اتوار، 19 فروری، 2017

اسلام اور ملائیت : تحریر : خالد ولید سیفی


اسلام ایک سادہ دین ہے جس کا مقصد انسانوں کو اخلاق وکردار کے اعلیٰ معیار پر پہنچا کر اللہ تعالیٰ کے قریب تر کرنا ہے. اسلام کو سمجھنے کے لیے قران مجید اور محمد کی حیاتِ طیبہ مشعلِ راہ ہےاسلام وہ مذھب ہے جس میں قدم قدم پر انسانوں کے لیے رہنمائی موجود ہے. ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک اسلام نے حیات انسانی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے. زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جو تشنہ رہ گیا ہو اور اسلام نے اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہو۔اسلام کوئی معجزاتی دین نہیں ہے بلکہ عقل ،دانش، فکر اور شعور کا دین ہے. اسلام انسانوں سے یہ تقاضا نہیں کرتا کہ کوئی آنکھیں بند کر کے اس کی پیروی کرے بلکہ اس کی تعلیمات یہی ہیں کہ اسے سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے. قرآن مجید میں بار بار آیا ہے کہ تدبر کرو غور کرو،تم عقل کو کیوں استعمال نہیں کرتے ہو، وغیرہ . مگر ھمارے معاشرے خصوصآ برصغیر میں المیہ یہ ہے کہ اسلام ملائیت کے نرغے میں ہے اور ملائیت اسلام کی اپنی من مانی تعبیر وتشریع کرتی ہے.برصغیر کی ملائییت اس قدر طاقت ور ہے کہ اس کے خلاف بولنا آسان نہیں ہے کیوں‌کہ اس نے اپنے لیے فتوے کا ایک ایسا ہتھیار ایجاد کیا ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی مخالف کو دائرہ اسلام سے خارج کرسکتا ہے. بدقسمتی سے اگر کوئی ملائیت کو ہدف تنقید بنائے تواسے اسلام کے خلاف سازش قراردیا جاتا ہے اور بعض اوقات اس کا خون بھی مباح ہوجاتا ہے.ملائییت کے نرغے میں آنے کے بعد اسلام کا اصل چہرہ مسخ ہوگیا ہے اور وہ دین جو پوری دنیا کی فکری قیادت کے لیے آیا ہے، آج خود مسلمانوں کی قیادت بھی نہیں کر پا رہا ہے. اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسلام کی تعلیمات پرانی ہوگئی ہیں یا وہ بدلتی دنیا کا ساتھ نہیں دے سکتا بلکہ اسلام کی اصل تعلیمات کی اپنی تشریح کرکے پیش کیا جاتا ہے جو متضاداور متنازع ہوتی ہیں اور عالم انسانیت تو کیا مسلمان بھی ان سے دور بھاگتے ہیں۔ملائیت نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سوال کو خلاف عقیدت قرار دے کر اپنی صفوں سے باہر نکال دیا. سوال کرنا شعور کی علامت ہے اور شعوریافتہ طبقہ آنکھیں بند کرکے کسی کے پیچھے نہیں چلتا لیکن ملائیت کی خشتِ اول سوال سے نفرت ہے. بس آنکھیں بند کرکے پیچھے چلیں کہیں غلطی دیکھیں تو بھی خاموش رہیں کیوں کہ یہ بہت بڑی گستاخی اور خلافِ عقیدت ہے۔لیکن اگر ہم اسلام کا مطالعہ کریں تو حضرت عمر کا واقعہ چشم تصور میں آجاتا ہے. جب وہ خلیفہ وقت تھے. مالِ غنیمت تقسیم کی تو سب کو ایک ایک چادر ملی. خلیفہ وقت جب تقریر کے لیے آئے تو اس کے پاس دو کپڑے تھے. ایک صحابی سے رہا نہ گیا. اس نے کھڑے ہوکر سوال کیا کہ، اے خلیفہ وقت آپ ہمیں بتائیں کہ ہمیں تو ایک ایک کپڑا ملا ہے لیکن آپ کے پاس دو کپڑے کیسے ہیں؟ خلیفہ وقت نے پاس کھڑے اپنے بیٹے (غالبآ عبداللہ بن عمر ) کو بلایا اور کہا کہ اس کے سوال کا جواب دیں تو بیٹے نے کہا کہ دوسرا کپڑا میرا تھا، میں نےاپنے والد کو دیا.نہ خلیفہ وقت نے اس سوال پر ناگواری محسوس کی اور نہ سوال کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوا. اس لیے کہ اسلام کی بنیادی تربیت ایسی تھی اور سوال کرنے والے کو معلوم تھا کہ 147رائٹ آف انفارمیشن148اس کا بنیادی حق ہے.لیکن آج آپ کسی مسجد کے پیش امام سے مسجد کے معاملات کے بارے میں کوئی سوال کر کے دیکھ لیں، جبہ و دستار کی حامل کسی شخصیت سے سوال کریں کہ آپ کا سورس آف انکم کیا ہے،کسی خطیب سے پوچھیں کہ آپ کی گفتگو میں فلاں جملہ اسلام کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہے توآپ کا شمار دین دشمنوں یا کم از کم گستاخوں میں ہوگا۔ملائیت کا دوسرا بڑا مسئلہ فرقہ پرستی ہے، جس نے عالم اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا. دینی مسائل میں اختلاف رائے کو فرقہ پرستی میں تبدیل کیا گیا اور ان فرقوں کی آڑ میں ایک عجیب و غریب مخلوق وجود میں آئی. اس مخلوق نے مختلف ناموں پر الگ الگ پلیٹ فارم بنادیے اور ان پر مذہب کا لیبل لگا کر ان کے وجود کے لیے جواز تراشا گیا، جس سے اسلام کے نام پر تقسیم در تقسیم اور انحطاط کا ایک ایساسفر شروع ہوا جو عربی النسل گھوڑے کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے.فرقوں کی تشکیل سے علمانما جہلا نے خوب فائدہ اٹھایا. ایک حدیث، 147العلما ورثتہ الانبیا148 (علما، انبیا کے وارث ہیں) کا سہارا لے کر ان لوگوں نے عوام کو یہ باور کرایا کہ وہ انبیا کے وارث ہیں، اس لیے ان کے بارے میں اپنے خیالات میں بھی کوئی غلط تصور پیدا نہ کریں، مبادا آپ گناہ گار نہ ہوجائیں.اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اَن پڑھ تو ان پڑھ تعلیم یافتہ طبقے کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ان کی عقیدت مند ہے اور وہ اسے اسلام کا نمائندہ سمجھتے ہیں. ان فرقہ پرستوں نے لوگوں کی عقل کی بجائے ان کے جذبات سے اپیل کی اور اپنے لیے ایک ایسا طبقہ تیار کیا جو اپنے شیخ، اپنے قائد، اپنے حضرت اقدس، اپنے پیرطریقت، اپنے علامہ، اپنے قاطع شرک وبدعت، اپنے ولی کامل، اپنے نمونہ اسلاف ، اپنے مجاہد اسلام کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا.آپ روزانہ سننتے ہوں گے کہ مجھے دیوبندیت پر فخر ھے،مجھے بریلویت پر فخر ھے،مجھے سلفیت پر فخر ھے،مجھے حنفیت پر فخر ھے، پھر ان بڑے بڑے مسالک کے اندر جھانک کر دیکھیں ھر مسلک میں درجنوں الگ الگ گروپ بندیاں ہیں. انحطاط یہاں تک کہ148 مردے سننتے ہیں یا نہیں سنتے148 اس مسئلے پر الگ الگ جماعتیں بنیں ہیں. ایک جماعت کہتی ہے کہ مردے سنتے ہیں اور دوسری کہتی کہ مردے نہیں سنتے ہیں. اب اندازہ لگائیں کہ وہ دین جس کا بنیادی مقصد عالم انسانیت کی رہنمائی تھا کس قماش کے شیخ الاسلاموں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔پاکستان میں ایسے علما ۃیں جو ملائیت کو اسلام کے لیے سخت نقصان دہ سمجھتے ہیں اور اس موضوع پر کام بھی کر رہے ہیں جن میں قابلِ ذکر مولانا زاہدالراشدی اور ان کے فرزند عمار ناصر اور ان کا ادارہ الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ پنجاب پاکستان ہے جو ملائیت کے خلاف میدانِ عمل میں آیا ہے. جب کہ 147ملائیت اسٹیس کو148الشریہ اکیڈمی کے خلاف متحد ہوچکی ہے اور انہوں نے اس ادارے اور اس کے منتظمیں (مولانا زائدالراشدی عمار ناصر وغیرہ) کے خلاف ایک متفقہ فتوی جاری کیا ہے جو رسالہ الصفدریہ میں چھپ چکا ہے.اگر ملائیت نے اپنی روش نہ بدلی اور نئے زمانے کی فطری نفسیات کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تو وہ وقت دور نہیں کہ اسلام صرف منبرومحراب تک محدود ہوگا اور اجتماعی زندگی میں اس کا عمل دخل یکسر ختم ھوکر رہ جائےگا.ایک غلط فہمی یہ ہے کہ اسلام کو جدید ذہن سے ہم آہنگ کرنے کی بات کی جائے تو اس رائے کو ھمیشہ اسلام دشمن سازش سے تعبیر کرکے صاحب رائے کو دین دشمن لبرل ازم اور سیکولر ازم سے متاثر قراردے کر قابلِ گردن زنی قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ نوشتہ دیوار ہے کہ اسلام کے لیے جو فکری اور عملی بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے، آنے والی نسلوں کے لیے اس کا ہضم کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوگا

جمعرات، 16 فروری، 2017

بچوں کی کس طرح معاونت کرنا چاہیے


یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ بچوں کی ادراکی نشوونما کا انحصار خاندان کے ارکان کے ساتھ تعامل پر ہے۔ اگر ایک بچہ اپنے ابتدائی برسوں میں درست مقدار میں توجہ اور ابلاغ حاصل نہیں کر پاتا تو وہ نشوونما کی کمی اور بالغ طرزِ زندگی اختیار کرنے میں مشکلات کے حوالے سے شکایت کرے گا۔نوزائیدہ بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیئے الفاظ، دیکھنے اور چھونے کے ذریعہ ابلاغ اسی طرح اہم ہیں جس طرح جسمانی نشوونما کے لیئے خوراک اہم ہے۔ ایک بچہ، جو والدین کی توجہ سے مستفید ہوتا ہے، گلزارِ اطفال میں موزوں ہوگا، جلد بولنا سیکھے گا اور جذباتی طورپر متوازن ہوگا۔بچے جب پیدا ہوتے ہیں تو اس وقت ان سے ابلاغ کرنا اہم ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ الفاظ کو جوڑ نہیں سکتے لیکن وہ ہر اس چیز کو ذہن نشین کر لیتے ہیں جو وہ سنتے ہیں۔ماہرین یہ تجویز دیتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ معمول کے انداز میں بات کریں اور نامکمل یا مسخ شدہ الفاظ استعمال نہ کریں۔مثال کے طورپر جب آپ باغ میں جائیں تو بچے کو درختوں، جانوروں اور اردگرد موجود ہر چیز کے بارے میں بتائیں۔ اسے ان لوگوں کے بارے میں بتائیں جو اس کی زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں اور یاد رکھئے، یہ سب فطری طریقۂ کار کے تحت ہو۔جب نوزائیدہ بچوں کی بات آئے تو ان کے ساتھ نظریں ملا کر ابلاغ کریں۔ نوزائید بچوں میں پس منظر میں چلنے والی آوازوں جیسا کہ ٹی وی اور ریڈیو کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، چنانچہ اپنے چہیتے کے سامنے بیٹھ جائیں اور اشاروں میں ابلاغ کریں۔ اگر آپ کا بچہ تین برس کا ہو چکا ہے، آپ نے اس کے ساتھ مناسب ابلاغ کیا ہے اور وہ موزوں بات چیت کرنے کے قابل نہیں ہے تو وجہ جاننے کے لیئے کسی ماہر سے بات کریں۔ اکثر و بیشتر یہ کوئی جذباتی رکاوٹ ہوسکتی ہے اور کچھ معاملات میں یہ ایک طبی مسئلہ بھی ہوسکتا ہے۔

