بدھ، 29 جون، 2016

دشمن کی پہچان تحریر : بشیر زیب بلوچ



’’خود کو پہچانو اور دشمن کو پہچانو ایک کیا تم ہزار جنگیں جیت جاؤگے‘‘
شکست، مایوسی اور راہ فراریت کے اسباب کا بنیادی فلسفہ ہمیشہ اپنے اور دشمن کی عدم پہچان میں پنہاں ہے۔اپنی قوت کو نہ سمجھنا ہو ، یا پھر دشمن کی طاقت کا عدم پہچان دونوں صورتوں میں یہ جنگ کے بنیادی محرک یعنی طاقت کے بابت غلط اندازوں کو جنم دیتا ہے اور آپ کو شکست اور مایوسی کے دھانے پر پہنچا دیتا ہے۔ اگر آپ اپنی اصل قوت کو نہیں پہچانتے ، آپ یہ نہیں جانتے وہ کیا ہے اور کتنا ہے پھر آپ ایک بے رحم جنگ میں اپنے مضبوط جہتوں کے بجائے دشمن کے سامنے اپنا کمزور پہلو پیش کردیتے ہیں ، شطرنج کے بساط کی طرح ایک کمزور چال دشمن کو موقع دے دیتا ہے کہ وہ آپ پر ایک وار کرے اور پھر دبوچ لے۔ اسی طرح اگر آپ دشمن کے حقیقی قوت اور اس کی صلاحیتوں سے نا آشنا ہیں پھر یا تو آپ ضرورت سے زیادہ اعتماد کا شکار ہوکر نقصان اٹھائینگے یا پھر دشمن کے کمزور پہلوؤں کو سامنے دیکھ کر بھی عدم پہچان کی وجہ سے وار کرنے میں ناکام رہیں گے ۔ بہر صورت نقصان آپ ہی اٹھائیں گے۔
ایک انسان جب موضوعیت کا شکار ہوکر تصورات کی بنیاد پر قدم اٹھاتا ہے یا پھر کوئی فیصلہ کرکے قدم اٹھاتا ہے تب جب بھی اس کے خیال حقیقت کے سامنے روبرو ہوجاتے ہیں تو تصور زمینی حقائق سے ٹکرا کا پا ش پاش ہوجاتے ہیں ۔ تب انسان اپنے خام خیالی ، غلط فہمی یا پھر خوش فہمیوں کی وجہ سے خود کو خود فریبیوں کے ایسے گرداب میں پاتا ہے جہاں سے اس کا نکلنا بہت مشکل کبھی کبھی ناممکن ہوجاتا ہے اور وہ 
خود کو قدرے نوخیز مگر درشت حالات میں پاکر ششدرہ رہ جاتا ہے۔ یہی کیفیت اسے مایوسی اور بزدلی کی طرف دھکیل دیتا ہے ۔
قوم ، قومی مزاج ، قومی حالات و تقاضے اپنی جگہ مسلمہ حقائق ہیں اور ہر پل جہد کاروں اور جہد پر اثر انداز لا محالہ ہوتے رہتے ہیں لیکن قوم کی رائے ، سوچ ، نقطہ نظر اور خواہشات کی بنیاد پر دنیا میں کہیں بھی آزادی کی تحریکوں کی پالیسیاں بنی ہیں اور نا بگڑی
ہیں اور نہ ہی بننے و بگڑنے چاہیں ۔ کیونکہ ایک قوم کے عام افراد پر معمولی سیاسی ، سماجی یا معاشی دباؤ زیادہ اثر انداز ہوتا ہے اور وہ معمولی دباؤ سے اجتماعی فوائد کو بالائے تاک رکھ کر انفرادی بچاؤ یا فائدے کی طرف مائل ہوجاتا ہے ۔ یہ مزاج غیر مستقل مزاجی اور سطحیت پیدا کردیتا ہے جو کسی بھی تحریک کیلئے زہر قاتل ہے ۔ ہاں البتہ مذکورہ بالا محرکات کو مد نظر رکھ کر زمینی حقائق کے تحت فیصلہ کرنا درست ثابت ہوتا ہے۔ 
اسی طرح دشمن کے حوالے سے قومی مزاج اور قومی رائے اپنی جگہ لیکن المیہ تب جنم لیتا ہے جب جہدکار کارکنوں سے لیکر 
ذمہ اروں تک قوم یا عوام کی طرح سوچنا یا اثر انداز ہونا شروع ہوجائے۔ تو پھر قوم کے ایک عام فرد اور ایک جہد کار کے مابین شعور، علم اور آگاہی کا فرق مٹ جاتا ہے۔ پھر عوام اور جہدکار سوچ کے حوالے سے ایک صف میں کھڑے ہونگے۔جو تحریک کیلئے قطعاً مناسب نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر دشمن ریاست پاکستان کے حوالے یہ رائے قائم کرنا کہ فلاں دور یا وقت میں بلوچوں پر اس قدر ظلم و جبر کا بازار گرم نہیں تھا یا پھر موجود حالات کے تندہی سے یہ اخذ یا امید کرنا کہ آنے والے وقت میں حالات بہتر ہونگے۔ یا یہ سوچنا کہ پہلے کیوں حالات ایسے سخت نہیں تھے اب ہوئے، یا ان سخت حالات کے بابت یہ تصور قائم کرنا کہ یہ سب ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہورہا ہے محض سطحیت اور بلوچ قومی تحریک کے تاریخی حرکت سے نا آشنائی ہے ۔ بالفرض اگر یہ ظلم و جبر ہماری کمزوریوں کا حاصل ہے پھر اس کا مطلب ہے دشمن ریاست بری الذمہ ہوگیا,قطع نظر ہماری اپنی کمزوریوں یا خامیوں کے، لیکن ریاست کی مرحلہ وار پالیسوں کو نظر انداز کرنا بھی لاعلمی ہے ۔ریاست کی جنگ ظلم جبر حربہ سازش نسل کشی تباہی بربادی بلوچوں کو مکمل فنا کرنے کی پالیساں ہیں اور ان پر عمل درآمد اسی دن سے شروع ہے جس دن بلوچ سرزمین پر پاکستان قبضہ گیر ہوا۔لیکن ضرور ت اور ہماری ردعمل کے باعث شدت، شکل اور طریقہ کار مختلف ہوتا رہا ہے۔یہ دشمن ریاست کی اپنی پالیسی اور حکمت عملی ہوتا ہے کہ اسے کب اور کس وقت میں کہاں اور کس طرح کرنا ہوگا۔یعنی کبھی وہ گلاب جامن کے اندر زہر ڈال کر کھلاتا ہے تو کبھی بغیر گلاب جامن کے زبردستی منہ میں زہر ٹھونستا ہے۔ بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی خاطر جو دستیاب حربے ہوں اور جو بھی وقت و حالات کے مطابق ممکن ہو دشمن وہ تمام منصوبوں اور پالیسیوں پر شروع دن سے انتہائی تیزی کے ساتھ عمل درآمد کررہا ہے۔ دشمن کی قوت کے استعمال کو بھٹو ،مشرف، ایوب خان وغیرہ سے جوڑنا یا اس کی شدت کا تقابل ماضی کے جبر سے کرنا عوامی سطحی رائے ہوسکتا ہے لیکن اگر یہی تحریک کو حرکت دینے والے جہد کار کا بھی نقطہ نظر ٹہرا تو پھر یہ ناکام پالیسیوں ، خستگی ، انتشار اور غیر مستقل مزاجی کو جنم دیتا ہے۔
آج کی صورتحال اس لحاظ سے مختلف اور شدت کے سا تھ محسوس ہوتا ہے کہ بلوچ قوم بھی دشمن کے خلاف انسرجنسی میں مصروف 
عمل ہیں۔جب مظلوم ظالم یعنی قبضہ گیر کے خلاف نجات کے حصول کی خاطر انسرجنسی کی راہ اپناتی ہے تو قبضہ گیر دشمن بھی کاونٹر انسرجنسی کی پالیسی پر مکمل اتر جاتا ہے۔پھر وشمن مرحلہ وار تسلسل کے ساتھ کاونٹر انسرجنسی کی تمام طے شدہ حربوں کو بروئے کار لاتا ہے۔پھر مظلوم اور ظالم کی حوصلوں کی جنگ نفسیاتی حوالے سے شروع ہوتی ہے۔ یعنی جس تیزی سے اور وسیع پیمانے پر مزاحمت ہوگی اتنی ہی تیزی سے دشمن کے بے رحم قوت کا استعمال ہوگا مطلب دشمن کی قوت کی شدت از خود مزاحمت کی شدت و کامیابی کا ایک ’’ اسکیل ‘‘ ہے اور اس کی کامیابی کا پتہ دیتا ہے ۔ بڑھتے مزاحمت کے ساتھ دشمن وہ تمام حربے تیزی کے ساتھ استعمال کرنا شروع کردیتا ہے جن کے منفی اثرات سے مظلوم قوم نفیساتی شکست کھاکر کامیابی کی امید سے ناامید ہوکر بے حوصلہ ہو اور مزاحمت کی راہ کو چھوڑ دے۔
لوگوں کی اغوا ء نما گرفتاریاں ، طویل عرصے تک گم گارکرنا، اس کے بعد تشدد ذدہ لاشیں پھینکنا، یا کبھی کبھی لاش کو ایسا مسخ کرنا کہ کوئی پہچان ہی نہ سکے ۔ ماں باپ بہن بھائی، رشتہ دار، دوست ہرروز یہ پریشانی میں مبتلا ہو کر گذاریں کے پتہ نہیں نئی ملنے والی نا قابل شناخت مسخ شدہ لاش ہمارے لختِ جگر کا تھا یا کوئی اور۔یہ کیفیت بذات خود نفسیاتی وار کا حصہ ہے۔شہید کرنے کے بعد بھی دانت، آنکھ، ناخن نکالنا، پیٹ چیرنا،منہ پر تیزاب چھڑکنا، یعنی عبرت کانشان بنا کر یہ پیغام دینا کہ ہم اس طرح بھی کرسکتے ہیں ۔ تاکہ دوسروں پر نفسیاتی اثر پڑ جائے اور وہ خوف کاشکار ہوں۔اسی طرح اگر کوئی بھی بلوچ انسرجنسی کا حصہ ہے تو اس پر پریشر ڈالنے کی خاطر اس کے بوڑھے باپ یا بھائی اور رشتہ داروں کو گرفتار کر نا یا شہید کرنا گوکہ ان کا انسرجنسی سے تعلق ہی نہیں۔یا یہ جانتے ہوئے بھی کہ کوئی مزاحمت کار گھر میں موجود نہیں ہے اس کے باوجود گھروں پر مسلسل چھاپے مارنا، گھروں کو جلانا، لوٹ کھسوٹ کرنا خاندان کو ڈرانا دھمکانا و غیر ہ کا مقصد نفسیاتی حربہ استعمال کرنا ہے۔تاکہ خاندان اور خاص کر بلوچ جہد کارنفسیاتی دباؤ کا شکار ہوکر جہد سے دستبردار ہوجائیں ۔ اسی طرح دشمن ہر جہدکار کے خاندان، عزیز قریب یا قرب و جوار میں ایسے بے ضمیر تنخواہ دار ایجنٹ بھی پیدا کرچکا ہے جو دشمن کو بہت زیادہ طاقت ور اور جہد کاروں کو بیوقوف ثابت کرنے کی خاطر خاندان والوں کے سامنے دن رات نقشہ کھینچتے رہتے ہیں اور خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں بلاواسطہ یا بالواسط ریاست کی حمایت کرکے ریاست کیلے ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قصور وار ریاست کو نہیں جہدکار کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ تمام تر حربے قوت کی جنگ کے علاوہ نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں ۔ کیونکہ جب کوئی قوم چاہے جتنی بھی طاقتور ہو نفسیاتی طور پر شکست مان لے تو پھر وہ کوئی جنگ کیا ایک معرکہ بھی نہیں جیت سکتا۔
اسی طرح دشمن ریاست اپنی بلوچ نسل کشی تشدد ظلم جبر پر پردہ ڈالنے اور اپنی بدمعاش فورسز کیلئے بلوچوں میں ہمدردی پیدا کرنے کی خاطر فورسز کے ذریعے فری میڈیکل کیمپ اسکولوں میں تقریبات کی شوشہ سے لیکر بلوچوں میں آٹا اور چینی وغیرہ بانٹنا اور خاص کر میر و معتبروں کو مصنوعی عزت دے کر سادہ لوح بلوچوں کو جہدکاروں کے خلاف اکسانا اور استعمال کرنا بھی ریاستی کاونٹر انسرجنسی کا حصہ ہے۔
ریاست خاص کر میڈیا کو ہمیشہ لالچ اور خوف کے ذریعے کنٹرول میں رکھ کر اپنے مذموم عزائم اور وحشیانہ حرکتوں کو جائز اور جہدکاروں کی حقیقی اور تاریخی جہد کو ناجائز و غلط ثابت کرنے کی خاطر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو بطور ریاستی مشنری استعمال کررہا ہے۔آج 
بلوچستان کے حوالے سے مکمل میڈیا ریاستی جانبداری کا شکار ہوکر صحافتی بدنیتی کے انتہاء کو پہنچا ہوا ہے اور مسلسل ریاستی بلوچ دشمن ایجنڈے اور پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں صحافی برادری تحریک کو کچلنے کیلئے ایک ریاستی کاؤنٹر انسرجنسی ستون کا کردار ادا کررہے ہیں۔جو انسانی تاریخ میں صحافت جیسے مقدس علم اور پیشے کے ساتھ بد ترین بلاد کار کے مترادف ہے۔وقت موجود ریاست کے کاونٹر انسرجنسی پالیسیوں کی تشہیر میڈیا اور درباری کالم نویس یک طرفہ طور پر پیش کرنے اور حقائق کو مسخ کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔اور بلوچ قوم کی آواز اور اصل صورتحال کو پیش کرنے سے مکمل دانستہ چشم پوشی کر رہے ہیں۔ جو کہ ریاست کی مجرمانہ کردار میں ملوث ہونے کے زمرے میں آتی ہے۔
اسی طرح آج کل دشمن بڑے زور شور سے اپنے تخلیق کردہ زرخرید ایجنٹوں کو بلوچ جہدکار ظاہر کرکے میڈیا کے سامنے ریاست کو تسلیم کرنے کی ڈرامہ رچا کر سرنڈر کروا رہے ہیں۔ اس کا مقصد ایک طرف تو عالمی میڈیا کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش ہے کہ بلوچ پاکستان کو تسلیم کررہے ہیں تو دوسری طرف بلوچ عوام میں مایوسی پھیلانے کی کوشش ہورہا ہے کہ تحریک اب ختم ہوچکا ہے۔ فرض کریں اگر تحریک ختم ہورہا ہے تو پھر ہر روز پورے بلوچستان میں کئی برسوں سے لیکر آج تک بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن، بلوچ نوجوانوں کی اغوانما گرفتاریاں، گمشدگیاں، جیٹ طیارو ں اور ہیلی کاپٹروں کی آمدورفت ،شیلنگ و بمباری سے لیکر بڑے پیمانے پر فوجی نقل وحرکت سمیت نئے نئے فوجی چیک پوسٹ اور چوکیوں کی قیام کس ضرورت کے تحت ہورہی ہیں؟۔ہاں ضرور کچھ ایسے مٹھی بھر افردا ہونگے جو شعوری اور فکری لحاظ سے کمزور ہوکر ریاستی دھمکیوں اور حربوں یعنی گھروں کو مسمارکرنا اور خواتین و بچوں کے ا غواء و گرفتاریوں کی دھمکی سے مرعوب ہوکر بزدلانہ زندگی کو ترجیح دے رہے ہیں۔کیونکہ دشمن مسلسل ہر بلوچ جہدکار کو بلیک میل کرنے کی خاطر مختلف حربہ جات استعمال کررہاہے۔ کچھ لوگ ضرور بزدلی کاشکار ہوئے ہونگے لیکن ان کو یہ اندازہ بھی نہیں کہ دشمن آج نہیں تو کل ضرور انہیں بزدلی کی حالت میں بھی نشان عبرت بنا دیگا۔جسکی ماضی میں مثالیں موجود ہیں۔اور اب بھی خاص اور مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ خفیہ ادارے ان تمام قبائلی سرداروں، نوابوں اور میر معتبروں کو جو ریاست کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں انھیں سختی سے تنبیہہ کیا گیا ہے کہ اگر تم لوگوں کے بندوں کو پاکستان کے وفاداری کی جرم میں مسلح تنظیموںں نے قتل کیا بھی ہے تو پھر فی الحال ان تنظیموں سے سرنڈر کرنے والوں سے حساب اور انتقام نہیں لینا تاکہ جلد سرنڈر ڈرامہ فلاپ نہ ہو اس کے بعد ان سرنڈر کرنے والے لوگوں کو آہستہ آہستہ خفیہ طریقے سے ٹھکانے لگایا جائیگا۔
اس کے علاوہ بھی آنے والے وقت میں پاکستان کاونٹر انسرجنسی کی پالیسیوں پر تیزی کے ساتھ عمل درآمد کرتے ہوئے مزید اشکال میں مختلف ڈرامے، سازش اور حربے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرتا رہے گا۔تاکہ بلوچ قوم کی قومی خواہش آزادی کی امید ٹوٹ جائے اور بلوچ سماج میں خوف و ہراس مایوسی اور بدظنی کا سما ہو۔تاکہ آسانی کے ساتھ پاکستان اور چین اپنی توسیع پسندانہ عزائم اور معاشی استحکام کے خواب کو بلوچ قوم کی قبروں کے اوپر کھڑے ہوکر پورا کردے۔لیکن پاکستان اور چین کا یہ خواب اس وقت تک صرف خواب ہی رہے گا اور بلوچ آزادی کی امید بلوچوں کے دلوں میں چمکتی رہیگی جب تک ہم پاکستان کی کاونٹر انسرجنسی پالیسیوں سے مکمل آگاہ ہو کر اپنی قوم کو آگاہی فراہم کرتے رہیں گے اور بروقت ہر نفسیاتی حربے کا جواب دیتے رہیں گے اور دشمن کے بدلتے چالوں کو سمجھ کر اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے رہیں گے۔ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیئے کہ قومی شعور، بیداری، آگاہی اور قومی حمایت سے لیکر تحریک میں شمولیت ہماری جہدکاروں کے بڑے سے بڑے کارناموں اور قربانیوں میں پوشیدہ ہے۔صرف اور صرف بلندو بانگ دعوؤں، تصورات اور بیٹھ کر منظر کشی سے قومی فنا کی موجوں کو روکنا اور قومی آزادی کی عظیم اور انمول نعمت کو پانا ناممکن ہے۔ 

پیر، 27 جون، 2016

ادھورے خوابوں کا بوجھ



ادھورے خوابوں کا بوجھ
تحریر : ہمایوں احتشام 


میں خاموش کھڑا تھا، بالکل ساکت اور جامد، میں اس ہارے ہوئے جواری کی مانند تھا جس نے اپنا آشیانہ تک داو پہ لگا دیا، اور سب کچھ لوٹا کہ اب فٹ پاتھ پہ بلا حرکت بیٹھا، خیالوں میں گم ہو۔ میرے خیالوں میں مولویوں نے جنت کا خیال ایسا پیوست کیا کہ میں بس اسی کے تصورات میں محو رہتا ہوں، میرے نزدیک اس کی ہریالی دیکھنا، اس کی خوشبو سونگھنا، ایک البیلی حور کے تصور کو سوچنا اور اسے محسوس کرنا ہی اعلی و ارفع تخیل کی تکمیل تھا۔ احباب کا زور تھا کہ ایک زہرہ مثل دوشیزہ شہر میں محبان کے دلوں کی دھڑکن بنی ہوئی ہے، اسے دیکھنا ہی تیرے تخیل کی تکمیل کردے گا۔ میں یاروں سے الجھ پڑا کہ بھلا ایسا ممکن بھی ہے کہ میرا اچھوتا اور مابعد الطبعیات تخیل بھی وجود رکھتا ہو؟ یاروں نے بتایا کہ دوشیزہ کی ناگن جیسی بل کھاتی زلفیں، پہاڑ پہ اگی زامران کی بیلوں کی مانند ہے، اور ان کی سیاہی ہیرے کی خام حالت سے بھی ہزاروں گنا زیادہ ہے، دوشیزہ کے لب بس مٹھاس برساتے ہیں، جو ان سمندر جیسی نگاہوں میں ڈوب گیا وہ بچتا مشکل سے ہے۔ آخری بات بھی خوب کرگئے کہ وہ صراحی سا بل کھاتا بدن تمہارے تخیل کی معراج ہوگا۔ میں ملنے کو تیار ہوگیا۔ یاروں نے مطلع کیا کہ جو شخص بھی اس چوکھٹ کو پھلانگ گیا، وہ واپس نہیں آیا۔ مجھے واپسی کی کبھی پروا نہیں رہی، کیونکہ ویسے بھی میں تو بقاء سے اکتایا فنا کی جانب گامزن تھا۔


شام کو ٹوٹی چپل، سیلن زدہ باس مارتے کپڑوں اور الجھے بالوں کے ساتھ میں نے اس در کی جانب قدم اٹھایا۔ سارا راستہ تخیل کی تکمیل نہ ہونے کا خدشہ رہا، کیونکہ وصال دراصل جدائی کا ہی پیش لفظ ہوتا ہے۔ سو وصال سے قطع نظر میں اپنے تخیل کی تکمیل کی جہت کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے بارے میں سوچے ہی جارہا تھا۔ دوشیزہ کے دروازے سے بس سو گز دوری ھی تھی کہ یکایک فضا بدلنے لگی، رم جھم کرتی بوندہ باندی، ہریالی مانند مثل سبز قالین اور سوندھی سوندھی خوشبو جس کا میں برسوں سے متلاشی تھا۔ یہی وہ خوشبو تھی جس کو سونگھنے کے لیے میں نے قریہ قریہ، شہر شہر چھانے مگر میں محروم رہا، ویسے جو شخص بھی اس خوشبو کے سوا کسی دوسری خوشبوں کا زکر کرتا یا تعریفی کلمات بولتا ھے تو میں حسد کا شکار ہوجاتا ھوں، ایسے کہیں کہ میں اس بیان کردہ خوشبو سے جل جاتا ھوں۔ سچ ہے کہ محرومی سے برا احساس محرومی ہے۔ چند ثانیوں کے لیے میں مدہوش اور آس پاس سے بیگانہ ہوگیا۔ پھر کہیں پاس سے ایک مدھرتا سے بھرپور آواز ماحول میں گونجی۔ کون ہو ؟ میں نے کہا ایک بنجارہ، خوابوں کی تکمیل کا متلاشی۔ پھر آواز آئی، کدھر سے آئے ہو؟ میں نے کہا جہانِ خراب سے۔



ندا آئی! چوکھٹ پار کرو، میرے درشن کرو، میں برسوں سے تمہاری دید کے لیے بیٹھی ہوں۔ مجھے تمہارا وصال درکار ہے۔ میں اندر داخل ہوا تو میرے سامنے وہی حور بیٹھی تھی جو برسوں سے میرے خوابوں میں آتی رھی تھی اور اسی خوش رنگ سپنے کا اختتام میری موت پہ ہوتا تھا۔ ویسے میں انجام سے سدا بے پروا رہا، اسی لیے منزل بھی ہمیشہ بیابانوں کے پار اجاڑوں میں ملی۔ میں اس ماہ پیکر کے سامنے دو زانوں بیٹھ گیا، میں گویا ہوا،  اے پری پیکر، تم کون ہو؟ میں نے تمہیں اپنے خوابوں میں ہی پایا ہے، ویسے تو میرے خواب ہمیشہ ٹوٹ جاتے ہیں، مگر ایسا کیا ہے کہ تم میرے تخیل سے نکل کر حقیقت میں آگئی۔ یہ تو اپنے خوابوں کو غچا دینے کے مترادف ہے کہ جو خواب ہمیشہ میری موت پہ منتج ہوئے وہ بھلا مجھے زندگی کیونکر دیں گے؟ میں رکا پھر گویا ہوا،  میں خوابوں کی تکمیل کا متلاشی رہا ہوں، مگر میں خوابوں سے غداری نہیں کروں گا۔ تمہارا وصل مجھے زندگی دے گا اور میں نے خود کو مرتے دیکھا ہے۔ اے نازک بدن تم ایتھنا سے لے کر درگا تک سب دیویوں کا عکس خود میں لیے ہوئے ہو۔ تم زہرہ کی انسانی شکل ہو۔ میں نے اپنے خوابوں کی تکمیل کے بوجھ کا کافی حصہ اپنے ناتواں کندھوں سے اتار دیا ہے، یعنی خوبصورت ماحول سے لے کر تمھیں دیکھنے تک میں تکمیل کی تمام منزلوں کو عبور کرگیا ھوں، مگر آخری اور خوبصورت احساس جو میری موت کا ہوگا، وہ ابھی تک میسر نہیں آسکا۔ اچھا! ویسے تم جانتی ہو، یہ ادھورے خوابوں کا بوجھ میں نے کب سے اٹھایا ہوا ہے ؟ یہ میں نے تب سے اٹھایا ہوا ہے جب میں نے تمہارا چہرہ اپنے بچپن میں پہلی بار خواب میں دیکھا تھا۔



اگر یہ بوجھ اتنا عرصہ کوئی اور اٹھاتا تو وہ اس کے نیچے دب کے مر جاتا۔ مگر میں یہ جوکھم اٹھائے شہر شہر، قریہ قریہ اور گاوں گاوں پھرا، میرے چہرے اور سر کے بکھرے بال اس ناتمام سفر کے غمازی کرتے ہیں۔ بس اب مجھ پہ ایک احسان کردو، مجھ پہ لادا گیا یہ بوجھ، خوابوں کی تکمیل کا بوجھ مجھ سے اتار دو۔ میں بقاء سے اکتا کے تمہارے پاس آیا ہوں، مجھے فنا چاہیے، وہ پرکشش فنا جو میں بچپن سے خوابوں میں دیکھتا آیا ہوں۔ التجا سے معمور بیانیے کے اختتام پذیر ھوتے ھی میں یکلخت مورتِ حسن کے سامنے جھک گیا۔ ندا آئی،  اس چوکھٹ کو سب وصال کے حصول کے لیے عبور کرتے ہیں، اسی لیے ان کو موت کا تحفہ ملا، لیکن تم ہجر کی خواہشات دل میں لیے چلے آئے، پس تمہیں زندگی جینے کی سزا دی جاتی ہے۔ تمہارا دوسرا جرم یہ ھے کہ خوابوں پہ حد درجے یقین کرتے ھو اور دیوی کے بجائے خوابوں سے محبت کرتے اسی بناء پہ تمہیں ایک اور سزا دی جاتی ہے کہ تم جیو گے، اور اپنے موت پہ منتج ہوتے خوابوں کے ساتھ جیو گے۔ تمہیں ان خوابوں کے لیے جینا ہوگا جن میں تم نے خود کو مرتے دیکھا۔ آج رات پھر میں نے دیکھا کہ میں اپنے ہی خواب میں مر گیا۔

جمعہ، 24 جون، 2016

گوانک : تحریر : کوہ زاد بلوچ



دن کی روشنی مدھم ہوتے ہوتے رات کی تاریکی میں بدلنے کے قریب تھا سورج کی روشنی جیسے قدرت کا عذاب ہو اور رات کی تاریکی جیسے ایک انمول انعام ایسے احساسات کے ساتھ پہاڑی چوٹی پر درختوں کے بیچ اگے جھاڑیوں سے نکلتے ہوئے جمشیر نامی نوجوان نے پہاڑی سے نیچے کی طرف سرکتے ہوئے کھائی(گر) کی طرف منہ کرکے ایک مخصوص آواز نکالی کچھ دیر بعد یہی آواز کھائی میں سے گونجا جمشیر نے موڑ کر اس جگہ کی طرف جہاں سے وہ نکلا تھا انتہائی عقیدت سے محبت بھری نظروں سے دیکھ کرایسے مسکرایا جیسے کوئی معصوم بچہ کسی کھلے میدان میں ایک تیز آندھی و بارش کے رک جانے کے بعد اپنی ماں کی آغوش سے جدا ہوکر اپنی ماں کی طرف دیکھتا ہے پھر موڑ کر جمشیر تیزی سے کھائی میں نیچے کی طرف اترنے لگا جب تک وہ کھائی کے بیچوں بیچ پہنچا اس وقت تک مکمل اندھیرے کا راج قائم ہوچکا تھا جمشیر نے آواز دی بندعلی وہ بندعلی 
ہاں میں یہاں ہوں بڑے سے پتھر کے اوٹ سے بندعلی نے آواز دی جب یہ دونوں نوجوان ایک دوسرے کے قریب پہنچے تو اسطرح سے بغل گیر ہوئے جیسا کہ سالوں بعد ملے ہو
جمشیر۔۔۔ روشان کی طبیعت تو ٹھیک ہے زخم زیادہ گہرے تو نہیں 
بندعلی ۔۔فکر کرنے کی ضرورت نہیں زخم جان لیوا نہیں ہیں مگر بری بات یہ ہے کہ ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے گرنے سے جو زخم آئے ہیں وہ معمولی ہیں 
جمشیر۔۔۔کیا خون بہنا بند ہوچکا ہے 
بندعلی ۔۔۔ہاں میں نے جیسا تیسا کرکے پٹی باندھ دی ہے ٹانکے لگانے کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی تو نہیں ابتدائی طبعی امداد کا بکس تو حیدر و الوں کے پاس تھا جو پہاڑی کی دوسری طرف نکل گئے 
بندعلی نے کھائی میں تیزی سے اترتے ہوئے جواب دیا جمشیر اسکے پیچھے اترتے ہوئے رفتار تیز کرنے کی کوشش کررہا تھا مگر اندھیرے کی وجہ سے اسکے لئے تیز چلنامشکل ہورہا تھا جسکی وجہ سے وہ پیچھے رہ جاتا اور بار بار بندعلی کو رک کر اسکو ساتھ لینا پڑتا۔ 
جمشیر۔۔۔ دوست دور ہیں کیا؟؟
بندعلی۔۔بس اس موڑ کے ساتھ جو غار ہے اسی میں ہیں 
چند قدم چلنے کے بعد موڑ کاٹتے ہی وہ ایک ایسے غار کے دہانے پر پہنچے جیسے برساتی پانی نے موڑ کے چوٹ پر نرم مٹی بہہ کر بنایا ہے اندر داخل ہوتے ہی جمشیر نے باآواز بلند کہا 
’’ سلامت باتے سنگتاں ‘‘ ایک لیٹے ہوئے اور دو بیٹھے ہوئے نوجوانوں نے یک آواز ہوکر جواب دیا 
’’ وش باتے سنگت‘‘
بیٹھے ہوئے نوجوان تیزی سے اٹھے جن کو بیٹھنے کا کہکر جمشیر تیزی سے لیٹے ہوئے نوجوان کے سرہانے بیٹھ کر اسکے پیشانی پر ہاتھ رکھکر پوچھا کیسے ہو طبعیت کیسی ہے درد تکلیف زیادہ تو نہیں
لیٹے ہوئے جوان جسکا نام روشان ہے جو آج الصبح شروع ہونے والے فوجی فضائی آپریشن میں ہیلی کاپٹر کے شلنگ سے داہاں ہاتھ میں گولی لگنے سے زخمی ہوا تھا اور جسکوکچھ چھوٹے چھوٹے زخم گرنے کی وجہ سے کان کاندھے اور پاوں پر آئے تھے
روشان،بالکل ٹھیک ہوں طبیعت بھی بہتر ہے تم سناؤ باقی سنگت خیریت سے گھیرا توڑ کر نکل گئے 
جمشیر ۔۔حیدر گروپ تو گھیراؤسے پہلے ہی دور نکل چکا تھا وائرلیس سیٹ پر میں سن رہا تھا ، وشو اور آپوڑسی شاہد گھیراؤ میں آچکے تھے گھیرا وسیع ہونے کی وجہ سے دشمن اندھیرا ہونے تک ان سے بہت دور تھا 
روشان ۔۔پھر وہ وہاں سے کیوں نہیں نکلے ۔
جمشیر۔۔۔ہیلی کاپٹروں کی زیادہ تعداد اور مسلسل فضائی نگرانی اور شلنگ کی وجہ سے نکلنا مشکل تھا شاہد اسی وجہ سے مجھے یقین ہے اندھیرا ہوتے ہی وہ آسانی سے نکل جائیں گے، 
اس کے بعد بیٹھے ہوئے دونوں نوجوانوں نے جمشیر سے حال احوال کی اور جمشیر نے ان سے سرسری احوال لی جن میں سے ایک کا نام کفیل اور دوسرے کا ٹالی تھا 
جمشیر۔۔۔ہیلی کاپٹر جب شلنگ کررہے تھے تب ہی میں تیزی سے پہاڑی کے چوٹی پر پہنچا اور دوربین نکال کر سب سے پہلے پہاڑی کے اس طرف کا جاۂ لیا مجھے اس طرف دشمن کی کوئی حرکت نظر نہیں آیا جب میں نے تم لوگوں کی طرف کا جائزہ لیا تو عین اسی وقت تمہارے چاروں اطراف سے بہت ہی نیچی پرواز کرتے ہوئے 4 عدد Mi۔17 ہیلی کاپٹر دشمن فوج کو اتار کر واپس ہوئیں اور دشمن نے تمہارے اطراف گھیراؤ شروع کی اور پہاڑی کے نیچے نالے سے گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دینے لگی کیا وہاں تم لوگ تھے
ٹالی۔۔۔ہاں ہم تھے سنگت جب دشمن اپنا گھیرا مضبوط کررہا تھا تب ہم انکے گھیراؤ سے کوئی 300 میٹر دور انکے اور پہاڑی کے بیچ میدان میں تھے ہم جلد از جلد پہاڑی پر پہنچنے کیلئے تیزی سے پہاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ہم پر گولیوں کی برسات شروع ہوئی دشمن نے ہمیں دیکھ لیا تھا ہم نے تیزی سے پلٹ کر جوابی فائرنگ کی کیونکہ خوش قسمتی سے دشمن کے حملے سے ہم محفوظ رہے تھے دشمن کے بندوقیں خاموش ہوئے اسی وقت ہمیں موقع ملا اور ہم نے برساتی نالے کا سہارا لیا اور نالے میں دشمن کے نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد ہم تیزی سے اوپر پہاڑی کی طرف بڑھنے لگے کفیل تقریبا پہاڑی کو پہنچ چکا تھا اور ہم کچھ ہی دور تھے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے ہم کو آلیا ہم جھاڑیوں میں چھپ گئے تعداد کم ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں دیکھ نہیں سکے مگر وہ نالے میں اندھادھند فائرنگ کررہے تھے اس دوران جب بھی موقع ملتا ہم حرکت کرتے ہوئے پہاڑی تک پہنچنے کی کوشیش کرتے اسی دوران نالے میں پڑے ایک بڑے سے پتھر جس نے راستہ رک رکھا تھا کو عبور کرتے ہوئے روشان کو ہاتھ میں گولی لگی اور وہ پتھر سے نیچے زمین پر گر گئے جسکی وجہ سے گولی والے زخم کے علاوہ گرنے کی وجہ سے بھی اسے کچھ زخم آئے
روشان کو سنبھالتے ہوئے ہم نے موقع ملتے ہی اسکے زخموں سے بہتے خون کو روکنے کے لیے اپنے کندھے کے چادروں سے پٹی باندھی اور کور پوزیشن میں پہاڑی عبور کر کے اس کھائی میں اُترے 
جمشیر۔۔۔ہاں میں نے تم لوگوں کو پہاڑی عبور کرتے وقت دیکھ لیا تھا۔ 
کفیل۔۔۔جمشیر جہاں تم بیٹھے تھے وہاں سے ہمارے گدان نظر آرہے تھے ،کیا ہمارے گدانوں پر شلنگ ہوا یا اس طرف دشمن کی کوئی نقل وحرکت ہوا
جمشیر۔۔۔جہاں میں تھا وہاں سے گدان تو نظر نہیں آرہے تھے لیکن وہ علاقہ دیکھائی دے رہا تھا دوپہر کے بعد وہاں سے بہت زیادہ دھواں اٹھ رہا تھا مجھے لگتا ہے کہ دشمن نے تمام گدانوں کو آگ لگا کر خاکستر کردیا۔
کچھ دیر کیلئے
کفیل۔۔۔جمشیر جہاں تم بیٹھے تھے وہاں سے ہمارے گدان نظر آرہے تھے کیا ہمارے گدانوں پر شلنگ ہوا یا اس طرف دشمن کی کوئی نقل وحرکت ہوا
جمشیر۔۔۔جہاں میں تھا وہاں سے گدان تو نظر نہیں آرہے تھے لیکن وہ علاقہ دیکھائی دے رہا تھا دوپہر کے بعد وہاں سے بہت زیادہ دھواں اٹھ رہا تھا مجھے لگتا ہے کہ دشمن نے تمام گدانوں کو آگ لگا کر خاکستر کردیا۔۔
کچھ دیر کیلئے چھائی خاموشی میں کفیل کے چہرے کے تاثرات مسلسل بدلتے رہے وہ چھوٹے چھوٹے خشک لکڑیوں میں سلگتی آگ جس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا ایسے گھور رہا تھا
 جیسے وہ آگ نہیں دشمن فوج کا سپاہی ہو۔ 
کفیل۔۔کیا آپ لوگوں کو ایسا نہیں لگتا کہ ہم ایک ایسی قوم کے لئے قربانی دے رہے ہیں جنکو ہماری فکر ہی نہیں کیا اپنے گھروں میں آرام سے زندگی بسر کرنے والوں کو ہمارے مشکلات و تکالیف کا احساس ہے۔
ہم یہاں دن رات پہاڑوں میں جن کیلئے موت کا سامنا کررہے ہیں کیا انکو ذرا برابر احساس ہے بھی یا نہیں کہ یہ وطن انکا بھی ہے اور جو دشمن ہم پر جھپٹ رہا ہے اسکو وہ اپنا بھی دشمن سمجھتے بھی ہیں یا نہیں۔۔ 
بندعلی۔۔۔۔سنگت یہ ہمارا فرض ہے احساس نہ کرنے والوں سے کیا گلہ۔ 
کفیل۔۔صرف ہمارا فرض ہے باقی سب آرام کریں یہ ظلم کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کرتے ہتکہ ہمارے شہیدوں کے لاش جو دشمن کے ہاتھوں لگ جاتے ہیں انکو بھی بے یار و مددگار ہسپتال کے مردہ خانوں میں خیراتی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں کیاصرف ہم انکے وارث ہیں وہ ہمارے وارث نہیں۔ 
بند علی۔۔جدوجہد آزدی میں یہ سب کچھ ہوتا ہے میرے بھائی اسی کو تو قربانی کہتے ہیں 
کفیل۔۔۔چھوڑو سنگت مرے بھی ہم قاتل بھی ہم چور ڈاکو و دہشت گرد
 بھی ہم گالیاں بھی ہم کو یہ کیا مذاق ہے 
کفیل کے اس غیر متوقعہ اظہار سے غار میں کچھ دیر کیلئے خاموشی چھا گئی
 کفیل کے باتوں کو غور سے سننے والا جمشیر کچھ کہنے کو بیتاب تھا
جب کفیل کچھ دیر کے لئے زیادہ غصے کی وجہ سے خاموش ہوا تب ہی جمشیر کو کہنے کا موقع ملا۔ 
جمشیر۔۔۔کیا تم خود پرستی کا اظہار نہیں کررہے ہو کفیل؟؟ 
کفیل۔۔۔وہ کیسے کیا میں خود پرست ہوں یہ بندوق یہ جنگ یہ مشکل حالات
 یہ تکالیف سنگت جمشیر آپ کو خود پرستی لگتے ہیں
جمشیر۔۔بالکل سنگت آج ہم کو درپیش مشکل حالات کی وجہ سے پہنچنے والے تکلیف نے تم کو قوم کی آرام سے زندگی بسر کرنے اور بیگانگی کا احساس دلایا جو درد اور تکلیف تم نے اپنیجان و خاندان کیلئے محسوس کی اس احساس نے تم کو تمہارے محنت و کردار کا قوم کی بیگانگی اور آرام سے زندگی بسر کرنے سے موازنہ کرنے پر اکسایا کیا یہ خود پرستی کے زمرے میں نہیں آتا کہ تم اپنے فکر و کردار کو لیکر تم کو درپیش مشکل حالات کا موازنہ زرا برابر بہتر حالات سے کررہے ہو عین اسی مقام پر تم آگاہی و غفلت دو متضاد حالات سے نظریں چرا رہے ہو کیونکہ غفلت کے سبب بیگانگی اور آگاہی سے اپنانیت جہنم لیتا ہے اس فطری حقیقت کو اگر ہم نظر انداز کربھی لیں تب بھی کیا کسی کے غلطی کو جواز بناکر غلط کرنے کی گنجائش پیدا کیا جاسکتا ہے اور اس منطق کے بل بوتے پر کسی بھی غلط عمل کو صحیح قرار دیا جاسکتا ہے 
سنگت تم کیوں ان ہم فکر ساتھیوں کے تکلیف کا احساس نہیں کرتے جو سالوں سے دشمن کے قیدخانوں میں سڑ رہے ہیں جو پیشاب کرنے کے لیے بھی ماں بہن کی گالیاں سنتے ہیں جو ایسے کمروں میں سالوں سے بند ہیں جن میں وہ صحیح طریقے سے سو بھی نہیں سکتے سالوں سے جنکو سورج کی روشنی بھی نصیب نہیں ہوا وہ تشدد و بربریت جس سے انکو دشمن نے گذرا وہ الگ سے ہیں کیوں تم اپنے حالات و تکالیف کا موازنہ ان سے نہیں کرتے ان سے موازنہ کرکے دیکھو سنگت پھر بتاؤ کہ ہمیں درپیش حالات کا احسان ہم کسی پر جتا سکتے ہیں 
اس ماں کی تکلیف و درد کا احساس کیوں نہیں کرتے جس کے تین تین لخت جگر دشمن کے بربریت کی وجہ سے اس سے جدا ہوئے اس بہن کی تکلیف کا احساس کیوں نہیں کرتے جس کے پیارے بھائی کو سالوں غائب کرنے کے بعد بیدردی سے قتل کرکے اس کے لاش کو مسخ کرکے سڑک کے کنارے پھینکاگیا ان یتیم بچوں کے درد کا موازنہ کیوں نہیں کرتے جو دوسرے بچوں کو باپ کے زیر سایہ دیکھ کر اپنے باپ کی کمی کی درد کو روزانہ سہتے ہیں،ان لاکھوں خاندانوں کے درد کو کیوں محسوس نہیں کرتے جنکے سربراہ اس فکر کے تحت جدوجہد میں اپنی جان گنوا بیٹھے 
مجھے ایک بات بتاؤ کیا کسی بھی ایسے حالت میں جہاں لاکھوں لوگوں کو ایک پر لطف نشے (فریب) میں مبتلا کیا جائے اور وہ ایسا مدہوش ہوجائیں کہ انکو اپنے نفع و نقصان کا فکر ہی نہ ہو اور عین اس حالت میں انکے آس پاس ایک بڑی آگ جلائی جائے جس میں انکے جل جانے کا خطرہ ہو اب ان لاکھوں مدہوش لوگوں کے بیچ صرف گنتی کے چند ایسے لوگ موجود ہوں جو مکمل اپنے ہوش و حواس میں ہوں اور اس خطرے کو بھی بھانپ لیں تو تمہارے خیال کے مطابق انکو کس طرح کے چیلنج کا سامنا ہوگا؟ 
بند علی۔۔۔مسکراتے ہوئے یہ بھی تم بتاؤ 
جمشیر۔۔میرے خیال سے ان لاکھوں لوگوں کو نقصان سے بچانے
 کے لیے آگ پر قابو پانے کے ساتھ ہی ساتھ ان لاکھوں لوگوں کو
جھنجوڑ کر ہوش میں لانا ہوگا جو مدہوشی میں تمام خطرات سے بے نیاز جول رہے ہونگے اب یہ سوچو کہ آگ پر قابو پانے کی جدوجہد کے دوران کسی بھی ہوش مند شخص کا ہاتھ جل جائے یا پھر مدہوش افراد میں سے کسی ایک کا انکو دھتکارنے یا ان سے گالی گلوچ کرنے یا ان سے لڑنے جھگڑے کی صورت میں وہ ا س جدوجہد سے دستبردار ہوسکتے ہیں میرے رائے کے مطابق ہرگز نہیں اگر ایسا کوئی کرئے گا تو اسکا یہ عمل علم و عقل کی کسوٹی پر غلط عمل ہی ہوگا اس کیلئے وہ جو بھی جواز گھڑے وہ قابل قبول ہرگز نہیں ہوگا ہم اپنے سماج کو بالکل اسی مثال کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں ہمارے کچھ لوگ ریاستی طاقت کے نشے میں بد مست ہیں کچھ ریاستی مفادات مراعات کے نشے میں مدہوش اور اکثروبیشتر ریاستی بربریت سے پیدا ہونے والے خوف میں مبتلا ہیں اور اکثریت بے علمی وغفلت کی وجہ سے بیگانگی کے نشے میں مدہوش ہیں 
اور چند قدم آگے ہمارے نزدیک آکر دیکھیں تو کچھ اپنے اپنے چھوٹے مفادات کے نشے میں دھت ہیں تو کچھ
سے بیگانگی کے نشے میں مدہوش ہیں۔ 
اور چند قدم آگے ہمارے نزدیک آکر دیکھیں تو کچھ اپنے اپنے چھوٹے مفادات کے نشے میں دھت ہیں تو کچھ لیڈری اور گروپ بازی کے نشے میں مدہوش کچھ کمانڈری و نام کے نشے میں اور کچھ قوم کے بچوں کے مستقبل سے بے نیاز صرف اپنے بچوں کے مستقبل کے فکر میں مدہوش اور کچھ تنظیمی اصولوں سے محاورہ اپنے سوچ کے تحت اپنے لئے کام و مقام کے نشے میں مدہوش کچھ اپنے پختہ بری عادت کے غلام ہیں تو ان سب کو جھنجوڑنا اور آگ پر قابو پانا ہوش مندوں کا کام ہے اگر ہمیں کامیابی حاصل کرنا ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو دیکھنا ہوگا کہ کئی ہم کسی بھی سطح پر کسی غیر ضروری نشے میں مبتلا تو نہیں۔ 
بندعلی۔۔۔سنگتاں وقت تیزی سے گزر رہا ہے ہمارا کام اپنے زخمی ساتھی کو دشمن سے دور محفوظ علاقے میں پہنچانا ہے،کیا خیال ہے کوچ مناسب ہوگا 
جمشیر۔۔بالکل چلیں 
سب اٹھے اپنے اپنے پانی کی بوتلیں سامان اٹھاتے ہوئے روانہ ہوئے
 سب سے آخر میں چلنے والا بند علی تھا جس نے 
آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے باآواز بلند کہا۔۔
کیا بُری عادت پائی ہم نے 
نہ ملال و نہ جلال پے قابو ہم کو
اے کاش ہم آئینہ ہوتے
جو سامنے ہوتا اُسی کا 
عکس دیکھائی دیتا ہم میں

