منگل، 27 مارچ، 2018

سردار ..سرمایہ دار __ مہر میر



سردار ۔۔۔۔ سرمایہ دار 

مہر میر
جمال دن بھر کی تھکان لئے رات کو گدان کے سامنے بابا کے قریب آکر بیٹھ گیا اور ساتھ رکھے اونٹ کی رخت پر خیری ڈال کر ٹیک لگایا۔۔بابا ساتھ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھاتھا۔تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بابا کہنے لگا جمال صبح بزگل کے ساتھ نہیں جانا۔۔ کل نقل مکانی کرنی ہے۔۔۔۔جمال چونک پڑا اور اٹھ بیٹھا۔۔ کیوں خیر ہے بابا۔۔
جلا ل خان۔۔۔ سردار کے لوگ آئے تھے کلہو(پیغام) لیکر کہ ہم یہاں سے نقل مکانی کریں کہیں اور جا کر پڑ اﺅ ڈالیں۔..
جمال مگر کیوں بابا۔۔
جلال خان .سردار کا بیٹا کہہ رہا تھا یہ انکی شکار اور تفریح کی جگہ ہے۔۔۔۔جمال حیرت سے مگر بابا آپ نے انہیں نہیں کہا یہ ہمارے آباﺅاجداد کی ہنکین ہے کیسے اسے چھوڑ کر جائیں۔۔
جلال خان۔۔۔۔ میں نے کہا تھا مگر سردار کے بیٹے نے کہا ماما کونسی ہنکین۔۔ کہیں بھی پڑاﺅڈالو وہ ہنکین اور خلق بن جاتا ہے۔۔۔کونسے یہاں تمہارے محلات ہیں۔۔خشک ندی ہی تو ہے یہ۔۔۔۔ہر طرف ویرانی ہے۔۔کیا رکھا ہے یہاں اور پھر تمہارے دو ہی تو بستراور ایک گدان ہے کہیں بھی جاکر پڑاﺅڈالو۔۔۔سرادر کے بیٹے کی باتوں کو دہرانے کے بعد جلال خان خاموش ہوا۔۔۔
باپ کی پیشانی پر بل اور انکے چہرے پر مایوسی اور بے بسی کو دیکھ کرجمال غصے میں کہنے لگا بابا وہ کیسے ہمیں بے ہنکین کرسکتے ہیں۔۔خشک ندی ہے تو کیا ہوا ہماری یادیں ہماری وابستگی ہے یہاں سے، بچن گزارا ہے ہم نے یہاں اور یہیں جوان ہوئے۔۔۔۔ آپ نے تو پوری عمر گزاری ہے یہاں۔۔۔ہمارے آباﺅ اجداد ان وادیوں میں رہے ہیں یہاں انکے نقش ہیں تصورات ہیں اور ان سے جڑے خیالات ہیں۔۔یہ ہمارے لئے کیسے ویران ہوسکتے ہیں ان وادیوں میں ہم کھیلے ہیں یادیں وابستہ ہیں ہماری ان سے۔۔انکی تفریح کیلئے ہم اپنی ہنکین تاریخ یادیں چھوڑ کر در بدر ہوں یہ کیسے ممکن ہے۔۔جمال بولے جارہا تھا غصے سے انکی نتنیں پھول گئی تھیں۔۔
جلال خان خاموش گہر ی سوچ میں یہ سب سن رہا تھا۔۔توڑی دیر خاموشی کے بعد کہنے لگا بیٹا سرداراب سرمایہ دار بن چکا ہے اور سرمایہ دار ہمیشہ توسیع پسند ہوتا ہے۔۔۔شاید وہ اس علاقے کو کاروباری غرض میں لانا چارہے ہوں اس لئے قبضے کی نیت ہے انکی ۔۔۔۔جب نیت قبضہ کی ہو تو دوسرے کی احساسات ،ننگ اور تہذیب و خیالات معنی نہیں رکھتے۔۔۔انہیں ان کالی گدانوں سے خوف آتا ہے۔۔جب تک یہ گدان ناتواں سے گنداروں پر کھڑی رہیں گی سردار کی توسیع پسندی کو خطرات لاحق رہیں گے۔۔اس کے لئے یہ خشک ندی اور ویران میدان اور بے آب و گیاں گھاٹیاں ہی ہیں کیونکہ انکا یہاں سے تعلق احساس نہیں مفاد سے جڑا ہے۔۔۔ان گھاٹیوں ندیوں اور میدانوں و پہاڑوں کے رنگ ہماری احساسات ہماری تصورات اور ان سے جڑے ہمارے خیالات و یادوں سے ہیں۔۔اور یہی وابستگی ہمیں ان سے مہر عشق اور ان پر مر مٹنے پر راغب کرتا ہے۔۔۔۔ 
جمال۔۔تو کیا بابا آپ اپنے باپ دادا کے ہنکین کو چھوڑ سکو گے ؟ بھول سکوگے ان وادیوں سے یادیں۔۔
جلال خان کنامار میں کیسے بھول سکتا ہوں میرے باپ دادا اونٹو ں کی قافلہ لئے ان وادیوں سے گزرے ہیں۔۔انکا ان وادیوں میں بسیرا رہا ہے۔۔شان سے انہوں نے زندگی گزاری ہے یہاں۔۔ ان وادیوں کی حفاظت کی ہے انہوں نے۔۔۔ان کے قدموں کے نشانات ہیں یہاں ہر طرف۔۔میں بزگل کے ساتھ ان بل کھاتی گھاٹیوں سے گزرتے ہتم کی رنگینیوں میں جوان ہوا ہوں۔۔میں میر ا عشق اور میرا مہر ان وادیوں میں آج بھی رنگوں کی صورت میں موجود ہے۔۔یہاں کی ہوامیری تاریخ اور میری تہذیب کا گن گاتی ہیں۔۔یہ میں ہی محسوس کرسکتا ہوں۔۔سردار کابیٹا جسے گدان کہہ کر محض ایک چھوٹا سا کپڑا سمجھ رہے ہیں میرے لئے وہ گدان میرا مسکن میری آنگن اور میرا گھر رہا ہے۔۔ میں اس گدان میں بچپن کی جبلت سے لیکر پختہ شعور تک پرورش پایا ہوں۔۔وہ گدان سخت سردیوں میں ماں کی گود کی طرح مجھے اپنی آغوش میں لئے بچاتی آئی ہے۔۔ اور گرمیوں میں میرے سر پرچھاﺅں بن کر مجھے دھوپ سے بچاتی رہی ہے۔۔۔یہ احساس اور یہ وابستگی وہ عشق ہے جو ازل سے انسانوں کو اپنی ہنکین گھر وطن اور اور اپنی تہذیب سے ہوتاآیا ہے۔۔کسی بھی علاقے کی خوبصورتی اس کی ظاہری کیفیت سے بڑھ کر اس سے وابستہ لوگوں کے احساسات سے ہوتا ہے۔۔سرسبز وشاداب علاقوں کی طرح خشک علاقوں کی خوبصورت بھی ممتاز اور رنگوں بھری ہوتی ہے بس عشق و احساس چایئے انہیں دیکھنے کے لئے۔۔۔۔۔سردار کابیٹا ولایت میں پلا بڑا ہے اسے اس خمیر اور اس تہذیب سے کیا واسطہ۔۔۔وہ وہاں بھی پرایا رہا اور یہاں بھی پرایا ہی ہے۔۔
جلال خان گہر ی سانس لیکر اٹھا اور خیر ی جھاڑتے ہوئے کہنے لگا کنا مار میں سردار کی دستار بندی کی روایت میں قبیلے کے ایک معتبر کی حیثیت سے شریک رہا ہوں میں اقدار کا قیدی ہوں مگر تم آزاد ہو۔۔بابا اٹھ کر گدان میں چلا گیا سونے کے لئے۔۔۔جمال رات دیر تک بستر پر کروٹیں بدلتا رہا۔بابا کی باتوں پر غور کرتا رہا۔۔۔بچپن سے جوانی تک کا ہر لمحہ اور اس علاقے سے جڑی شریں یادوں سے تلخ لمحات تک کو یاد کرتار ہا۔۔
صبح سورج کی کرنیں نکلنے تک سب سامان سمیٹ چکے تھے۔۔ اونٹوں پر سامان لدھ جانے کے بعد جلال خان اونٹ کی مہار پکڑ کر پیچھے مڑا ہنکین پر نظریں دوڑائیں۔۔اسکے چہرے پر ہزاروں سوال تھے۔۔۔۔پھر جمال کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔۔کنا مار آج میں جارہاہوں۔۔ ہنکین اور اس سے جڑی یادیں تصورات تہذیب و تاریخ تمہارے لئے چھوڑ رہا ہوں۔۔ان سے عشق ومہر تمہارے ہتھیار ہونگے۔۔انکی حفاظت کرنا۔۔۔اونٹو کا قافلہ روانہ ہوا ایک ایک کر کے اونٹ جمال کے سامنے سے گذر رہے تھے آخر میں بڈو (کتا ) بھی زبان لٹکائے قافلے کے پیچھے جارہا تھا۔۔جمال کھڑا دیکھ رہا تھا۔۔ وقت کے اس لمحے کو جو برسوں کی تاریخ سمیٹے قافلہ بن کر رواں تھا۔۔۔

اتوار، 25 مارچ، 2018

بلوچستان کا سُتک گین در،’نمروُد کا ٹھکانہ‘



بلوچستان کا سُتک گین در ،نمروُد کا ٹھکانہ


سحر بلوچ ــ گوادر



گوادر سے 150 کلومیٹر دور ایک جلا ہوا دروازہ موجود ہے جسے سُتک گین در کہتے ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ دروازے کا لفظ علامتی طور پر صنعتی راہداری کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو 3500 قبل مسیح میں مکران سے میسوپوٹیمیا تک جاتی تھی۔

سُتک گین در کے قریب رہنے والے داد رحیم یہاں 50 سال سے مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے دادا پردادا اس جگہ کو نمروُد کا ٹھکانہ کہتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ اس جگہ کے مالک وہ خود ہیں اور اس کی رکھوالی بھی وہ خود ہی کرتے ہیں لیکن اس کی اہمیت کا اندازہ ان کو وقت کے ساتھ ہوا۔پانچ ہزار لوگوں کی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ میدانی بازار کے نام سے مشہور ہے جو یونین کونسل سینٹسر، تحصیل جیونی اور ضلع گوادر میں پڑتا ہے۔

2004 سے شروع ہونے والی ریاست اور سرمچاروں کے درمیان جنگ کی وجہ سے بہت سے لوگ یہاں سے باقی علاقوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس جگہ کے بارے میں اس وقت یہ تاثر بنا کہ یہاں پر بھوت پریت ہیں اس لیے یہاں کوئی بھی زیادہ عرصے نہیں رہ پاتا۔
داد رحیم بتاتے ہیں کہ مختلف ادوار میں انگریز اور فرینچ مشن کی اس جگہ آمد اور کھدائی کے عمل سے علاقے کے لوگوں کو شبہ ہوا کہ شاید یہاں سونا ہے، لیکن وہ سونا ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔مجھے کئی بار کہا گیا کہ ہمارے ساتھ آؤ اور سونا تلاش کرنے میں مدد کرو لیکن میں فساد پیدا کرنے کے ڈر سے پیچھے ہٹ گیا اور شامل نہیں ہوا۔
تین سال پہلے لوگ کسی مولوی کے ہمراہ رات میں یہاں آئے۔ مولوی ازخود کچھ بڑبڑانے لگ گیا جس کی وجہ سے سب ڈر کر بھاگ گئے۔ اس کے بعد سے یہاں کوئی نہیں آیا ہے۔
بھوت پریت کی کہانیوں کے برعکس، محقق اور لسبیلہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حمید بلوچ بتاتے ہیں کہ سُتک گین در کے لوگ دراصل آباد کار تھے جن کا کام صنعتی راہداری کی حفاظت کرنا تھا۔
اس جگہ پر تین ادوار میں تحقیق کی گئی ہے۔
1875 میں میجر موکلر نے مکران میں اپنی ایک مہم کے دوران سُتک گین در دریافت کیا۔ انھوں نے یہاں کے گھروں اور قلعوں کے بارے میں لکھا کہ یہ بالکل وادی سندھ کی تہذیب کے زمانے میں بنے گھروں کے طرز پر بنے ہیں۔
1930 میں سر اورل سٹین نے مکران کا دورہ کیا۔ لیکن ڈاکٹر حمید بلوچ کہتے ہیں کہ اورل کا طریقۂ کار غیر سائنسی تھا کیونکہ وہ صرف سالم حالت میں موجود چیزیں نکالتے اور آگے بڑھ جاتے جس وجہ سے یہاں پر موجود بہت سے آثار ضائع ہو گئے تھے۔
1950 میں امریکن آرکیالوجسٹ جارج اے ڈیلس اور ڈاکٹر رفیق مغل یہاں آئے۔ یہ اس دور کا سب سے تفصیلی جائزہ تھا جس کا تذکرہ ڈیلس نے اپنی کتاب اے سرچ آف پیراڈائز میں کیا۔
ڈاکٹر حمید نے کہا کہ ان کو کہا گیا تھا کہ اگر آپ کو جنت دیکھنی ہے تو آپ مشرق کی طرف سفرکریں۔ ان کو جنت تو نہیں ملی لیکن سُتک گین در کے قریب موجود میسوپٹیمین زمانے میں بنی ہوئی قلعے کی دیوار ضرور مل گئی۔
پھر 1987 سے لے کر 2001 تک فرینچ اور اطالوی مشن نے مکران کا ایک طویل اور تفصیلی جائزہ لیا۔ ان کو وہاں مچھلی کی ہڈیاں ملیں جس سے انھوں یہ اخذ کیا کہ جن لوگوں کو یونانی فش ایٹرز (مچھلی خور) کہتے تھے وہ چار ہزار سال سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔
تاہم جو سائنسی شواہد ملے ہیں وہ ساڑھے چار ہزار قبل کے ہیں۔
آج یہ جگہ اسی طرح موجود ہے لیکن یہاں سے بہت سا سامان اور آثار چوری ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر حمید کہتے ہیں پاکستان میں آرکیالوجی کو وہ اہمیت حاصل نہیں جس کی وہ مستحق ہے۔

جمعرات، 22 مارچ، 2018

کامریڈ بھگت سنگھ کے نام خط جو میں لکھ نہیں سکتا



کامریڈ بھگت سنگھ کے نام خطجو میں لکھ نہیں سکتا
مشتاق علی شان
23مارچ کامریڈ بھگت سنگھ، کامریڈ سکھ دیو اور کامریڈ راج گرو کی شہادت کی چھیاسیویں یاد کا دن۔ سوچا تھا اس موقع پر کامریڈ بھگت سنگھ کو ایک خط لکھوں گا جس کی ابتدا لال سلام نہیں بلکہ انقلاب زندہ باد کے اس نعرے سے کروں گا جس کی گونج میں وہ تختہ ء دار پر ہنستے ہوئے جھول گئے تھے ۔ وہ قتل، وہ شہادت جس کا جشن برطانوی سامراج کی غلام گردشوں سے لے کروطن فروش خائنوں کے عشرت کدوں اور شاید عدم تشدد کے سب سے بڑے ہندی دیوتا کی کٹیا تک میں منایا گیا ۔وہ بھگت سنگھ جس کے بارے میں جوش ملیح آبادی نے یہ سدا بہار شعر کہا تھا
وہ بھگت سنگھ جس کے غم میں اب بھی دل ناشاد ہے
اس کی گردن میں جو ڈالا تھا وہ پھندا یاد ہے
لیکن آج میں پنجاب کے اس بانکے انقلابی کو خط نہیں لکھ پاؤں گا ۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے فرانس کے ایک نراجی شہید ویلاں کے اس قول سے لاجواب کر دے گا کہ بہروں کو سنانے کے لیے دھماکوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ویلاں اور اس کا یہ قول جو بھگت سنگھ کو بہت پسند تھا ۔ ایک سفر تھاجو بھگت سنگھ نے باکونن اور ویلاں سے مارکس ولینن تک ،انارکزم سے مارکسزم تک کیا۔وہ بھگت سنگھ جواپنے انقلابی ساتھیوں کے ہمراہ اس قول کو عمل کے میزان پر کھرا ثابت کرنے میں حق بجانب تھا ۔اور اس کے تیس کروڑ ہم وطنوں کی آزادی کا تمسخر اڑانے والے ، ان پر عرصہ حیات تنگ کر دینے والے ،وقتاََ فوقتاََ ان کے لہو سے انہی کی دھرتی کو رنگین کر دینے والے گورے قابضین یہی دھماکوں کی زبان تو سمجھتے تھے ۔غلام ہندوستان کا ایک آزادی پسند بیٹا یہ حق رکھتا تھا کہ اپنے ہم وطنوں کے ایک رہنما لالہ لجپت رائے پر ڈنڈے برسا کر انھیں شہید کر دینے والوں سے انتقام لینے کے لیے 8اپریل 1929کو ان بیرونی قابضین میں سے ایک کو اپنی گولی کا نشانہ بنا ڈالے ۔اور پھر لاہور کی دیواروں پر اپنے ہاتھ سے تیار کردہ پوسٹر چسپاں کرے جس پر لکھا ہو  ہمیں ایک شخص کو مارنے کا دکھ ہے ۔لیکن یہ شخص ایک ظالم ،قابل نفرت اور غیر منصفانہ نظام کا حصہ تھا اور اسے مارنا ضروری تھا ۔اس شخص کو برطانوی سرکار کے ایک ملازم کی حیثیت سے مارا گیا ہے جو دنیا کی سب سے ظالم سرکار ہے ۔ہاں ہمیں ایک انسان کا خون بہانے کا دکھ ہے لیکن انقلاب کی قربان گاہ کو لہو سے دھونا بھی لازم ہے ۔ہمارا مقصد ایک ایسا انقلاب برپا کرنا ہے جو ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کا استحصال ختم کر دے گا ۔
سو آج میں بھگت سنگھ کو جو خط لکھنا چاہتا تھا نہ تو خود کو اس کا اہل پاتا ہوں اور نہ یہ حوصلہ رکھتا ہوں ۔کاش میں آج بھگت سنگھ کو لکھ سکتا کہ جس جلیانوالہ باغ کی لہو سے سرخ مٹی کی سوگند کھا کر ہندوستان سوشلسٹ ری پبلکن آرمی کے جانبازوں نے بندوق اٹھائی تھی وہ ان کی پھانسی کے بعد کبھی زمین پر نہیں گری اوراس کی گونج آج بھی منقسم ہندوستان میں جابجا سنائی دیتی ہے۔ اور13اپریل 1919کو جلیانوالہ باغ میں ہزاروں نہتے ہندوستانیوں کے قتل عام کا میلہ سجانے والا گورا قصاب ،پنجاب کا گورنر اوڈ وائر جس نے قاتلوں کے سرغنہ جنرل ڈائر کو تار بھیج کر اس قتل عام کی شاباش دی تھی ،جسے ہندوستان میں مقیم سفید فام نسل پرستوں نے بیس ہزار پاؤنڈز جمع کر کے ایک ایسی جڑاؤ تلوار پیش کی تھی جس پر  پنجاب کا نجات دہندہ کندہ تھا ۔اس اوڈوائر کو پنجاب کے انقلابی بیٹوں نے بھلایا نہیں ۔ ہاں جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے 21سال اور بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی شہادت کے 9سال بعد اسی مارچ کی 13تاریخ اور40کے سال میں رام محمد سنگھ آزاد ( ادھم سنگھ) لندن کے کیکسٹن ہال میں اوڈ وائر کے سرِ پُر غرور کو نشانہ بنا کر خود دار پر سرفراز ہو تا ہے ۔
کاش میں پنجاب کے اس انقلابی سپوت کو لکھ پاتا کہ اس کی شہادت سے محض آٹھ سال قبل یہی23مارچ اور 1923کا سال تھا جب میری دھرتی سندھ کے شہر سکھرمیں بھی ایک بھگت سنگھ نے آنکھ کھولی تھی ۔اس کا نام ہیموں کالانی تھا ۔وہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں سے ،ان کی قربانی سے بے حد متاثر تھااور اکثر یہ گیت گنگنایا کرتا تھا  پھانسی پھنداجھول گیا مستانہ بھگت سنگھ اس نوجوان انقلابی نے بھی گورے حاکموں کے خلاف بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے راستے کو اپنایا ۔اس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انگریزوں کے خلاف کئی ایک کارروائیاں کیں اور ایک دن سکھر سے برطانوی فوج کا اسلحہ لے کر گزرنے والی ٹرین کی پٹریاں اکھاڑتے ہوا گرفتار ہوا اور مارشل لاء کورٹ سے موت کی سزا پائی ۔ لیکن موت تو انقلابیوں کے لیے نئی زندگی کی نوید ہوتی ہے۔ بے پناہ تشدد کے باوجود انگریز ہیموں کالانی سے اس کے کسی ساتھی کا نام ،ٹھکانہ اگلوانے میں ناکام رہے ۔یوں ہیموں کالانی جو ابھی محض بیس سال کا تھا سکھرڈسٹرکٹ جیل میں21جنوری1943کو  انقلاب زندہ باد  کا نعرہ بلند کرتے ہوئے بھگت سنگھ کی طرح پھانسی پھندا جھول گیا ۔
آج میں بھگت سنگھ کو نہیں لکھ پاؤں گا کہ جلیانوالہ باغ سے لے کر قصہ خوانی بازار تک میں وحشت وبربریت کا کھیل کھیلنے والے انگریز حاکموں کو فروری 1946میں ایک بار پھر بمبئی کی سڑکوں پر  انقلاب زندہ باد کے اس نعرے کو گونج سنائی دی تھی ۔ اور 22فروری 1946کو بمبئی ٹاؤن ہال کے سامنے ایک بار پھر انگریزوں کی بندوقوں نے نہتے ہڑتالی جہازیوں پر آتش وآہن برسایا تھا ۔سرخ پرچم ہاتھ میں لیے گولیوں کا نشانہ بننے والوں میں اٹک کے گاؤں حضرو کا ایک انقلابی جوان کامریڈ میر داد بھی شامل تھا جو بھگت سنگھ کے انقلابی آدرش کا پرچارک تھا ۔
لیکن میں کامریڈ بھگت سنگھ کو بہت کچھ نہیں بتا سکتا ،میں انھیں کیسے لکھ سکتا ہوں کہ گورے حاکم جاتے جاتے بھی اس کے راوی کے کناروں کو لاکھوں بے گناہ ہندوستانی باشندوں کے خون سے سرخ کردینے کے براہِ راست ذمہ دار تھے ۔ ان کی تقسیم کرو اور حکومت کرو 145145 کی سامراجی پالیسی کے نتیجے میں آزادی  کی شہنائیوں میں ان ہزاروں مجبور عورتوں کی آہیں اور سسکیاں ڈوب گئیں جنھوں نے اس  آزادی کی سب سے بھیانک قیمت ادا کی ۔میں بھگت سنگھ کو نہیں بتا سکتا کہ کتنے انسان گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے اور کتنے بچے نیزوں اور کرپانوں پر اچھالے گئے ۔میں
بھگت سنگھ کو کیسے بتاؤں کہآزاد دیشکے نیتاؤں کی ایماء پر کیسے تلنگانہ کے انقلابیوں کے سروں کو فوجی بوٹوں تلے کچلا گیا ۔کامریڈ رنگا چاری کی طرح اس کے کتنے ہی فکری رفقا کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا ۔
میں کامریڈ بھگت سنگھ کو یہ لکھنے کا حوصلہ خود میں نہیں پاتا کہ 12اگست 1948کو چارسدہ کے بابڑہ میدان میں اس کے سینکڑوں ہم وطنوں پر گولیاں برسا کر ان کے ورثاء سے گولیوں کی قیمت بطور جرمانہ وصول کرنے والا کوئی جنرل ڈائر نہیں بلکہ ایک عبدالقیوم خان تھا ۔میں بھگت سنگھ سے کشمیریوں پر گزرنے والی اس قیامت کا ذکر بھی نہیں کر سکتا جو قبائلی لشکر ترتیب دے کر ان پر ڈھائی گئی ۔میں اسے ایک حریت پسند سر پھرے بلوچ نوروز خان کے بارے میں بھی نہیں بتا سکتا مقدس کتاب کے نام پر جس کے ساتھ دھوکہ دہی کی گئی ،اسے پہاڑوں سے اتار کر کوہلوجیل میں مرنے پر مجبور کیا گیا اور اس کے بیٹوں کو حوالہ دار کیا گیا ۔اور اس قتال کا سلسلہ ابھی جاری ہے ۔
میں کامریڈ بھگت سنگھ کو کیسے بتاؤں کہ ایک جنرل ایوب خان ہوتا تھا ۔ہاں جنرل ڈائر نہیں،جنرل ایوب ۔جس نے بھگت سنگھ کی انقلابی روایات کے امین کامریڈ حسن ناصر کو لاہور کے شاہی قلعہ میں دار ورسن کی آزمائشوں سے گزارا ۔ہاں اور پھر ایک اور جنرل ،بنگال کے نہتے عوام، لٹی ہوئی عزتیں پا گزیدہ متورم لاشیں۔ نہیں نہیں قاضی نذرلاسلام کی دھرتی تو بھگت سنگھ کو بہت عزیز تھی. تاریکیوں کے ایک نمائندہ جنرل ضیاء الحق کے فوجی عقوبت خانے میں ایک اور انقلابی کامریڈ نذیر عباسی کا قتل ۔انقلابیوں کے کاسہ ء سر میں انہی کا لہو پینے کا خبط تو ضیاء کو افغانستان تک لے گیا۔ اپنے عہد کے اس جنرل ڈائر تمثال سے نبرد آزما بہت سے سرفروش، حمید بلوچ سے لے کر ایاز سموں ،ناصر بلوچ ،ادریس بیگ، عبدالرزاق جھرنا،عثمان غنی اور ادریس طوطی جیسے بے شمار نام ،بے شمار سولیاں ۔اس جنرل کے پیدا کردہ بہت سے مسلح نسل پرست اور مذہبی جنونی گروہ ،تباہی کی ایک المناک داستان ۔
اور اب میں اس موجودہ چلن کے بارے میں بھگت سنگھ کو کیا لکھوں کہ اب کسی شہید کی لاش بھی شناخت نہیں ہوتی،شناخت تو ایک طرف کہ لاش ہی دریافت نہیں ہوتی۔ان کے ناموں سے لوگ ناآشنا ہی رہتے ہیں ۔کبھی کبھار کوئی اجتماعی قبر دریافت ہو تی ہے یا مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں لیکن جبر کی ان نت نئی صورتوں اور حربوں کے بارے میں لب کشائی جرم اور غداری یا پھر جبری گمشدگی ہے ۔
اور پھر میں کامریڈ بھگت سنگھ کو یہ بھی تو نہیں لکھ سکتا کہ سرحد کے اس پار جو دیس دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا مدعی ہے وہاں جمہوری ملبوس میں بورژوا آمروں نے ،مذہب کے نام نہاد ٹھیکہ داروں نے کیا کیا گل کھلائے ہیں ۔میں کیا لکھوں کہ مغربی بنگال کا ایک نکسل باڑی نامی گاؤں ہے جو اب محض ایک گاؤں نہیں بلکہ بھگت سنگھ کی انقلابی میراث سے جڑی علامت ہے ۔ سرخ راہداری کی شکل میں ایک ایسی دنیا جہاں طبقے کی بندوق اور پرچم لہراتے ہیں ۔ اس تحریک کا ایک بانی تھا کامریڈ چارو مجمدار ۔وہ بھی بہروں کو سنانے کے لیے دھماکوں کی ضرورت کا قائل تھا ۔ اسے 28جولائی 1972کو لال بازار (مغربی بنگال)کے عقوبت خانے میں وردی پوش غنڈوں نے عدم کے سفر پر روانہ کیا تھا ۔ہاں گاندھی اور نہرو کی فکری وارث اندرا گاندھی ،سریکا کولم کا قتلِ عام منظم کرتی ہے ۔وہی سریکا کولم جہاں 300سے زائد دیہاتوں میں کسانوں نے سرخ اقتدار قائم کیا تھا ۔اس کے بعد کبھی آپریشن گرین ہنٹ کا آغاز کیا جاتا ہے تو کبھی سلوا جدوم کے نام سے مسلح لشکر تیار کیے جاتے ہیں ۔میں کامریڈ بھگت سنگھ سے کیسے کہہ سکتا ہوں کہ کامریڈ چارو مجمدار سے لے کر کامریڈ موپالاں لکشمن راؤ کی شہادتوں کے درمیان کتنی سولیاں سجائی گئیں ۔اور آج بھی ہندوا توا کے علم بردار اسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ۔ اس تحریک کے خلاف سارے لبرل بورژوا نقاب پوشوں، ترمیم پسندوں اور دھرم سینکوں نے ایک غیر علانیہ مقدس اتحاد قائم کر رکھا ہے ۔
میں بھگت سنگھ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ اس کی جنم بھومی کے حکمران لاہور میں اس چوک کو اس سے موسوم کرنے پر آمادہ نہیں جہاں کبھی اسے پھانسی دی گئی تھی ۔کیوں کہ اس کا نام بھگت سنگھ تھا ۔ بھگت سنگھ جو دھرم کی تفریق سے کہیں اونچا ہے ۔لیکن یہاں شہروں کے نام ایبٹ آباد ، جیک آباد اور جیمس آباد ہوسکتے ہیں لیکن بھگت سنگھ پور نہیں ،کیونکہ اس کا تعلق حکمران انگریز طبقے سے نہیں تھا،وہ سات سمندر پار سے نہیں آیا تھا بلکہ اس کا تعلق اس دھرتی ،یہاں کے محنت کش عوام سے تھا ۔
میں بھگت سنگھ کو خط نہیں لکھ سکتا کہ میری نسل انقلابات کے شکستوں کے دور کی پیداوار ہے اور فی الحال انقلابی فتوحات سے ناآشنا ہے ۔ اس کی موہوم یاداشتوں میں ایک سرخ جنت کے انہدام کی گرد ہے ۔اورکامریڈ نکولائی چاؤ شسکو ، کامریڈالینا چاؤ شسکو اورکامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ جیسے کچھ انقلابی شہیدوں کی لہو رنگ لاشیں ہیں۔ ہاں لیکن یہ نسل تبدیلی اور حرکت کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے ۔یہ اس امر کی قائل ہے کہ لمحہ ء موجود کچھ بھی نہیں ہے ۔تاریخ کا ایک سفر ہے جو جاری ہے اور ایک فتح ہے جو اس سفر میں کہیں منتظر ہے ۔یہ نسل اس میں اپنا مقدور بھر حصہ ڈال رہی ہے ۔
ہاں لیکن وہ وقت آئے گا جب کوئی فاتح انقلابی بصدِ غرور کامریڈ بھگت سنگھ کو خط لکھے گا کہ  کامریڈ بھگت سنگھ ! ہم نے تمام انقلابی شہیدوں کا،ہرظلم و جبر کا بدلہ لے لیا ہے۔ سرخ پرچم سرافراز ہو چکا ہے اور انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہے ۔سرمایہ داری اور سامراجیت کی جہنمی مشین کو، اس کی پیدا کردہ تمام غلاظتوں کو ،نسل پرستی اور مذہبی جنونیت کومکمل طور پر نابود کر دیا گیا ہے ۔محنت کش عوام کا غیض و غضب اور جلال سارے کاشانوں کوبہا لے گیا ہے ۔درانتی اور ہتھوڑے سے مزین سرخ پرچم نے سارے کرہ ارض کو ڈھانپ لیا ہے ۔اب بہروں کو سنانے کے لیے دھماکوں اور انقلاب کی قربان گاہ کو خونی غسل دینے کی ضرورت ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے ۔

بدھ، 14 مارچ، 2018

ریاستی دہشتگردی کا شکار: لیاری __ ذوالفقار علی زلفی



ریاستی دہشتگردی کا شکار: لیاری

ذوالفقار علی زلفی

لیاری کے علاقے کلری میں ایک محلہ ہے "علی محمد محلہ" ـ اس محلے کو بلوچی میں "کور دل" کے نام سے پکارا جاتا ہے ـ زکری فرقے سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کی اس بستی کو فٹبال اور قوم پرست سیاست کے حوالے سے جانا جاتا ہے ـ

پرویز مشرف کے دور میں یہاں سرکاری سرپرستی میں بدنام زمانہ غفار زکری کا ظہور ہوا جس کی دہشت گردانہ کارروائیوں اور منشیات فروشی نے علاقے کی قدیم ثقافت کا ستیاناس کردیا ـ غفار زکری نے رحمان بلوچ کے ساتھ طویل مسلح جنگ لڑی، متعدد بے گناہ افراد مارے گئے، گھروں کو نقصان پہنچا، فٹبال اور تعلیم کا جنازہ نکل گیا ـ چند قدموں کے فاصلے پر واقع تھانہ اور چند میل دور پولیس ہیڈ آفس، رینجرز مرکز، وزیر اعلی ہاؤس اور گورنر ہاؤس "بے خبر" رہے ـ پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد بلاول ہاؤس کے حکم پر غفار زکری اور رحمان بلوچ متحد ہوگئے ـ

رحمان بلوچ کا دستِ راست بابا لاڈلا لیکن اس اتحاد سے خوش نہ ہوا ـ بابا لاڈلا اور غفار زکری دونوں کا تعلق کلری سے تھا اس لئے یہ اتحاد ایک نیام میں دو تلواروں جیسا تھا ـ بلاول ہاؤس کا حکم سر آنکھوں پر ـ

چوھدری اسلم کے ہاتھوں رحمان بلوچ کے ڈرامائی قتل کے بعد اس کی گدی عزیر بلوچ نے سنبھالی ـ عزیر بلوچ نے خود کو اپنے پیشرو کی طرح بنا قبیلے کا سردار قرار دیا ـ لیاری کے لوگ اس کو پیٹھ پیچھے "چوروں کا سردار" پکارتے تھے ـ

بابا لاڈلا نے پر پرزے نکالنے شروع کرکے غفار زکری سے چشمک شروع کردی ـ نبیل گبول جنہیں کراچی کی لوٹی ہوئی دولت سے ذوالفقار مرزا کی وجہ سے حصہ ملنا بند ہوچکا تھا نے کچھی برادری کے بلڈروں کے ذریعے کچھی فورس کھڑی کرکے انہیں عزیر بلوچ و بابا لاڈلا یا دوسرے لفظوں میں ذوالفقار مرزا کے خلاف کھڑا کردیا ـ