منگل، 14 فروری، 2017

خوابوں پر لیکچر :تحریر :چندن ساچ



آج ایک لیکچر سننے کا موقع ملا۔ لیکچر کا عنوان "انسان اور خواب" تھا۔ میں نے لیکچر کو بہت غور سے سنا۔ مگر لیکچر دینے والے کا منطق ابھی تک بھی میرے سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک طرف وہ کہہ رہے تھے کہ یہ خواب ہی ہوتے ہیں جو ہماری زندگی کو دوزخ بناتے ہیں۔ پھر دوسری طرف یہ کہہ رہے تھے کہ خواب جب بھی دیکھوگے تو اپنی اوقات کے مطابق دیکھو۔ یہی بات کہ اپنی اوقات کے مطابق خواب دیکھو، ایسی بات نے مجھے بڑی الجھن میں مبتلا دیا۔ کیوں کہ میرے کانوں میں دو عظیم استاد سرگوشی کر رہے تھے۔ ایک تھا رسول حمزہ توف اور دوسرا استاد صبا دشتیاری۔
رسول حمزہ توف کہہ رہتے کہ " چھوٹے چھوٹے بچے بھی بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں"
اور صبا صاحب فرما رہے تھے کہ
من مہ باں بِلے واب زندگ بنت۔
میں رہوں یا نہ رہوں خوابوں کو زندہ رہنا چائیے۔ اصل میں صبا صاحب درست کہہ رہے ہیں۔ ہمارا ہونا ضروری نہیں۔ مگر خوابوں کو زندہ رہنا چائیے۔ انھیں اپنی سفر جاری رکھنا چائیے۔ کیوں کہ جب خوابوں کا سفر تھم جائے تو یہ زندگی ایک سراب کے علاوہ اور کچھ نہیں رہ جائیگی۔
لیکچر دینے والے صاحب کہہ رہے تھے کہ ایک شخص کا تنخواہ 9 ہزار ہے۔ اس کا گزر بسر ہو رہا ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال دیا ہے۔ ہمیں بھی خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا چائیے۔ اصل میں لیکچر دینے والا استاد جس نظریے کا تبلیغ کر رہا تھا میں اس نظریے کو بینکنگ سسٹم ایجوکیشن کا دیا گیا تحفہ تصور کرتا ہوں۔ ارے بھئی ہم گزارے والا زندگی کیوں قبول کریں؟ کیوں مطمئن رہیں؟ سوچنا اور فکر کرنا کیوں چھوڑ دیں؟ اس بات پر مجھے ایک روایت یاد آئی جو میں نے "آساپ" میں پڑھا تھا۔
"کسی سے پوچھا گیا آپ ایک جنگل میں جا رہے ہوں اور سامنے سے ایک خونخوار درندہ آجائے تو آپ کیا کریں گے؟ موصوف نے کہا جو کرنا ہے وہ درندہ ہی کرے گا، میں نے کیا کرنا ہے!
یہ روایت اس رویے کی عکاسی کرتی ہے کہ جب سامنے کوئی طاقتور دشمن ہو تو بلاچون و چرا اپنا مال و متاع پیش کر دینا چائیے"دانشممندی" کا تقاضا یہی ہے۔ لیکن کبھی کبھی حالات، روایات کے برعکس بھی ثابت ہوتے ہیں یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ ایک طاقت ور دشمن کو سامنے دیکھ کر بھی اپنا سب کچھ اسے پیش کرنے کی بجائے اپنی لامحدود طاقت کے ساتھ مزاحمت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ خانہ بدوش، جس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا، اس کے گدان میں کوئی چور گھس آئے تو وہ اپنی لاٹھی لہرا کر اپنے خزانے پر حق ملکیت کا اعلان کرتا ہے" (آساپ کتابی سلسلہ عابد میر)
زندگی کا اصل فلسفہ چیلنچز کا سامنا کرنا ہے۔ اس لیے تو شاعر نے کہا تھا کہ "زندگی ہر قدم ایک نئی جنگ ہے" اگر اس جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہو تو حالات کی غلامی نہ کرو۔ بلکہ حالات کو غلام بنانے کیلئے جدوجہد جاری رکھو۔ دانشمندی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ خوانخوار درندہ کے سامنے کھڑے رہو کہ مجھے کیا کرنا ہے! جو کرنا ہے اسی درندے کو کرنا ہے۔
"انسانی وجود اور اسکی موجودگی کا اثبات ایک ایسا مسلسل عمل ہے جس کی ماہیئت معینہ فطرت نہیں رکھتی۔ اس لیے فکری سطح پر اس کی منطقی جوازیت تلاش کرتے ہوئے انسان اپنی ذات کی اس موجودگی کو ہستی سمجھتا ہے جو زمان و مکان کی ممکنہ حدوں میں اپنا اساسی کردار ادا کرتی رہتی ہے۔ یہ موجودگی اس وقت تک نیستی کے مترادف ہے جب تک انسان اپنی ذات کی تشکیل نو کیلئے دہشت کے اضطراب سے نہ گزرے۔ دہشت کا یہ تجربہ اس کی انا اور اس کے گرد پھیلی ہوئی کائنات کو ایک مخصوص معنوی شکل عطا کرتا ہے۔
انسانی لایعنیت اور کائناتی لایعنیت کے معانی تلاش کرنے کا یہ خلا بے مائیگی کا وہ تجربہ ہے جس کے بطن سے نئی معنویت جنم لیتی ہے۔ انسانی وجود موت کی دہشت سے فرار حاصل کرنے کی سوچی سمجھی خواہش کے مطابق لامکان کی دہشت کے سمندر میں بے آسرا تنکے کی طرح ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور پھر کوئی چارہ نہ پا کر کسی سزا یافتہ کی طرح شش جہت کی نظر آنے والی دہلیز پر نہیوڑا کر بیٹھ جاتا ہے۔ فکری فراریت اک جہانِ تازہ تک پرواز چاہتی ہے۔ چناچہ کائنات کی جہالت کا یہ اسیر اپنے نجات دہندہ خواب دیکھتا ہے جو کسی دن آسمانوں سے اس زمین پر نازل ہوگا اور کائنات کے زندانیوں کی راندہ زندگیوں کو جنتِ گم گشتہ کی نعمت عطا کرے گا۔
پھر یہی نجات دہندگی کی واماندگی تاریخ، تہذیب، مذہب، نسل، زبان اور ارضی حدبندیوں کی دنیاوی پناہیں تراشتی ہے۔ اس طرح ایک تباہی سے ایک نیا اسقتلال اور ایک نئے استقلال سے ایک نئی تباہی کا راستہ استوار ہوتا ہے۔ اس انکار و اثبات کے سفر میں سب سے پہلے فرد اپنی جسمانی طاقت اور اس کے مزاحمتی نظام کو اپنی ڈھال بناتا ہے۔ جسمانی مزاحمت ایک معروضی طاقت ہے جس کے معنی ہیں اس دنیا میں انسان کے بطور فرد باقی چیزوں سے تعلقات کی نوعیت۔ اس معروضی طاقت کی کرشمہ سازیوں سے دنیاوی سطح  پر کامل آزادی کا خواب تخلیق کرتا ہے اور پھر اس آزادی کی جہات کا تعین کرتا رہتا ہے۔ جس لمحے انفرادی طور پر جسمانی طاقت کا مزاحمتی نظام کزور پڑتا ہے۔ فرد اجتماع کی صورت اختیار کرتا ہے اور پھر بہت سارے غلام آزادی کے خواب کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوکر اپنے مزاحمتی نظام کو مضبوط بناتے ہیں۔ یہ اجتماعی مزاحمتی نظام کاملیت absolute کی اصلاح تراشتا ہے۔ جس کے اصل معنی ہیں شاید کسی دوسرے کے حصے کی وصولی کو اپنا مکمل حق سمجھنا، پھر کاملیت کا یہ مرض obsession تاریخ کا حصہ بنتا ہے۔ جو کوئی ایسی تاریخ کو اپنی سپردگی اور جانثاری پیش کرتا ہے، سمجھ لیجئے کہ وہ انصاف کی دیوانگی کیلئے اپنی عدمیت کو گلے لگانے پر آمادہ ہے۔
عدم انصاف اور اپنی مصیبتوں کیلئے روئیں روئیں سے چلاتا فرد واحد کائنات کے اس مصیبت کدے کا نوالہ بنتے ہوئے "لا" کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس کی امید اور یقین بناء وضاحت کے اپنی موت آپ مرجاتے ہیں اور اس کے حصے کی جنت ارضی و سماوی خیال خام ثابت ہوتی ہے۔ جو کوئی اس اجتماعی کاملیت کے ڈھونگ سے منحرف ہوتا ہے۔ سوسائٹی اسے باغی rebellion کا نام دیتی ہے۔ یہ باغی۔۔۔۔۔ تاریخ، تہذیب اور جغرافیے پر یقین نہیں رکھتا اور کہتا ہے کہ وہ ان لوگوں کیلئے جئے گا جو اس کی طرح شرمندگی کیلئے زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس کا کہنا ہے کہ لحمہء موجود ہی زندگی ہے اور زندگی کی گواہی دینے کیلئے اس لمحہء موجود سے انکار ممکن نہیں۔ اس تصورِ عدمیت سے نئی روشنی پھوٹتی ہے جو اعلان کرتی ہے کہ یہ زمین انسانوں کی پہلی اور آخری محبت ہے جہاں ہمارے بھائی بند ایک آسمان تلے سائنس لے رہے ہیں اور انصاف ایک زندہ قوت ہے" (جدید اردو نظم میں وجودیت۔ ڈاکٹر شاہین مفتی)
اندھے لوگ حوزے سارا ماگو کا ایک ناول ہے۔ یہ ناول ان لوگوں کی عجیب و غریب کہانی بیان کرتی ہیں جو اچانک آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ ناول کے اختتام میں کچھ یوں تحریر ہے
"ہم اندھے کیوں ہوئے تھے؟ میں نہیں جانتا شاید ایک دن ہمیں معلوم ہوجائے گا۔ کیا تم چاہتے ہو کہ جو میں سوچتی ہوں تمہیں بتاؤں۔ ہاں میں چاہتا ہوں۔ میرا نہیں خیال کہ ہم اندھے ہوئے تھے میرا خیال ہے ہم اندھے ہیں۔ اندھے لیکن دیکھنے والے، اندھے لوگ جو دیکھ سکتے ہیں لیکن نہیں دیکھتے"
چمے بہ بیت پہ گندگ ءَ
گوشے بہ بیت پہ اشکنئگ
کیا مشکل حالات میں ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرکے بیٹھے رہیں؟ یا ہلنا جلنا شروع کریں؟ کب تک ہم یہ کہتے رہیں گے کہ "محبت اب نہیں ہوگی، یہ کچھ دن بعد میں ہوگی"

پیر، 13 فروری، 2017

مسئلہ افغانستان، نئی روسی و چینی سفارتکاری



تحریر : ایمل خٹک
کیا نئی امریکی انتظامیہ کے آنے سے عالمی سٹرٹیجک منظر نامہ بدل رہا ہے ؟ ان تبدیلیوں کی نوعیت اور سمت کیا ہوگی ؟ اوراس کے ہمارے علاقے
 پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ ۔ یہ سوالات آجکل ہر جگہ پر زیر بحث ہیں ۔ عالمی اور علاقائی طاقت کے مراکز میں نئی امریکی انتظامیہ کی ممکنہ پالیسیوں اور اس کے اثرات کے حوالے سے غوروحوض جاری ہے اور پالیسی سازوں کی توجہ نو منتخب امریکی صدر کے بیانات ، اقدامات اور حتی کہ ٹویٹس پر مرکوز ہیں۔ ہمارے خطے کیلئے اور ایشیوز کے علاوہ تین امور یعنی افغانستان ، ایران اور چین کے حوالے سے امریکی پالیسیاں اہم ہیں۔ 
امریکہ میں اقتدار کی منتقلی اور نئی انتظامیہ کی افغان پالیسی ابھی تک سامنے نہیں آئی مگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی مہم کے دوران تقاریر ، بیانات اور انتخابات کے بعد کچھ اقدامات سے ایسے اشارے ملے ہیں کہ نئی امریکہ انتظامیہ کی پالیسیوں سے علاقے میں عالمی رقابتوں میں اضافہ ہوگا اور خاص کر نو منتخب امریکی صدر کی چین اور ایران کے بارے میں جارحانہ انداز فکر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ مسائل پر ڈونلڈ ٹرمپ پسپائی اختیار کر رہے ہیں ۔ 
گزشتہ جمعرات کے روز ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلی فون کے ذریعے بات چیت کی ہے۔ بات چیت کی تفصیلات تو معلوم نہ ہوسکی مگر اس بات چیت سے چند گھنٹے قبل افغانستان میں تعینات بیرونی افواج کے امریکی جنرل جان نکلسن نے سینٹ کی آرمڈ سروسز کی کمیٹی میں کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کو کمزور کرنے کیلئے چند ہزار مزید فوج کی ضرورت ہے ۔ 
علاقے میں امریکی اثرورسوخ کو زائل کرنے اور بالواسطہ یا بلاواسطہ نئی امریکی انتظامیہ پر اثرانداز ہونے کیلئے علاقے میں پراکسی وارز کے نئے راونڈز کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ چین اور ایران نئے صورتحال کے مطابق اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی اور نئی علاقائی صف بندی کیلئے کوشاں ہیں ۔ روس اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے اور علاقے خاص کر وسطی ایشیا میں اپنا کھویا ہوا اثرورسوخ بحال کرنے کی کوشش میں ہے۔ روس کی افغانستان کے حوالے سے بڑھتی گہما گہمی اس کی داخلی صورتحال اور وسطی ایشیا کے حوالے سے پالیسی سے جڑی ہوئی ہے ۔ 
روس کی جانب سے افغانستان کے حوالے سے چھ فریقی کانفرنس کا انعقاد جس میں چین اور پاکستان کے علاوہ افغانستان ، ایران اور انڈیا کو بھی دعوت دی گی ہے ایک خوش آئند بات ہے ۔ روس نے امریکہ کو بھی مشروط طور پر دعوت دی ہے ۔ کچھ علاقائی ممالک افغان حکومت اور طالبان دونوں پر زور دے رہے ہیں کہ امن مذاکرات بحال اور افغان حکومت میں طالبان کو شامل کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔ 
اور ماضی کی طرح اب پھر افغانستان پراکسی وارز کا ایک ممکنہ مرکز ہوسکتا ہے ۔ اگرچہ گزشتہ چار دہائیوں سے افغانستان عالمی اور علاقائی رقابتوں اور ریشہ دوانیوں کا مرکز ہے ۔ اب نئے راونڈز کا امکان ہے ۔ ہمسایہ ملک اور افغانستان میں پراکسی وارز یا عسکریت پسندی کیلئے ایک لانچنگ پیڈ کی حیثیت سے پاکستان کی حیثیت اور کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
اگر ماضی قریب تک امریکہ پاکستان کے ذریعے افغانستان میں اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کرتا رہا ہے تو اب دیگر علاقائی قوتیں مثلا چین ، روس اور ایران بھی پاکستان کی افغان مسلح مخالفین میں خیر سگالی اور اثرورسوخ نفوذ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش میں ہے ۔ پاکستان کی مرضی اور منشا کے بغیر افغان طالبان کا ایران ، چین اور حتی روس کے ساتھ بہتر تعلقات کا قیام ممکن نہیں تھا ۔ اس سلسلے میں ان ممالک کو پاکستان کی مکمل سہولت کاری اور تعاون حاصل رہاہے ۔
علاقائی سیاست میں پاکستان کی چین اور روس کی طرف جھکاؤ اور پالیسیوں کا حصہ بننے کی کوششوں کو امریکہ میں شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔ اگرچہ ابھی تک بہت سے ملکی تجزیہ نگار پاکستان کی چین اور روس سے قربت کو امریکی انتظامیہ پر اثرانداز ہونے اور اسلام آباد یا راولپنڈی کی اس کی خوشنودی دوبارہ حاصل کرنے کی کوششیں قرار دیتے ہیں ۔ کیونکہ پاکستانی پالیسی سازوں کی امریکی خوشنودی حاصل کرنے کی سر توڑ کوششیں تاحال جاری ہیں۔ نئی امریکی انتظامیہ کے آنے سے پاکستان پر جوہری ہتھیاروں اور عسکریت پسندی کی روک تھام کے حوالے سے دباؤ میں اضافے اور پابندیوں کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ 