پیر، 20 جون، 2016

منگل، 14 جون، 2016

دِل کی باتیں - خیالات کی علامات - آئیڈیوگرام




کبھی سنگ دِل محبوب سے نرم دِلی کی توقع رکھنے والے زخمی دِل شاعر کی دِل کو چھو لینے والی شاعری پڑھنے کا دِل کرتا ہو گا۔ زبان اور گفتگو میں پوری دنیا میں دِل کو جذبات کا مرکز سمجھا جاتا رہا ہے۔ دماغ تو کھوپڑی کے بیچ سخت خول میں بند کسی قسم کا باہری پیغام نہیں دیتا مگر سینے میں لگا دِل دھڑکن سے اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ کبھی کسی کے سامنا ہونے پر بے ترتیب ہو جانے والی دھڑکنیں، کبھی مدہم ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ زندگی کا گُل ہوتا چراغ۔ ان مشاہدوں کی وجہ سے ایسا ہماری روزمرہ گفتگو کا حصہ بن گیا۔

کسی کو دیکھ کر تیز ہو جانے والی دھڑکنوں یا الفاظ کا ساتھ چھوڑ جانے کی وجہ کو بدذوق لوگ ایڈرنلین رَش قرار دیتے ہیں لیکن ابھی بات اس کے ایک اور پہلو کی۔ اگر آپ نے کبھی یہ (❤️) نشان دیکھا ہے تو ذہن میں کیا آیا؟ اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ محبت کا نشان ہے یا دِل کا نشان ہے تو ایسا کیوں؟ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ دِل کی شکل ایسی نہیں۔ انسان کو دل کی شکل قدیم زمانے سے معلوم ہے۔ (تمام ممالیہ کے دِل کی شکل ایک ہی جیسی ہے تو دِل کی شکل کا مشاہدہ تو زراعت سے پہلے بھی معمول کی بات تھی)۔ لیکن اس نشان کو دنیا بھر میں دیکھنے والے سمجھ لیتے ہیں۔ اس قسم کی علامات آئیڈیوگرام کہلاتی ہیں۔

موجودہ لیبیا کے ساحلی علاقے پر القیروانی آباد تھا۔ یہاں پر قدیم یونانی سلطنت کی حکومت تھی۔ یہاں پر ایک پودا سیلفیوم اُگا کرتا تھا جس کی اپنی خاصیتوں کی وجہ سے بڑی اہمیت تھی۔ ان میں سے ایک خاصیت اس کا مانع حمل ہونا بھی تھا جس کی وجہ سے اس کو استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کا بیج اس شکل کا تھا جو آج دِل کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ اس پودے کی اہمیت اس قدر تھی کہ القیروانی میں چلنے والے چاندی کے سکوں پر اس پودے اور اس کے بیجوں کی تصاویر بنائیں گئیں۔

اس شکل کا تعلق محبت سے، قربت سے اور پھر دِل سے بنا۔ صدیاں گزریں، اپنے زیادہ استعمال اور قحط پڑنے کی وجہ سے نہ ہی یہ پودا رہا، نہ ہی یونانی سلطنت بچی۔ نشان اور اس کے ساتھ جُڑا مطلب رہ گیا۔ لیبیا سے شروع ہوئے اس نشان نے عرب کا رُخ کیا اور پھر اس سے آگے یورپ کا۔ یہ ہمیں بصرہ کے الحریری کی گیارہویں صدی میں لکھی کتاب میں نظر آتا ہے جب بنائی گئی تصویر میں جُدا ہوتے لوگوں کے پس منظر میں کا اسی طرح کا نشان بنا ہے۔ 1250 میں لکھی فرانسیسی کہانی میں محبوب کو اسی شکل کا دِل پیش کرتے دکھایا گیا ہے۔

کتابیں عام ہوتے جانے کے بعد یہ نشان پھر کئی دوسری جگہ پر اس علامت کے طور پر نظر آنا شروع ہو گیا۔

نہ یہ نشان خود دِل کی شکل کا ہے، نہ دِل کا تعلق محبت سے ہے لیکن کسی وقت میں لیبیا کے ساحل پر اُگنے والے پودے کے بیج کا شکل آج محبت کا عالمی نشان بن چکا ہے۔ کسی موقع پر اپنے شریکِ حیات کو اس شکل کا تحفہ دینا والا ہو یا فیس بُک پر کسی چیز کو دیکھ کر پسندیدگی کا اظہار کرنے کے لئے اس علامت پر کلِک کرنے والا، اس کا مطلب صرف محبت ہے، اس کے پیچھے تاریخ کچھ بھی ہو۔

خیالات کو شکلوں کی صورت میں بنانا اور دوسروں تک پہنچانا وہ اہم قدم تھا جس سے تاریخی طور پر لکھائی کی ابتدا ہوئی۔ ابتدائی لکھائی لوگوگرافک تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ لفظ یا جملے کو کسی شکل کی مدد سے بیان کیا جاتا تھا۔

ہفتہ، 11 جون، 2016

بلوچستان اور ملا اختر منصور کی ہلاکت




بلوچستان اور ملا اختر منصور کی ہلاکت

تحریر: محمد اکبر نوتیزئی 

یہ ڈرون حملہ، جس میں طالبان رہنماء کو نشانہ بنایا گیا، پاکستان کے سب سے بڑی صوبے کیلئے ایک پریشان کن مستقبل کی طرف اشارہ ہے۔جولائی 2015 میں، جب افغان انٹیلی جنس نے یہ خبر دی کہ در حقیقت طالبان رہنماء ملا عمر دو سال قبل وفات پاگئے ہیں، طالبان نے ملا اختر منصور کو اپنے نئے لیڈر کے طور پر منتخب کیا۔ اس انتخاب نے افغان طالبان میں دراڑیں پیدا کیں۔ حالیہ مہینوں میں یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ ملا منصور کچلاک، کوئٹہ سے تقریباً 25 کلومیٹر دور زیادہ تر افغان مہاجرین پر مشتمل پانچ لاکھ نفوس کا ایک شہر، میں ایک مخالف دھڑے کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے ہیں۔ ان افواہوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں طالبان کی طرف سے ایک آڈیو پیغام جاری کیا گیا جس میں ملا منصور نے اپنے مارے جانے کی تردید کی۔
تاہم، مئی میں ان کی قسمت جواب دے گئی۔ طالبان رہنما تفتان، کوئٹہ سے تقریبا 600 کلومیٹر دور بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ایک سرحدی شہر، سے سفر کر رہے تھے۔ سفر میں ملوث ایک شخص نے دی ڈپلومیٹ کو بتایا کہ، ’’جب ہم نے ان سے بس میں سیٹ مخصوص کرنے کا پوچھا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے، انہوں نے ایک کار کرایہ پر لینے کا کہا، اور ہم نے محمد اعظم کو بلایا کہ انہیں کوئٹہ لے جاؤ۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ طالبان کے امیر تھے؛ ہم نے سوچا کہ وہ ایک مقامی پشتون ہے جو ایران کا دورہ کرکے پاکستان پاس واپس لوٹا ہے۔‘‘
ملا منصور کوئٹہ کی طرف جارہے تھے جب ان کی گاڑی کو ایک ڈرون سے نشانہ بنایا گیا جس سے وہ اور بلوچستان کے ضلع نوشکی سے تعلق رکھنے والا ان کا ڈرائیور محمد اعظم ہلاک ہوگئے۔ ابتدائی طور پر مقامی حکام نے کہا تھا کہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد لیجایا جارہا تھا جس میں آگ لگ گئی تھی۔ لیکن مقامی لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے ’’ایک چھوٹا سا ہوائی جہاز‘‘، جس سے ان کی مراد ڈرون تھی، دیکھا جو حملے کے بعد گاڑی کے اوپر منڈلا رہا تھا۔ بعض مبصرین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ زمینی انٹیلی جنس کے بغیر ملا منصور کو نشانہ بنانا ممکن نہ ہوتا۔ وہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔ تو لہٰذا اس صورت وہ یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ شاید پاکستان نے خاموشی سے تعاون کیا ہو۔ سرکاری حکام ایسے کسی بھی دعوے کی سختی سے تردید کررہے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے حملے کی مذمت کی اور اسے پاکستان کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے میانمار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منصور ’’افغانستان میں تعینات امریکی اہلکاروں، افغان شہریوں، افغان سیکورٹی فورسز، اور ملک بھر میں تعینات ریزولوٹ سپورٹ کولیشن کے اراکین کیلئے ایک مسلسل اور واضح خطرہ تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ منصور پر فضائی حملے نے ’’دنیا کو ایک واضح پیغام بھیجا ہے کہ ہم اپنے افغان ساتھیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔‘‘
کیری نے کہا کہ، ’’ہم امن چاہتے ہیں۔ منصور اس کوشش کیلئے ایک خطرہ تھا۔ انہوں نے امن مذاکرات اور مصالحتی عمل کی بھی براہ راست مخالفت کی تھی۔ افغانوں کیلئے اب وقت آگیا ہے کہ وہ لڑائی بند کردیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک حقیقی مستقبل کی تعمیر شروع کردیں۔‘‘
کیری نے کہا کہ انہوں نے اس فضائی حملے کے بارے میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو مطلع کرنے کیلئے فون کیا تھا البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کب۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ ’’مکمل طور پر غیر قانونی، ناقابل قبول اور ملک کی خودمختاری اور سالِمیت کے خلاف ہے۔‘‘ انہوں نے امریکہ پر الزام عائد کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’’وہ افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو سبوتاژ کررہے ہیں۔‘‘
ڈرائیور محمد اعظم کے بھائی نے دی ڈپلومیٹ کو بتایا کہ، ’’میرے بھائی کو پتہ نہیں تھا کہ وہ افغان طالبان کے بڑے سربراہ تھے، اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی کی شناخت کرے یا اسے روکے۔ ان کا کام صرف یہ تھا کہ کسی مسافر کو اس کی منزل تک پہنچائے، اور وہ یہی کام سرانجام دے رہے تھے۔‘‘ انہوں نے حکومت سے اپنے مرحوم بھائی کیلئے معاوضہ دینے کی اپیل کی ہے جسکے چار بچے تھے۔
سینئر پاکستانی صحافی زاہد حسین نے ڈان میں لکھا: ’’ملا اختر منصور کی ہلاکت ایک زیادہ جارحانہ امریکی پالیسی اور موقف کی طرف اشارہ کرتا ہے چونکہ اب افغان طالبان کے مذاکرات کی میز پر آنے کی امیدیں دھندلا چکی ہیں۔ حال ہی میں منتخب طالبان رہنماء کی موت، جنہوں نے ابھی ابھی اس گروہ پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کی منظم کوششیں کی تھیں، نے پہلے سے بگڑے ہوئے افغان بحران کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ یہ کہ حملہ پاکستان کی حدود کے کافی اندر کیا گیا جس سے یہ خطرناک صورتحال مزید بگڑ گئی ہے، اس سے پاکستان کی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ اپنا اتحاد قائم رکھنے اور افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنے کے توازن میں پاکستان کی کمزوریاں بے نقاب ہوئی ہیں۔‘‘
خبر کے مطابق راولپنڈی کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کے ساتھ ایک اجلاس کے دوران پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ڈرون حملے پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ، ’’خود مختاری کی خلاف ورزی کی اس طرح کی کارروائیاں دونوں ممالک (امریکہ اور پاکستان) کے درمیان تعلقات کے لئے نقصان دہ ہیں اور علاقائی استحکام کیلئے جاری امن عمل کیلئے بارآور نہیں ہیں۔‘‘
پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی
واشنگٹن میں قائم وڈرو ولسن سینٹر برائے اسکالرز میں جنوبی ایشیا کے ایک ماہر مائیکل کگلمین نے دی ڈپلومیٹ کو بتایا کہ، ’’منصور پر ڈرون حملہ واشنگٹن کیلئے پالیسی میں ایک ڈرامائی تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسکا لب لباب یہ ہے کہ امریکی حکومت کا پاکستان کے حوالے سے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور یہ کہ اب اس نے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ منصور کو نشانہ بنا کر، واشنگٹن پاکستان کیلئے ایک بہت ہی واضح پیغام بھیج رہا ہے: اگر آپ اپنی سرزمین پر افغانستان کو غیر مستحکم کرنے اور امریکی فوجیوں کیلئے خطرہ بننے والے عسکریت پسندوں کیخلاف کارروائی نہیں کرتے تو ہم کریں گے۔‘‘
’’اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ یہ پاکستان میں یا تو کوئٹہ شوریٰ یا حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند رہنماؤں کے خلاف مزید امریکی حملوں کیلئے ایک نمونہ ہو سکتی ہے۔ یا پھر امریکہ مزید حملوں سے باز رہے گا اور یہ امید کرے گا پاکستان کو پیغام موصول ہوچکا ہے اور اسکے بعد وہ اپنے طور پر کارروائیاں کرے گا۔‘‘
ایک آزاد صحافی شہزاد بلوچ، جو کوئٹہ میں مقیم ہیں، نے دی ڈپلومیٹ کو بتایا کہ، ’’یہ امریکہ کی طرف سے ایک واضح پیغام ہے کہ جہاں کہیں بھی انہیں اپنے اہداف ملیں گے وہ انہیں ماریں گے، پاکستان کی مرضی کے بغیر، حتیٰ کہ پاکستانی سرزمین پر بھی۔ بلوچستان ایک بلوچ اکثریتی صوبہ ہے جو انتہا پسندی کی مخالفت کرتا ہے لیکن اس کے چند اضلاع افغانستان کی سرحد سے ملتے ہیں اور پاکستان کے لاقانون قبائلی علاقے جہاں شدت پسندوں کے خلاف کاروائی کی جاری ہے۔ لہٰذا اب طالبان کے اہم رہنماوں کی (بلوچ سرزمین )پر نقل و حرکت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی بھی رپورٹیں ہیں کہ وہ بلوچستان کے شمالی علاقوں کی پشتون پٹی میں بھی موجود ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ، ’’یہ بلوچستان میں پہلا امریکی ڈرون حملہ تھا، اور لگتا ہے کہ مزید حملے ہونگے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ملا منصور کی لاش کوئٹہ اسپتال لائے جانے کے بعد پاکستان کی طرف سے کوئی تحقیقات نہیں کی گئی۔ شناخت کی تصدیق کرنے کیلئے پوسٹ مارٹم ہونا چاہیے تھا۔‘‘
ایرانی تعلق؟
وال اسٹریٹ جرنل نے یہ خبر دی تھی کہ ایران میں اپنے خاندان سے ملاقات کے دوران امریکی خفیہ اداروں نے ملا منصور کا کھوج لگالیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نگرانی کرنے والے امریکی ڈرون ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقے میں پروازیں نہیں کرتے، لیکن مواصلات اور دیگر معلومات سے انٹیلی جنس ایجنسیاں اس قابل ہوئیں کہ انہوں نے منصور کا کھوج لگا لیا اور انہیں پھانسنے کیلئے دام بچھا دیا۔
ملا منصور اکثر ہوائی سفر کرتے رہتے تھے، اور مبینہ طور انہوں نے گزشتہ نو سال کے دوران بیرون ملک دوروں کیلئے دو پاکستانی ہوائی اڈوں کا استعمال کیا۔ ان کی لاش کے قریب محمد ولی کے نام سے ایک پاسپورٹ اور ایک پاکستانی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ملے۔ بعض اطلاعات کے مطابق منصور نے تفتان بارڈر کراسنگ کے ذریعے دو مرتبہ ایران کا سفر کیا تھا۔
ایران نے یہ اطلاعات مسترد کر دیں کہ حملے سے قبل منصور اسلامی جمہوریہ سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابر انصاری کا حوالہ دیا تھا کہ انہوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ منصور حملے سے قبل ان کے ملک میں تھے۔لیکن مبصرین کا کہنا ہے وہاں تین وجوہات ہیں جن کی بناء پر منصور ایران میں ہو سکتے تھے: اول، 2015ء کے اوائل کے بعد سے داعش افغانستان میں قدم جماتا جا رہا تھا، خاص طور پر ایران کی سرحد سے ملحق شہروں میں۔ افغان طالبان ان جگہوں پر داعش کیخلاف برسرپیکار رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اسی تناظر میں تہران نے ملا منصور کو ایران آنے کی دعوت دی ہو۔
دوئم، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ملا منصور سنی بلوچ اسلام پسندوں، جو کئی دہائیوں سے ایران کی شیعہ ریاست سے لڑ رہے ہیں، سے ملنے کیلئے ایران گئے تھے۔
سوئم، مشرقی ایران میں افغان مہاجرین، جیسا کہ مشہد اور زاہدان میں، رہتے ہیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان رہنما ان سے ملنے گئے تھے۔بعض اطلاعات میں حتیٰ کہ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ نومبر میں ملا منصور نے ایران میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات کی تھی جس نے امریکی حکام کو طیش دلایا تھا۔
خواہ اسکی رفتار کتنی بھی ہو، شہزاد بلوچ کے مطابق: ’’اس سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل قریب میں بلوچستان میں ایک بہت بڑا بحران پیدا ہونے والا ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بہت سے ممالک کے جاسوس بلوچستان میں موجود ہیں۔‘‘
افغانستان میں پاکستان اور ایران روایتی طور پر شدید حریف رہے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں ایران اور پاکستان پراکسی جنگوں میں ملوث تھے۔ 1996ء میں جب طالبان نے افغانستان میں اپنی حکمرانی شروع کی تھی، ایران کی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات خراب ہونا شروع ہوگئے تھے۔ 1998ء میں افغان شہر مزار شریف میں طالبان کے ہاتھوں 10 ایرانیوں کے قتل کے بعد تعلقات مزید بگڑ گئے تھے۔
بلوچستان کی طالبانائزیشن
بلوچستان، جو پاکستان کی زمین کے 43 فیصد پر مشتمل ہے، شورش زدہ رہا ہے۔ یہ پرتشدد حملوں کی لپیٹ میں رہتا ہے: بلوچ عسکریت پسندوں کے علاوہ مذہبی انتہاپسند گروہ بھی صوبے میں کام کررہے ہیں۔
سن 1979ء میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد افغان مجاہدین کو مبینہ طور پر پاکستان کے بلوچستان، صوبہ خیبر پختونخواہ اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں تربیت دی گئی تھی، وہ تمام علاقے جنکی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ بعد ازاں امریکی حملے کے بعد افغان طالبان انہی مقامات کو لوٹ گئے۔ چونکہ بلوچستان افغانستان کے دہانے پر واقع ہے، اس نے افغان مہاجرین کے ایک جم غفیر کی میزبانی کی ہے، ان میں طالبان کے ارکان بھی شامل ہیں۔ امریکہ پاکستان پر کئی عرصے سے یہ الزام عائد کرتا آرہا ہے کہ اس نے افغان طالبان بالخصوص اسکی اعلیٰ قیادت کو کوئٹہ میں پناہ فراہم کی ہے۔ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے، تاہم 2009ء کے اوائل تک، نیو یارک ٹائمز یہ رپورٹنگ کر رہا تھا کہ اوباما انتظامیہ طالبان کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کیلئے ڈرون حملوں کو بلوچستان میں وسعت دینے کے امکان پر غور کر رہی ہے۔
کوئٹہ میں مقیم ایک تجزیہ کار، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا، نے دی ڈپلومیٹ کو بتایا کہ، ’’ہاں، میں بلوچستان میں طالبانائزیشن کو مستقبل میں ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہوں چونکہ کوئٹہ میں طالبان نے اپنے نیٹ ورک کو کافی وسعت دی ہے۔‘‘ تجزیہ کار نے مزید کہا کہ بلوچستان میں طالبانائزیشن مقامی بلوچوں کی اس گروہ میں شمولیت کیساتھ نظریاتی اور علاقائی حصول کیساتھ طاقت حاصل کر رہی ہے۔
مائیکل کگلمین نے کہا: ’’اس مرحلے پر، ہم محض یہ جانتے ہیں کہ پاکستان مشکل حالت میں ہے۔ اب یہ بلوچستان میں افغان طالبان رہنماوں کی موجودگی سے انکار نہیں کر سکتا، اگرچہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی بہت زیادہ امکان نہیں ہے۔ بلوچستان کے لئے مضمرات پریشان کن تو ہیں البتہ واضح نہیں ہیں۔ علیحدگی پسند بغاوت اور پاکستان فوج کی سخت گیر پکڑ دھکڑ اور وہاں پر لاگو دیگر سفاکانہ پالیسیوں کے سبب بلوچستان پہلے سے ہی زبردست دباؤ میں ہے۔ پریشان حال مقامی آبادی کبھی بھی ڈرون حملوں کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہے گی۔ ایک اور خدشہ یہ بھی ہے کہ پاکستان بلوچستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاون کے بہانے مقامی آبادی کی پکڑ دھکڑ میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔‘‘افغانستان کے بلوچستان کی پشتون پٹی پر علاقائی دعوے ہیں اور یقیناًپاکستان کے دیگر پشتون علاقوں پر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے کابل کا پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کیلئے ایک نرم گوشہ رہا ہے۔ دریں اثنا، پاکستان بھارت پر الزام لگاتا آ رہا ہے کہ وہ افغانستان کے ذریعے بلوچ شورش کو ہوا دے رہا ہے۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو وہ پاکستان کو بلوچستان میں افغان طالبان کو پناہ فراہم کرنے کیلئے مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ ان تمام الزامات اور جوابی الزامات نے اس بات کو یقینی بنایا ہوا ہے کہ علاقائی تعلقات زیادہ سے زیادہ متزلزل رہیں۔
پاکستانی شناخت
بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ افغان مہاجرین کی 80 فیصد سے زائد پاکستانی قومی شناختی کارڈ کی حامل ہے اور وہ پاکستان کے شہری بن چکے ہیں۔ خود ملا منصور کے پاس ایک پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تھا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے حال ہی میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو رفیق ترین کو محمد ولی، طالبان رہنما ملا منصور کا مشتبہ شناختی نام، کی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی تصدیق کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔معروف پاکستانی قومی اخبار دی نیوز انٹرنیشنل کی خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مقامی حکام کو غیر قانونی طور غیر ملکیوں کی پاکستانی شہریوں کے کارڈ جاری کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ملک بھر میں کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈوں کی دوبارہ تصدیق کا حکم دیا ہے۔کِیّا قادر بلوچ، اسلام آباد میں مقیم صحافی جو بلوچستان کا احاطہ کرتے ہیں، نے دی ڈپلومیٹ کو بتایا کہ، ’’میرا ماننا ہے کہ اس ہلاکت نے نہ صرف دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے موقف کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں بلکہ اس نے یہ شکوک بھی پیدا کیے ہیں کہ طالبان تحریک کے اور بھی رہنماء یہاں ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا امریکہ اور اس کے اتحادی ان کو نشانہ بنانا جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بلوچستان میں پہلا ڈرون حملہ تھا لیکن آخری نہیں۔‘‘
کگلمین کے مطابق: ’’اگر یہاں امید کی کوئی کرن ہے بھی تو وہ یہ ہے کہ بلوچستان اور اس کے عوام کی نہایت پریشان کن حالت زار پر زیادہ
توجہ مرکوز کی جائے گی۔ بلوچستان کے بارے میں بہت کم سنا جاتا ہے، کیونکہ وہاں تک رسائی انتہائی کم ہے۔ شاید اب ہم زیادہ سننا شروع کریں گے۔‘‘کِیّا قادر بلوچ نے ایک زیادہ تشویشناک نقطہء نظرپیش کیا: ’’بلوچستان ہمیشہ سے افغان عسکریت پسندوں کیلئے ایک محفوظ ٹھکانے کے طور پر جانا جاتا ہے اور میرے خیال میں حالیہ حملہ ان دعووں کے حق میں ایک ثبوت ہے۔ یہ پہلا ڈرون حملہ بلوچستان میں ایک نئی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘
محمد اکبر نوتیزئی لاہور میں مقیم ایک صحافی اور دی ڈپلومیٹ کے نامہ نگار ہیں۔ انہوں نے ڈیلی ٹائمز، فرائڈے ٹائمز، دی نیشن، ویو پوائنٹ آن لائن اور دی نیوز آن سنڈے سمیت کئی پاکستانی قومی اخبارات اور میگزینوں کیلئے درجنوں مضامین لکھے ہیں۔ ان کی تحریریں اور انٹرویو پاکستان اور چین کے تعلقات، پاکستان کے خارجہ تعلقات، اندرونی سیاست، گوادر پورٹ، اور مذہبی انتہا پسندی پر مرکوز ہیں۔

نیشنلزم ابھر رہی ہے نہ کہ فاشزم



نیشنلزم ابھر رہی ہے نہ کہ فاشزم 
تحریر : جان فریڈمین
یورپ اور امریکہ میں فاشزم میں اضافے کے دعوے اس اصطلاح کی غلط فہمی سے اخذ کردہ ہیں۔
حال ہی میں کئی مضامین اور بیانات کی ایک بڑی تعداد میں یہ زور دیا گیا ہے کہ یورپ میں فاشزم میں اضافہ ہو رہا ہے، اور ڈونالڈ ٹرمپ فاشزم کی ایک امریکی مثال ہیں۔ یہ ایک نہایت حقیقی رجحان کی بابت غلط بیانی ہے۔ قومی ریاست سیاسی زندگی کے بنیادی محرک کے طور پر خود کو دوبارہ منوارہی ہے۔ یورپی یونین جیسے کثیر القومی اداروں اور کثیر الجہتی تجارتی معاہدوں کوچیلنج کیا جا رہا ہے کیونکہ کچھ لوگ انہیں قومی مفاد کے برخلاف سمجھتے ہیں۔ فاشزم میں اضافے کا الزام فاشزم کی اصلیت کے بارے ایک گہری غلط فہمی سے ماخوذ ہے۔ یہ نیشنلزم کے دوبارہ ابھار کو بدنام کرنے اور کثیر القومی نظام، جو کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مغرب میں غالب رہی ہے، کا بھی دفاع کرنے کی ایک کوشش ہے۔
نیشنلزم لبرل جمہوریت کی روشن خیالی کے تصور کی اساس ہے۔ اس میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ان کثیر القومی خاندانوں، جنہوں نے جابرانہ طور پر حکومت کی، نے عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا ہے۔ ان میں قومی خود ارادیت کا حق اور قومی مفاد میں جو بہتر ہے، اس حوالے سے شہریوں کو فیصلہ کرنے کا حق بھی شامل تھیں۔ روشن خیالی کو جبر کا خدشہ تھا اور یورپ پر کثیر القومی سلطنتوں کے غلبے کو وہ جبر کے لب لباب کے طور پر دیکھتا تھا۔ ان کو ختم کرنے سے مراد ان کی جگہ قومی ریاستوں کا قیام تھا۔ امریکی اور فرانسیسی انقلابات دونوں قوم پرستانہ بغاوتیں تھیں، اسی طرح سے وہ بھی قوم پرستانہ بغاوتیں تھیں جو 1848ء میں یورپ بھر میں پھیلیں۔ معنوی اعتبار سے لبرل انقلابات قوم پرستانہ تھیں کیونکہ وہ کثیرالقومی سلطنتوں کے خلاف بغاوتیں تھیں۔
فاشزم دو لحاظ سے قوم پرستی سے بالکل مختلف شے ہے۔ اول، فاشسٹوں کی طرف سے خود ارادیت کو ایک آفاقی حق نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اگر تین واضح فاشسٹوں کا ذکر کیا جائے تو ایڈولف ہٹلر، بینیتو موسولینی اور فرانسسکو فرانکو نے صرف جرمنی، اٹلی اور اسپین کیلئے ہی قوم پرستی کی منظوری دی تھی۔ فاشسٹوں کے پاس دیگر اقوام کیلئے اپنی ایک قومی ریاست کے حقوق انتہائی حد تک غیرواضح رہی ہے۔ ہٹلر اور مسولینی حقیقی معنوں میں کثیرالقوم پرستی پر یقین رکھتے تھے ہر چند کہ اگر دیگر اقوام ان کی مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کرلیتے۔ فاشزم اپنی تاریخی شکل میں قوموں کے ذاتی مفاد کے حصول کے حق پر حملہ تھا اور فاشسٹوں کی طرف سے اس کے حصول کے حق کا ارتفاء اس دعوے کی بنیاد پر تھا کہ ان کی قوموں کو موروثی فوقیت اور حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔
لیکن زیادہ گہرا فرق اندرونی حکمرانی کا تصور تھا۔ لبرل نیشنلزم نے یہ بات قبول کی تھی کہ اقتدار میں رہنے کا حق عوام کی طرف سے رہنماؤں کے واضح اور متواتر انتخاب سے مشروط ہو۔ جس طرح سے اسے عملی جامہ پہنایا گیا وہ ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ امریکی نظام برطانوی نظام سے کافی مختلف ہے لیکن بنیادی اصول ایک ہی رہے ہیں۔ اس میں یہ بھی ضروری تھا کہ منتخب نمائندوں کے مخالفین کو ان کے خلاف بات کرنے اور مستقبل میں ان کو چیلنج کرنے کیلئے جماعتیں منظم کرنے کا حق حاصل ہے۔ سب سے اہم یہ کہ اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان طریق کار کے ذریعے خود عوام کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ امر ضروری ہے کہ عوام کی قیادت کرنے کیلئے منتخب ہونے والے لوگ عوام کے نام پر ان پر حکومت کریں۔ رہنماؤں کو حکومت کرنے کی اجازت ہونا ضروری ہے اور حکومت کو مفلوج کرنے کیلئے کسی بھی طرح کے ماورائے قانون ذرائع استعمال نہیں کیے جاسکتے ماسوائے اس کے کہ حکومت کو اختلاف رائے کو دبانے کا حق حاصل ہے۔
فاشزم میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ہٹلر یا مسولینی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن ان کو جوابدہ نہیں ہیں۔ فاشزم کی بنیاد کسی آمر کا تصور ہوتا ہے جو اپنی ہی منشاء سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔ عوام کو دغا دیے بغیر اس کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، آزادی اظہار اور حزب اختلاف کی جماعتوں پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور وہ لوگ جو حکومت کی مخالفت کرنے کی کوشش کریں ان سے مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ فاشزم، جو ایک آمر کے بغیر ہو، انتخابات کے خاتمے کے بغیر ہو، ایک جگہ جمع ہونے کے حق اور آزادی اظہار کو دبائے بغیر ہو، وہ فاشزم نہیں ہے۔
یہ دلیل دینا کہ یورپی یونین کا حصہ بننا برطانوی مفاد میں نہیں ہے، نیٹو اپنی افادیت کھو چکی ہے، تحفظیت کی پالیسیاں یا تارکین وطن مخالف پالیسیاں فاشسٹ پالیسیاں نہیں ہیں بلکہ ضروری ہیں۔ ان خیالات کا فاشزم سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بجائے اس کے وہ روایتی لبرل جمہوریت سے کہیں زیادہ قریبی طور پر منسلک ہیں۔ وہ لبرل جمہوریت کی بنیاد کے دعویٰ ء نو کی نمائندگی کرتی ہیں، جو ایک خود حکومتی قومی ریاست ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی اساس ہے جس کے ارکان قومی ریاستیں ہیں، اور جہاں قومی خود ارادیت کا حق بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
لبرل جمہوریت اس بات کا تعین نہیں کرتی کہ آیا کسی قوم کو ایک کثیر القومی تنظیم کا رکن ہونا چاہئے، وہ آزاد تجارتی پالیسیاں اپنائے یا تحفظیت کی، وہ تارکین وطن کا استقبال کرے یا انہیں نکال باہر کردے۔ یہ وہ فیصلے ہیں جنہیں لوگوں کی طرف سے کیا جائے، خاص طور پر ان منتخب نمائندوں کی طرف سے جنہیں لوگوں نے اپنی نمائندگی کیلئے چنا ہے۔ وہ فیصلے دانشمندانہ یا غیر دانشمندانہ یا حتیٰ کہ غیرمنصفانہ بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم، ایک لبرل جمہوریت میں ان فیصلوں کو کرنے کی طاقت شہریوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔
جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ کثیر القومی اداروں اور معاہدوں کی منشاء کیخلاف قومی ریاست کی بغاوت ہے۔ یہ یورپی یونین، نیٹو اور تجارتی معاہدوں میں رکنیت کے بارے میں سنگین سوالات ہیں، اور یکساں طور پر سرحدوں کو کنٹرول کرنے کے حق کے بارے میں بھی۔ سمجھدار لوگ اختلاف کر سکتے ہیں، اور یہ ہر قوم کا سیاسی عمل ہے کہ پالیسی میں تبدیلی کے تعین کرنے کی اپنی طاقت کو برقرار رکھے۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ شہری طبقہ دانا ہوگا لیکن اس کے اچھے اور برے اثرات ہوتے ہیں اور یہ ہر سمت میں اثر انداز ہوتے ہیں۔
یورپ میں قوم پرستی کا موجودہ ابھار یورپی اداروں کی مؤثر طریقے سے کام کرنے میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔ 2008ء کے آٹھ سال کے بعد، یورپ نے اب تک اپنے اقتصادی مسائل حل نہیں کیے ہیں۔ یورپ میں پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر آمد کے ایک سال بعد بھی اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے کوئی مربوط اور مؤثر پالیسی نہیں بنی ہے۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے، یہ بات شہریوں اور رہنماؤں کیلئے غیر ذمہ دارانہ ہوگی کہ وہ اس معاملے پر سوالات نہ اٹھائیں کہ آیا یورپی یونین میں رہنا یا اس کے احکامات پر عمل کرنا چاہئے یا نہیں۔ اسی طرح سے ڈونالڈ ٹرمپ کیلئے ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ آزاد تجارت کے ہمیشہ فائدہ مند ہونے کے خیال کو چیلنج نہ کرے، یا نیٹو پر سوال نہ اٹھائے۔ ان کا اسٹائل چاہے جتنا بھی قابل نفرت ہو اور ان کا اظہار چاہے جتنا بھی گمراہ کن ہو، لیکن یہ شخص وہ سوالات کو پوچھ رہا ہے جنہیں پوچھا جانا چاہیے۔
سن 1950 کی دہائی میں، میکارتھیائیٹس نے ہر اس شخص پر الزامات عائد کیے جنکا وہ کمیونسٹوں کیساتھ ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ آج، وہ لوگ جو موجودہ نظام کے چیلنجوں کو قابل اعتراض سمجھتے ہیں انہیں فاشسٹ کہتے ہیں۔ اسوقت یورپی یونین یا امیگریشن کے مخالفین میں سے کچھ واقعی فاشسٹ ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایک فاشسٹ ہونے کیلئے رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں۔ فاشزم نسل پرستی، عدلیہ کیساتھ چھیڑ چھاڑ، یا کوئی پر تشدد مظاہرے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی شے ہے۔ حقیقی فاشزم نازی جرمنی کا ’’اصولِ رہنماء‘‘ تھا جس میں جابر رہنماء کی مکمل اطاعت لازم و ملزوم تھی اور اسکے اختیارات قانون سے بالاتر سمجھے جاتے تھے۔
ہم یورپ اور امریکہ میں قوم پرستی کی واپسی کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ بہت سے لوگوں پر یہ بات واضح نہیں ہے کہ بین الاقوامیت، جسکی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تقلید کی جارہی ہے، اب ان کیلئے فائدہ مند نہیں رہی۔ وہ صحیح یا غلط ہو سکتے ہیں، لیکن یہ دعویٰ کہ یورپ اور امریکہ میں فاشزم پھیل رہی ہے، اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ جو لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں آیا وہ فاشزم کے بنیادی اصولوں یا قوم پرستی اور لبرل جمہوریت کے درمیان قریبی تعلق کو سمجھتے بھی ہیں یا نہیں۔
جارج فریڈمین بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ بین الاقوامی امور کے جغرافیائی سیاسی پیش بین اور اسٹراٹجسٹ ہیں۔ وہ جیو پولیٹیکل فیوچرز کے بانی اور چیئرمین ہیں، یہ ایک نیا آن لائن جریدہ ہے جو عالمی واقعات کی رو سے ان کی وضاحت اور پیشنگوئی کیلئے وقف ہے۔
بشکریہ: جیوپولیٹیکل فیوچرز، 31 مئی 2016