زخم خوردہ ایم کیو ایم جسے بلیک مارکیٹ میں ذوالفقار مرزا کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا ـ اس نے ایک جانب کچھی فورس کی حمایت شروع کردی اور دوسری جانب غفار زکری کو بھی اپنی چھت فراہم کردی ـ گھمسان کا رن پڑا ـ گلی محلے خون سے نہلا دیے گئے ـ

ذوالفقار مرزا گروپ نے کچھی برادری اور غفار زکری دونوں کو راکٹ لانچروں کے آزادانہ استعمال کے ذریعے پسپائی پر مجبور کردیا ـ سردار اختر مینگل اور نواب خیر بخش مری دونوں کراچی میں تھے ـ لیاری اور ڈیفنس کا زمینی فاصلہ آدھ گھنٹے کی ڈرائیو سے بھی کم ہے مگر ان دونوں رہنماؤں نے کوئی بھی کردار ادا کرنا مناسب نہ سمجھا ـ

غفار زکری سے فراغت کے بعد بابا لاڈلا اور عزیر بلوچ کے درمیان بلیک مارکیٹ کی حصہ داری پر لڑائی شروع ہوگئی ـ ذوالفقار مرزا کا ہاتھ عزیر بلوچ پر تھا جبکہ ایم کیو ایم نے بابا لاڈلا کو گلے لگایا ـ

وفاق میں نواز شریف کی حکومت کے دوران فوج نے پالیسی بدل کر رینجرز کو اتارا ـ رینجرز نے کم از کم لیاری میں ایک نئے کاروبار کی بنیاد ڈالی ـ رینجرز بابا گینگ کے رکن کو گرفتار کرکے دونوں گروپوں سے بارگیننگ کرتی ـ جو زیادہ بولی لگاتا فیصلہ اس کے حق میں آتا ـ جیسے بابا کا ہرکارہ پکڑا گیا، عزیر نے دو لاکھ دینے کی پیشکش کرکے قتل کرنے کی درخواست کی بابا نے چار لاکھ کے عوض چھوڑنے کی ـ یوں بسا اوقات معاملہ دس بیس لاکھ تک پہنچ جاتا ـ بارگیننگ عموماً اہم نشانہ بازوں پر ہوتی تھی ـ

ماورائے عدالت قتال عام ہوگئے ـ اس کے ساتھ ساتھ اچانک رات گئے کسی محلے میں رینجرز گھستے، مردوں کو گھروں سے نکال کر جمع کرتے اور نوجوانوں سے مرغا بننے کی فرمائش کرتے ـ سوال کرنے کی صورت میں تشدد یا تین مہینے کی جبری گمشدگی سے واسطہ پڑتا ـ متعدد افراد اسی طرح لاپتہ کیے گئے ـ لاپتہ نوجوانوں کے لواحقین کے مطابق وہ تاوان کی رقم ادا کرکے اپنے پیاروں کو واپس لانے میں کامیاب ہوئے جو تاوان کی سکت نہ رکھتا اس کا پیارا گینگ کا رکن قرار دے کر کسی سڑک پر "رینجرز سے مقابلے" کے دوران مارا جاتا ـ امن کمیٹی کے بعد یہ ایک نیا عذاب تھا ـ

لیاری کی معروف مارکیٹ جھٹ پٹ مارکیٹ میں دوکانوں کے تالے توڑ کر پوری پوری دوکان کے لوٹنے کا بھی آغاز ہوا ـ دوکان داروں نے اس کا الزام رینجرز پر عائد کیا کیونکہ لیاری کے چپے چپے پر رینجرز کی چوکیاں بن گئی تھیں ـ

لیاری میں رینجرز گردی کا تازہ واقعہ کل علی محمد محلے میں پیش آیا ہے ـ رینجرز نے ایک پاگل نوجوان "چاکر بلوچ" کو گولی مار کر قتل کردیا ـ رینجرز کے مطابق مقتول گینگ کا رکن ہے ـ چاکر بلوچ کا ذہنی توازن درست نہیں تھا، بچوں جیسی معصوم حرکتیں کرکے لوگوں کو ہنسنے کا سامان فراہم کرتا تھا ـ آدمی بے ضرر تھا اس لئے ہر کسی کو پیارا تھا ـ

ایک بے ضرر پاگل نوجوان کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کرنے کے بعد رینجرز اب اس کی لاش دینے پر بھی رضامند نہیں ہے ـ لیاری اور علی محمد محلے کے غریب محنت کش کل سرکاری حمایت یافتہ غنڈوں کے رحم و کرم پر تھے آج ریاستی دہشت گردوں کے جبر کا شکار ہیں ـ کب تک رہیں گے معلوم نہیں ـ

ہفتہ، 3 مارچ، 2018

جمعہ، 2 مارچ، 2018

چین، عالمی سیاست اور بلوچ جدوجہد __ کمبر بلوچ



اگر ہم بلوچستان کی مجموعی صور ت حال اور یہاں کے مختلف عوامل اورعناصرکا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ بلوچ کی زمین کی اہمیت دنیا اور عالمی سیاست سے وابستہ رہی ہے۔ یہ مقولہ عام ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں یہ اہم نہیں ہے بلکہ بڑی طاقتیں اور بڑے ممالک کیا چاہتے ہیں یہ اہم ہے۔ ممکن ہے کہ بلوچ عالمی طاقتوں کی رسہ کشی میں شامل ہونے کا خواہاں نہ ہو لیکن دنیا کی سیاست اور مفادات آج اس طرح تشکیل پا چکے ہیں کہ انہوں نے بلوچ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچ کی زمین کو اپنی نظروں میں رکھا ہے۔ کیونکہ بلوچ کی زمین تزویراتی لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ بلوچ سرزمین دنیا کے بہت سے خطوں کو آپس میں ملاتی ہے یا کہ اپنے وسیع سمندر کے ذریعے دنیا کے لیے عسکری اور تجارتی راستوں کو اتنا مختصر بناتی ہے کہ خطے کے بہت سے ممالک بلوچ سمندر کو بطور تجارتی گزر گاہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتیں اس بات کی خواہاں ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح بلوچستان کو اپنے زیرِ تصرف رکھیں، تاکہ ان کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے ان کے اخراجات کا بوجھ کم ہو سکے۔


تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ اور ماقبل تاریخ ہی سے بلوچ زمین اپنے جغرافیہ اور اہم گزر گاہوں کی وجہ سے ہمیشہ اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایک وقت میں روس دنیا میں اپنے سیاسی اثرات کو پھیلانے اور اپنا رسوخ بڑھانے کے لیے بلوچستان میں اپنی موجودگی کو ممکن بنانے کی کوشش میں مصروفِ عمل دکھائی دیتا ہے۔ لیکن برطانیہ کا یہاں قبضہ، زار کی گرم پانیوں تک پہنچنے کی خواہش پر پانی پھیر دیتا ہے۔ بلوچ سرزمین، سمندری گزرگاہیں ،گہری اور قدرتی بندرگاہیں ، درّوں کو استعمال کر کے ایک سو سال تک انگریز افغانستان پر قبضہ جماتا ہے تاکہ وہ وہاں سے دیگر خطوں پر اپنی اجارہ اور اثر و رسوخ کو برقرار رکھ سکے ۔

