منگل، 27 مارچ، 2018

سردار ..سرمایہ دار __ مہر میر



سردار ۔۔۔۔ سرمایہ دار 

مہر میر
جمال دن بھر کی تھکان لئے رات کو گدان کے سامنے بابا کے قریب آکر بیٹھ گیا اور ساتھ رکھے اونٹ کی رخت پر خیری ڈال کر ٹیک لگایا۔۔بابا ساتھ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھاتھا۔تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بابا کہنے لگا جمال صبح بزگل کے ساتھ نہیں جانا۔۔ کل نقل مکانی کرنی ہے۔۔۔۔جمال چونک پڑا اور اٹھ بیٹھا۔۔ کیوں خیر ہے بابا۔۔
جلا ل خان۔۔۔ سردار کے لوگ آئے تھے کلہو(پیغام) لیکر کہ ہم یہاں سے نقل مکانی کریں کہیں اور جا کر پڑ اﺅ ڈالیں۔..
جمال مگر کیوں بابا۔۔
جلال خان .سردار کا بیٹا کہہ رہا تھا یہ انکی شکار اور تفریح کی جگہ ہے۔۔۔۔جمال حیرت سے مگر بابا آپ نے انہیں نہیں کہا یہ ہمارے آباﺅاجداد کی ہنکین ہے کیسے اسے چھوڑ کر جائیں۔۔
جلال خان۔۔۔۔ میں نے کہا تھا مگر سردار کے بیٹے نے کہا ماما کونسی ہنکین۔۔ کہیں بھی پڑاﺅڈالو وہ ہنکین اور خلق بن جاتا ہے۔۔۔کونسے یہاں تمہارے محلات ہیں۔۔خشک ندی ہی تو ہے یہ۔۔۔۔ہر طرف ویرانی ہے۔۔کیا رکھا ہے یہاں اور پھر تمہارے دو ہی تو بستراور ایک گدان ہے کہیں بھی جاکر پڑاﺅڈالو۔۔۔سرادر کے بیٹے کی باتوں کو دہرانے کے بعد جلال خان خاموش ہوا۔۔۔
باپ کی پیشانی پر بل اور انکے چہرے پر مایوسی اور بے بسی کو دیکھ کرجمال غصے میں کہنے لگا بابا وہ کیسے ہمیں بے ہنکین کرسکتے ہیں۔۔خشک ندی ہے تو کیا ہوا ہماری یادیں ہماری وابستگی ہے یہاں سے، بچن گزارا ہے ہم نے یہاں اور یہیں جوان ہوئے۔۔۔۔ آپ نے تو پوری عمر گزاری ہے یہاں۔۔۔ہمارے آباﺅ اجداد ان وادیوں میں رہے ہیں یہاں انکے نقش ہیں تصورات ہیں اور ان سے جڑے خیالات ہیں۔۔یہ ہمارے لئے کیسے ویران ہوسکتے ہیں ان وادیوں میں ہم کھیلے ہیں یادیں وابستہ ہیں ہماری ان سے۔۔انکی تفریح کیلئے ہم اپنی ہنکین تاریخ یادیں چھوڑ کر در بدر ہوں یہ کیسے ممکن ہے۔۔جمال بولے جارہا تھا غصے سے انکی نتنیں پھول گئی تھیں۔۔
جلال خان خاموش گہر ی سوچ میں یہ سب سن رہا تھا۔۔توڑی دیر خاموشی کے بعد کہنے لگا بیٹا سرداراب سرمایہ دار بن چکا ہے اور سرمایہ دار ہمیشہ توسیع پسند ہوتا ہے۔۔۔شاید وہ اس علاقے کو کاروباری غرض میں لانا چارہے ہوں اس لئے قبضے کی نیت ہے انکی ۔۔۔۔جب نیت قبضہ کی ہو تو دوسرے کی احساسات ،ننگ اور تہذیب و خیالات معنی نہیں رکھتے۔۔۔انہیں ان کالی گدانوں سے خوف آتا ہے۔۔جب تک یہ گدان ناتواں سے گنداروں پر کھڑی رہیں گی سردار کی توسیع پسندی کو خطرات لاحق رہیں گے۔۔اس کے لئے یہ خشک ندی اور ویران میدان اور بے آب و گیاں گھاٹیاں ہی ہیں کیونکہ انکا یہاں سے تعلق احساس نہیں مفاد سے جڑا ہے۔۔۔ان گھاٹیوں ندیوں اور میدانوں و پہاڑوں کے رنگ ہماری احساسات ہماری تصورات اور ان سے جڑے ہمارے خیالات و یادوں سے ہیں۔۔اور یہی وابستگی ہمیں ان سے مہر عشق اور ان پر مر مٹنے پر راغب کرتا ہے۔۔۔۔ 
جمال۔۔تو کیا بابا آپ اپنے باپ دادا کے ہنکین کو چھوڑ سکو گے ؟ بھول سکوگے ان وادیوں سے یادیں۔۔
جلال خان کنامار میں کیسے بھول سکتا ہوں میرے باپ دادا اونٹو ں کی قافلہ لئے ان وادیوں سے گزرے ہیں۔۔انکا ان وادیوں میں بسیرا رہا ہے۔۔شان سے انہوں نے زندگی گزاری ہے یہاں۔۔ ان وادیوں کی حفاظت کی ہے انہوں نے۔۔۔ان کے قدموں کے نشانات ہیں یہاں ہر طرف۔۔میں بزگل کے ساتھ ان بل کھاتی گھاٹیوں سے گزرتے ہتم کی رنگینیوں میں جوان ہوا ہوں۔۔میں میر ا عشق اور میرا مہر ان وادیوں میں آج بھی رنگوں کی صورت میں موجود ہے۔۔یہاں کی ہوامیری تاریخ اور میری تہذیب کا گن گاتی ہیں۔۔یہ میں ہی محسوس کرسکتا ہوں۔۔سردار کابیٹا جسے گدان کہہ کر محض ایک چھوٹا سا کپڑا سمجھ رہے ہیں میرے لئے وہ گدان میرا مسکن میری آنگن اور میرا گھر رہا ہے۔۔ میں اس گدان میں بچپن کی جبلت سے لیکر پختہ شعور تک پرورش پایا ہوں۔۔وہ گدان سخت سردیوں میں ماں کی گود کی طرح مجھے اپنی آغوش میں لئے بچاتی آئی ہے۔۔ اور گرمیوں میں میرے سر پرچھاﺅں بن کر مجھے دھوپ سے بچاتی رہی ہے۔۔۔یہ احساس اور یہ وابستگی وہ عشق ہے جو ازل سے انسانوں کو اپنی ہنکین گھر وطن اور اور اپنی تہذیب سے ہوتاآیا ہے۔۔کسی بھی علاقے کی خوبصورتی اس کی ظاہری کیفیت سے بڑھ کر اس سے وابستہ لوگوں کے احساسات سے ہوتا ہے۔۔سرسبز وشاداب علاقوں کی طرح خشک علاقوں کی خوبصورت بھی ممتاز اور رنگوں بھری ہوتی ہے بس عشق و احساس چایئے انہیں دیکھنے کے لئے۔۔۔۔۔سردار کابیٹا ولایت میں پلا بڑا ہے اسے اس خمیر اور اس تہذیب سے کیا واسطہ۔۔۔وہ وہاں بھی پرایا رہا اور یہاں بھی پرایا ہی ہے۔۔
جلال خان گہر ی سانس لیکر اٹھا اور خیر ی جھاڑتے ہوئے کہنے لگا کنا مار میں سردار کی دستار بندی کی روایت میں قبیلے کے ایک معتبر کی حیثیت سے شریک رہا ہوں میں اقدار کا قیدی ہوں مگر تم آزاد ہو۔۔بابا اٹھ کر گدان میں چلا گیا سونے کے لئے۔۔۔جمال رات دیر تک بستر پر کروٹیں بدلتا رہا۔بابا کی باتوں پر غور کرتا رہا۔۔۔بچپن سے جوانی تک کا ہر لمحہ اور اس علاقے سے جڑی شریں یادوں سے تلخ لمحات تک کو یاد کرتار ہا۔۔
صبح سورج کی کرنیں نکلنے تک سب سامان سمیٹ چکے تھے۔۔ اونٹوں پر سامان لدھ جانے کے بعد جلال خان اونٹ کی مہار پکڑ کر پیچھے مڑا ہنکین پر نظریں دوڑائیں۔۔اسکے چہرے پر ہزاروں سوال تھے۔۔۔۔پھر جمال کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔۔کنا مار آج میں جارہاہوں۔۔ ہنکین اور اس سے جڑی یادیں تصورات تہذیب و تاریخ تمہارے لئے چھوڑ رہا ہوں۔۔ان سے عشق ومہر تمہارے ہتھیار ہونگے۔۔انکی حفاظت کرنا۔۔۔اونٹو کا قافلہ روانہ ہوا ایک ایک کر کے اونٹ جمال کے سامنے سے گذر رہے تھے آخر میں بڈو (کتا ) بھی زبان لٹکائے قافلے کے پیچھے جارہا تھا۔۔جمال کھڑا دیکھ رہا تھا۔۔ وقت کے اس لمحے کو جو برسوں کی تاریخ سمیٹے قافلہ بن کر رواں تھا۔۔۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں