منگل، 22 اگست، 2017

جنوبی ایشیا میں برقعہ کا رواج کیوں بڑھ رہا ہے ؟

کچھ افراد کی رائے میں برقعہ ایک پدرانہ معاشرے میں عورتوں کی کم تر حیثیت کا عکاس ہے لیکن کچھ افراد برقعہ اوڑھنے
کو عورت کا ایک ذاتی فیصلہ ٹہراتے ہیں۔ جنوبی ایشاء میں برقعہ کا رواج کیوں بڑھ رہا ہے
جناح یونیورسٹی اسلام آباد سے منسلک مشتاق غادی کی رائے میں برقعہ ہندو مت اور اسلام دونوں مذاہب میں اہمیت کا حامل ہے اور یہ ایک پدرانہ معاشرے کا عکاس ہے۔ ان کی رائے میں، پدرانہ معاشروں میں عورت کی عزت اس کے لباس اور اس کی جنسیت سے جڑی ہوتی ہے، اسی عزت کو بچانے کی خاطر کئی مرد عورتوں کو اجنبی افراد کو اپنا چہرہ دکھانے کی اجازت نہیں دیتے۔
مشتاق غادی سمجھتے ہیں کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت جیسے ممالک میں خواتین میں اپنا چہرہ ڈھانپ کر رکھنے کا رواج سیاسی اسلام کے بڑھتے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے۔
تاریخ دان مبارک علی کہتے ہیں کہ ،جنوبی ایشیا میں برقعہ پہننے کا رواج سعودی عرب کے بڑھتے اثر ورسوخ کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ مذہبی جماعتوں نے بھی یہ تاثر عام کیا ہے کہ برقعہ اور تقویٰ کا گہرا تعلق ہے۔ مبارک علی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہابیت نے نہ صرف جنوبی ایشیا میں سیاسی نظام بلکہ ایک تکثیری معاشرے کو بھی تباہ کیا ہے۔ ان کی رائے میں،وہابیت کے پیروکار کسی بھی ثقافتی آزادی کے خلاف ہیں اس لیے وہ مزار، موسیقی کے میلوں اور دیگر ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہیں کیوں کہ وہ اس سب کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔
علی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہابیت کا اثر صرف خواتین کے لباس تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے جنوبی ایشیائی باشندوں کے ذہنوں میں گھر کر لیا ہے جس نے اس خطے میں کئی عرب روایات کو جنم دیا ہے۔
مبارک علی کہتے ہیں کہ ،پدارانہ نظام اور مذہب عورت کو مرد سے کم تر یا اس پر حکم چلانے کا پرچار کرتے ہیں، وہ مرد جو سخت نظریات رکھتے ہیں وہ عورتوں کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ انہیں کوئی اور دیکھے۔ بھارت کی روشن خیال اقدار کے باوجود عورتوں پر مردوں کا تسلط اس خطے میں ایک عام بات ہے۔
ماہرین کی رائے میں اعدادو شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں نقاب یا برقعے کا استعمال گزشتہ تین دہائیوں میں خاصہ بڑھ گیا ہے۔
امریکا میں قیام پذیر اسلامی امور کے ماہر عارف جمال کا خیال ہے کہ، ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں خواتین نے مذہبی لباس کے خلاف بغاوت کی تھی اورانہوں نے مغربی لباس پہننا شروع کر دیا تھا، اس دوران کابل میں خواتین منی اسکرٹس بھی پہنتی تھیں تاہم اسی کی دہائی میں وہابیت نے جنوبی ایشیا میں نقاب اور حجاب کا رواج عام کیا۔ عارف جمال کہتے ہیں کہ نقاب سے زیادہ حجاب کام کرنے والی خواتین میں زیادہ مقبول ہوا جو مذہبی اور جدید دونوں طرح سے دکھنا چاہتی تھیں۔
مبارک علی نےمزید کہا کہ، پاکستان جہاں عورتوں کے خلاف جرائم عام ہیں وہاں بہت سی عورتیں برقعہ پہننے سے محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ عارف جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، میری نظر میں برقعہ یا برقینی پہننا عورتوں کا فیصلہ نہیں ہے، ہم اکثر اپنے والدین کا مذہب ہی اپناتے ہیں، اگر ایک عورت اپنا مذہب تبدیل کرے اور پھر برقعہ یا برقینی پہننے کا فیصلہ کرے تو میں کہوں گا کہ اس نے اپنی مرضی سے فیصلہ کیا ہے۔
اوڑھنےبشکریہ : ڈی ڈبلیو

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں