنیا اور عالمی سیاست سے وابستہ رہی ہے۔ یہ مقولہ عام ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں یہ اہم نہیں ہے بلکہ بڑی طاقتیں اور بڑے ممالک کیا چاہتے ہیں یہ اہم ہے۔ ممکن ہے کہ بلوچ عالمی طاقتوں کی رسہ کشی میں شامل ہونے کا خواہاں نہ ہو لیکن دنیا کی سیاست اور مفادات آج اس طرح تشکیل پا چکے ہیں کہ انہوں نے بلوچ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچ کی زمین کو اپنی نظروں میں رکھا ہے۔ کیونکہ بلوچ کی زمین تزویراتی لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ بلوچ سرزمین دنیا کے بہت سے خطوں کو آپس میں ملاتی ہے یا کہ اپنے وسیع سمندر کے ذریعے دنیا کے لیے عسکری اور تجارتی راستوں کو اتنا مختصر بناتی ہے کہ خطے کے بہت سے ممالک بلوچ سمندر کو بطور تجارتی گزر گاہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتیں اس بات کی خواہاں ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح بلوچستان کو اپنے زیرِ تصرف رکھیں، تاکہ ان کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے ان کے اخراجات کا بوجھ کم ہو سکے۔
تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ اور ماقبل تاریخ ہی سے بلوچ زمین اپنے جغرافیہ اور اہم گزر گاہوں کی وجہ سے ہمیشہ اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایک وقت میں روس دنیا میں اپنے سیاسی اثرات کو پھیلانے اور اپنا رسوخ بڑھانے کے لیے بلوچستان میں اپنی موجودگی کو ممکن بنانے کی کوشش میں مصروفِ عمل دکھائی دیتا ہے۔ لیکن برطانیہ کا یہاں قبضہ، زار کی گرم پانیوں تک پہنچنے کی خواہش پر پانی پھیر دیتا ہے۔ بلوچ سرزمین، سمندری گزرگاہیں ،گہری اور قدرتی بندرگاہیں ، درّوں کو استعمال کر کے ایک سو سال تک انگریز افغانستان پر قبضہ جماتا ہے تاکہ وہ وہاں سے دیگر خطوں پر اپنی اجارہ اور اثر و رسوخ کو برقرار رکھ سکے ۔
1990 کے بعد سے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا کی طاقت کا توازن امریکہ کے حق میں چلاگیا۔ لیکن جب2000 کے بعد سے چین بتدریج اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کرتا ہے تو ایک بار پھر بلوچستان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ بلوچستان پر پاکستانی قبضہ اور چین سے مختلف حوالوں سے قربت و ہمکاری ایک نئے دور میں داخل ہو جاتی ہے۔ چین چیئرمین ماؤ کے برعکس سرمایہ دارانہ طرزِ معیشت کو اپنا کر دنیا بھر میں اپنا سیاسی، عسکری اور معاشی تسلط جمانے کے لیے جارح پالیسیوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور چین دنیا پر اپنے معاشی و عسکری تسلط کے لیے بلوچ سرزمین کو استعمال کرنے کے لیے واضح طور پر نوآبادیاتی طرز کی کوششیں کر رہا ہے۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے۔ اس کے ساتھ ایک ترقی پذیر ملٹری طاقت بھی ہے۔ اپنی معاشی و عسکری طاقت کو بڑھانے اور مختلف خطوں پر اپنا تسلط جمانے کے لیے اُسے تزویراتی لحاظ سے اہم خطوں پر براجمان ہونا ہوگا کہ ان کے ذریعے ہی پورے دنیا پر معاشی اور عسکری تسلط کو برقرار رکھ سکے۔
اسی بنیاد پر چین 2013 کو پاکستان کے ساتھ چین پاکستان اقتصادی راہداری معاہدہ کرتا ہے ۔ لیکن اس معاہدے سے پیشتر پاکستان بلوچستان میں آبادی میں تبدیلی لانے کی غرض سے میگا پروجیکٹس کی تعمیر کا اعلان کرتا ہے۔ آبادکاروں اور فوج کی آمد و رفت کے لیے ایک سڑک بھی (کراچی تا گوادر) تعمیر کرتا ہے، یہ سڑک عسکری لحاظ سے بھی اس لیے اہم ہے کہ جنگ کی صورت میں فوج سرعت سے و نقل و حمل کر سکتی ہے۔ لیکن بلوچ تحریک کے ابھار نے نئی آبادکاری کو بڑی حد تک ناکام بنا دیا۔ جن طاقتوں نے وہاں (گوادر میں) سرمایہ لگایا تھا اورمختلف منصوبوں پر کام کر رہے تھے، ان کا سرمایہ ڈوب گیا اور انہیں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن جب 2013 کو چین پاکستا ن کے ساتھ سی پی ای سی معاہدہ کرتا ہے تو ان استحصالی منصوبوں پر دوبارہ کام شروع ہو جاتا ہے جو کہ تحریک کی شدت کی وجہ سے التوا کا شکار تھے۔
یہاں عسکری لحاظ سے اہمیت سے قبل معاشی نقطہ پر ایک جائزہ لیتے ہیں کہ اقتصادی حوالے سے کس طرح چین اس سے (گوادر پورٹ و سی پیک سے) فوائد حاصل کر سکتا ہے؟ دنیا میں جب تجارتی روٹ بنتے ہیں توممالک کوشش کرتے ہیں کہ مختصر مسافت اور کم لاگت سے وہ معاشی منڈیوں تک پہنچ سکیں۔ اس طرح وہ منڈی اور مارکیٹ پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اور اسی طرح ہی وہ اپنے اثرورسوخ میں روزافزوں اضافہ کر سکتے ہیں۔ چین دنیا کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والا ملک ہے اور وہاں خام مال کی فراوانی اور محنت سستی ہے۔ مصنوعات کی تیاری لاگت دوسرے ممالک کی نسبت انتہائی کم ہے۔ اپنی مصنوعات کو دنیا تک پہنچانے اور مارکیٹوں پر قبضہ کے لیے چین کو مختصر روٹ درکار ہیں۔
آج چین دنیا کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے جن روایتی سمندری راستو ں کو استعمال کر رہا ہے، اسے دوسرے خطوں تک پہنچنے کے لیے طویل مسافت ، زیادہ وقت اور کثیر سرمایہ خرچ کرنا پڑتا ہے؛ مثلاََ یورپ تک پہنچنے کے لیے 11845 میل ، مشرقِ وسطیٰ تک 5250 میل، پاکستان تک 4645 میل کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے، جن کے ذریعے چین اپنی شنگھائی یا دوسری بندرگاہوں کے ذریعے اپنی مصنوعات دنیا تک پہنچاتا ہے۔ لیکن پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کا مرکز سنکیانک صوبے میں کاشغر کا مقام ہے تو یہ راہداری درجہ بالا مسافت اور سفر کی سیکیورٹی کے مسائل اور مسافت پر آنے والی لاگت کو انتہائی کم کرتی ہے۔ جب یہ راہداری باقاعدہ فعال ہو جائے تو یورپ تک مسافت 11845 میل کے بجائے 7847 میل، مشرقِ وسطیٰ تک 2554 اور کاشغر سے گوادر تک 1750 میل رہ جائے گی۔ اس طرح یہاں سرمایہ اور وقت کی بچت چینی معیشت کے لیے نہایت دوررس نتائج کے حامل ہوں گے۔ چین آج دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہے۔ یہ اقتصادی راہداری اسے دنیا کی پہلی معاشی طاقت بنانے کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔
اس اقتصادی راہداری کی فعالیت سے چین گوادر پورٹ کے ذریعے یورپ ، مشرقِ وسطیٰ اور دوسرے خطوں تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسی روٹ کے ذریعے ایک تہائی آبادی پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر سکتا ہے۔ اس اقتصادی راہداری کے ذریعے ایک جانب وہ ایشیا سے منسلک ہوتا ہے ، دوسری جانب وہ یورپ سے منسلک ہوتا ہے تو تیسری جانب وہ افریقی ممالک سے منسلک ہو جاتا ہے۔
یہ ہم بعد میں دیکھتے ہیں کہ چین کس طرح دنیا میں امریکہ اور روس کے اثرو رسوخ کو ختم کرنے کی کوشش کر کے اپنا اجارہ بڑھا رہا ہے۔ جن خطوں میں چین موجود نہیں تھا اُن خطوں یا تزویراتی لحاظ سے اہم جگہوں پر رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اس کے لیے نئی راہیں پیدا ہو جائیں اور چین پہلی عالمی معاشی طاقت بن جائے۔
