منگل، 29 اگست، 2017

گمشدہ رجمنٹ : تحریر : اٹالوکالوینو



ایک طاقتور فوج کی ایک رجمنٹ کو شہر کی گلیوں میں پریڈ کرنا تھی۔ دستے صبح ہی سے بیرک کے احاطے میں پریڈ کی ترتیب میں کھڑے ہونا
 شروع ہو گئے۔
سورج بلند ہوتا گیا اور اب سایے احاطے میں اگنے والے نوخیز پودوں کے قدموں تلے مختصر ہونے لگے۔ اپنے تازہ پالش کردہ ہیلمٹوں کے اندر فوجی اور حکام پسینے سے شرابور ہونے لگے۔ سفید گھوڑے پر سوار کرنل نے اشارہ کیا، نقاروں پر ضربیں پڑیں، بینڈ نے مل کر ساز بجانا شروع کر دیے اور بیرک کے دروازے اپنی چُولوں پر آہستگی سے ہلنے لگے۔
اب آپ دور کہیں کہیں نرم بادلوں کی دھاریوں والےنیلے آسمان کے تلے شہر دیکھ سکتے تھے جس کی چمنیاں دھویں کے لچھے چھوڑ رہی تھیں، اس کی بالکونیاں جہاں کپڑے سکھانے والی چٹکیوں سے اٹی تاریں، سنگھار میزوں کے آئینوں میں منعکس ہوتی سورج کی جگمگ کرنیں، مکھیاں دور رکھنے والے جالی دار پردوں میں خریداری کے سامان سے لدی خواتین کی الجھتی بالیاں، ایک چھتری والی آئس کریم گاڑی کے اندر کون رکھنے والا شیشے کا بکس، اور ایک لمبی ڈور کے سرے پر بچوں کا ایک گروہ سرخ کاغذی چھلوں پر مشتمل دم والی پتنگ کھینچتے ہوئے جو زمین کو چھوتے ہوئے ڈگمگاتی ہے، پھر جھٹکوں جھٹکوں میں اٹھ کر آسمان کے نرم بادلوں کے مقابل بلند ہو جاتی ہے۔
رجمنٹ نے نقاروں کی تھاپ میں پیش قدمی شروع کی، سڑکوں پر بوٹ بجنے لگے اور توپ خانے کی گھرگھراہٹ گونجنے لگی، لیکن اپنے سامنے خاموش، شریف طبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والا شہر دیکھ کر فوجی خود کو تھوڑا بدلحاظ اور دخل انداز محسوس کرنے لگے، اور دفعتاً پریڈ بےمحل لگنے لگی۔ جیسے کوئی ساز کا غلط تار چھیڑ دے۔ جیسے اس کے بغیر بھی کام چل سکتا تھا۔
پری جیو باتا نامی ایک نقارچی نے ظاہر کیا جیسے وہ اسی تاب سے نقارہ بجا رہا ہے حالانکہ وہ صرف نقارے کی سطح کو چھو رہا تھا۔ اس سے جو آواز نکل رہی تھی وہ ایک مغلوب سی دھم دھم تھی، لیکن وہ اکیلا نہیں تھا۔ کیوں کہ عین اسی لمحے دوسرے تمام نقارچی اسی کی پیروی کررہے تھے۔ پھر بگل والے گزرے لیکن ان کے بگلوں سے محض ایک آہ نکل رہی تھی کیوں کہ کوئی بھی ان میں زور سے نہیں پھونک رہا تھا۔ سپاہی اور حکام بےچینی سے ادھر ادھر دیکھ کر ایک ٹانگ ہوا میں اٹھاتے، پھر اسے بہت نرمی سے نیچے رکھ دیتے اور یہ پریڈ گویا پنجوں کے بل آگے بڑھتی گئی۔
سو کسی کے حکم دیے بغیر ایک لمبی، بہت لمبی قطار پھونک پھونک کر قدم رکھتی، پنجوں کے بل دبی دبی چال سے چلی۔ شہر کے اندر توپیں اس قدر بےجوڑ لگنے لگیں کہ ان کے ساتھ چلنے والے توپچیوں پر یکایک خجالت طاری ہو گئی۔ بعض نے بےاعتنائی کا وطیرہ اپنایا اور توپوں کی طرف دیکھے بغیر چلتے گئے، جیسے وہ وہاں محض اتفاق سے آ گئی ہوں۔ دوسرے توپوں سے لگ کر چلنے لگے، جیسے وہ انھیں چھپانا چاہتے ہوں، تاکہ لوگوں کے ان کے اکھڑ اور ناگوار نظارے سے بچایا جا سکے۔ کچھ نے ان پر غلاف ڈال دیے تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے، یا کم از کم وہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف نہ کھینچیں۔ کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے توپوں کی نال یا توپ گاڑی پر ہاتھ مار کر یا ہونٹوں پر نیم مسکراہٹ لا کر کچھ ایسے شفقت آمیز تمسخر کا رویہ اختیار کیا گویا یہ دکھانا چاہتے ہوں کہ ان کا ان چیزوں کو مہلک مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، بس ذراہوا لگانا مقصود ہے۔
یہ پریشان کن احساس کرنل کلیلیو لیون تومینی کے دماغ میں بھی سرایت کر نے لگا جنھوں نے بےاختیار سر اپنے گھوڑے کی طرف جھکا دیا، جب کہ خود گھوڑے نےبھی ہر قدم کے درمیان وقفہ ڈالنا شروع کر دیا اور اب وہ کسی ریڑھے والے گھوڑے کی سی احتیاط سے چل رہا تھا۔ لیکن کرنل اور ان کے گھوڑے کو دوبارہ جنگی چال اختیار کرنے میں بس ایک لمحے کا غور و فکر ہی کافی تھا۔ صورتِ حال کا تیزی سے جائزہ لے چکنے کے بعد کرنل نے تیز حکم دیا:
پریڈ چال!
نقارے متوازن تال پر بجنا شروع ہوئے۔ رجمنٹ نے تیزی سے اپنی دلجمعی دوبارہ حاصل کی اور اب وہ جارحانہ خوداعتمادی سے آگے قدم بڑھانے لگی۔
یہ ہوئی نا بات، کرنل نے صفوں پر تیزی سے نظریں دوڑاتے ہوئے خود سے کہا، اس کو کہتے ہیں مارچ کرتی ہوئی اصل رجمنٹ۔
چند راہگیر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر قطار بنا کر کھڑے ہو گئے اور ایسے لوگوں کے انداز سے پریڈ دیکھنے لگے جو اس قدر طاقت کی صف آرائی میں دلچسپی رکھتے ہوں اور شاید انھیں اس میں مزا بھی آتا ہو، لیکن کوئی ناقبلِ تفہیم احساس انھیں ستا رہا ہو۔ ایک مبہم خطرے کا احساس۔ اور ویسے بھی ان کے ذہنوں میں پہلے ہی سے کئی اہم چیزیں گردش کر رہی تھی کہ وہ تلواروں اور توپوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے۔
خود پر نظریں جمی دیکھ کر سپاہی اور حکام ایک بار پھر ناقابلِ توجیہہ گھبراہٹ کا شکار ہونے لگے۔ وہ پریڈ چال کے بےلچک قدموں سے چلتے تو گئے، لیکن انھیں اس خیال سے دامن چھڑا پانا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ ان بھلے شہریوں کے ساتھ کوئی زیادتی کر رہے ہیں۔ ان کی موجودگی کےباعث بدحواسی سے بچنے کے لیے سپاہی مارانگون ریمیگیو نے نظریں جھکائے رکھیں۔ جب آپ صفوں میں مارچ کرتے ہیں تو آپ کو صرف سیدھی لکیر میں رہنے اور قدم ملانے کی فکر ہوتی ہے، دستہ باقی ہر چیز کا خیال خود رکھتا ہے۔ لیکن سینکڑوں سپاہی وہی کچھ کر رہے تھے جو سپاہی مارانگون کر رہا تھا۔ درحقیقت آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سب، حکام، پرچم بردار، خود کرنل اپنی نظریں زمین سے اٹھائے بغیر، صف کا پیچھا کرتے چلے جا رہے تھے۔ بینڈ کے پیچھے پریڈ چال چلتے چلتے رجمنٹ ایک طرف کو کنی کھا گئی اور پارک کے اندر پھولوں کے تختے میں جا گھسی، اور پھر استقامت سے گلِ اشرفی اور بنفشے کے پھول روندتی چلی گئی۔
باغبان گھاس کو پانی دے رہے تھے اور انھوں نے کیا دیکھا؟ ایک رجمنٹ آنکھیں بند کیے، نازک گھاس میں ایڑیاں پٹختے ان پر چڑھی چلی آ رہی ہے۔ ان بیچاروں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اپنے فوارے کس طرح تھامیں کہ پانی کہیں سپاہیوں پر چھڑکاؤ نہ کر دے۔ آخرکار ہوا یہ کہ انھوں نے اپنے فوارے سیدھے اوپر کر لیے، لیکن طویل دھاریں دوبارہ بےقابو سمتوں میں آ آکر نیچے گرنے لگیں۔ ایک نے آنکھیں میچے کمر سیدھی رکھے مارچ کرتے ہوئے کرنل کلیلیو لیون تومینی کو سر سے پاؤں تک شرابور کر دیا۔
پانی سے نچڑ کر کرنل اچھل کر پکارے:
سیلاب! سیلاب! بچاؤ کی کارروائی شروع کی جائے! پھر انھوں نے فوری طور پر خود پر قابو پایا اور رجمنٹ کی کمان سنبھال کر اسے باغات سے باہر لے گئے۔
تاہم وہ تھوڑے سے بےدل ہو گئے تھے۔ سیلاب! سیلاب! کی پکار نے ایک راز اور ایک لاشعوری تمنا کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا کہ قدرتی آفت اچانک آ سکتی ہے، اور کسی کو ہلاک کیے بغیر اس قدر خطرناک ہو سکتی ہے کہ پریڈ منسوخ کرا دے اور رجمنٹ کو لوگوں کے لیے ہر قسم کے مفید کام کرنے کا موقع مل سکے، مثلاً پلوں کی تعمیر یا بچاؤ کی کارروائیوں میں حصہ لینا۔ صرف اسی بات سے ان کا ضمیر مطمئن ہو سکتا تھا۔
پارک سے نکلنے کے بعد رجمنٹ شہر کے ایک مختلف حصے میں داخل ہو گئی تھی۔ یہ وہ کھلی سڑکیں نہیں تھیں جہاں انھیں پریڈ کرنا تھی، بلکہ یہ علاقہ تنگ، خاموش اور بل کھاتی ہوئی گلیوں پر مشتمل تھا۔ کرنل نے فیصلہ کیا کہ وہ ان گلیوں کو عبور کر کے سیدھا چوک تک جا پہنچیں گے تاکہ مزید وقت ضائع نہ ہو۔
اس علاقے میں ایک انوکھا جوش و خروش بیدار ہو گیا۔ الیکٹریشن لمبی سیڑھیوں پر چڑھے گلی کے بلب ٹھیک کر رہے تھے اور ٹیلی فون کی تاریں اوپر نیچے کر رہے تھے۔ سول انجینیئرنگ کے سرویئر آلات اور فیتوں سے سڑکیں ناپ رہے تھے۔ گیس والے فٹ پاتھ پر بڑے گڑھے کھود رہے تھے۔ سکول کے بچے ایک طرف قطار میں چلے جا رہے تھے۔ راج مزدور کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرفیہ لو! یہ لو! کہتے ہوئے اینٹیں اچھال رہے تھے۔ سائیکل سوار اپنے کندھوں پر لکڑی کی گھوڑیاں اٹھائے، تیز آواز میں سیٹیاں بجاتے گزرے۔ ہر کھڑکی میں ایک ایک لڑکی برتن دھو رہی تھی اور بڑی بالٹیوں میں کپڑے نچوڑ رہی تھی۔
