پیر، 11 اگست، 2014

انڈین آفس لائبریری




تحریر : عاشق بٹالوی 

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ انڈیا آفس لائبریری کب اور کیوں کر وجود میں آئی تھی اور اسے موجود ہ حالت تک پہنچنے میں کن کن مرحلوں سے گزرنا پڑا۔اس لائبریری کا تخیل پہلے پہل ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ملازم رابرٹ اوم کے ذہن میں پیدا ہوا تھا۔اوم عرصہ دراز تک ہندوستان میں رہ چکا تھا اور اس نے دیکھا کہ مغلیہ حکومت کے زوال کی وجہ سے ہندوستان میں جو طوائف الملو کی بر پا تھی،اُس نے سب سے زیادہ علم وادب کو نقصان پہنچایا تھا۔شاہان وقت کی سر پرستی اُٹھ جانے سے فارسی اور عربی کی نئی کتابوں کی اشاعت بے حد محدود ہو گئی تھی۔اُدھر آئے دن کی خانہ جنگی سے اُمراواکابر کے کتب خانے بھی لُٹتے جا رہے تھے۔ان حالات سے فائدہ اُٹھا کر کمپنی کے اکثر ملازم ،بڑی نایاب کتابیں کوڑیوں کے مول خرید کر انگلستان لے آتے تھے۔لیکن یہاں بھی چونکہ اُن کا کوئی قدردان نہیں تھا،اس لیے آہستہ آہستہ یہ ادبی نوادر ہندوستان اور انگلستان دونوں جگہ ختم ہوتے جا رہے تھے۔

اوم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائر کٹروں کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ کمپنی کے مرکزی دفتر واقع لیڈن ہال سٹریٹ میں دوکمرے اِس قسم کی کتابوں کے لیے مخصوص کر دئیے جائیں ،تاکہ عربی ،فارسی اور سنسکرت کی وہ کتابیں جو کمپنی کے ملازم یہاں لا کر بے احتیاطی سے ضائع کر دیتے ہیں،ایک جگہ محفوظ ہو سکیں،یہ تجویز مئی 1798ء میں پیش ہوئی ۔ چارلس ولکنزنے لائبریرین کی حیثیت سے اپنی خدمات ڈائرکٹروں کے سامنے پیش کردیں۔ولکنز کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے مدت تک بنگال میں رہ چکا تھا اور بنگالی، فارسی اور سنسکرت تینوں زبانوں میں اچھی خاصی مہارت رکھتا تھا۔1785ء میں اُس نے گور نر جنرل وارن ہیسٹنگز کے ایماپر بھگوت گیتا کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔چارلس ولکنز کی ذہانت اور کوشش سے بنگلہ،ناگری اور فارسی حروف کے ٹائپ بھی تیار ہو گئے تھے۔چنانچہ اٹھارھویں صدی کے رُبع آخر میں بنگال میں ان تینوں زبانوں کی کتابیں ٹائپ میں چھپنا شروع ہو گئی تھیں۔


ولکنز نے اوم کی ابتدائی تجویز پر بہت کچھ اضافہ کر کے لائبریری کا گویا بالکل نیا خاکہ ڈائرکٹروں کے پا س بھیجا تھا۔اس خا کے میں ،مجوزہ کتب خانے کے علاوہ ایک میوزیم کانقشہ بھی درج تھا ،جس کے تین حصیّ تجویز کئے گئے تھے پہلے حصے میں ہندوستان کے تمام حیوانات ،نباتات اور معدنیات کے نمونے رکھے جائیں گے۔دوسرے حصّے میں ہر قسم کی مصنوعات ہوں گی۔اور تیسرے حصے میں عہد عتیق کے تاریخی نو ادر جمع کئے جائیں گے۔


آخر کار1801ء میں وارن ہیسٹنگز کی سفارش پر کمپنی کے ڈائرکٹروں نے چارلس ولکنز کو دو سو پونڈ سالانہ تنخواہ دے کر لائبریرین مقرر کر دیا۔لائبریری کا نام اورنٹیل ریپاز یٹری تجویز کیا گیا۔اور اُ س کی روز بروز کارروائی کی مکمل روئداد ڈے بک کے نام سے اس وقت بھی محفوظ ہے جس کے مطالعہ سے اس لائبریری کے تاریخی ارتقاء کی پُوری تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔


کتابوں میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو نے لگا لیکن سب سے بڑی دقت یہ تھی کہ ہندوستان میں کمپنی کے حکام نے اسی قسم کے دو ادارے قائم کر رکھے تھے جو اورنٹیل ریپازیٹری کے سب سے بڑے حریف تھے۔ایک ایشیاٹک سو سائٹی بنگال اور دوسرا فورٹ ولیم کالج کلکتہ ۔ہندوستان کے مختلف حصّوں سے جتنی اچھی کتابیں ملتیں وہ لندن پہنچنے کی بجائے ان دونوں اداروں کی لائبریری میں چلی جاتیں تھیں۔کمپنی کے ڈائرکٹروں نے اِس نقصان کو محسوس کر کے5جون1805ء کو گورنر جنرل کے نام ایک خط لکھا کہ آئندہ تمام اچھی کتابیں مسودے پر انے سکے اور فنون لطیفہ کے نمونے کلکتہ میں رکھ لیے جانے کی بجائے لندن بھیجے جائیں۔اسی خط میں گورنر جنرل سے پوچھا گیا کہ سرنگاپٹم کی فتح کے بعد ٹیپو سلطان کا جو کتب خانہ ہاتھ آیا تھا،وہ اب تک لندن کیوں نہیں بھیجا گیا۔


لائبریری کی ڈے بک کا مطالعہ کیا جائے تو اس قسم کے اکثر اندراجات نظر آتے ہیں کہ آج فلاں شخص نے ہاتھی کا ایک سر پیش کیا۔آج فلاں شخص نے ہندوستان کے چند قدیم سکے پیش کئے۔آج فلاں شخص نے ہندودیوتا کا ایک سنگین مجسمہ پیش کیا چونکہ کتب خانے اور میوزیم کی عمارت ایک تھی،اس لیے جو کچھ دستیاب ہوتا ،اسی عمارت میں محفوظ کر لیا جاتا تھا۔تاہم لائبریری کے قیام کے بعد ،پہلے ہی سال میں جو قابل ذکر ذخیرہ کتب ہاتھ آیا ،وہ رابرٹ اوم کا ترکہ تھا جو مرتے وقت اُس نے اس لائبریری کو وصیت کیا تھا۔1804ء میں نووومب ول اور جان نیلر نے فارسی مخطوطات کا ایک ذخیرہ پیش کیا۔اسی سال کے آخر میں ڈیوڈلارنس نے چینی زبان کی بہت سی کتابیں پیش کیں آہستہ آہستہ ہندوستان کے علاوہ بغداد،استنبول اور بخارا تک سے عربی اور فارسی کے قلمی مسودے آنا شروع ہو گئے۔


لائبریری کے بارے میں کمپنی کارویہ کچھ اس قسم کا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو کتابیں مفت مہیا کی جائیں۔قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔چنانچہ لوگ جو کچھ عطا کرتے تھے محض اپنی خوشی سے دیتے تھے۔1807ء میں اس قاعدے میں تبدیلی کی گئی اور فیصلہ ہوا کہ اگر اچھی کتابوں کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے تو بخل نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ اس نئے قاعدے کے تحت جو قابل ذکر ذخائر حاصل کئے گئے،اُن میں رچرڈ جانسن کا کتب خانہ تھا ،جس کا معاوضہ تین ہزار گنی دیا گیا۔1809ء میںآٹھ سو پونڈ میں وارن ہیسٹنگز سے اور1824ء میں پانچ سو پونڈ کے بدلے میں لیڈن کی کتابیں خریدی گئیں۔


رچرڈ جانسن تقریباً تیس سال کمپنی کی ملازمت میں کام کر چکا تھا ۔1770ء میں وہ کلرک بھرتی ہو کر کلکتہ گیا تھا،پھر ترقی کرتے کرتے نظام حیدر آباد دربار میں ریذیڈنٹ کے عہدے تک پہنچ گیا تھا ۔جب واپس انگلستان آیا تو اس کے پاس فارسی اور عربی کی گیارہ سو کے قریب نہایت بیش قیمت کتابیں تھیں اور تیرہ سو کے لگ بھگ مصوری نقاشی کے گراں قدر نمونے بھی تھے۔وطن پہنچ کر جانسن کی صحت یکایک خراب ہو گئی اور بعض خانگی مصائب نے اُس کی مالی حالت کو بھی سخت مخدوش کر دیا۔مجبوری کے عالم میں اُس نے کتابوں اور تصویروں کا یہ سارا ذخیرہ لائبریری کے پاس فروخت کر دیا۔نقادوں کی رائے ہے کہ ذخیرہ تین ہزار گنی سے زیادہ مالیت کا تھا۔وارن ہیسٹنگز نے جو کتابیں فروخت کیں، ان کا بیشتر حصّہ فارسی شعرأ کے دواوین پر مشتمل تھا۔جن کی جلدیں بڑی مطلاومذہب تھیں۔ 