دوسری طرف گوادر اور اس سے ملحقہ ساحلی بیلٹ ہے، یہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ چین کی بیرونی سرمایہ کاری کا اکلوتا منصوبہ نہیں بلکہ چین کے ویژن 2025 کا ایک حصہ ہے۔ اس منصوبے کو one-belt one road یا سلک روٹ کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سلک روٹ کا دل ہے۔ اگر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کامیاب ہو جائے تو one-road one belt کا تصور حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ اگر یہ منصوبہ نہ بن سکے یا ناکام ہو جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سلک روٹ بھی نہیں بن سکتا ہے لیکن جو فوائد چین حاصل کرنا چاہتا ہے یا چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سے جو فوائد چین کو مل سکتے ہیں، وہ محض ایک خواب رہیں گے۔
اگر عسکری یا ملٹری حوالے سے دیکھیں توچین کے بھارت کے ساتھ دیرینہ تنازعات چل رہے ہیں۔ چین بھارتی صوبے مشرقی ہمانچل پردیش کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور گلگت ، بلتستان میں فوجی مرکز قائم کر کے جنگ کی صورت میں بھارت پر کم وقت میں فوجی دباؤ بنا سکتا ہے لیکن وہ گوادر کا انتخاب کرتا ہے کیونکہ آبنائے ہرمز (سمندری گزرگاہ) گوادر سے خاصی قریب ہے اور آبنائے ہرمز سے دنیا کا چالیس فیصد تیل گزرتا ہے۔ یہاں اگر چین عسکری مستقر بنائے تو تیل پر منحصر دنیا کی معیشت ، جنگی حالات میں اس روٹ پر قبضہ کر کے چالیس فیصد تیل کے سپلائی لائن کو بند کر سکتا ہے یا اسے سبوتاژ کر سکتا ہے۔ اس لیے یہ بات اہمیت اختیار کرتی ہے کہ یہاں (گوادر میں) چین کو اگر اقتصادی فوائد نہیں مل سکے تو اس کے باوجود عسکری یا فوجی لحاظ سے اتنے فائدے مل سکتے ہیں کہ وہ اس سرزمین اور اس روٹ سے کسی بھی صورت میں دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔
کیونکہ تجزیہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ بلوچستان کی ضرورت چین کے لیے اقتصادی سے زیادہ عسکری یا فوجی نقطہ سے ہے۔ یہاں عسکری بیس بنانے کی صورت میں وہ پوری دنیا پر اپنا اثرو رسوخ قائم کر سکتا ہے۔ دنیا کے تیل کی ایک بڑی مقدار روس، وینزویلا پیدا کرتے ہیں جن کا مغرب کے ساتھ تصادم موجود ہے اور مغرب کے لیے تیل کی ایک بڑی مقدار خلیجی ممالک سے اسی گزرگاہ سے جاتی ہے۔ اس حوالے سے یہاں قبضے کی صورت میں دنیا پر کافی حد تک چائنا اپنا اجارہ قائم کر سکتا ہے۔
آج کی دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو چکا ہے، علاقائی طاقتیں سر اٹھا رہی ہیں اور جنوبی ایشیا میں جتنے ممالک اور علاقائی طاقتیں موجود ہیں ان میں ایک علاقائی طاقت بھارت ہے۔ دنیا کی جو طاقت چین کی طاقت کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے وہ چین کے مقابلے میں بھارت کو سامنے لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہاں سے ایک بڑی تبدیلی کی لہر وجود میں آ رہی ہے۔ لال قلعے میں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کا بلوچستان بارے بیان اس بات کی واضح غمازی کرتا ہے کیونکہ دنیا قطعاََ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ طاقت کا توازن چین کے حق میں چلا جائے۔
آج کل ایک نئی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے؛ رِنگ یا گو ل دائرہ۔ اگرچین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ اور سلک روٹ پائے تکمیل تک پہنچے توچین سمندری اور خشکی کے راستوں کے ذریعے بھارت کا گھیراؤ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ مختلف اہم خطوں پر چین بندرگاہیں بنانے کے معاہدے کر رہا ہے، جن میں بنگلہ دیش اور سری لنکا شامل ہیں لیکن سری لنکا میں سری سینا سرکار کے بعد وہ وہاں مشکلات سے دوچا رہے۔ جنوبی چینی سمندر پر مکمل اختیار جتا رہاہے کہ ساؤتھ چینی سمندر اس کا ہے ، چین سمندری راستوں کے ذریعے بھارت کو گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ہندوستان کی خواہش ہے کہ وہ چینی گھیرے کو توڑے۔ اس لیے بھارت بلوچستان کے حوالے سے بات کر رہا ہے کیونکہ اترپردیش اور ہمانچل پردیش پر چین دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ اس کا حصہ ہیں۔ جب بھارتی وزیر اعظم وہاں کا دورہ کرتا ہے تو چین باقاعدہ احتجاج کرتا ہے کہ یہ متنازع خطہ ہے۔