چنانچہ رجمنٹ کو ان بل کھاتی گلیوں میں ٹیلی فون کی تاروں کے گچھوں، فیتوں، لکڑی کی گھوڑیوں، سڑک میں گڑھوں، پرشباب لڑکیوں اور ہوا میں اڑتی اینٹیں یہ لو! یہ لو! پکڑ کر اور ہیجان زدہ لڑکیوں کے چوتھی منزل سے گرائے ہوئے بھیگے کپڑوں اور بالٹیوں سے بچ بچا کر اپنی پریڈ جاری رکھنا پڑی۔
کرنل کلیلیو لیون تومینی کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ بھٹک گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے گھوڑے سے نیچے جھک کر ایک راہگیر سے پوچھا:
معاف کیجیے گا، کیا آپ جانتے ہیں کہ مرکزی چوک کو جانے والا سب سے مختصر راستہ کون سا ہے؟ 
راہگیر، جو ایک معنک اور دبلا پتلا شخص تھا، تھوڑی دیر سوچتا رہا۔
راستہ پیچیدہ ہے۔ لیکن اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کو ایک احاطے سے ایک اور گلی کے راستے لے جاؤں گا جس سے آپ کا کم از کم چوتھائی گھنٹہ بچ جائے گا۔
کیا تمام رجمنٹ اس احاطے سے گزر پائے گی؟ کرنل نے پوچھا۔
آدمی نے رجمنٹ پر ایک نظر دوڑائی اور ہچکچاتے ہوئے کہا:
خیر، کوشش کی جا سکتی ہے، اور انھیں ایک بڑے دروازے سے گزرنے کا اشارہ کیا۔
عمارت کے تمام خاندان بالکونیوں کے زنگ آلود جنگلوں کے پیچھے کھڑے ہو کر احاطے میں سے توپ خانے اور گھوڑوں سمیت گزرنے کی کوشش کرتی رجمنٹ کو دیکھنے کے لیے جھک گئے۔
باہر نکلنے کا دروازہ کہاں ہے؟ کرنل سے دبلے آدمی سے پوچھا۔
دروازہ؟ آدمی نے کہا۔ شاید میں اپنی بات واضح نہیں کر سکا۔ آپ کو اوپری منزل تک چڑھنا پڑے گا، وہاں سے آپ سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے دوسری عمارت میں داخل ہو جائیں گے اور اُس عمارت کا دروازہ گلی میں کھلتا ہے۔
کرنل ان تنگ سیڑھیوں میں بھی اپنے گھوڑے پر سوار رہنا چاہتے تھے لیکن دو تین منزلوں کے بعد انھوں نے گھوڑے کو جنگلے سے باندھ کر پیدل آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ توپوں کو بھی احاطے میں چھوڑ دیا جائے جہاں ایک موچی نے وعدہ کیا کہ وہ ان پر نظر رکھے گا۔ سپاہی ایک قطار میں چلتے گئے اور ہر منزل پر دروازے کھلتے اور بچے چلاتے:
اماں، جلدی آؤ، دیکھو۔ سپاہی گزر رہے ہیں۔ فوج پریڈ کر رہی ہے!
پانچویں منزل پر ان سیڑھیوں سے بالاخانے کو جانے والی سیڑھیوں تک پہنچنے کے لیے انھیں باہر کی طرف بالکونی کے اوپر چلنا پڑا۔ ہر کھلی کھڑکی میں سے سادہ کمرے نظر آتے جن میں جھلنگا چارپائیاں بچھی ہوتیں جہاں بچوں سے بھرے خاندان مقیم تھے۔
اندر آؤ، اندر آؤ، باپ اور مائیں سپاہیوں سے کہتے۔ تھوڑا آرام کرو، تم لوگ بہت تھکے ہوئے ہو گے! ادھر سے آؤ، یہ راستہ چھوٹا ہے! لیکن اپنی بندوقیں باہر رکھ دو۔ اندر بچے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں نا۔۔۔
سو راہداریوں اور گزرگاہوں میں رجمنٹ کی ترتیب ٹوٹ گئی۔ اور اس افراتفری میں وہ دبلا شخص کہیں ادھر ادھر ہو گیا جس نے کہا تھا کہ وہ راستہ جانتا ہے۔
شام پڑ گئی اور رسالے اور پلٹنیں اب بھی سیڑھیوں اور بالکونیوں میں بھٹکتی پھر رہی تھیں۔ سب سے اوپر، چھت کے چھجے پر کرنل لیون تومینی بیٹھے تھے۔ انھیں نیچے بکھرا ہوا شہر دکھائی دے رہا تھا، وسیع و عریض اورتند و تیز، سڑکیں شطرنج کی بساط کی مانند اور خالی چوک۔ ان کے ساتھ ہی رنگین جھنڈیوں، پیغام رسانی والے پستولوں اور رنگ برنگے پردوں سے مسلح دستہ کھپریل پر ہاتھ اور گھٹنے ٹکائے بیٹھا تھا۔
پیغام بھیجو، کرنل نے کہا۔ جلدی، پیغام بھیجو: علاقہ ناقابلِ عبور۔۔۔ آگے بڑھنے سے قاصر۔۔۔ حکم کا انتظار۔۔۔

انگریزی سےترجمہ: ظفر سید

منگل، 22 اگست، 2017

جنوبی ایشیا میں برقعہ کا رواج کیوں بڑھ رہا ہے ؟

کچھ افراد کی رائے میں برقعہ ایک پدرانہ معاشرے میں عورتوں کی کم تر حیثیت کا عکاس ہے لیکن کچھ افراد برقعہ اوڑھنے
کو عورت کا ایک ذاتی فیصلہ ٹہراتے ہیں۔ جنوبی ایشاء میں برقعہ کا رواج کیوں بڑھ رہا ہے
جناح یونیورسٹی اسلام آباد سے منسلک مشتاق غادی کی رائے میں برقعہ ہندو مت اور اسلام دونوں مذاہب میں اہمیت کا حامل ہے اور یہ ایک پدرانہ معاشرے کا عکاس ہے۔ ان کی رائے میں، پدرانہ معاشروں میں عورت کی عزت اس کے لباس اور اس کی جنسیت سے جڑی ہوتی ہے، اسی عزت کو بچانے کی خاطر کئی مرد عورتوں کو اجنبی افراد کو اپنا چہرہ دکھانے کی اجازت نہیں دیتے۔