جان لیڈن پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا۔لیکن زبان دانی کے اعتبار سے ایک حیرت انگیز شخص تھا۔1803ء میں،جب اُس کی عمر اٹھائیس سال تھی۔اُس کا تقرر مدراس میں ہوا ہندوستان جانے سے پہلے اُس نے یورپ کی تمام زبانوں میں مہارت پیدا کرنے کے علاوہ عربی اور فارسی بھی سیکھ لی تھیں۔ جنوبی ہند کے قیا م نے اس کو تلگواور ملیام سے بھی آشنا کر دیا تھا۔1806ء میں اُسے فورٹ ولیم کالج میں ہندوستانی یعنی اُردو پڑھانے پر مامور کیا گیا۔وہیں اُس نے سنسکرت اور فارسی کے بہت سے انگریزی تراجم کئے ۔کلکتہ سے وہ جاوا اور سماٹرا کے دور ے پر چلا گیا ،جہاں اُس نے جاوی زبان بھی سیکھ لی جیسے وہ بڑی روانی سے بولنے اور لکھنے لگا تھا۔جان لیڈن کی زندگی اگر وفا کرتی تو کمالات زباندانی کی بنا پر وہ اُس دور کے مستشرقین میں غالباً سب سے نمایاں مقام حاصل کر لیتا۔لیکن افسوس کہ عین عالم شباب میں جب کہ اُس کی عمر صرف چھتیس سال تھی،یکایک اُس کا انتقال ہو گیا ۔انڈیا آفس لائبریری نے پانچ سو پونڈ ادا کر کے اُس کی کتابیں خریدلیں۔


سنہ 1876ء میں لائبریری نے سرولیم جونز کی عربی فارسی اور سنسکرت کی کتابوں کا ذخیرہ ایشیاٹک سوسائٹی سے حاصل کیا۔ ولیم جو نز کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ چالیس مختلف زبانیں جانتا تھا،جن میں تیرہ زبانوں پر تو اسے اُستاد انہ عبور تھا ۔اور ستائیس زبانوں میں وہ نوشت وخواند کا کام کر سکتا تھا۔ پینتیس سال کی عمر میں اُس نے سبعہ معلقہ کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔جونز ،1783ء سے1794ء تک کلکتہ ہائی کورٹ کا جج رہا۔یہیں اُس نے ایشیاٹک سوسائٹی قائم کی ۔سنسکرت میں جونز کو ایسا کمال حاصل تھا کہ اُس دور کے بڑے بڑے پنڈت اُس سے استفادہ کرنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے تھے۔کالید اس کے بیشتر ڈراموں اور وید مقدس کے بعض حصوں کو جونز نے انگریزی میں منتقل کیا تھا۔مسلمانوں کے قانون وراثت اور ہندوؤں کے دھرم شاستر پر سب سے پہلے ولیم جونز نے دوبڑی بیش قیمت کتابیں تصنیف کی تھیں۔1794ء میں اس کا سینتالیس سال کی عمر میں کلکتہ ہی میں انتقال ہوا


لائبریرین چار لس دلکنز کے اختیارات کا حلقہ اب خاصا وسیع ہو گیا تھا ہرٹ فورڈ کالج کا وزیٹر اور ممتحن ہونے کے علاوہ کمپنی کے ہندوستانی رجسٹرارکا دفتر بھی اُس کے تحت کر دیا گیا تھا۔اس کے علاوہ کمپنی کے وقائع نگار کا عہدہ بھی اُس کے سپرد ہو گیا تھا۔لائبریری کے سٹاف میں بھی تین نئی اسامیاں پیدا کی گئی تھیں۔اور پورے سٹاف کانگراں ولکنز ہی تھا۔ چنانچہ اس کی سالانہ تنخواہ بڑھتے بڑھتے اب سات سوپونڈ تک پہنچ گئی تھی۔


سنہ1809میں مہاراجہ بڑودہ نے فارسی اور سنسکرت کی کتابوں کی خاصی تعدادلائبریری کو نذر کی۔1819ء میں ہنری کول بروک نے سنسکرت کی دو ہزار کتابوں کا گراں بہا ہدیہ لائبریری کو پیش کیا جہاں تک لائبریری کے حصہّ سنسکرت کا تعلق ہے کول بروک کے اس عطیہ کو گویا لائبریری کا پشتیبان تصور کرنا چاہے۔