درجہ بالا مقاصد کے حصول کو مدنظر رکھ کر چین ایک مکمل نوآدیاتی طاقت کے طور پر بلوچستان میں اپنی موجودگی بڑھا رہا ہے، جس کا اولین خمیازہ بلوچ قوم کو نسل کُشی کی صورت ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں شروع ہونی والی بلوچ قومی تحریک کا ابھار چینی نوآبادیاتی مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے۔ اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ چین حتیٰ الوسعیٰ کوشش کر رہا ہے کہ وہ پاکستان کو بلوچ قومی تحریک آزادی کو ختم کرنے میں مدد و تعاون کرے۔ اسی بنیاد پر وہ مغربی روٹ 146 معاہدے کے مطابق وہاں کی سڑکیں دو رویہ نہیں بلکہ چھ رویہ ہونی چاہئیں کی تعمیر کر رہا ہے۔ زیر تعمیر مغربی روٹ کی سڑکیں بھاری ٹریفک کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی ہیں۔ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ سی پیک کے نام پر پاکستان مغربی روٹ کو تعمیر کر کے اپنی فوج کی اُن علاقوں میں آسان نقل و حمل کے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کے اردگرد علاقوں کوچھاؤنیوں میں تبدیل کر رہا ہے۔ اس گزرگاہ کی قریبی آبادیوں کو تہس نہس کر رہا ہے، انہیں نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایک سال قبل پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ بلوچستان میں چھاؤنیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ ایف سی کی ایک کور پر مشتمل الگ چھاؤنی تربت میں بنائی جائے گی۔ جس کا الگ کور کمانڈر ہوگا تاکہ وہ اس روٹ کا تحفظ کر سکے اور اس روٹ کے لیے پاکستانی فوج نے 17500 اہلکاروں پر مشتمل ڈویژن پہلے ہی سے تشکیل دیا ہے۔
صرف چھاؤنی نہیں بلکہ چھاؤنی کے ساتھ ساتھ فوجی کیمپوں اور چوکیوں کا ایک جال بچھایا جا رہا ہے جیسا کہ دشت کنچتی کی زمینوں پر قبضہ کر کے وہاں نیوی کا ایک کیمپ بنایا جا رہا ہے۔ تربت میں کوہِ امام پر نیوی کیمپ بن چکا ہے۔ اس امر پر غور ضروری ہے کہ نیوی کیمپ ساحل پر بنائے جاتے ہیں مگر یہاں سے ساحل کافی دور ہے۔ اس کے علاوہ لوڑ ی ءِ جنگ جاہ ، تلار، ہیرونک ، ہوشاپ اور بالگتر میں بڑے بڑے فوجی کیمپ قائم کیے جا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ نئے کیمپوں کی تیاریاں جاری ہیں تاکہ وہ اس روٹ کے محفوظ بنا سکیں۔
اس لیے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سے ملحق علاقوں اور تحریک کے حوالے سے مضبوط علاقوں میں آپریشنوں کا ایک وسیع سلسلہ 2013 سے جاری ہے اور روز بہ روز اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دشت ، تمپ،گومازی، تربت، شاپک ، ہیرونک، بالگتر، کولواہ، آواران اور پروم جیسے علاقوں میں پے درپے آپریشن اس سلسلے کی کڑی ہیں تاکہ پاکستان نام نہاد چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کو محفوظ بنائے اور اس استحصالی پروگرام اور قبضہ گیرانہ ہوس کی تکمیل کر سکے۔ نیز بلوچستان کے دیگر حصوں میں جاری آپریشن ، فوجی درندگی اور ڈیتھ سکواڈز کے ظلم وستم اس کے علاوہ ہیں۔
دنیا کی دیگر معاشی و عسکری طاقتوں کو متاثر کرنے کے لیے مختلف خطوں میں inauguration یا مختلف منصوبوں کا افتتاح ہوتا ہے یا کہ حال ہی میں اس نام نہاد چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سے جو قافلہ گزارا جاتا ہے تاکہ وہ دنیا کو دکھا سکیں کہ یہاں اس پائے کی سڑک اور146 اقتصادی حب 145 بنایا جا رہا ہے تاکہ دنیا بھی اس پر سرمایہ کاری کرے ۔ اس قافلے کے بارے میں یہ باتیں بھی کی جا رہی ہیں کہ دراصل یہ تجارتی قافلہ چین کا نہیں بلکہ پاکستان کا تھا جسے چین کی سرحد پر لے جا کر واپس اسی نام نہاد چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سے گزارا گیا تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ یہ منصوبہ محفوظ ہے، اس پر سرمایہ کاری بھی محفوظ ہے تاکہ اس منصوبے میں دوسرے ممالک کی شمولیت سے چین و پاکستان فائدہ اٹھا سکیں۔ نہ صرف یہی روٹ بلکہ بلوچستان کے ہر وہ علاقے جہاں تحریک میں شدت پائی جاتی ہے وہاں وسیع پانے پرآپریشن جاری ہے؛ ڈیرہ بگٹی ، بولان، نصیرآباد، مری علاقوں ، قلات ، اسپلنجی اور مستونگ میں روز بہ روز آپریشنوں میں شدت لائی جا رہی ہے تاکہ جلدازجلد اس جنگ کو کچلا جا سکے۔
یہ نام نہاد چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ نہ صرف چین بلکہ پاکستان کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ آج پاکستان مذہبی جنونیت کی کفالت اور انہیں بطور پراکسی دنیا کے مختلف خطوں میں استعمال سے تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان کا ہمسایہ ایران کے ساتھ بھی تضادات سامنے آ رہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات بدترین دور میں داخل ہو چکے ہیں اور اب افغانستان کے لیے پاکستان قطعی طور پر قابلِ اعتبار نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ دیرینہ دشمنی اب حدوں کو چھو رہا ہے جو کسی بھی وقت ایک جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ یورپ ، امریکہ پاکستان کی منافقت اور دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے اب اس کے دوست نہیں رہے۔ ایسے حالات میں پاکستان کو فوجی و اقتصادی لحاظ سے ایک اتحادی کی ضرورت ہے تاکہ وہ پاکستان کو چلا سکے۔ پاکستان اس نام نہاد چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کے ذریعے اس انفراسٹرکچر، اقتصادیات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے اور اسی منصوبے کے ذریعے پاکستان اپنی تنہائی کو ختم کرنے کی متمنی ہے۔
آپریشنوں کی شدت اور راہداری منصوبے کے چند حصوں کا افتتاح کرنا 2018 کے الیکشن سے بھی جڑے ہیں تاکہ نوازشریف پاکستان کی ترقی کی علامت بن کر ایک بار پھر سرکارمیں آ سکے اور ان آپریشنوں کا ایک مقصد مقبوضہ بلوچستان میں الیکشن سے بھی وابستہ ہے تاکہ 2013 کے بلوچ عوام کے پاکستانی انتخابات کے واضح بائیکاٹ کے بعد پاکستان کی عمل داری کے خاتمے کے بین الاقوامی اثرات کو زائل کیا جا سکے۔ بلوچ قومی تحریک کی شدت ، چینی انجینئروں پر حملہ ، تیل و گیس تلاشنے والی کمپنیوں پر حملے اور بھارت، افغانستان ، بنگلہ دیش، افغانستان کا بلوچ قومی تحریک کی حمایت کے عندیے سے پیدا شدہ صورت حال کو تبدیل کر سکے۔
چونکہ بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے میڈیا بلیک آؤٹ ہے، یہاں عالمی میڈیا پر قدغن ہے اور مقامی میڈیا واضح طور پر پاکستانی بیانیے کو آگے بڑھانے پر مامور ہے۔ اس لیے دنیا کے سامنے ان آپریشنوں کی شدت اکثر صورتوں میں واضح نہیں ہے۔ اس لیے 2018 کے متوقع انتخابات پاکستانی ریاست اور بلوچستان میں ان کے باجگزاروں کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ اسے ہر صورت میں دنیا کے سامنے کامیاب دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک بلوچ قومی بقا و تشخص کی حفاظت اور قومی مڈی پر کسی بھی عالمی یا علاقائی سودے بازی کی مخالف ہے اور یہ نام نہاد چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بلوچ قومی مرضی و منشا کی صریحاََ خلاف ورزی ہے۔ اس لیے پاکستان کی ایک کوشش یہ بھی ہوگی کہ وہ بلوچ قومی تحریک کی عالمی پذیرائی اور وسعت کے اثرات کو زائل کر کے یہ دکھانے کی کوشش کرے گا کہ بلوچ سرزمین کے اصل وارث وہی ہیں جو کہ انتخابات کی صورت میں منتخب ہو کر پاکستانی پارلیمان میں آ گئے ہیں۔
اس مجموعی صورت حال میں عالمی مفاد بھی کارفرما ہیں چونکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ آج دنیا کی پہلی معاشی و عسکری طاقت ہے۔ بھارت کے چین کے ساتھ علاقائی تنازعات موجود ہیں۔ جنوبی ایشیا میں امریکہ بھارت کے ذریعے چین کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ امریکہ بھارت کے ساتھ مختلف معاہدے کر رہا ہے، جن میں ایٹمی ری ایکٹروں کی تعمیر، ایک دوسرے کے فوجی اڈوں کے استعمال کے دوسرے عسکری و اقتصادی معاہدے بھی شامل ہیں اور بھارت سی پیک اور چین کے دوسرے تزویراتی لحاظ سے اہم منصوبوں کے ذریعے بھارت کے گرد ایک حلقہ بنانے کی چینی کوششوں کا توڑ پیدا کرنے کے لیے ایران کے ساتھ چابہار پورٹ کا معاہدہ کر رہاہے تاکہ چاہ بہار پورٹ کے ذریعے وسطی ایشیا کے قدرتی وسائل کے ذریعے اپنی اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ چین کے اثر و رسوخ کو کم اور ختم کر سکے۔
یہاں یہ امر بھی بعید ازقیاس نہیں کہ ایران کے خلاف پابندیوں کا خاتمہ بھی اسی صورت حال سے جڑا ہوا ہے تاکہ مستقبل میں بھارت ایران کے ساتھ معاہدات کر سکے اور بھارت ایران ، افغانستان آپس میں معاہدات کر کے چینی کوششوں کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکے۔ بھارت اقوام متحدہ میں ویٹو پاور حاصل کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ اقوام متحدہ کے مستقل اراکین میں شامل ہو جائے۔ اس لیے وہ اقوام متحدہ کے پانچ مستقل اراکین کے ساتھ اپنے تعلقات میں اضافہ کر رہا ہے۔ بھارت اپنے اسلحہ کا ساٹھ سے ستر فیصد روس سے حاصل کرتا ہے۔ تمام تنازعات کے باوجود چین کے ساتھ تجارت کر رہا ہے۔ بھارت سب میرین فرانس سے حاصل کر رہا ہے۔ برطانیہ سے بھی معاشی و اقتصادی معاہدات موجود ہیں ، امریکہ کے ساتھ تعلقات نہایت مضبوط ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی الیکشن کمپیئن کے دوران ایک بات کہی تھی کہ وہ امریکہ میں چینی اثر کم کرے گا۔ اسی بنیاد پر امریکہ، چین تائیوان مسئلہ اٹھا رہا ہے۔ تائیوان آج عسکری و اقتصادی حوالے سے امریکہ کا اتحادی ہے لیکن دنیا نے تائیوان کو بطور ملک قبول نہیں کیا ہے۔ ٹرمپ کا تائیوان کے وزیراعظم کو فون یہی عندیہ دیتا ہے کہ وہ one-china پالیسی سے نکل رہا ہے جو کہ چین کے معاشی و اقتصادی اثرورسوخ کو کم کرنے کی امریکی کوششوں کا غماز ہے۔
عالمی سیاست میں روس ایک بار پھر اپنا مقام بنا رہا ہے۔ آزادی کے بعد بھارت نے غیر وابستہ تحریک سے منسلک ہونے کے باوجود نظریاتی طور پر روس کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھا ہے کیونکہ نہرو کے سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے وہ ابتدا ہی آپس میں اتحادی بن جاتے ہیں۔ البتہ 1990 میں سوویت یونین کے انہدام سے روس اقتصادی و عسکری حوالے سے کمزور ہو جاتا ہے لیکن 2000ء سے روس اپنی معاشی و عسکری طاقت کی تجدید میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اسی بنیاد پر روس کے بھارت سمیت مختلف ممالک کے ساتھ فوجی مشق ہو رہی ہیں، اقتصادی معاہدات ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ شام ، ایران ، افغانستان میں اپنا اثر بڑھا رہا ہے۔ اس تمام صورت حال کا تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ دنیا یک قطبی کے بجائے کثیر قطبی طاقتوں کی صورت میں نمودار ہو رہی ہے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن امریکہ یا یورپ کے بجائے ایشیا میں منتقل ہو رہا ہے۔ چونکہ طاقت کا ارتکاز اسی خطے میں منتقل ہو رہا ہے تومختلف جنگیں بھی اسی خطے میں چل رہی ہیں۔