مشتاق غادی سمجھتے ہیں کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت جیسے ممالک میں خواتین میں اپنا چہرہ ڈھانپ کر رکھنے کا رواج سیاسی اسلام کے بڑھتے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے۔
تاریخ دان مبارک علی کہتے ہیں کہ ،جنوبی ایشیا میں برقعہ پہننے کا رواج سعودی عرب کے بڑھتے اثر ورسوخ کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ مذہبی جماعتوں نے بھی یہ تاثر عام کیا ہے کہ برقعہ اور تقویٰ کا گہرا تعلق ہے۔ مبارک علی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہابیت نے نہ صرف جنوبی ایشیا میں سیاسی نظام بلکہ ایک تکثیری معاشرے کو بھی تباہ کیا ہے۔ ان کی رائے میں،وہابیت کے پیروکار کسی بھی ثقافتی آزادی کے خلاف ہیں اس لیے وہ مزار، موسیقی کے میلوں اور دیگر ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہیں کیوں کہ وہ اس سب کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔
علی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہابیت کا اثر صرف خواتین کے لباس تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے جنوبی ایشیائی باشندوں کے ذہنوں میں گھر کر لیا ہے جس نے اس خطے میں کئی عرب روایات کو جنم دیا ہے۔
مبارک علی کہتے ہیں کہ ،پدارانہ نظام اور مذہب عورت کو مرد سے کم تر یا اس پر حکم چلانے کا پرچار کرتے ہیں، وہ مرد جو سخت نظریات رکھتے ہیں وہ عورتوں کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ انہیں کوئی اور دیکھے۔ بھارت کی روشن خیال اقدار کے باوجود عورتوں پر مردوں کا تسلط اس خطے میں ایک عام بات ہے۔
ماہرین کی رائے میں اعدادو شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں نقاب یا برقعے کا استعمال گزشتہ تین دہائیوں میں خاصہ بڑھ گیا ہے۔
امریکا میں قیام پذیر اسلامی امور کے ماہر عارف جمال کا خیال ہے کہ، ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں خواتین نے مذہبی لباس کے خلاف بغاوت کی تھی اورانہوں نے مغربی لباس پہننا شروع کر دیا تھا، اس دوران کابل میں خواتین منی اسکرٹس بھی پہنتی تھیں تاہم اسی کی دہائی میں وہابیت نے جنوبی ایشیا میں نقاب اور حجاب کا رواج عام کیا۔ عارف جمال کہتے ہیں کہ نقاب سے زیادہ حجاب کام کرنے والی خواتین میں زیادہ مقبول ہوا جو مذہبی اور جدید دونوں طرح سے دکھنا چاہتی تھیں۔
مبارک علی نےمزید کہا کہ، پاکستان جہاں عورتوں کے خلاف جرائم عام ہیں وہاں بہت سی عورتیں برقعہ پہننے سے محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ عارف جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، میری نظر میں برقعہ یا برقینی پہننا عورتوں کا فیصلہ نہیں ہے، ہم اکثر اپنے والدین کا مذہب ہی اپناتے ہیں، اگر ایک عورت اپنا مذہب تبدیل کرے اور پھر برقعہ یا برقینی پہننے کا فیصلہ کرے تو میں کہوں گا کہ اس نے اپنی مرضی سے فیصلہ کیا ہے۔
اوڑھنےبشکریہ : ڈی ڈبلیو

اتوار، 6 اگست، 2017

یورپ کی تاریخ



یورپ کی تاریخ

سید نصیر شاہ
۔تاریخ کا عام تعارف
۔یونان کی قیادت
۔یہودیوں کی مدد کا حصہ
۔روم میں عیسائیت
۔روم کا تنزل
۔جاگیردارانہ نظام
۔نشاۃثانیہ
۔فرانس اور انگلینڈ
۔سلطنتِ بر طانیہ کا ظہور
تاریخ کا عام تعارف
تاریخ محض اپنے طرز اسلوب اور خیالات کی بنا پر قاری کو مصنف سے بالا رکھتی ہے جب کہ مورخ کم و بیش ہی اپنی ذہنی تنگ نظر ی کو عبور کر سکے ہیں۔ تاریخ کا کم سے کم مواد بھی،اپنے قاری پر نئی راہیں اور تخیلات کے پر دے کھولتا ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ سے مراد وہ چیز ہے جوانسان سے متعلق ہے اور ماضی میں گزری ہے ۔صرف سیاست ہی نہیں فن ِسائنس ، موسیقی اس کا ارتقا اور نشو ونما کا عمل صرف ادارے ہی نہیں داستانیں اور ورثے، ادبی شہ پارے آدمی کی درجہ بندیاں اور اسکے مسائل سے پر دہ ہٹاتے ہیں۔ اس کا انحصار قاری پر ہے کہ وہ کہاں تک لطف اندوز ہوتا ہے۔ اسکے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں نہیں ہوتیں کہ وہ کسی دستوری امریکی ڈھانچے کے سامنے جھک جائے ۔ وہ پر سکون ضمیر کے ساتھ پہلو بدل کر مرتے ہوئے رولینڈ کے بگل کی گونج Gorge of Roncevaux میں سُن سکتا ہے یا Cnut کے ساتھ انتظار کر تا ہے کہ شمالی سمندر کا مد و جزر جو پرانے Dane کے قدموں سے ہم آغوش ہو جاتا ہے ۔ تمام سمتوں میں ، تقریبا ً ادب کی ہر صنف میں تاریخ نے دریافتیں سامنے لائی ہیں مگر ابھی تک مکمل تاریخی پس منظر اور ہیت نامکمل اور ادھوری ہے ۔ کسی نے بھی آج تک انسانیت اور انسان کا ریکارڈ مرتب نہیں کیا اور نہ کوئی بھی کر سکے گا کیونکہ یہ انسانی قوت سے ماور أ عمل ہے Macaulay کی تاریخ چالیس سالوں کا احاطہ کرتی ہے جو Thuchydides کی Pelepennuesion جنگ کی نذر ہے اور دس صدیاں جدیدیت کے رواج کو اپنانے میں صر ف ہوئی ہیں جن پر چلنے والا کوئی نہ مل سکا حقیقت یہ ہے کہ فلکیات جیسے علم پر جو تعارف نصابی کتب میں ملتا ہے ۔وہ مصنوعی تاریخ کی مثال ہے جو اسقدر نا قص ہے کہ طلبا کو صحیح تعارف تک بھی نہیں کر اسکتا ۔
اس وجہ سے محض یہ کوشش ہی ہونی چاہئے کہ موجودہ دور کو عہد قدیم سے مر بوط کیا جائے ۔ تاریخ کی عملی حد تقریبا ً تین ہزار سال پر محیط ہے جو کہ باالفاظ دیگر ،C 1000 B قبل مسیح کہلاتا ہے جو کہ صرف آثار قدیمہ کی شہادت پتھروں پر کندہ تصاویر ہیں جو عہد قدیم کا پتہ دیتی ہیں اور مصرمیں قدیم بادشاہی نظام کی شاہد ہیں ۔یہ وہ لوگ نہیں ہیں جنہوں نے بعد میں آنے والے ادوار پر ان مٹ نقوش چھوڑے ۔یہ شاید وہ گمنام آرئینزقبائل تھے جو اپنی راہوں پر گامزن تھے جو Dnceper , volga اور Dunube کے میدانوں سے گزرتے ہوئے آخر کار بلقان اور اٹلی کے جزیروں میں جانے پر مجبور ہوگئے۔ سمندر اُنکے مزید سفر اور ترقی میں حائل ہوا ۔وہاں انہوں نے اپنی طرز، عادات و اطوار اپنا ئے۔ اس قدیم عہد کے شہر Athens اور Rome ہیں جو ایک خاص خصوصیت اور اہمیت سے ابھرے اور تقریباً 1000قبل مسیح یا اسکے کچھ بعد یونان Homer کے ساتھ مبہم ہوگیا ۔ Joshua کی کتاب میں وہ اپنی نسل کا دھند لا تعارف یہود کی ترقی فلسطین کی فتح اور بارہ خانہ بدوش قبائل کا ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے بائبل کی پہلی پانچ مقدس کتابیں اپنا مذہب اور قانون کا ریکارڈ مرتب کیا ۔Homer اور Joshua کا مطالعہ کرنے سے قبل بحیرہ روم اور مغرب کی تاریخ سے آگہی ضروری ہے ۔
یونان کی قیادت
پہلے دو بڑے دریا نیل اور فرات ,دوم سمندری جزیرہ جو مغرب کی سمت ہے، بحر الکائل ،کیطرف پھیلا ہوا ہے۔ شاہراہ تجارت ، تہذیب و آسائش Carthege, Phocaea , Tyre اور پہلے تاجر تھے Marseillers جوصرف آریا ملٹری اور مغرب و مشرق کا سامان ہی نہ لائے بلکہ زبان اور حروف تہجی بھی ساتھ لائے اس کے علاوہ مغرب کیلئے اور بڑا تحفہ کیا ہوسکتا تھا جس نے ان پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ابتدائی داستانوں اور ادب پر دسترس کے بعد وہ تاریخ اور فلاسفی کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اول الذکر میں انہوں کمال درجہ کے شہہ پارے مرتب کئے جبکہ موخرا لذکر میںانہوں نے اہم نتائج نکالے ۔ یونانی فلاسفی انسانیت کیلئے ایک گراں قدر سرمایہ ہے ۔یونانیوں سے قبل کسی دیگر تہذیب نے ، خیالات، وقت ، ادارہ ، فضا ، خوبصورتی ، سچ اور دیگر چیزوں کا تجریدی پہلو سے پردہ نہ اٹھا یا تھا ۔ یونان کے یہی طاقتور اور پر اسرار خیالات ،فلاطون ، ارسطو اور Zeno کی صورت میں نمودار ہوئے لیکن چوتھی صدی قبل مسیح کے اختتام پر ارسطو اور اسکے شاگرد سکندر اعظم کے دور میں یونان اپنا عروج اور عظمت کھونے لگا اور روبہ زوال ہونا شروع ہوگیا ۔ سیاسی اہمیت او ر زوال کے اسباب ایک ساتھ چلے ۔ سکندر کی یونانی سلطنت بحیرہ روم سے سندھ تک پھیل گئی ۔ اسکی وفات کے بعد یہ سلطنت کئی بادشاہوں اور حکومتوں میں بٹ گئی ۔ سکندر اعظم کی Darus at Arbela پرفتح کے تین سوسال بعد 31 قبل مسیح میں زوال اس وقت سامنے آیا جب Augustus نے cleopatra کو شکست دی ۔
روم کا غلبہ (حکومت)
ان تین سوسالوں کے دوران آہستہ آہستہ روم کو مستقل غلبہ (حکومت) نصیب ہوا اور دو صدیوں سے کم عرصہ میں انہوں نے Asia , Balkans مصر اور بحیرہ روم پر حکومت قائم کر لی ، حالانکہ 500 قبل مسیح میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روم کی زبان اور تہذیب ،بو دوباش سب یونان کے مر ہون تھے۔ اس کے بعد روم کے ادب، تہذیب ،قانون سازی اوردیگر سیاسی امور نے یونانی نموسے افزائش پائی ۔لاطینی اور یونانی کی دو عام زبانیں تھیں جو بادشاہت کی طرف مائل ہوئیں اور اسطرح یہودیوں کا سیاسی نظام منظم ہوا ۔
یہودیوں کی مدد کاحصہ
یہودیوں کی جدوجہد 200 صدیوں میں Hames, Heros اور سکندر اعظم تک دیکھی جاسکتی ہے۔ جس وقت انکی سلطنت محض ایک شہر یا چند شہروں کا مرکب تھی ، جنگ ناگزیر تھی جو تباہی اور غلامی کا سبب بنی تھی ۔ صدیا ں گزریں ان کا معیار بلند ہوا۔ انہوں نے نوآبادیاتی سلطنت قائم کر لی جو Macedous اور روم تھیں، آخری صدی قبل مسیح یا اس سے کچھ پہلے انہوں نے خاصی ترقی کر لی اور انکی اہمیت مسلم ہوئی ۔ سماجی ناہمواری پرانی دنیا کا بنیادی اصول تھا ، جنگیں غلاموں کی قیمت پر لڑی جاتی تھی ، مغرب اورمشرق کے کچھ حصوں میں یہودی تاجروں نے نمایاں طبقات قائم کئے ۔مادہ پرستی اور بسیار خوری، معاشی خوشحالی کی اہم وجہ تھی۔ مذہبی اور اخلاقی صورت حال دگرگوںتھی ۔تقربیاً تین صدیوں کا عرصہ 312 AD تک روم میں عیسائیت متعارف نہ ہوئی تھی ۔ اس دوران ماحول ،بادشاہت اور حکومت لئے موزوں تھا ۔ سلطنت کا کمزور آئین ان خوبیوں کا حامل نہ تھاکہ جس پر شاندار معاشرتی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔ بادشاہ بادشاہوں کو شکست دیتے ۔تباہی کا عمل جاری رہتا اور ان تبدیلوں سے آخر انسانیت دو چار تھی اورا کتساب کر رہی تھی اس دور میں فوج کا رجحان ناگزیر اور اہم تھا ۔
روم میں عیسائیت
312 AD میں متصادم دھڑوں کا ایک مقابل Coustantine اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لئے عیسائیت کی طرف راغب ہوا اور صلیب کے نیچے پنا ہ لی۔ اس کے عقائد کے بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم اس کا قدم بلاشبہ سیاسی تھا لیکن ان کے رسم و رواج ملحدانہ ہی تھے ۔ تاہم انتظامیہ ، تاجر اور شرفانے عیسائیت قبول کر لی تھی۔ Coustantiue کو ان کی مدد کی ضرورت تھی اور ان لوگوںکی مدد عیسائیت قبول کیے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی تھی آخر عیسائیت مملکت کا سر کاری مذہب بن گیا ۔ لیکن بادشاہ ہی مذہب کا امین اور سربراہ ٹھہرا ۔ عیسائی بننے کیلئے بھاری مسیحیت چکانی پڑتی تھی۔ عوام ابھی تک پرانے رسم و رواج اور عقائد میں جکڑے ہوئے تھے ۔مبلغ ، عبارت گاہیں، رسم و رواج اور قانون اپنی اصل ماہیت میں پرانا ہی تھا۔اسے صرف عیسائیت کانام دیا گیا تھا ۔ صرف شکلی ہیت کی تبدیلی اونچی ہوئی جسے آج بھی ذہین سیاح محسوس کرسکتے ہیں۔
روم کا تنزل
عیسائیت کا قیام روم کی گرتی ہوئی سلطنت کا سہارانہ بن سکا ۔ Coustantine نے خود روم اور یونان کو توڑ کر ایک نیا دار لخلافہ Caustantepole بنایا لیکن سر حد پر Teutons کا بڑا دبائو موجود تھا جسے دیر تک برداشت نہ کیا جا سکا ۔ بتدریج یہ عمل جاری رہا جرمن فوجیں تھک گئی اور انہوں نے Rhine اور Danube کی مقدس لائین میں زمین پر قبضہ کی ضرورت درپیش ہوئی ۔ اسطرح جرمن کی مداخلت سے رومن کا انتشار ہوا ۔375 ء میں جرمنوں کی ہجرت ہوئی اور روم میں جرمن سلطنتوں کا قیام عمل میں آیا اور رومی بادشاہت کا اثر رسوخ دب گیا ۔
جاگیر دار انہ نظام
تقریباً دو صدیاں یورپ انتہائی کرب اور دکھ سے گزرا۔شمال مغرب کی طرف سے Danes اور Scandinavan کی یورش اور یلغار نے تباہی مچائی ، جنوب میں Rhine اور Danubeنے Teutonie نے تہذیب کوبرباد کیا اورCarlouingian سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی ۔ جہاں جاگیر دارانہ نظام نے قوت پکڑی تاہم جاگیر دارانہ نظام نے حالات بحال کئے۔ شمالی اور جنوبی سمندرمیں ڈاکوئوں سے نجات ملی اسی دوران چرچ بھی بہت نشیب و فراز سے گزرا او ر خواہشات کا لبادہ اوڑ ھنا پڑا ۔ جبکہ Frankish تحفظ کے تحت روم نے 20 ستمبر1870 تک اسی جاگیر درانہ حیثیت میں رہا جب تک کر وہاں اٹلی کی حکومت قائم ہوئی جسکے ردعمل میں جاگرداروں کی جماعتیں عمل میں آئیں ۔چرچ کا دائرہ کار وسیع ہوا جاگیر دار انہ فہم چر چ کے جذبے سے سر شار ہوئی مذہب شجاعت ، معیشت اور صلیبی جنگوں کا جحان ہوا۔ متبرک مقامات کی باز یابی کی تدبیریں ہوئیں ۔ صلیبی جنگوں نے Genoua اور Venice کی جمہوریہ کو تجارت کے ذرائع اور راستوں سے آشناکیا۔ مشرق مذہب کی نسبت بادشاہت میں ابھرا معاشی سرگرمی اور بادشاہی اہم پہلو تھے ۔ نئی زبانوں نے جنم لیا اور نشاہ ثانیہ کے حصول کی راہیں کھلیں ۔
