بدھ، 14 مارچ، 2018

ریاستی دہشتگردی کا شکار: لیاری __ ذوالفقار علی زلفی



ریاستی دہشتگردی کا شکار: لیاری

ذوالفقار علی زلفی

لیاری کے علاقے کلری میں ایک محلہ ہے "علی محمد محلہ" ـ اس محلے کو بلوچی میں "کور دل" کے نام سے پکارا جاتا ہے ـ زکری فرقے سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کی اس بستی کو فٹبال اور قوم پرست سیاست کے حوالے سے جانا جاتا ہے ـ

پرویز مشرف کے دور میں یہاں سرکاری سرپرستی میں بدنام زمانہ غفار زکری کا ظہور ہوا جس کی دہشت گردانہ کارروائیوں اور منشیات فروشی نے علاقے کی قدیم ثقافت کا ستیاناس کردیا ـ غفار زکری نے رحمان بلوچ کے ساتھ طویل مسلح جنگ لڑی، متعدد بے گناہ افراد مارے گئے، گھروں کو نقصان پہنچا، فٹبال اور تعلیم کا جنازہ نکل گیا ـ چند قدموں کے فاصلے پر واقع تھانہ اور چند میل دور پولیس ہیڈ آفس، رینجرز مرکز، وزیر اعلی ہاؤس اور گورنر ہاؤس "بے خبر" رہے ـ پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد بلاول ہاؤس کے حکم پر غفار زکری اور رحمان بلوچ متحد ہوگئے ـ

رحمان بلوچ کا دستِ راست بابا لاڈلا لیکن اس اتحاد سے خوش نہ ہوا ـ بابا لاڈلا اور غفار زکری دونوں کا تعلق کلری سے تھا اس لئے یہ اتحاد ایک نیام میں دو تلواروں جیسا تھا ـ بلاول ہاؤس کا حکم سر آنکھوں پر ـ

چوھدری اسلم کے ہاتھوں رحمان بلوچ کے ڈرامائی قتل کے بعد اس کی گدی عزیر بلوچ نے سنبھالی ـ عزیر بلوچ نے خود کو اپنے پیشرو کی طرح بنا قبیلے کا سردار قرار دیا ـ لیاری کے لوگ اس کو پیٹھ پیچھے "چوروں کا سردار" پکارتے تھے ـ

بابا لاڈلا نے پر پرزے نکالنے شروع کرکے غفار زکری سے چشمک شروع کردی ـ نبیل گبول جنہیں کراچی کی لوٹی ہوئی دولت سے ذوالفقار مرزا کی وجہ سے حصہ ملنا بند ہوچکا تھا نے کچھی برادری کے بلڈروں کے ذریعے کچھی فورس کھڑی کرکے انہیں عزیر بلوچ و بابا لاڈلا یا دوسرے لفظوں میں ذوالفقار مرزا کے خلاف کھڑا کردیا ـ

زخم خوردہ ایم کیو ایم جسے بلیک مارکیٹ میں ذوالفقار مرزا کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا ـ اس نے ایک جانب کچھی فورس کی حمایت شروع کردی اور دوسری جانب غفار زکری کو بھی اپنی چھت فراہم کردی ـ گھمسان کا رن پڑا ـ گلی محلے خون سے نہلا دیے گئے ـ

ذوالفقار مرزا گروپ نے کچھی برادری اور غفار زکری دونوں کو راکٹ لانچروں کے آزادانہ استعمال کے ذریعے پسپائی پر مجبور کردیا ـ سردار اختر مینگل اور نواب خیر بخش مری دونوں کراچی میں تھے ـ لیاری اور ڈیفنس کا زمینی فاصلہ آدھ گھنٹے کی ڈرائیو سے بھی کم ہے مگر ان دونوں رہنماؤں نے کوئی بھی کردار ادا کرنا مناسب نہ سمجھا ـ

غفار زکری سے فراغت کے بعد بابا لاڈلا اور عزیر بلوچ کے درمیان بلیک مارکیٹ کی حصہ داری پر لڑائی شروع ہوگئی ـ ذوالفقار مرزا کا ہاتھ عزیر بلوچ پر تھا جبکہ ایم کیو ایم نے بابا لاڈلا کو گلے لگایا ـ

وفاق میں نواز شریف کی حکومت کے دوران فوج نے پالیسی بدل کر رینجرز کو اتارا ـ رینجرز نے کم از کم لیاری میں ایک نئے کاروبار کی بنیاد ڈالی ـ رینجرز بابا گینگ کے رکن کو گرفتار کرکے دونوں گروپوں سے بارگیننگ کرتی ـ جو زیادہ بولی لگاتا فیصلہ اس کے حق میں آتا ـ جیسے بابا کا ہرکارہ پکڑا گیا، عزیر نے دو لاکھ دینے کی پیشکش کرکے قتل کرنے کی درخواست کی بابا نے چار لاکھ کے عوض چھوڑنے کی ـ یوں بسا اوقات معاملہ دس بیس لاکھ تک پہنچ جاتا ـ بارگیننگ عموماً اہم نشانہ بازوں پر ہوتی تھی ـ

ماورائے عدالت قتال عام ہوگئے ـ اس کے ساتھ ساتھ اچانک رات گئے کسی محلے میں رینجرز گھستے، مردوں کو گھروں سے نکال کر جمع کرتے اور نوجوانوں سے مرغا بننے کی فرمائش کرتے ـ سوال کرنے کی صورت میں تشدد یا تین مہینے کی جبری گمشدگی سے واسطہ پڑتا ـ متعدد افراد اسی طرح لاپتہ کیے گئے ـ لاپتہ نوجوانوں کے لواحقین کے مطابق وہ تاوان کی رقم ادا کرکے اپنے پیاروں کو واپس لانے میں کامیاب ہوئے جو تاوان کی سکت نہ رکھتا اس کا پیارا گینگ کا رکن قرار دے کر کسی سڑک پر "رینجرز سے مقابلے" کے دوران مارا جاتا ـ امن کمیٹی کے بعد یہ ایک نیا عذاب تھا ـ

لیاری کی معروف مارکیٹ جھٹ پٹ مارکیٹ میں دوکانوں کے تالے توڑ کر پوری پوری دوکان کے لوٹنے کا بھی آغاز ہوا ـ دوکان داروں نے اس کا الزام رینجرز پر عائد کیا کیونکہ لیاری کے چپے چپے پر رینجرز کی چوکیاں بن گئی تھیں ـ

لیاری میں رینجرز گردی کا تازہ واقعہ کل علی محمد محلے میں پیش آیا ہے ـ رینجرز نے ایک پاگل نوجوان "چاکر بلوچ" کو گولی مار کر قتل کردیا ـ رینجرز کے مطابق مقتول گینگ کا رکن ہے ـ چاکر بلوچ کا ذہنی توازن درست نہیں تھا، بچوں جیسی معصوم حرکتیں کرکے لوگوں کو ہنسنے کا سامان فراہم کرتا تھا ـ آدمی بے ضرر تھا اس لئے ہر کسی کو پیارا تھا ـ

ایک بے ضرر پاگل نوجوان کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کرنے کے بعد رینجرز اب اس کی لاش دینے پر بھی رضامند نہیں ہے ـ لیاری اور علی محمد محلے کے غریب محنت کش کل سرکاری حمایت یافتہ غنڈوں کے رحم و کرم پر تھے آج ریاستی دہشت گردوں کے جبر کا شکار ہیں ـ کب تک رہیں گے معلوم نہیں ـ

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں