ہفتہ، 23 نومبر، 2013

میرا تخلیقی عمل ۔۔ تحریر اے آر داد



ایک تخلیق کار تخلیقی عمل کے دوران جن کیفیات سے گزرتا ہے،وہ بلاشبہ اس کی تخلیق پر اثرنداز ہوتی ہیں،اس لئے تخلیق کو جانچنے کے لئے تخلیق کار کے تخلیقی عمل سے تعلق کو جاننا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ ہماری خواہش ہو گی کہ اس سلسلے کے تحت ہم بالخصوص بلوچستان کے نامور تخلیق کاروں کے خیالات جان سکیں۔ اے ۔آر۔دادؔ ، بلوچی زبان کے نامور ادیب اور نقاد ہیں۔وہ ان چند ادبا میں شامل ہیں جو معاصر تنقیدی تھیوری پر انتہائی گہری نظر رکھتے ہیں۔ جامعہ بلوچستان کے شعبہ بلوچی سے وابستہ ہیں۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔



میں کیوں لکھتا ہوں یا میرا تخلیقی عمل کیا ہے،اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔ہر کسی نے اپنی دکھ بھری کہانی سنائی ہے کہ یہ ہے میرا تخلیقی عمل یا میں ایسے لکھتا ہوں ۔مجھے یہ اچھا لگتا ہے، مجھے یہ اچھا نہیں لگتا۔لکھتے وقت میرا کوئی نظریہ نہیں تھا یا میں اس لئے لکھتا ہوں کہ اپنا کتھارسس کر سکوں یا پھر بیمار ہو جاؤں۔
اب اگر میں اس سلسلے میں کچھ کہوں بھی تو کیا کہوں۔ میرے لئے تخلیقی عمل سے زیادہ تخلیق کی اہمیت ہے ۔تخلیقی عمل سے یہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ لکھتے وقت لکھاری کی اندرونی کیفیت کیا تھی ۔اس لئے تو آج کل آمد اور آورد کی صورتِ حال مشکوک ہو چکی ہے ۔ تخلیق میں دونوں کیفیتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔لکھت کی اہمیت اب لکھاری سے زیادہ ہو چکی ہے ۔ ’نئی تنقید‘ جو کہ امریکہ کی ادبی سوغات ہے ،آئی اے رچرڈ نے پہلی دفعہ نظم کو اہمیت دی۔ نظم نگار کو صیغہ راز میں رکھا تاکہ تبصرہ کرتے وقت نظم ان کی شخصیت پہ بھاری نہ پڑ جائے ۔ نئی تنقید،تاثراتی تنقید سے متاثرہ چیز تھی ۔اس میں ہمارے ٹی ایس ایلیٹ صاحب بھی شامل تھے جو ادب کو شخصیت سے فرار سمجھتے تھے ۔دیکھنے اور محسوس کرنے والے کے درمیان فرق ہے ۔ادب کوئی سوانح عمری نہیں ہے کہ اس میں ادیب صرف اپنی کہانی لکھتا رہے ۔حالات بدلتے ہیں۔ فکر و خیال میں تبدیلی آئے گی ۔ویسے بھی ادب فکر و خیال سے زیادہ زبان کے تخلیقی عمل سے تعلق رکھتا ہے ۔تو پھر فنکار کی شخصیت کو ہم کہاں رکھیں؟ ویسے بھی ہماری تہذیب میں لباس کی قیمت آدمی سے زیادہ ہے ۔ اس تہذیب میں آرٹ و فن سے زیادہ فنکار، قبیلہ اور خاندان کی بالا دستی چلتی ہے ۔اس جیسی تہذیب میں نئی تنقید اور فن کی آبیاری ایک بڑی تبدیلی ہے۔
اس تبدیلی سے فن کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ اب آپ کہیں ،میں اپنی کہانی کیا بیان کروں جو فن کے لئے بس ایک وسیلہ یا میڈیم کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ بس جو کچھ کہیں سے مل جائے، پڑھ لینا۔ یہ مت سوچنا ،فنکار کا چہرہ کیسا ہو گا۔ کس برانڈ کی سگریٹ پیتا ہو گا۔ ایک زمانے میں لوگ ان باتوں میں دلچسپی ضرور لیتے تھے ۔مگر عرصہ گزر جانے کے بعد پتہ چلا کہ فنکار یکتا پسند تو ہے مگر اس کے فن میں کوئی خاص انفرادیت نہیں ۔ فیض احمد فیضؔ نے لکھا ہے کہ جب میں نے سارتر کو دیکھا تو وہ مجھے کوئی فلاسفر نہیں لگا، وہ سیٹھ یا دکاندار نظر آ رہا تھا۔ تحلیلِ نفسی کے لئے نفسیاتی ادب کو فنکار کے خطوط و ڈائری یا نجی زندگی کے گوشوارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔مگر اس سے فنکار کے بارے میں کچھ ہاتھ لگنے والا نہیں ۔ وہ اس لئے کہ ادب اور نفسیات کے اشارے و علامات کے درمیان بڑا تفاوت ہوتا ہے ۔نفسیات کے اشارات پہلے سے متعین ہیں ،مگر ادب میں ایسا نہیں ہوتا۔
میں نے بس پڑھا۔ پڑھنے کی کوشش کی۔ بڑے لوگوں کو پڑھنے کی کوشش کی تاکہ ان سے کچھ سیکھوں۔ میں اب بھی پڑھتا ہوں۔ یہی ایک کام ہے بس۔روسی، لاطینی، فارسی، عربی پڑھ کر ان پر بولنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پھر یہ بھی سوچتا ہوں کہ ان کی اپنی زبان میں کیا اہمیت ہو گی ۔جب بڑی زبانوں کو پڑھ کر اپنی طرف دیکھنے کی کوشش کرتاہوں توکچھ اچھا نہیں لگتا۔ مطمئن نہیں ہوتا ہوں۔ دل چاہتا تو ہے کہ ہمارے ہاں بھی اس قسم کی چیزیں تخلیق ہوں مگر شاید آنے والی نسل کچھ مزید کرب و شدت سے گزر کر یہ راز پا لے کہ صرف تجربے کو بیان کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ۔ادب ،صحافت سے اس لئے مختلف ہوتا ہے کہ صحافت میں سوچنے اور فکر کرنے کی گنجائش کم نکلتی ہے ۔وہ اس لیے کہ صحافت میں جانب داری شامل ہوتی ہے ۔ادب میں مصنف خود کسی چیز سے محبت اور نفرت نہیں کر سکتا۔ اس لئے ادب ہمیشہ پڑھنے والوں کے لئے ہوتا ہے ۔میں لکھنے سے زیادہ پڑھنے کو اہمیت دیتا ہوں ۔میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تو رضیہ بٹ اور سلمیٰ کنول کو بھی پڑھتا تھا ۔ساحر ؔ اور ساغرؔ صدیقی بھی اچھے لگتے تھے ۔مگر اب میں کسی کو بھی یہ بری نصیحت نہیں کرتا کہ انہیں پڑھیں۔اب تو میں کسی بھی دوست کو یہی کہوں گا کہ اگر اردو فکشن پڑھنا ہے تو انتظار حسین کو پڑھیں۔ ان سے اساطیر اور استعارات کو برتنے کا فن سیکھیں ۔ انور سجاد سے یہ سیکھیں کہ موسیقی اور کہانی کے درمیان نازک فرق کیا ہے۔ لفظوں سے آہنگ اور موسیقی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔ سریندر پرکاش اور بلراج مین را کو پڑھیں تب آپ کو پتہ لگے گا کہ اچھا لکھنے کے لئے کتنی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔
بڑ ے لکھاریوں کی یہی بڑی خصوصیت ہوتی ہے کہ ان کو پڑھنے کے بعد لگتا ہے کہ اچھا لکھنا محنت طلب کام ہے ۔ ورنہ مڈ ویک، عام میگزین اور پرچوں کے لکھاریوں سے متاثر ہونا اور ان کا مقابلہ کرنا کہ میں بھی ایسا لکھ سکتا ہوں ،مشکل کام نہیں ہے۔اس لئے ہمارے ہاں بُرے لکھاریوں کی تعداد زیادہ ہے کہ وہ اپنے سے کم تر لوگوں کو پڑھ کر لکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔بلوچی میں میری ایک دو کتابیں ضرور آ چکی ہیں مگر میں ان سے خوش نہیں ہوں اور نہ خوش ہونا چاہتا ہوں ۔ ایک کام جسے کرنے کی آرزو ہے وہ یہ کہ بلوچی قدیم شاعری کی شعریات کو مرتب کروں۔ یہ دیکھوں کہ ہمارے یہاں شاعری میں مضمون کی اہمیت زیادہ تھی یا استعارے کی، یاہمارے ادبی معاشرے میں شعر کی قدر ومنزلت کا تعین کرنے کے لئے کون سی چیزیں ضروری تھیں۔ میں ادب کی ’ادبیت‘ کو پسند کرتا ہوں ۔ مجھے نئی تنقید اور روسی فارملزم والوں کی باتیں اچھی لگتی ہیں ۔ اس لئے میں ژاک دریدا کی ردِ تشکیل کو بھی پسند کرتا ہوں ۔ جہاں معنی آفرینی ہوگی،وہاں فن ہوگا،ادبیت ہو گی۔ وہ تخلیق ہمیشہ زندہ رہے گی۔ میں روز نیا اور اچھا پڑھنے کی حسرت لئے نکلتا ہوں ۔مجھے تخلیق کار کی انفرادیت سے ان کی فنی انفرادیت زیادہ
پسند ہے۔
ادب نہ تاریخ ہے ، نہ نظریہ ،نہ پروپیگنڈا و تبلیغ۔ یہ وقتی چیزیں ہیں ۔ ان میں ادب کو زندہ رکھنے کی آب و تاب نہیں ہوتی ۔ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو تخلیقی سطح پر بانجھ ہوتے ہیں ۔کسی نظریے کا سہارا لے کر ٹائم پاسی کا نعرہ مستانہ بلند کرتے نظرآتے ہیں۔بوڑھے لوگ فائدے کا زیادہ سوچتے ہیں۔
میرا تخلیقی عمل کچھ اس طرح کا ہے ۔اسی سے مجھے تحریک ملتی ہے ۔انہی سے میں اپنی کہانیاں بُنتا ہوں اور نظمیں لکھتا ہوں۔ میں جب اپنے شہر میں ہوتا تھا تو اپنے بیٹے،جو اس وقت دس سال کا ہو گا، کو لے کر والدین کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے جاتا تھا۔ایک روز ہم فاتحہ پڑھ کر کسی تنگ گلی سے واپس گھر کی طرف لوٹ رہے تھے ۔ہمارے درمیان خاموشی تھی ۔میرے بیٹے نے کہا؛ ’’ابو ،جب آپ مر جائیں گے تو میں فاتحہ پڑھنے قبرستان آیا کروں گا۔‘‘
اس بات کو دو سال گزر جانے کے بعد بھی میں اپنے اندر محسوس کرتا رہتا ہوں ۔مجھے یوں لگتا ہے کہ آج ہم کسی تنگ گلی سے ہو کر گھر کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں اور خوشحال (میرا بیٹا)کہہ رہا ہے؛’’ابو،جب آپ مر جائیں گے میں فاتحہ پڑھنے آیا کروں گا۔‘‘
یہی چیز مجھے کہانی اور نظم لکھنے پر اکساتی ہے ۔ میں انہی باتوں ،مناظر،چہروں، کھڑکیوں حتیٰ کہ خاموشی میں ذرا سی آہٹ سے متاثرہو کر لکھتا ہوں ۔میں کبھی بھی بڑے حادثے سے متاثر نہیں ہوا۔اگر ہوا بھی تو اس حادثے کی بجاے ایک ایسے مختصرواقعے سے جس کی لوگوں کی نگاہوں میں کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔
مجھے جنگ کی روداد سے زیادہ ایک سپاہی کا اپنے آپ سے محوِ گفتگو ہونا یا خود کلامی کرنا اچھا لگتا ہے۔ یہ بات میں نے جیمس جوائس سے سیکھی تھی کہ ادب لکھنے کے لئے بڑے واقعے کی ضرورت نہیں ہوتی،بلکہ بڑا فنکار وہ ہے جو ادنیٰ سے واقعے میں سے بڑی بات نکال لے۔ پرانے مضمون میں سے نئی بات نکالنا ایک مشکل کام ہے۔ یہی مضمون آفرینی ہے ۔ یہی بین المتنیت ہے۔

جمعہ، 8 نومبر، 2013

آہ ! سنگت بالاچ مری..... تحریر: اسلم بلوچ



خوبصورت آنکھیں کسی بھی چیز پر جماکر ذہن میں گہرائی سے کسی کے متعلق مشاہدہ کرنے والی ادا کا مالک، لاشعور کے خوبصورت تصورات سے نکل کر تلخ حقائق کا سامنا بڑے صبر اور دلیری سے کرنے والا سنگت بالاچ مری بدقسمتی سے آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ زندگی اور موت کا فطری واسطہ کسی بھی طاقتور یا کمزور کی خواہشات کے مطابق تکمیل پذیر نہیں ہوتا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جن میں کچھ حادثاتی، کچھ طبعی اور کچھ سوچ و فکر کے برعکس۔تضادات اور حق اور باطل کے بیچ پیدا ہونے والے حالات میں اپنے لیے آپ تعین کرنے سے متعلق رکھتے ہیں یہاں منتخب راہ پر انجام کا یقین پختہ ہوتا ہے۔ مجھے اور میرے جیسے لاکھوں بلوچ فرزندوں کو شہید سنگت بالاچ مری پر فخر ہے کہ اس نے جس راستے کا انتخاب پورے ہوش و حواس سے کیا وہی حقیقی بلوچ نجات کا ذریعہ ہے۔ویسے تو مختصر ملاقاتیں مختلف اوقات میں 1997ء سے 1999ء تک شہید سنگت بالاچ مری سے ہوچکی تھیں، جسٹس نواز قتل کیس کے بعد جلاوطنی میں ایک دو مرتبہ فون پر صرف حال احوال ہوا۔ساتھیوں کے مشورے سے جب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور پھر کوہستان مری کے ہیڈ کوارٹر کاہان تشریف لائے۔ مجھے یاد ہے کہ میں ان دنوں کسی کے سلسلے میں کرموڑھ، تراتانی سے ہوتے ہوئے سیاہ گری پہنچا تو پتہ چلاکہ شہید سنگت بالاچ مری کاہان میں موجود ہیں۔ ساتھیوں سے ملاقات کی اجازت لے کر میں چند ساتھیوں سمیت کاہان پہنچا۔ رات کو کھانا کھانے کے بعد تفصیل سے بات چیت ہوئی تب میں نے پایا کہ شہید سنگت بالاچ مری ایک پختہ ارادے اور عزم کے ساتھ قومی کاروان میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ طاقتور قبضہ گیر دشمن کے مقابلے میں کمزور اور بے پناہ فوجی اور دنیا کے نقشے پر تسلیم شدہ غیر فطری ریاست کے مقابلے میں ایک گروہ کی حیثیت سے اور ایک طرف مکمل تربیت یافتہ، تعداد میں کم ساتھیوں کے ساتھ اس جذبے کے ساتھ میدان میں اُتراکہ ہم بدل سکتے ہیں۔ہم ضرور بدلیں گے اور ہم نے ہی بدلنا ہے، چاہے ہماری جان جائے، گھر،بچے، خاندان، عیش و آرام سب کچھ قربان کرکے اگر ہم کامیاب نہ ہوئے تو بھی مجھے پرواہ نہیں کیونکہ ہم اپنے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے وہ راہ نجات واضح کرکے جارہے ہیں اور تاریخ میں اپنے فرض کی بابت کسی بھی خوف و لالچ میں آئے بغیر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے شہداء اور اکابرین کے نقش قدم پر چل کر سرخروہوں گے۔یہ جذبہ و الفاظ تھے شہید سنگت بالاچ مری کے اس تمام عرصے میں وہ عسکری محاذ پر برسرپیکار ساتھیوں کے ساتھ رہے اور بہت سے موا قع پر ساتھیوں کی بہترین رہنمائی کی۔ شہید سنگت بالاچ مری کے عسکری محاذ پر موجودگی نے تنظیمی ساتھیوں کو اور زیادہ حوصلہ دیا۔ شہید سنگت بالاچ مری کے ساتھ اکثر و بیشتر ملاقات کا سلسلہ چلتا رہا ہم جب بھی کسی تنظیمی کام کے سلسلے میں سیاہ گری یا کرمووڑھ جاتے تو سنگت بالاچ مری سے نشست ضرور ہوتی جس میں سب سے زیادہ جو مسئلے زیر بحث آتے ان میں سیاسی محاذ پر قابض علی بابا اور چالیس ٹھگوں کا ذکر ضرور ہوتا جو نہ تجربہ، نہ دلیل اور بغیر منطق کے بلوچ کی قومی کمزوری اور تعلیم کو جواز بناکر قابض کی قبضہ گیری کو جائز قرار دیتے ہوئے شرم بھی محسوس نہیں کرتے اور جو بلوچ کی قومی حیثیت اور جغرافیائی قومی وحدت کو قبضہ گیر اور صوبہ میں ضم مراعات اور رائلٹی کا ناروا مطالبہ کرکے اپنے لیے پس پردہ مراعات حاصل کرتے ہوئے ذرابرابر بھی خوف و عار محسوس نہیں کرتے۔ کوہستان مری اور ڈیرہ بگٹی میں فوجی حملے کے وقت میں بولان کے محاذ پر تھا، شہید سنگت بالاچ مری سے ہمارا رابطہ رہتا تھا۔بدقسمتی سے فوج کشی کے بعد ہماری روبرو ملاقات نہیں ہوئی، قابض دشمن کی طرف سے تین ریڈ ٹارگٹ: شہید نواب اکبر خان بگٹی، شہید بالاچ مری اور اللہ سلامت رکھے نوابزادہ براہمدغ بنائے جانے کے بعد دشمن کی توجہ کی مرکز ڈیرہ بگٹی اور بھمبورسمیت مری علاقہ رہا ۔ اس تمام محاصرے اور حملے میں شہید سنگت بالاچ مری اور ساتھی اپنی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے علاقے میں موجود رہے، شہید نواب اکبر خان بگٹی کا سانحہ بھی گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کی مثل رہا۔ اس ساری جنگ میں دشمن کی کامیابی اور رسائی نواب شہید کی قابلیت اور ہنر‘ اس حد تک رہا کہ وہ ہمارے اندر موجود جعفر و صادق تک پہنچ سکا ورنہ تو یہ خواہش بھی ایک خواب رہ جاتا۔اس تمام عرصے میں شہید سنگت بالاچ مری اور نوابزادہ براہمدغ بگٹی جنگی حکمت عملی کے تحت بلوچ سرزمین کے علاقے بدلتے رہتے اور ساتھیوں کی قیادت کرتے رہتے اور کبھی ایک لمحے کے لئے بلوچوں کی نا اتفاقی، تعلیم سے دوری،کمزوری،کم تعداد ،سیاسی اور عسکری محاز کو جواز بنا کر اپنی ذ مہ داریوں سے رو گردانی نہیں کی،ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ اس جنگ کو جاری رکھ کر ہی ہم اپنی تمام قومی خامیوں اور کمزوریوں پر قابو پاہیں گے اور جنگ ہی ہمارا کھرا اور کھوٹا الگ الگ کرے گا۔

میرا آخری رابطہ شہید سنگت بالاچ مری کی شہادت سے شاید دو گھنٹے پہلے ہوا،وہ آواز جو ، اب شاید میں زندگی بھرنہ سن سکوں وہ مہربان دوست ،جو ہم سے جدا ہوا کو ہم میں سے ہر ایک نے شدت سے محسوس کیا اور ہمارے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے کہ یہ وقت تو جانے کانہیں تھا۔خیروہ قومی فکر جو تیمور، مغل، عرب، انگریز قبضہ گیروں اور حملہ آوروں کے خلاف بلوچ فرزندوں نے اپناکر سرزمین اور قوم کی پاسبانی کی ، جنہوں نے غلامی کی زندگی سے شہادت کو ترجیح دی اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بن گئے خوش قسمتی سے شہید سنگت بالاچ مری بھی اسی فکر کا پاسدار رہا جس نے اپنا سب کچھ قوم و وطن کی بابت فرائض کی ادائیگی پر قربان کرکے یہ ثابت کردیا کہ وطن کے مخلص سپوت کے لیے جدوجہد اور اس بابت موت ہی کامیابی ہے اور ناکامی اور تذلیل ہیں فرائض سے روگردانی، قربانی سے کترانا ، مصلحت پسندی اور بزدلی۔نوجوانوں، شہید نواب اکبر اور شہید سنگت بالاچ مری کی شہادت نے ہم سب کے لیے ایک واضح پیغام چھوڑا ہے کہ ذاتی اور انفرادی فکر چھوڑدو، اپنا وقومی فکر اور کسی بھی قربانی کے لیے تیار ہوجاؤ،تاکہ حاصل کرسکو اپنی آزادی جو تمہارا اور ہمارا سب کا فطری حق ہے۔
************************
(نوٹ۔۔ یہ کالم جنوری2008کو  شائع ہوچکا ہے۔)

منگل، 5 نومبر، 2013

تنقید کا استعمال اور قرآن کریم و حدیث نبوی


نوٹ۔۔۔۔ یہ تحریر کس کی مجھے نہیں معلوم ۔۔۔
 مجھے ایک دوست نے فیس بک پہ یہ بھیج دیا تھا ۔۔۔
بغیر حوالہ دیئے ۔۔۔۔
.....................................................
مفيد تنقيد کا اصول

سوال: تنقید کے مفید یا غیر مفید ہونے کا تعلق کن امور سے ہے ، کیونکہ تعمیری تنقید تقریباً ہر مسئلےمیں سب سے اچھی اور افضل بات تک پہنچنے کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی ہے؟ وہ کون سے اخلاق ہیں جن کا تنقید کرنے والے یا تنقید کا نشانہ بننے والے کو خیال رکھنا چاہئے؟
جواب : تنقید کے معانی میں سے ایک معنی یہ ہے کہ کسی بھی لفظ ، فعل یا برتاؤ کو پرکھ کر اس کے مثبت ومنفی پہلؤوں کو آشکارا اور جو چیز موجود ہے اور جو ہونی چاہئے، ان میں موازنہ کیا جائے۔ تنقید ان اہم علمی اصولوں میں سے ایک ہے جو کسی بھی شے میں مثالی کے درجے تک پہنچنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس رخ سے اس کا استعمال سلف صالحین کے زمانے سے ہو رہا ہے۔مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایات کی صحت تک رسائی کے لئے ان کی سند اور متن پر تنقید کی گئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تنقید کا استعمال صرف حدیث نبوی کے میدان میں ہی نہیں ہوا بلکہ یہ عصر اول سے ہی قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث کی شرح جیسے بہت سےمیدانوں میں حقیقت کے اظہار کے لئے ایک اہم نظام بن گئی تھی، اور اسی علمی نظام کے تحت ان اجنبی افکار کا مقابلہ ممکن ہوسکا جن کو اسلام میں ملانے کا ارادہ کیا گیا۔ اسی طرح افکار میں تصادم کی صورت حال میں مختلف تفسیروں اور اجتہادات کی صحت اور سقم کو پرکھا گیا اور علم مناظرہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان پر بحث ہوئی۔ چنانچہ ان افکارکو تنقید اور مراجعت کی بھٹی سے گزارا گیا اور اس طرح حق کی کرن ظاہر ہوئی۔
اس طرح خصوصی طور پر سند حدیث پر تنقید کے بارے میں ایک عظیم میراث وجود میں آئی اوررواۃحدیث پر جرح وتعدیل اور تنقید کے رخ سے کئی جلدوں پر مشتمل کتابیں لکھی گئیں اور یوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایات کی صحت کو معلوم کر لیا گیا۔ اس کے باوجود علماء کرام انتہائی درجے تک اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ تنقید کے مطلوبہ ہدف سے ہٹ کر کوئی بھی لفظ ان کی زبان سے نہ نکل جائے اگرچہ وہ تنقید کے اہم موضوع کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اس باب میں انہوں نے نہایت حساسیت اور باریک بینی کا مظاہرہ کیا ۔ مثلاً حضرت شعبہ بن الحجاج(جو علم علم جرح وتعدیل کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک ہیں) کو یہ کہتے دیکھتے ہیں:”چلو اللہ کی خاطر غیبت کریں!‘‘ اس سے ان کی مراد شیوخ حدیث کے بارے میں بات ہے۔ (الذہبی، سیر اعلام النبلاء: 6/616) ان الفاظ سے آپ اس کام یعنی رواۃ حدیث پر تنقید کی ضرورت اور اس کے ساتھ ہی اس بات کی ضرورت کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ کام صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے ہونا چاہئے۔
جی ہاں، ہمارے اس عالم میں تنقید کو زیادہ اچھی بات تک پہنچنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے خواہ وہ دینی میدان میں ہو یا تطبیقی علوم کے بارے میں خصوصاً پہلی پانچ ہجری صدیوں میں ۔ اس کے نتیجے میں موجودہ حالات میں بھی اس علمی نظرئے کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ تنقید کے موضوع پر بے انصافی نہ کی جائے اور پاس ادب رکھا جائے اور مسئلے کو پورے اہتمام اور حساسیت کے ساتھ لیا جائے۔ اس بارے میں کچھ ایسے نظریات موجود ہیں جن کو ہم تنقید کے آداب یا اصول کہہ سکتے ہیں۔ ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بہت سے تالے انصاف اور نرم اسلوب کے ذریعے کھولے جا سکتے ہیں:
تنقید کا اسلوب سنجیدہ اور اسے پیش کرتے وقت انسانی کلام کے سب سے اچھے اسلوب کا انتہائی درجے تک خیال رکھنا ضروری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تنقید ایسے طریقے سے ہو کہ سامنے والا اسے خوشدلی سے قبول کر لے اور اس کی وجہ سےمخاطب کسی رد عمل پر نہ اتر آئے۔ اس لئے اگر آپ اپنی معقول اور منطقی آراءاور خاص مشکلات سے تعلق رکھنے والے متبادل افکار کو انسانی اسلوب میں نرمی اور انصاف سے پیش کریں تو تمہیں دوسروں کی جانب سے احترام ملے گا اور آپ کے افکار کو شرف قبولیت۔ مثال کے طور پر آپ کسی موضوع سے متعلق اپنی رائے کی وضاحت کرتے ہیں مگر آپ کا مخاطب اس کے بالکل بر عکس سوچتا ہے تو اگر آپ اس کو یوں مخاطب کریں کہ: ’’جناب میں اس مسئلے کو یوں سمجھتا ہوں لیکن جب میں نےآپ کے الفاظ پر غور کیاتومجھے اس کا ایک اور مختلف پہلو نظر آیا‘‘ تو ہو سکتاہے کہ کچھ وقت کے بعد وہ شخص دوبارہ آ کر آپ سے کہنے لگے کہ: ’’مجھے معلوم ہو گیا کہ جس مسئلے کے بارے میں ہم نے پہلے بات کی تھی وہ اسی طرح تھا جس طرح آپ نے کہا‘‘۔ اس وقت آپ کو یہ جواب دینا چاہئے کہ :’’میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کس قدر انصاف پسند ہیں!‘‘ اس رخ سے انسان کو چاہئے کہ وہ بعض اوقات اپنے خاص تجربات، علمی معلومات اور انانیت کو اس وقت ہیچ سمجھے جب حقیقت کے احترام اور اس کے دل میں اترنے کا تقاضا ہو اور اس پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ حق کا پرچم بلند کرے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر معقول بات کو معقول انداز میں قبول کرانا مقصود ہو تو پھر دوسروں کے افکار کو بھی معقول انداز سے پرکھنا چاہئے(خواہ وہ غیر معقول ہی کیوں نہ ہوں) اور ہمیشہ کھلے دل سے ان کا سامنا کرنا اور سچائی اور اخلاص کا ایسا ماحول تشکیل دینا چاہئے جس سے وہ حق اور حقیقت کو قبول کر سکیں۔
عمومی بات اور پردہ پوشی کا اہتمام:
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو شخص دوسروں کی آراء کااحترام نہیں کرتا (خواہ وہ کسی بھی میدان میں ہو) اوران کو ہمیشہ کھوٹے سکوں کی طرح نظر انداز کر دیتا ہے اور ان کو فضول سمجھتا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ (غیر محسوس طور پر) ایسی بہت سی ”قیمتی “چیزوں سے محروم ہو جائے جو اس کو فائدہ دے سکتی تھیں۔ اس رخ سے یہ بات لازم ٹھہری ہے کہ تمام افکار کو ایک خاص حد کے اندر احترام کے ساتھ دیکھنا چاہئے اگرچہ وہ کھوٹے سکے یا پیتل، یا لوہا یا تانباہی کیوں نہ ہوں۔اگر ہم اس طریقے پر چلیں گے تو ہم اپنےمخاطبین کو حقائق پر قائل کرنے کا بہترین درست طریقہ پالیں گے، ورنہ وہ الفاظ جو تکلیف دہ شکل میں ذکر کئے جاتے ہیں گویا دوسروں کے سروں پر برسنے والے ہتھوڑے ہیں وہ حسن قبول کی مستحق نہیں ہوں گے خواہ وہ کیسے ہی خوبصورت افکار یا منصوبے کیوں نہ ہوں بلکہ اگر تنقید کے اسلوب پر غور نہ کیاجائے تو اس کے رد عمل سے بچنے کا بھی کوئی طریقہ نہیں، یہاں تک کہ اگر کسی شرعی مسئلے میں کوئی غلطی ہو تو اسے بھی شرعی دلائل کے ذریعے معین کیا جائے گا۔ مثلا اگرآپ اپنے کسی دوست کو دیکھتے ہیں کہ وہ حرام کو دیکھ رہا ہے تو اگر آپ اس سے ایسے اسلوب سے پیش آئیں جس سے وہ پردہ ختم ہوجائے جو تمہارے درمیان ہے اور اس سے یوں کہیں کہ ”تم یوں یوں کر رہے ہو۔ اپنی آنکھ کو تھوڑا نیچے کرو ۔حرام کے قریب نہ جاؤ۔“ تو ہو سکتا ہے کہ آپ کی یہ تنقید (اللہ تعالی محفوظ رکھے) اسے شیطان کا وکیل بنا سکتی ہے، خاسوقت جب مخاطب اپنے تصرفات اور برتاؤ پر آپ کی تنقید کے لئے تیار ہو نہ تنقید کو اچھا سمجھتا ہو اور نہ اس کو قبول کرتا ہو تو ایسی میں آپ کی ہر تنقید اس کے رد عمل کا سبب بنے گی اور اس کے اندر حق کا احترام نہ کرنے کاجذبہ پیدا ہوگا اور یہ تنقید اسے ہمارے ذاتی اقدار کا دشمن بنا دے گی، یہاں تک کہ اگر وہ اس بات کا یقین بھی کرلے کہ جو کچھ کہا جا رہاہے وہ حق ہےتو وہی اس کے ذہن میں بہت سے ایسے فلسفے ہو سکتے ہیں جو حق کو باطل بنا کر دکھائیں اور یہ سب کچھ ان روحانی ضربوں کی وجہ سے ہوگا جو اس  کی سر پر پڑی ہیں بلکہ (جب وہ رات کو اپنے بستر پر دراز ہوگا یا وہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا جواب سوچے گا۔
اس وجہ سے ضروری ہے کہ کسی بات کو تنقید کے ذریعے حل کرنے کے لئے بالواسطہ خطاب کو ترجیح دی جائے کیونکہ نبی کریم ﷺ جب کسی شخص کی کوئی غلطی یا کوتاہی ملاحظہ فرماتے تھے تو براہ راست اسے مخاطب نہیں فرماتے تھے بکلہ لوگوں کو جمع فرما کر سب سے مخاطب ہوتے، اس طرح غلطی کرنے والے کو اس خطاب سے عبرت اور نصحیت حاصل کرنے کا موقع مل جاتا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار نبی کریمﷺ نے ایک شخص کو زکاة جمع کرنے پر ما مور کیا جب وہ واپس آیا تو کہنے لگا: یہ آپ کا ہے اور یہ مجھے تحفہ ملا ہے"۔ چنانچہ یہ سن کر آپ علیہ السلام منبر پر کھڑے ہوئے ، اللہ تعالی کی حمد وثناء کی اور اس کے بعد فرمایا: "مَا بَالُ العَامِلِ نَبْعَثُهُ فَيَأْتِي يَقُولُ: هَذَا لَكَ وَهَذَا لِي، فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ، فَيَنْظُرُ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لَا" ( اس عامل کو کیا ہوا ہے جس کو ہم بھیجتے ہیں اور وہ واپس آکر کہتا ہے کہ یہ آپ کا ہے اور یہ میرا ہے (اگر ایسا ہے ) تو وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا تاکہ وہ دیکھتا کہ اس کو تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ (البخاری،الاحکام : 24، مسلم، الامارة: 26)
اب ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ تنقید اور رہنمائی کون کرے گا۔اگر ہمیں کسی شخص پر تنقید کرنے کی ضرورت پیش آجائے، تو کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ یہ کام خود کرنے پر اصرار کرے بلکہ اس کام کو کسی ایسے آدمی کے لئے چھوڑ دے جس کو مخاطب پسند کرتا ہے، کیونکہ محبوب کی تنقید کو بھی مدارات اور تعریف سمجھا جاتا ہے۔
جی ہاں، اگر آپ دیکھیں کہ آپ کے کلام سے مخاطب کے ذہن میں نفرت پیدا ہوگی تو اس بات کو چھوڑ دیں اور کسی اورکو بات کرنے کا موقع دیں کیونکہ حقیقت کو بیان کرنے والا اہم نہیں بلکہ اہم بات یہ ہےکہ اس حقیقت کو دل قبول کریں۔
یہ بات خالی از فائدہ نہ ہوگی کہ میں آپ کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین کا ایک واقعہ بیان کروں۔ اگرچہ یہ واقعہ صحیح احادیث کی کتابوں میں مذکور نہیں مگر اس کے باوجود عبرت اور نصیحت سے بھر پور اسباق پر مشتمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ دونوں کا گزر ایک بوڑھے شخص پر ہوا، جو وضو کر رہا تھا مگر اس نے اچھی طرح وضو نہ کیا تو نادر فطرت وفراست کے مالک ان دونوں حضرات نے اس شخص کو نصیحت کرنے اور وضو کا طریقہ سکھانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ دونوں اس کے پاس کھڑے ہوکر کہنے لگے: "چچا جان، ذرا دیکھیئے ہم دونوں میں سے کون اچھی طرح وضو کرتا ہے"۔ اس کی بعد دونوں نے اس طرح وضو کیا جس طرح اپنے نانا سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو وضو کرتے دیکھا تھا۔ اس طرح وہ شخص کسی اعتراض کا نشانہ بنا اور نہ صریح تنقید کااور نہ براہ راست اس کی غلطی کی جانب اشارہ ہوا۔ وہ ضمیر کے اطمینان کے ساتھ کہنے لگا : "آپ دونوں نے اچھی طرح وضو کیا جبکہ میں اچھی طرح نہ کر سکا"۔
اس لئے میں دوبارہ اس جانب توجہ دلاؤں گا کہ کسی بھی مسئلے کے بارے میں تنقید ایسے مناسب اسلوب کے بغیر قابل قبول نہیں ہو سکتی جس کا مقصد غلطی کی تصحیح اور درست بات کا اظہار ہو اور اسے اچھے انداز اور تیاری کے ساتھ پیش کیا جائے۔
مخاطب کی ایسی تربیت کہ وہ تنقید برداشت کرسکے
اس مسئلے کا ایک اور رخ یہ بھی ہے کہ مخاطبین کو اس درجے تک پہنچا دیا جائے جہاں وہ تنقید کو قبول کرسکیں اور ان میں حق کےاحترام کا شعور بیدار کیا جائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس مرتبے تک پہنچے ہوئے تھے۔ اس لئے ایک دوسرے کی غلطیوں کا مقابلہ بڑی خوشنودی اور مکمل سکون سے کرتے تھے اور اس بات سے کبھی ان میں کوئی اختلاف نہ پیدا ہوتا تھا۔ ایک روز حضرت عمر منبر پر تشریف فرما ہوئے او ربعض ایسے طریقوں کے متعلق بات کی جن کا مقصد شادی میں آسانیاں پیدا کرنا تھا اور اس جانب اشارہ فرمایا کہ مہر اتنا ہونا چاہئے جتنا سب کے لئے قابل برداشت ہواور مہر زیادہ رکھنے سے باز رہنے کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ یقینا یہ بات استحصال سے محفوظ رکھنے کے لئے کسی حد تک ایک اچھا حل تھا، ایسے ہی اس مسئلے کا احساس اور اس میں آسانی کرنے سے اس دور کی ایک بہت بڑی معاشرتی مشکل حل ہوسکتی ہے۔
مگر ان الفاظ کے مقابلے میں خواتین کے چبوترے سے ایک عورت کھڑی ہوئی اور بولی:امیر المؤمنین، یہ بات آپ کے ہاتھ میں نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلاَ تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا﴾ (النساء : 20) (اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو۔ اور پہلی عورت کو بہت سال مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لے لوگے؟)
اس وقت حضرت عمر ایک ایسی سلطنت کا انتظام چلا رہے تھے جو ترکی سے بیس گنا بڑی تھی اور انہوں نےہی اس زمانے میں دو عظیم قوتوں کو جھکایا او ران کو اپنی اطاعت اور قلمرو میں شامل ہونے پر مجبور کیا تھا، مگر اس سب کے باوجود یہ الفاظ سن کر فورا رک گئے اور آپ کے لبوں سے یہ الفاظ نکلے: "اے اللہ تو معاف کردے! عمر تم سے تو سارے لوگ زیادہ سمجھ رکھتے ہیں"۔ (تفسیر ابن کثیر در تفسیر آیت بالا)حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس انتہائی حساسیت کی وجہ سے آپ کو "وقاف عند کتاب اللہ"( اللہ کی کتاب کے سامنے بہت زیادہ کھڑا رہنے والا کے) لقب سے پکارا جاتا تھا۔ (ابن الاثیر، اسد الغابۃ : 4/318)اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ جب چاہتے اور جہاں چاہتے اپنے جذبات پر قابو پا سکتے تھے۔
اسی طرح ضروری ہے کہ سب کے پاس یہ احساس اور شعور ہو یہاں تک کہ ہم کسی سے بھائی چارہ قائم کرسکیں اس سے مناسبت پیدا ہوجائے اور اسے یہ صلاحیت دے دیں کہ وہ بڑی سہولت کے ساتھ ہم میں اور ہمارے برتاؤ میں نظر آنے والے ہر قصور پر تنقید کرسکے یہاں تک ہم خود اپنے اوپر ہونے والی ہر تنقید کو قبول کرسکیں۔
آخر میں جو شخص کسی مسئلے پر تنقید کرنا چاہئے(جبکہ زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ کسی مسئلے کی تصحیح کرنا چاہے) تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ ان مسائل پر غور کرے اور ان کے بارے میں درست بات کرنے کی پوری کوشش کرے اور دوسرے نمبر پر جب اس مسئلے پر تنقید یا اس کی تحلیل کرنا چاہے تو فریق دوم کی حساسیت کاخیال رکھے اور ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھے کہ مخاطب کس حد تک اس تنقید کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہے۔ پس اگر اس بات کی توقع ہو کہ اس کے کلام پر مخاطب کسی ردفعل کا اظہار کرے گا تو اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ بذات خود اس حقیقت کے اظہار پر اصرار کرے بلکہ یہ کام اس شخص کے لئے چھوڑ دے جس کا دلوں پر زیادہ اثر ہو سکتا ہے۔
ہمارے اس زمانے میں ان خصوصیات کا خیال رکھنے کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ انانیت حد سے بڑھ گئی ہے اور دل تنقید کو برداشت کرنےکے قابل نہیں رہے۔
دوسری جانب تنقید سننے والے پرلازم ہے کہ وہ کسی بھی شے سے زیادہ حق کی شان کو بلند کرے اور تنقید پر اعتراض کی بجائے شکریہ ادا کرے جیسے کہ حضرت بدیع الزمان فرماتے ہیں: ”ہم ایسے شخص کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہماری کوتاہیوں کو دیکھے اور ہمیں دکھائے (بشرطیکہ وہ حقیقت ہوں) اور اس سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے ، ہم اس کا اسی طرح شکریہ ادا کرتے ہیں جیسے اس شخص کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہماری گردن سے چمٹے بچھو کو ہمیں تکلیف دینے سے قبل دور کر دے اور اس سے رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے ہی ہم اس کے شکر گزار اور ممنون رہتے ہیں جو ہماری کوتاہی اور تقصیرات ہمیں دکھائے"۔ (بدیع الزمان سعید نورسی، الملا حق:251) یہ پختگی اور کمال ہے۔