نشاۃ ثانیہ
کچھ دورانیہ کیلئے، یارویں اور بارویں صدی میں پاپائیت نے بڑی کو ششیں کیں۔ لاطینی خیالات اپنی بنیاد کھو بیٹھے ۔Daute نے اٹلی کی زبان پیدا کی اور اگلی دو صدیوں کے عمل میں فرانسیسی ، انگریزی اور جرمن ادب اپنی پختہ حالت میں ظاہر ہوا ۔ جس سے صرف لاطینی اصطلاحات کا نقصان ہی نہیں ہوا بلکہ مذہبی فلاسفی کو بھی نئی زبان کے طریقوں سے آہم آہنگ کیا گیا۔ مادری اور ملکی زبان میں مقدس بائبل مرتب ہوئی ۔ ایک بڑے نظریاتی حملے سے پرانی فلاسفی میں نئی روح پھونکنے کیلئے مشرق وسطی کی جامعات سے رجوع کیا گیا اسطرح اسکندریہ کے عقائد کو نئی اور تازہ روح ملی بلاشبہ یورپ نے نئی زندگی محسوس کی ۔ سمندری سفروں کے طفیل ہندوستان اور امریکہ دریافت ہوئے جہاں انہیں بے پناہ سپاہ ، فنکار اور سونے کے بڑے ذخائر ملے۔ دنیا کی نبض تیزی سے دھڑکی Coustanituepale کو ہزاروں سال بعد ترکوں کے ہاتھوں استحکام ملا ۔ یہاں سے فن اور فنکار اٹلی لائے گے اوردنیا جدید یت کی طرف حائل ہوئی ۔ یورپ ایک دفعہ پھر اختلافات میں پڑگیا ۔ عقائد کی اور خیالات کی جنگ چھڑی جو 1684 تک جاری رہی جس کے نتیجہ میں شمالی یورپ Protestant اور جنوبی یورپ Catholic ہوگیا ۔
فرانس اور انگلینڈ
Louis xiv کے آغاز میں فرانس کی حالت دو صدیوں کے دوران یورپ میں بہت بہتر رہی۔ جاگیر دارانہ نظام کادور تیزی سے گزر رہا تھا ۔ آخری بڑی جاگیرداری مذہب کی جنگ میں تھک گئی تھی ۔ شہنشائیت نے وہ سب کچھ حاصل کر لیا جو وہ کھو چکی تھی شان و شوکت کو بحال کیا گیا اور شاہی مصائب کو علاقوں میں نیم خود مختاری دی گئی ۔ Bourbons بڑے حصے پر کامیاب ہوئے وہ فرانس میںمطلق العنان شمار کئے جاتے ہیں اشرافیہ اور پادریوں پر انہوں نے امتیاز حاصل تھا ، اور حکومت کی طرف سے بھی ان پر کوئی باز پر س نہ تھی۔ اس کا مکمل تنزل فرانس کے انقلاب 1789 سے ہوا ۔ ان واقعات کے نتائج آہستہ مگر ضروری تھے ۔ جن سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں۔ پر خوف ماحول میں انتظامی صورت حال دیگر گوں تھی ۔ معیشت کمزور اور خوراک کی قلت کا سامنا تھا ۔تعلیم یافتہ اور متوسط عوام بے چین اور محروم تھے۔ اس محروم جماعت نے کنٹرول حاصل کر لیا اور National Assembly کا قیام عمل میں آیا ۔نے ان کا نعرہ آزادی مساوات اور اخوت تھا ۔ مگر اسمبلی کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اور انصاف کی عدم فراہمی سے ملک جنگ کا شکار ہوا ۔ out Republican قائم ہوئی۔ فوجی حکومت اور شہنشا ئیت پھر بحال ہوگی ۔Napolean Bonapate نے تاریخ میں اہم جگہ لی اور فرانس پندرہ سال تک ان کی مقنطیسی کشش اور گرفت میں رہا۔ ان دنوں یورپ کا کوئی بھی ملک اتنا منظم نہ تھا جتنا کہ فرانس اور اس کا کنٹرول گرم ترین مصر سے لیکر سرد اوس تک تھا ۔بالفاظ دیگر یہ کہا جاتا ہے کہ Bourbons کا دور واپس آگیا تھا انہوںنے تمام یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ رو س نے ان کے ہاتھوں تباہ کن زخم کھایا۔ واحد انگلینڈ ہی تھا جو مضبوط اڑیل اور فتح یاب دشمن مانا گیا ۔ کچھ عرصہ duke willam نے 1066 میں انگلینڈ فتح کر لیا تھا اور وہاں بادشاہت کو فروغ دیا۔ Angle o Norman بادشاہوں نے ہمسایہ ممالک سے جنگوں کا سلسلہ شروع کر دیا جو 1815 تک جاری رہا ۔ پہلے پہلے یہ مرحلہ علاقائی حدود پر قبضہ اور دوم ترجیہات میں معیشت تھی Napolian کی سر براہی میں یہ مہم سمندر پار نو آبادیاتی حکومتوں پر ہوئی
سپین اور ہاوس آف ہیپس برگ