بدلتے ہوئے حالات میں ایران اور چین کیلئے پاکستان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ایران اور چین دونوں کی خواہش ہوگی کہ امریکہ ان کے ہمسایہ ملک پاکستان کو ان کے خلاف استعمال نہ کرے۔ چین پہلے ہی پاکستان میں قدم جما چکا ہے اور آہستہ آہستہ اور غیر محسوس انداز میں پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر اثرانداز ہو رہا ہے ۔ روس کو پاکستان کے قریب لانے میں چین کی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ پہلے چین اور اب روس کی بھی یہی کوشش ہوگی کہ پاکستان امریکہ کے اثر سے نکلے۔ ایران پہلے ہی سے پاکستان کی امریکہ سے انتہائی قربت سے شاکی رہا ہے ۔ 
ان سطور میں ماسکو میں سہ فریقی اجلاس سے قبل اس بات کی پیشن گوئی کی گی تھی کہ سہ فریقی کانفرنس کے حوالے سے پاکستانی پالیسی سازوں کی خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں سے قطع نظر روس اور چین دیگر علاقائی طاقتوں خاص کر ایران اور بھارت سے بہتر تعلقات اور افغان مسئلے کے حوالے سے ان کے کردار کی اہمیت کے پیش نظر اگلے کسی بھی مرحلے پر ان ممالک کو اس پراسس میں شامل کر سکتے ہیں۔ روس اور چین دونوں کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ وسیع علاقائی تفاہم کے بغیر افغان مسئلے کا پرامن اور مستقل حل ناممکن ہے۔ علاقائی اور عالمی طاقتیں اب افغان مسئلے کا فوری حل چاہتے ہیں کیونکہ بہت سی وجوہات کی بناء پر اب یہ مسئلہ ہر فریق کیلئے ایک بھاری بوجھ بن گیا ہے۔ 
طالبان کی جانب سے جنگی تیاریاں اور ان کے پاس نئے ہتھیاروں کی موجودگی اور ایران اور روس پر ان کو ہتھیاروں کی فراہمی کے الزامات علاقے میں قوتوں کی نئی صف بندی اور نئی علاقائی سٹرٹیجک منظرنامے کی عکاسی کر رہی ہے ۔ طالبان میں حالیہ فوجی اور سیاسی تبدیلیاں اگر ایک طرف ان میں خود اعتمادی تو دوسری طرف طالبان صفوں میں موجود اندرونی کشمکش کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے۔ ملا عمر کا خاندان طالبان پر اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے ۔ ملا اختر منصور کے دور میں یہ گرفت کمزور پڑگئی تھی ۔ 
طالبان کی جانب سے منصب صدارت سنبھالنے سے پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خط جس میں ان سے سابقہ حکومتوں کی پالیسی ترک کرنے اور افغانستان سے امریکی فوجیں نکالنے کا مطالبہ کیا گیا تھا پر سرد مہری کا اظہار کیا گیا ۔ ساتھ ہی طالبان نے سیاسی اور فوجی دباؤ بڑھانے کی کوششیں شروع کی ۔ انتظامی تبدیلیوں ، نئے اسلحے اور ہتھیاروں اور فوجی تربیت کی خبریں اور ویڈیو کی ریلیز دباؤ بڑھانے کی مختلف کوششیں ہیں ۔ جس کا مقصد نئی امریکی انتظامیہ پر اثر انداز ہونا ہے ۔ نئی امریکی انتظامیہ کو آئے کم عرصہ ہوا ہے اور افغانستان کے بارے میں ابھی تک اس کی کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی۔ مگر امریکہ کی جانب سے مزید امریکی فوج بھیجنے کے اشارے اور حالیہ فوجی کاروائیاں اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی میں فی الحال کسی بنیادی تبدیلی کا امکان نہیں ۔
روس اور ایران بڑی برائی یعنی داعش کی نسبت کم برائی یعنی افغان طالبان کو تسلیم کر رہے ہیں ۔ وہ افغان طالبان کو داعش کو کچلنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں مگر ساتھ ہی وہ ان کو افغان حکومت کے مقابلے میں زیادہ طاقتور بھی نہیں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ افغان طالبان کی کابل پر قبضے کا مطلب علاقے میں مذہبی عسکریت پسندی کا فروغ اور دوبارہ عروج ہے جو کہ داخلی عسکریت پسندی سے نبرد آزما ایران ، چین اور روس کیلئے کسی طور قابل قبول نہیں ۔ اس وجہ سے یہ تمام ممالک افغان امن مذاکرات کی بحالی اور کامیابی میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اورمذاکرات کی بحالی کیلئے فریقین سے رابطے میں ہیں ۔ 
مسئلہ افغانستان خصوصا عسکریت پسندی کے حوالے سے بین الاقوامی رائے عامہ اور بدلتی ہوئی صورتحال نئے انداز فکر اختیار کرنے اور داخلی اور خارجہ پالیسیوں پر تجدید نظر کی ضرورت ہے ۔ اگر بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ مطابقت پیدا نہیں کی گی نئی پالیسیاں نہیں اختیار کی گی تو مزید تباہی اور بربادی کو ٹالا نہیں جاسکتا ۔