1990 کے بعد سے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا کی طاقت کا توازن امریکہ کے حق میں چلاگیا۔ لیکن جب2000 کے بعد سے چین بتدریج اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کرتا ہے تو ایک بار پھر بلوچستان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ بلوچستان پر پاکستانی قبضہ اور چین سے مختلف حوالوں سے قربت و ہمکاری ایک نئے دور میں داخل ہو جاتی ہے۔ چین چیئرمین ماؤ کے برعکس سرمایہ دارانہ طرزِ معیشت کو اپنا کر دنیا بھر میں اپنا سیاسی، عسکری اور معاشی تسلط جمانے کے لیے جارح پالیسیوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور چین دنیا پر اپنے معاشی و عسکری تسلط کے لیے بلوچ سرزمین کو استعمال کرنے کے لیے واضح طور پر نوآبادیاتی طرز کی کوششیں کر رہا ہے۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے۔ اس کے ساتھ ایک ترقی پذیر ملٹری طاقت بھی ہے۔ اپنی معاشی و عسکری طاقت کو بڑھانے اور مختلف خطوں پر اپنا تسلط جمانے کے لیے اُسے تزویراتی لحاظ سے اہم خطوں پر براجمان ہونا ہوگا کہ ان کے ذریعے ہی پورے دنیا پر معاشی اور عسکری تسلط کو برقرار رکھ سکے۔
اسی بنیاد پر چین 2013 کو پاکستان کے ساتھ چین پاکستان اقتصادی راہداری معاہدہ کرتا ہے ۔ لیکن اس معاہدے سے پیشتر پاکستان بلوچستان میں آبادی میں تبدیلی لانے کی غرض سے میگا پروجیکٹس کی تعمیر کا اعلان کرتا ہے۔ آبادکاروں اور فوج کی آمد و رفت کے لیے ایک سڑک بھی (کراچی تا گوادر) تعمیر کرتا ہے، یہ سڑک عسکری لحاظ سے بھی اس لیے اہم ہے کہ جنگ کی صورت میں فوج سرعت سے و نقل و حمل کر سکتی ہے۔ لیکن بلوچ تحریک کے ابھار نے نئی آبادکاری کو بڑی حد تک ناکام بنا دیا۔ جن طاقتوں نے وہاں (گوادر میں) سرمایہ لگایا تھا اورمختلف منصوبوں پر کام کر رہے تھے، ان کا سرمایہ ڈوب گیا اور انہیں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن جب 2013 کو چین پاکستا ن کے ساتھ سی پی ای سی معاہدہ کرتا ہے تو ان استحصالی منصوبوں پر دوبارہ کام شروع ہو جاتا ہے جو کہ تحریک کی شدت کی وجہ سے التوا کا شکار تھے۔
یہاں عسکری لحاظ سے اہمیت سے قبل معاشی نقطہ پر ایک جائزہ لیتے ہیں کہ اقتصادی حوالے سے کس طرح چین اس سے (گوادر پورٹ و سی پیک سے) فوائد حاصل کر سکتا ہے؟ دنیا میں جب تجارتی روٹ بنتے ہیں توممالک کوشش کرتے ہیں کہ مختصر مسافت اور کم لاگت سے وہ معاشی منڈیوں تک پہنچ سکیں۔ اس طرح وہ منڈی اور مارکیٹ پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اور اسی طرح ہی وہ اپنے اثرورسوخ میں روزافزوں اضافہ کر سکتے ہیں۔ چین دنیا کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والا ملک ہے اور وہاں خام مال کی فراوانی اور محنت سستی ہے۔ مصنوعات کی تیاری لاگت دوسرے ممالک کی نسبت انتہائی کم ہے۔ اپنی مصنوعات کو دنیا تک پہنچانے اور مارکیٹوں پر قبضہ کے لیے چین کو مختصر روٹ درکار ہیں۔
آج چین دنیا کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے جن روایتی سمندری راستو ں کو استعمال کر رہا ہے، اسے دوسرے خطوں تک پہنچنے کے لیے طویل مسافت ، زیادہ وقت اور کثیر سرمایہ خرچ کرنا پڑتا ہے؛ مثلاََ یورپ تک پہنچنے کے لیے 11845 میل ، مشرقِ وسطیٰ تک 5250 میل، پاکستان تک 4645 میل کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے، جن کے ذریعے چین اپنی شنگھائی یا دوسری بندرگاہوں کے ذریعے اپنی مصنوعات دنیا تک پہنچاتا ہے۔ لیکن پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کا مرکز سنکیانک صوبے میں کاشغر کا مقام ہے تو یہ راہداری درجہ بالا مسافت اور سفر کی سیکیورٹی کے مسائل اور مسافت پر آنے والی لاگت کو انتہائی کم کرتی ہے۔ جب یہ راہداری باقاعدہ فعال ہو جائے تو یورپ تک مسافت 11845 میل کے بجائے 7847 میل، مشرقِ وسطیٰ تک 2554 اور کاشغر سے گوادر تک 1750 میل رہ جائے گی۔ اس طرح یہاں سرمایہ اور وقت کی بچت چینی معیشت کے لیے نہایت دوررس نتائج کے حامل ہوں گے۔ چین آج دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہے۔ یہ اقتصادی راہداری اسے دنیا کی پہلی معاشی طاقت بنانے کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔
 مضمون   :  نوآبادیاتی صورت حال کیا ہے ؟                                 
اس اقتصادی راہداری کی فعالیت سے چین گوادر پورٹ کے ذریعے یورپ ، مشرقِ وسطیٰ اور دوسرے خطوں تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسی روٹ کے ذریعے ایک تہائی آبادی پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر سکتا ہے۔ اس اقتصادی راہداری کے ذریعے ایک جانب وہ ایشیا سے منسلک ہوتا ہے ، دوسری جانب وہ یورپ سے منسلک ہوتا ہے تو تیسری جانب وہ افریقی ممالک سے منسلک ہو جاتا ہے۔
یہ ہم بعد میں دیکھتے ہیں کہ چین کس طرح دنیا میں امریکہ اور روس کے اثرو رسوخ کو ختم کرنے کی کوشش کر کے اپنا اجارہ بڑھا رہا ہے۔ جن خطوں میں چین موجود نہیں تھا اُن خطوں یا تزویراتی لحاظ سے اہم جگہوں پر رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اس کے لیے نئی راہیں پیدا ہو جائیں اور چین پہلی عالمی معاشی طاقت بن جائے۔
دوسری طرف گوادر اور اس سے ملحقہ ساحلی بیلٹ ہے، یہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ چین کی بیرونی سرمایہ کاری کا اکلوتا منصوبہ نہیں بلکہ چین کے ویژن 2025 کا ایک حصہ ہے۔ اس منصوبے کو one-belt one road یا سلک روٹ کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سلک روٹ کا دل ہے۔ اگر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کامیاب ہو جائے تو one-road one belt کا تصور حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ اگر یہ منصوبہ نہ بن سکے یا ناکام ہو جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سلک روٹ بھی نہیں بن سکتا ہے لیکن جو فوائد چین حاصل کرنا چاہتا ہے یا چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سے جو فوائد چین کو مل سکتے ہیں، وہ محض ایک خواب رہیں گے۔
اگر عسکری یا ملٹری حوالے سے دیکھیں توچین کے بھارت کے ساتھ دیرینہ تنازعات چل رہے ہیں۔ چین بھارتی صوبے مشرقی ہمانچل پردیش کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور گلگت ، بلتستان میں فوجی مرکز قائم کر کے جنگ کی صورت میں بھارت پر کم وقت میں فوجی دباؤ بنا سکتا ہے لیکن وہ گوادر کا انتخاب کرتا ہے کیونکہ آبنائے ہرمز (سمندری گزرگاہ) گوادر سے خاصی قریب ہے اور آبنائے ہرمز سے دنیا کا چالیس فیصد تیل گزرتا ہے۔ یہاں اگر چین عسکری مستقر بنائے تو تیل پر منحصر دنیا کی معیشت ، جنگی حالات میں اس روٹ پر قبضہ کر کے چالیس فیصد تیل کے سپلائی لائن کو بند کر سکتا ہے یا اسے سبوتاژ کر سکتا ہے۔ اس لیے یہ بات اہمیت اختیار کرتی ہے کہ یہاں (گوادر میں) چین کو اگر اقتصادی فوائد نہیں مل سکے تو اس کے باوجود عسکری یا فوجی لحاظ سے اتنے فائدے مل سکتے ہیں کہ وہ اس سرزمین اور اس روٹ سے کسی بھی صورت میں دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔
کیونکہ تجزیہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ بلوچستان کی ضرورت چین کے لیے اقتصادی سے زیادہ عسکری یا فوجی نقطہ سے ہے۔ یہاں عسکری بیس بنانے کی صورت میں وہ پوری دنیا پر اپنا اثرو رسوخ قائم کر سکتا ہے۔ دنیا کے تیل کی ایک بڑی مقدار روس، وینزویلا پیدا کرتے ہیں جن کا مغرب کے ساتھ تصادم موجود ہے اور مغرب کے لیے تیل کی ایک بڑی مقدار خلیجی ممالک سے اسی گزرگاہ سے جاتی ہے۔ اس حوالے سے یہاں قبضے کی صورت میں دنیا پر کافی حد تک چائنا اپنا اجارہ قائم کر سکتا ہے۔
آج کی دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو چکا ہے، علاقائی طاقتیں سر اٹھا رہی ہیں اور جنوبی ایشیا میں جتنے ممالک اور علاقائی طاقتیں موجود ہیں ان میں ایک علاقائی طاقت بھارت ہے۔ دنیا کی جو طاقت چین کی طاقت کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے وہ چین کے مقابلے میں بھارت کو سامنے لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہاں سے ایک بڑی تبدیلی کی لہر وجود میں آ رہی ہے۔ لال قلعے میں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کا بلوچستان بارے بیان اس بات کی واضح غمازی کرتا ہے کیونکہ دنیا قطعاََ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ طاقت کا توازن چین کے حق میں چلا جائے۔
آج کل ایک نئی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے؛ رِنگ یا گو ل دائرہ۔ اگرچین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ اور سلک روٹ پائے تکمیل تک پہنچے توچین سمندری اور خشکی کے راستوں کے ذریعے بھارت کا گھیراؤ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ مختلف اہم خطوں پر چین بندرگاہیں بنانے کے معاہدے کر رہا ہے، جن میں بنگلہ دیش اور سری لنکا شامل ہیں لیکن سری لنکا میں سری سینا سرکار کے بعد وہ وہاں مشکلات سے دوچا رہے۔ جنوبی چینی سمندر پر مکمل اختیار جتا رہاہے کہ ساؤتھ چینی سمندر اس کا ہے ، چین سمندری راستوں کے ذریعے بھارت کو گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ہندوستان کی خواہش ہے کہ وہ چینی گھیرے کو توڑے۔ اس لیے بھارت بلوچستان کے حوالے سے بات کر رہا ہے کیونکہ اترپردیش اور ہمانچل پردیش پر چین دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ اس کا حصہ ہیں۔ جب بھارتی وزیر اعظم وہاں کا دورہ کرتا ہے تو چین باقاعدہ احتجاج کرتا ہے کہ یہ متنازع خطہ ہے۔
درجہ بالا مقاصد کے حصول کو مدنظر رکھ کر چین ایک مکمل نوآدیاتی طاقت کے طور پر بلوچستان میں اپنی موجودگی بڑھا رہا ہے، جس کا اولین خمیازہ بلوچ قوم کو نسل کُشی کی صورت ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں شروع ہونی والی بلوچ قومی تحریک کا ابھار چینی نوآبادیاتی مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے۔ اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ چین حتیٰ الوسعیٰ کوشش کر رہا ہے کہ وہ پاکستان کو بلوچ قومی تحریک آزادی کو ختم کرنے میں مدد و تعاون کرے۔ اسی بنیاد پر وہ مغربی روٹ 146 معاہدے کے مطابق وہاں کی سڑکیں دو رویہ نہیں بلکہ چھ رویہ ہونی چاہئیں کی تعمیر کر رہا ہے۔ زیر تعمیر مغربی روٹ کی سڑکیں بھاری ٹریفک کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی ہیں۔ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ سی پیک کے نام پر پاکستان مغربی روٹ کو تعمیر کر کے اپنی فوج کی اُن علاقوں میں آسان نقل و حمل کے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کے اردگرد علاقوں کوچھاؤنیوں میں تبدیل کر رہا ہے۔ اس گزرگاہ کی قریبی آبادیوں کو تہس نہس کر رہا ہے، انہیں نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایک سال قبل پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ بلوچستان میں چھاؤنیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ ایف سی کی ایک کور پر مشتمل الگ چھاؤنی تربت میں بنائی جائے گی۔ جس کا الگ کور کمانڈر ہوگا تاکہ وہ اس روٹ کا تحفظ کر سکے اور اس روٹ کے لیے پاکستانی فوج نے 17500 اہلکاروں پر مشتمل ڈویژن پہلے ہی سے تشکیل دیا ہے۔