سولویںصدی میںHouse of Tudor کی انگلینڈ کے تحت و اقتدار کی سدا بہار کوشش ۔فرانس کے خلاف نئی براعظمی طاقت کے ظہور سے سخت ہوگی اور اس موقع پر جس نے پرانے دشمن کا ساتھ دیا وہ Spain ہی تھا ۔ 732 سے جو انہیں Franks at tours سے شکست ہوئی، عرب قابض آہستہ آہستہ زمین چھوڑنے لگے۔ اگرچہ کے انہوں نے سپین میں سینکڑوں سال حکومت کی تھی اور ترقی کی راہیں کھولی تھیں۔ فنون لطیفہ کو شاندار کامیابی ملی جبکہ اس وقت عیسائی یورپ گھٹاٹوپ اندھیرے میں تھا مگراب Austurian اورPyrenues پہاڑوں پر جاگیر دارانہ اصولوں کے سائے منڈلانے لگے اور انہیں جگہ ملنی شروع ہوئی ۔ آخر کار پندرویں صدی کے اختتام پر بادشاہت نے آخر ی عرب حکومت کو فتح کر لیا اورجدید سپین متعارف ہوا ۔ ان کی حکومت 1806 قائم رہی جب تک کہ جرمن سلطنت نے ان کے ایام ختم کردیئے۔ طاقت کا یہ ارتقاء 1519-1556 Charles v کے دور میں اصلاحات کے طور پر ابھرا فرانس Cathlic رہا ۔انگلینڈ Pratestant ہوگیا۔یورپ کا توازن Hapsburgs کے غلبہ سے افراط کا شکار ہوا ۔اب فرانس اور سپین انگلینڈ کے خلاف متحد ہوگئے ۔ انگلینڈ میں مذہبی جوش قوت Henery VIII تک ہی بمشکل رہی جو آخر میں Cromwell تک ختم ہوگئی۔ اس کی وجہ Churh کے Auglican کا قیام تھا ۔ نئے انگلینڈ میں فرقہ Protestant کی ترویج مضبوط نو آباد کاروں سے عمل میں آئی ۔
سلطنتِ برطانیہ کا ظہور
مذہب کی جنگوں کے دوران انگلینڈ نے Hapsburg spanish power سے بڑی محنت اور کوشش کی۔ یہGreat Armada کی سمندری کہانیوں کا طویل ڈرامائی سلسلہ ہے ۔اس سمندری دریافت نے وہ کاغذی دیوار پھاڑدی جو Spain نے جنوبی سمندروں کے اردگرد بنانے کی کوشش کی تھی ۔ اب انہیں وسیع سمندر سونے کی چڑیا (انڈیا) چین کے پودے (گندم) تمباکو اور کوفی (Coffee) اور نئی دنیا پر پھیلے ہوئے ممالک ملے۔ سات سالہ جنگ 1756-تا1763 انگلینڈ نے دنیا پر اپنی برتری قائم کر لی ۔ اگرچہ اگلی جنگ میں اسے امریکہ کی نو آبادیاں چھوڑنی پڑیں۔ 1893 میں اسے فرانس کے خلاف یورپی اتحاد میں شامل ہونا پڑا اور اسے دو مختصر وقفوں سے 42 سال کیلئے میدان میں Watirloo تک رہنا پڑا۔ Wallugton اور Bucher نے آخر کار Napelean کو حتمی شکست سے دوچار کیا ۔ان بڑی محنتوں میں فرانس کو دو مسائل درپیش تھے ۔انگلینڈ کا سمندر اور آسٹریاا Russia اور Prussia جو ملڑی کی قوت کے مخزن تھے۔
جدید یورپ
ردعمل کا عرصہ Napolean کی تنزلی کے تعاقب میں رہا ۔لیکن 1848 میں یہ انقلاب سے ہمکنار ہوا آبادی بڑھ گئی۔ مواصلاتی نظام ہے بڑی ترقی کی ذہانت نمودار ہوئی۔ معیشت نے استحکام پکڑا ۔ سیاسی استحقاق ممنوع قرار پائے حکومتیں پرانی طرز کی تھیں ۔ اٹلی اور جرمنی میں جہاں پرانی سلطنتیں 1806 میں تباہ ہوگیں تھیں یہ قومیت کے نئے بیج تھے۔Palermo سے Paris اور پیرس سے Vienna انقلاب کی تباہ کن گاڑی چل بڑی جس سے دوسال تک یورپ مفلوج رہا ۔ فرانس میں نئی Bonaparte سلطنت ابھری جرمنی میں قومیت کا تصور اجاگر ہوا ۔اگر چہ وہ تکمیل کو نہ پہنچا تھا ۔ اسے مزید42 سالوں کی ضرورت تھی اور اسے Napalean 150 iii کی پیچیدہ خواہشات کی بھر پور مدد چاہئے تھی ۔ 1859 میں فرانس نے Austria کو P.O وادی سے باہر نکالنے کیلئے House of Sanoy کی مدد کی ۔اسطرح آزادی کی راہ صاف کی اور اٹلی تمام قوتوں کو Cavour اورCaribald سے پگھلایا ۔ 1866 میں Russia نےHouse of Hapsburg کو جرمن سے نکال باہر کیا اور چار سال بعد پیرس کی دیواروں تک قدم بڑھائے جہاں متحدہ جرمن کے سر براہ نے بطور میزبان William Hohenzallern جرمنی کی نئی سلطنت کے سربراہ کو خوش آمدید کہا۔ اب تک کیا ہوا ۔ خاصی طور پر نو آبادیاتی ملکوں کی طرف گھنٹوں کے بل چل کر جانا پڑا ۔ یا معاشی فرامانروائی کے قیام و استحکام کی طرف چلنا پڑا۔ یہ سب آج کی سیاسی تاریخ سے متعلق ہے اس کی وجوہ چھوٹ دنیا تنگ نظری ہوگی ۔ یہاں قاری چشم دید تماشائی ہے جو ٹھنڈے دل سے فیصلہ کر سکتا ہے۔ وہ بلا تعصب برا بھلا کیے بغیر امتیاز کر سکتا ہے اسی بہتی ندی کے بدلتے رنگوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے لیکن ذہن کو انسانی افعال ، مقاصد اور خیالات کے مطالعہ کیلئے وسیع اور کشادہ رکھنا ہوگا ۔ دل کو تیار رکھنا ہوگا کہ بے شمار امرہائے دلیرانہ کی داد دے جن سے وہ معزر انسانوں اور نسلوں کی صف میں کھڑے ہوئے اور ان کے ساتھ تمام انسانیت بھی ۔