ہفتہ، 11 فروری، 2017

بدھ، 8 فروری، 2017

منگل، 7 فروری، 2017

امریکی صدر کے " سیاسی گرو " کون ہے ؟


آصف جیلانی 
امریکا کی سیاست کے پوشیدہ رازوں کے کھوجیوں کا کہنا ہے کہ امریکا کے نئے صدر ٹرمپ ، امریکا کے لئے کیا چاہتے ہیں اور اسے کس سمت لے جانا چاہتے ہیں؟ ان کے حامی یہ قطعی نہیں جانتے ۔ ان کی ریپبلکن پارٹی کو بھی اس کا ادراک نہیں ، حتی کہ خود ٹرمپ بھی یہ نہیں جانتے ،اس لئے اس وقت وہ اندھیرے میں ٹامک ٹویاں مار رہے ہیں۔ ٹرمپ کی سیاسی منزل کیا ہوگی ؟ اس کا ادراک صرف ایک شخص کو ہے ۔ یہ 63سالہ اسٹیفن بینن ہیں جو ٹرمپ کی شہ نشین کے پیچھے بے حد بااثر قوت ہیں ۔ انہیں ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں حکمت عملی کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ اتنے اہم عہدہ پر ان کی تقرری سینٹ کی تصدیقی سماعت اور منظوری کے بغیر ہوئی ہے اور انہیں قومی سلامتی کونسل میں مستقل رکن مقرر کر کے مسلح افواج کے جواینٹ چیفس آف اسٹاف اورانٹیلی جنس کے ڈائرکٹر پر فوقیت دی گئی ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ قومی سلامتی کونسل میں ایک سیاسی مشیر کو شامل کیا گیا ہے ۔ بینن کے ناقدوں کا کہنا ہے کہ انہیں قومی سلامتی کے امور کا کوئی تجربہ نہیں۔وہ صرف سات سال بحریہ میں خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ البتہ ان کے ناقد اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ ورجینیا کے ایک غریب محنت کش خاندان سے وائٹ ہاؤس تک طویل سفر انہوں نے نہایت سرعت سے طے کیا ہے۔ ہارورڈ بزنس اسکول سے ڈگری حاصل کرنے اور بحریہ میں سروس کے بعد وہ گولڈ مین سیکس میں انہوں نے سرمایہ کاری کا تجربہ حاصل کیا اور اس کے بعد خود اپنا سرمایہ کاری کا بنک قائم کیا،جس کی زیادہ توجہ میڈیا میں سرمایہ کاری پر تھی۔اسی دوران انہوں نے ہالی ووڈ میں فلمیں بھی بنائیں۔ ان کو اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب انہوں نے دائیں بازو کے انتہا پسند بیربیٹ آن لائین نیوز کی ملکیت حاصل کر کے ریڈیو اسٹیشن پر اپنا شو شروع کیا۔ اسی ریڈیو شو سے ان کی ڈونلڈ ٹرمپ سے قربت شروع ہوئی جس میں وہ بڑی باقاعدگی سے ٹرمپ کو مدعو کرتے تھے۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ اسی زمانے میں ٹرمپ پر، اسٹیفن بینن کے انتہا پسند نظریات کا رنگ چڑھا اور ان نظریات کے فروغ کے لئے ٹرمپ کے دل میں اقتدار کے حصول کی جوت جگی تھی ۔بینن کو جو لوگ جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے چیف ایگزیٹو مقرر ہونے سے برسوں پہلے انہیں ، جنگوں کی تاریخ ، چھاپہ مار جنگوں اور جنگی حربوں کے مطالعہ کا جنون تھا ، ہالی ووڈ میں بھی انہوں نے زیادہ تر جنگی فلمیں بنائیں ۔اس بناء پر خطرہ ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کو جنگوں کی جانب دھکیل دیں۔بینن کے سیاسی فلسفہ کی اساس تین بنیادی عناصر پر ہے۔ اول ۔ مغربی دنیا کی سپر طاقت امریکا کی کامیابی ، سرمایہ داری نظام ، قوم پرستی اور یہودی ،عیسائی اقدار کے اتحاد کی مرہون منت رہی ہے ۔ بینن کا کہنا ہے کہ امریکا کی ترقی اور استحکام کے لئے یہودی اور عیسائی اقدار کا فروغ لازمی ہے اور اس مقصد کے لئے نظریاتی یک جہتی بنیادی ضرورت ہے اور ان لوگوں کو اس معاشرہ میں داخلہ سے روکا جائے جو یہودی، عیسائی اقدار پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے شامی پناہ گزینوں اور سات مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی کا جو حکم جاری کیا ہے اس کے پس پشت بینن کا یہی عقیدہ نمایاں ہے۔ بینن کا کہنا ہے کہ امریکا اپنی تاریخ کے چوتھے بڑے بحران سے گذر رہا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’’امریکا انقلاب سے گذر چکا ہے ۔ اسے خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا ہے ، عظیم کساد بازاری اور دوسری عالم گیر جنگ کے دور سے گذرا ہے اور اب چوتھے بحران کا اسے سامنا ہے۔ بینن کی رائے ہے کہ دوسری عالم گیر جنگ سے قبل، یورپ کو فسطایت سے زیادہ خطر ناک قوت اسلام سے خطرہ تھا اور ان کی پیشن گوئی ہے کہ یہودی اور عیسائی مغرب اور بقول ان کے اسلامی فسطائیت کے درمیان عالمی بقا کی جنگ ہوگی۔ نو مہینے قبل اسٹیفن بینن نے کہا تھا کہ اگلے دس برس میں، امریکا اور چین کے درمیان جنوبی چین کے سمندر کے جزیروں پر جنگ ہوگی ۔ اسی کے ساتھ ان کا کہنا ہے کہ امریکا مشرق وسطی میں ایک بڑی جنگ میں ملوث ہوگا۔بلا شبہ صدر ٹرمپ کے سیاسی گرو بینن کے نظریہ کے مطابق نئی انتظامیہ کی پالیسی اور اقدامات سامنے آرہے ہیں۔ شامی پناہ گزینوں اور سات مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کے بعد اب ایران سے معرکہ آرائی کا آغاز ہوگیا ہے۔دو روز پہلے نیشنل سیکوریٹی کے مشیر مایکل فلن نے ایران کو میزائل کے تجربہ پر خبردار کیا تھا اور ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا تھا کہ وہ آگ سے کھیل رہا ہے ، پھر ایک روز بعد ما ئیکلفلن نے ایران کے مبینہ میزائل پروگرام پر ایران کی کئی درجن کمپنیوں اور تیرہ افراد پر پابندیوں کا اعلان کیا اور خبردار کیا کہ ایران کے خلاف مزید اقدامات کئے جائیں گے۔اس بات کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کا اگلا اقدام ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کی منسوخی کا ہو سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں کہا جارہا ہے کہ ایران کے لئے جوہری پروگرام کی راہیں کھل جائیں گی۔اس سے پہلے ایوان نمایندگان میں ایک قرار داد پیش کی گئی تھی جس میں ایران کو جوہری اسلحہ کی تیاری سے روکنے کے لئے صدر کو ایران کے خلاف جنگ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔ حالانکہ اس سے پہلے امریکا کی ۱۶ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تجزیہ میں کہا گیا تھا کہ ایران ، جوہری اسلحہ کی تیاری کی کوشش نہیں کر رہا ہے اس کے باوجود ری پبلکن اراکین نے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کے بارے میں صدر کو اختیار دیا ہے ۔ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ ایوان نمایندگان کی اس قرار داد کے پیچھے اسٹیفن بینن کا دماغ کام کر رہا ہے ۔