بلوچ سرزمین نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ دنیا کے مفادات یا اثرورسوخ کی جنگ میں بلوچ اپنے قومی مفادات کو کس طرح ہم آہنگ بناتا ہے تو ہمارے لیے کامیابی کے امکانات یقینی نظر آتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بحیثیت قوم دنیا کے مفادات کا مطالعہ اور تجزیہ کے ساتھ اپنی شرائط پر دنیا کے ساتھ معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آج جس طرح ہمیں عالمی دنیا کی حمایت و تعاون کی ضرورت ہے، اسی طرح عالمی طاقتوں کو بھی ہمارے تعاون کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہماری پالیسیوں کا جھکاؤ ایک طرف رکھنے کے بجائے کثیرالجہتی ہونے کی ضرورت ہے اور بڑی طاقتوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہمسائے اور چھوٹے ممالک کے ساتھ قابلِ بھروسہ پالیسی اور رشتہ قائم کرنے کی کوشش کریں۔
لیکن اس امر پر بحیثیت قوم ہمیں ژرف نگاہی ، دوراندیشی اور اعلیٰ سیاسی بصیرت سے قومی پالیسیوں کا تعین کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ریاستی نسل کُشی کو روکنے ،وسیع استحصالی منصوبوں کو ناکام بنانے اور قومی بقا کے حصول کے لیے ہم کامیاب سفارت کاری کے ذریعے بڑے ممالک کے ساتھ ساتھ چھوٹے ممالک کی بھی سیاسی اور سفارتی مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
یہاں برسرپیکار بلوچ قومی سیاسی اور مزاحمتی پارٹیوں کو جامع اور متوازن پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ غیر متوازن اور ایک جانب جھکاؤ کی پالیسی ہماری مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ماضی میں سوویت یونین پر انحصار کی پالیسی اور یونین کے انہدام کے بعد ہماری قومی تحریک پراس کے مضراثرات ہماری بے عملی کا سبب بن گئے۔ اسی طرح ہم بارہا اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کرتے ہیں جوکہ بین الاقوامی برادری کا عالمی ادارہ ہے۔ جس کے وجود کا سبب ہی ایسے مسائل اور قومی تنازعات کا حل ہے۔ اس کے ساتھ عالمی طاقتوں سے اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے بلوچ نسل کُشی پر روک لگانے کی مانگ بھی کی جاتی ہے۔ مگر ایک فیکٹر کی جانب سے ایک ملک کو مداخلت کی دعوت دینا ناپختہ سیاست کا غماز اور قومی مفادات کے منافی ہے۔ جس سے آسانی کے ساتھ تحریک کو یا تحریک کے اُس جزو کو پراکسی قرار دیا سکتا ہے اور یہ مخالف کے کام کو آسان کرنے کے مترادف ہے۔
قومی تحریک آج تمام پارٹیوں سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ان کی پالیسیاں بالیدگی اور اعلیٰ سیاسی معیار کی حامل ہوں جو متوازن اور بلوچ قومی مفادات سے ہم آہنگ ہوں۔ دنیامیں چلنے والی تمام تحریکوں کا تجزیہ یہ ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے کسی حد تک بیرونی امداد پر ضرور انحصارکیا ہے مثلاََ مقامی ہونے کے باوجود فیڈرل کاستروکی سربراہی میں چلنے والے کیوبا کی تحریک ، چین میں ماؤ کی قیادت میں چلنے والی تحریک کو سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی۔ اسی طرح ہماری تحریک کو مضبوط اور کامیاب ہونے کے لیے امداد کی ضرورت ہے لیکن ہم کسی بھی ملک یا طاقت سے ملنے والی امداد پر اپنے قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