صرف چھاؤنی نہیں بلکہ چھاؤنی کے ساتھ ساتھ فوجی کیمپوں اور چوکیوں کا ایک جال بچھایا جا رہا ہے جیسا کہ دشت کنچتی کی زمینوں پر قبضہ کر کے وہاں نیوی کا ایک کیمپ بنایا جا رہا ہے۔ تربت میں کوہِ امام پر نیوی کیمپ بن چکا ہے۔ اس امر پر غور ضروری ہے کہ نیوی کیمپ ساحل پر بنائے جاتے ہیں مگر یہاں سے ساحل کافی دور ہے۔ اس کے علاوہ لوڑ ی ءِ جنگ جاہ ، تلار، ہیرونک ، ہوشاپ اور بالگتر میں بڑے بڑے فوجی کیمپ قائم کیے جا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ نئے کیمپوں کی تیاریاں جاری ہیں تاکہ وہ اس روٹ کے محفوظ بنا سکیں۔
اس لیے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سے ملحق علاقوں اور تحریک کے حوالے سے مضبوط علاقوں میں آپریشنوں کا ایک وسیع سلسلہ 2013 سے جاری ہے اور روز بہ روز اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دشت ، تمپ،گومازی، تربت، شاپک ، ہیرونک، بالگتر، کولواہ، آواران اور پروم جیسے علاقوں میں پے درپے آپریشن اس سلسلے کی کڑی ہیں تاکہ پاکستان نام نہاد چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کو محفوظ بنائے اور اس استحصالی پروگرام اور قبضہ گیرانہ ہوس کی تکمیل کر سکے۔ نیز بلوچستان کے دیگر حصوں میں جاری آپریشن ، فوجی درندگی اور ڈیتھ سکواڈز کے ظلم وستم اس کے علاوہ ہیں۔
دنیا کی دیگر معاشی و عسکری طاقتوں کو متاثر کرنے کے لیے مختلف خطوں میں inauguration یا مختلف منصوبوں کا افتتاح ہوتا ہے یا کہ حال ہی میں اس نام نہاد چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سے جو قافلہ گزارا جاتا ہے تاکہ وہ دنیا کو دکھا سکیں کہ یہاں اس پائے کی سڑک اور146 اقتصادی حب 145 بنایا جا رہا ہے تاکہ دنیا بھی اس پر سرمایہ کاری کرے ۔ اس قافلے کے بارے میں یہ باتیں بھی کی جا رہی ہیں کہ دراصل یہ تجارتی قافلہ چین کا نہیں بلکہ پاکستان کا تھا جسے چین کی سرحد پر لے جا کر واپس اسی نام نہاد چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سے گزارا گیا تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ یہ منصوبہ محفوظ ہے، اس پر سرمایہ کاری بھی محفوظ ہے تاکہ اس منصوبے میں دوسرے ممالک کی شمولیت سے چین و پاکستان فائدہ اٹھا سکیں۔ نہ صرف یہی روٹ بلکہ بلوچستان کے ہر وہ علاقے جہاں تحریک میں شدت پائی جاتی ہے وہاں وسیع پانے پرآپریشن جاری ہے؛ ڈیرہ بگٹی ، بولان، نصیرآباد، مری علاقوں ، قلات ، اسپلنجی اور مستونگ میں روز بہ روز آپریشنوں میں شدت لائی جا رہی ہے تاکہ جلدازجلد اس جنگ کو کچلا جا سکے۔
یہ نام نہاد چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ نہ صرف چین بلکہ پاکستان کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ آج پاکستان مذہبی جنونیت کی کفالت اور انہیں بطور پراکسی دنیا کے مختلف خطوں میں استعمال سے تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان کا ہمسایہ ایران کے ساتھ بھی تضادات سامنے آ رہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات بدترین دور میں داخل ہو چکے ہیں اور اب افغانستان کے لیے پاکستان قطعی طور پر قابلِ اعتبار نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ دیرینہ دشمنی اب حدوں کو چھو رہا ہے جو کسی بھی وقت ایک جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ یورپ ، امریکہ پاکستان کی منافقت اور دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے اب اس کے دوست نہیں رہے۔ ایسے حالات میں پاکستان کو فوجی و اقتصادی لحاظ سے ایک اتحادی کی ضرورت ہے تاکہ وہ پاکستان کو چلا سکے۔ پاکستان اس نام نہاد چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کے ذریعے اس انفراسٹرکچر، اقتصادیات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے اور اسی منصوبے کے ذریعے پاکستان اپنی تنہائی کو ختم کرنے کی متمنی ہے۔
آپریشنوں کی شدت اور راہداری منصوبے کے چند حصوں کا افتتاح کرنا 2018 کے الیکشن سے بھی جڑے ہیں تاکہ نوازشریف پاکستان کی ترقی کی علامت بن کر ایک بار پھر سرکارمیں آ سکے اور ان آپریشنوں کا ایک مقصد مقبوضہ بلوچستان میں الیکشن سے بھی وابستہ ہے تاکہ 2013 کے بلوچ عوام کے پاکستانی انتخابات کے واضح بائیکاٹ کے بعد پاکستان کی عمل داری کے خاتمے کے بین الاقوامی اثرات کو زائل کیا جا سکے۔ بلوچ قومی تحریک کی شدت ، چینی انجینئروں پر حملہ ، تیل و گیس تلاشنے والی کمپنیوں پر حملے اور بھارت، افغانستان ، بنگلہ دیش، افغانستان کا بلوچ قومی تحریک کی حمایت کے عندیے سے پیدا شدہ صورت حال کو تبدیل کر سکے۔
چونکہ بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے میڈیا بلیک آؤٹ ہے، یہاں عالمی میڈیا پر قدغن ہے اور مقامی میڈیا واضح طور پر پاکستانی بیانیے کو آگے بڑھانے پر مامور ہے۔ اس لیے دنیا کے سامنے ان آپریشنوں کی شدت اکثر صورتوں میں واضح نہیں ہے۔ اس لیے 2018 کے متوقع انتخابات پاکستانی ریاست اور بلوچستان میں ان کے باجگزاروں کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ اسے ہر صورت میں دنیا کے سامنے کامیاب دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک بلوچ قومی بقا و تشخص کی حفاظت اور قومی مڈی پر کسی بھی عالمی یا علاقائی سودے بازی کی مخالف ہے اور یہ نام نہاد چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بلوچ قومی مرضی و منشا کی صریحاََ خلاف ورزی ہے۔ اس لیے پاکستان کی ایک کوشش یہ بھی ہوگی کہ وہ بلوچ قومی تحریک کی عالمی پذیرائی اور وسعت کے اثرات کو زائل کر کے یہ دکھانے کی کوشش کرے گا کہ بلوچ سرزمین کے اصل وارث وہی ہیں جو کہ انتخابات کی صورت میں منتخب ہو کر پاکستانی پارلیمان میں آ گئے ہیں۔
اس مجموعی صورت حال میں عالمی مفاد بھی کارفرما ہیں چونکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ آج دنیا کی پہلی معاشی و عسکری طاقت ہے۔ بھارت کے چین کے ساتھ علاقائی تنازعات موجود ہیں۔ جنوبی ایشیا میں امریکہ بھارت کے ذریعے چین کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ امریکہ بھارت کے ساتھ مختلف معاہدے کر رہا ہے، جن میں ایٹمی ری ایکٹروں کی تعمیر، ایک دوسرے کے فوجی اڈوں کے استعمال کے دوسرے عسکری و اقتصادی معاہدے بھی شامل ہیں اور بھارت سی پیک اور چین کے دوسرے تزویراتی لحاظ سے اہم منصوبوں کے ذریعے بھارت کے گرد ایک حلقہ بنانے کی چینی کوششوں کا توڑ پیدا کرنے کے لیے ایران کے ساتھ چابہار پورٹ کا معاہدہ کر رہاہے تاکہ چاہ بہار پورٹ کے ذریعے وسطی ایشیا کے قدرتی وسائل کے ذریعے اپنی اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ چین کے اثر و رسوخ کو کم اور ختم کر سکے۔
یہاں یہ امر بھی بعید ازقیاس نہیں کہ ایران کے خلاف پابندیوں کا خاتمہ بھی اسی صورت حال سے جڑا ہوا ہے تاکہ مستقبل میں بھارت ایران کے ساتھ معاہدات کر سکے اور بھارت ایران ، افغانستان آپس میں معاہدات کر کے چینی کوششوں کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکے۔ بھارت اقوام متحدہ میں ویٹو پاور حاصل کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ اقوام متحدہ کے مستقل اراکین میں شامل ہو جائے۔ اس لیے وہ اقوام متحدہ کے پانچ مستقل اراکین کے ساتھ اپنے تعلقات میں اضافہ کر رہا ہے۔ بھارت اپنے اسلحہ کا ساٹھ سے ستر فیصد روس سے حاصل کرتا ہے۔ تمام تنازعات کے باوجود چین کے ساتھ تجارت کر رہا ہے۔ بھارت سب میرین فرانس سے حاصل کر رہا ہے۔ برطانیہ سے بھی معاشی و اقتصادی معاہدات موجود ہیں ، امریکہ کے ساتھ تعلقات نہایت مضبوط ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی الیکشن کمپیئن کے دوران ایک بات کہی تھی کہ وہ امریکہ میں چینی اثر کم کرے گا۔ اسی بنیاد پر امریکہ، چین تائیوان مسئلہ اٹھا رہا ہے۔ تائیوان آج عسکری و اقتصادی حوالے سے امریکہ کا اتحادی ہے لیکن دنیا نے تائیوان کو بطور ملک قبول نہیں کیا ہے۔ ٹرمپ کا تائیوان کے وزیراعظم کو فون یہی عندیہ دیتا ہے کہ وہ one-china پالیسی سے نکل رہا ہے جو کہ چین کے معاشی و اقتصادی اثرورسوخ کو کم کرنے کی امریکی کوششوں کا غماز ہے۔
عالمی سیاست میں روس ایک بار پھر اپنا مقام بنا رہا ہے۔ آزادی کے بعد بھارت نے غیر وابستہ تحریک سے منسلک ہونے کے باوجود نظریاتی طور پر روس کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھا ہے کیونکہ نہرو کے سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے وہ ابتدا ہی آپس میں اتحادی بن جاتے ہیں۔ البتہ 1990 میں سوویت یونین کے انہدام سے روس اقتصادی و عسکری حوالے سے کمزور ہو جاتا ہے لیکن 2000ء سے روس اپنی معاشی و عسکری طاقت کی تجدید میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اسی بنیاد پر روس کے بھارت سمیت مختلف ممالک کے ساتھ فوجی مشق ہو رہی ہیں، اقتصادی معاہدات ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ شام ، ایران ، افغانستان میں اپنا اثر بڑھا رہا ہے۔ اس تمام صورت حال کا تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ دنیا یک قطبی کے بجائے کثیر قطبی طاقتوں کی صورت میں نمودار ہو رہی ہے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن امریکہ یا یورپ کے بجائے ایشیا میں منتقل ہو رہا ہے۔ چونکہ طاقت کا ارتکاز اسی خطے میں منتقل ہو رہا ہے تومختلف جنگیں بھی اسی خطے میں چل رہی ہیں۔
بلوچ سرزمین نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ دنیا کے مفادات یا اثرورسوخ کی جنگ میں بلوچ اپنے قومی مفادات کو کس طرح ہم آہنگ بناتا ہے تو ہمارے لیے کامیابی کے امکانات یقینی نظر آتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بحیثیت قوم دنیا کے مفادات کا مطالعہ اور تجزیہ کے ساتھ اپنی شرائط پر دنیا کے ساتھ معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آج جس طرح ہمیں عالمی دنیا کی حمایت و تعاون کی ضرورت ہے، اسی طرح عالمی طاقتوں کو بھی ہمارے تعاون کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہماری پالیسیوں کا جھکاؤ ایک طرف رکھنے کے بجائے کثیرالجہتی ہونے کی ضرورت ہے اور بڑی طاقتوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہمسائے اور چھوٹے ممالک کے ساتھ قابلِ بھروسہ پالیسی اور رشتہ قائم کرنے کی کوشش کریں۔
لیکن اس امر پر بحیثیت قوم ہمیں ژرف نگاہی ، دوراندیشی اور اعلیٰ سیاسی بصیرت سے قومی پالیسیوں کا تعین کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ریاستی نسل کُشی کو روکنے ،وسیع استحصالی منصوبوں کو ناکام بنانے اور قومی بقا کے حصول کے لیے ہم کامیاب سفارت کاری کے ذریعے بڑے ممالک کے ساتھ ساتھ چھوٹے ممالک کی بھی سیاسی اور سفارتی مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
یہاں برسرپیکار بلوچ قومی سیاسی اور مزاحمتی پارٹیوں کو جامع اور متوازن پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ غیر متوازن اور ایک جانب جھکاؤ کی پالیسی ہماری مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ماضی میں سوویت یونین پر انحصار کی پالیسی اور یونین کے انہدام کے بعد ہماری قومی تحریک پراس کے مضراثرات ہماری بے عملی کا سبب بن گئے۔ اسی طرح ہم بارہا اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کرتے ہیں جوکہ بین الاقوامی برادری کا عالمی ادارہ ہے۔ جس کے وجود کا سبب ہی ایسے مسائل اور قومی تنازعات کا حل ہے۔ اس کے ساتھ عالمی طاقتوں سے اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے بلوچ نسل کُشی پر روک لگانے کی مانگ بھی کی جاتی ہے۔ مگر ایک فیکٹر کی جانب سے ایک ملک کو مداخلت کی دعوت دینا ناپختہ سیاست کا غماز اور قومی مفادات کے منافی ہے۔ جس سے آسانی کے ساتھ تحریک کو یا تحریک کے اُس جزو کو پراکسی قرار دیا سکتا ہے اور یہ مخالف کے کام کو آسان کرنے کے مترادف ہے۔
قومی تحریک آج تمام پارٹیوں سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ان کی پالیسیاں بالیدگی اور اعلیٰ سیاسی معیار کی حامل ہوں جو متوازن اور بلوچ قومی مفادات سے ہم آہنگ ہوں۔ دنیامیں چلنے والی تمام تحریکوں کا تجزیہ یہ ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے کسی حد تک بیرونی امداد پر ضرور انحصارکیا ہے مثلاََ مقامی ہونے کے باوجود فیڈرل کاستروکی سربراہی میں چلنے والے کیوبا کی تحریک ، چین میں ماؤ کی قیادت میں چلنے والی تحریک کو سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی۔ اسی طرح ہماری تحریک کو مضبوط اور کامیاب ہونے کے لیے امداد کی ضرورت ہے لیکن ہم کسی بھی ملک یا طاقت سے ملنے والی امداد پر اپنے قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