بدھ، 1 فروری، 2017

افغانستان نے ( سگار ) کی رپورٹ مسترد کردی



افغانستان میں تعمیر نو کے امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ ترین نگران ادارے کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کا کنٹرول بمشکل جنگ سے تباہ حال اس
 ملک کے نصف پر قائم ہے، اس کی سکیورٹی فورسز کو عسکریت پسندوں کے مقابلے میں بتدریج کمی کا سامنا ہے جب کہ منشیات کی پیداوار میں اضافہ اور اس کے خاتمے میں تنزلی دیکھی جا رہی ہے۔اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن (سگار) کے دفتر سے گزشتہ تین ماہ کی جائزہ رپورٹ بدھ کو جاری کی گئی جس کے مطابق نومبر کے وسط تک افغان حکومت کا ملک کے 407 اضلاع میں سے صرف 57.2 فیصد پر کنٹرول یا اثر و رسوخ تھا جو کہ گزشتہ اگست کے مقابلے میں 6.2 فیصد جب کہ گزشتہ برس کی نسبت 15 فیصد کم تھا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس وقت افغانستان کی ایک تہائی یا 92 لاکھ آبادی "لڑائی والے علاقوں میں مقیم ہے" اور 25 لاکھ لوگ عسکریت پسندوں کے زیر اثر علاقوں میں رہ رہے ہیں۔ نومبر سے قبل کی سہ ماہی میں یہ تعداد 29 لاکھ تھی۔بظاہر اس تعداد میں کمی کی وجہ خراب صورتحال کے باعث لوگوں کی نقل مکانی ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق گزشتہ سال تقریباً چھ لاکھ 40 ہزار افغانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔امریکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے علاقوں پر فورسز کے کنٹرول سے متعلق "سگار" کی رپورٹ کو مسترد کیا تھا۔اس رپورٹ کی نقول گزشتہ ہفتے ہی صحافیوں کو فراہم کر دی گئی تھیں لیکن بدھ تک اس کے جاری کرنے پر ممانعت تھی۔اتوار کو ایک پریس کانفرنس کے دوران پوچھے گئے سوال پر دولت وزیری کا کہنا تھا کہ "تمام 34 صوبے افغان حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔۔۔ صرف آٹھ اضلاع پر طالبان عسکریت پسندوں کا قبضہ ہے۔"مزید برآں رپورٹ میں افغان سکیورٹی فورسز کے جانی نقصان میں گزشتہ سال کی نسبت 35 فیصد اضافے کا بتاتے ہوئے کہا گیا کہ امر اس جانب نشاندہی کرتا ہے کہ افغان حکومت اور سکیورٹی فورسز کو مسلسل معاونت کی ضرورت ہے اور یہ امداد کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتیں۔سگار کی یہ تازہ سہ ماہی رپورٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی منصب صدارت سنبھالنے کے بعد سامنے آئی ہے۔ادارے کا کہنا تھا کہ افغانستان میں 2016ء میں افیون کی پیداوار 2015ء کی نسبت 43 فیصد زیادہ رہی۔ اس کے اندازوں کے مطابق گزشتہ برس افغان کسانوں نے پوست کی فصل سے تقریباً 4800 ٹن افیون حاصل کی۔امریکی ادارے کی رپورٹ میں جس واحد معاملے میں بہتری کا تذکرہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ سرکاری سطح پر سامان کی خریدار اور سہولتوں کی فراہمی میں بدعنوانی کم ہوئی ہے۔