ہنری کول بروک کا باپ جارج کول بروک ،ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائرکٹروں کے بورڈ کا صدر تھا ۔ہنری1782ء میں کمپنی کی ملازمت اختیار کر کے ہندوستان چلا گیا۔اکاؤنٹنٹ اور اسسٹنٹ کلکٹر کے ابتدائی عہدوں سے ترقی کرتے کرتے ،وہ جج اور سفیر کے منصب پر پہنچ گیا اور آخر کار1800ء میں اسے گورنر جنرل کی ایگزیکٹو کونسل کارُکن مقرر کیا گیا ،جس سے بڑا سرکاری اعزاز اُس زمانے میں کوئی نہیں تھا۔اسی دوران میں لارڈویلز لی کی درخواست پر ہنری کول بروک نے کچھ مدت فورٹ ولیم کالج میں درس وتدریس کا کام بھی کیا۔ہندوستان پہنچ کر کول بروک نے سنسکرت کی تحصیل میں بڑی محنت کی تھی چنانچہ1794ء تک اُسے سنسکرت میں فضیلت کا مرتبہ حاصل ہو گیا تھا ۔گورنر جنرل کے حکم سے،ایک برہمن، پنڈت جگن ناتھ نے مسلسل پندرہ سال کی محنت سے ہندودھرم شاستر کو جدید طرز پر مرتب کیا تھا،اب اس عظیم الشان کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کا کام کول بروک کے سپرو ہوا،جیسے اُس نے بڑی خوش اسلوبی اور محنت شاقہ سے انجام دیا۔


کول بروک کو ویدوں پر فاضلانہ عبور تھا اور ان صحائف کے ایک ایک لفظ کا اس نے بغور مطالعہ کیا تھا۔چنانچہ سنسکرت کے نفادوں اور ہندودھرم کے عالموں کی رائے ہے کہ کول بروک نے ویدوں پر جو تنقید لکھی تھی وہ اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔سنسکرت کے علاوہ کول بروک کوریاضی،علم ہےئت ،علم النباتات علم الحیوانات اور معدنیات میں بھی فضیلت کا مرتبہ حاصل تھا۔ہندوستان میں بتیس سال ملازمت کرنے کے بعد وہ1815ء میں واپس انگلستان آگیا اور یہان پہنچ کر اُس نے سنسکرت کی تمام کتابیں جن کی تعداد دوہزار کے قریب تھی انڈیا آفس لائبریری کو مفت نذرکردیں۔لائبریری کے کارپردازوں نے اظہارِ تشکر کے طور پر کول بروک کا ایک مرمریں مجسمہ لائبریری کے برآمد ے میں نصب کیا جو آج تک وہاں موجود ہے۔


سنہ1870ء میں آرتھربرنل نے سنسکرت کی ساڑھے تین سو کتابیں لائبریری کو مفت نذرکیں اور برنل کے انتقال پر اُس کو بقیہ ساڑھے تین سو کتابیں لائبریری نے قیمت ادا کر کے خرید لیں۔ آرتھر برنل 1860ء میں جب کہ اُس کی عمر بمشکل بیس سال تھی،انڈین سول سروس میں بھرتی ہو کر ہندو ستان چلا گیا تھا اُس کی ملازمت کاپورا دور جنوبی ہند میں بسر ہوا ۔جہاں اُس نے محنت شاقہ اور زرکثیر خرچ کر کے سنسکرت کے بڑے نایاب نسخے حاصل کئے ۔سنسکرت کے علاوہ برنل کو عربی فارسی، تامل ،اُردو اور جاوی پر بھی پورا عبور حاصل تھا لیکن اُس کی علمی کاوشوں کا بیشتر حصہ سنسکرت پر صرف ہوا۔1878ء میں اُس نے حکومت مدراس کی درخواست پر مہاراجہ تبخور کے کتب خانے کے تمام مخطوطات کو ترتیب وارمرتب کر کے اُن کی ایک نہایت جامع فہرست تیار کی تھی۔ تنہا یہی کارنامہ برنل کے نام کوحیات جا وداں بخشنے کے لیے کافی ہے۔اس کے علاوہ اُس نے منو کے دھرم شاستر اور ہندوؤں کے قانونِ وراثت پر بھی کتابیں لکھیں۔1882ء میں بیالیس سال کی عمر میں اُس کا انتقال ہو گیا۔

سنہ 1896ء میں ایک جرمن فاضل بوہلر نے سنسکرت کی321کتابیں لائبریری کی نذرکیں۔بوہلر سنسکرت کا بہت بڑا عالم تھا،جسے اُس نے پیرس ،لندن اور آکسفورڈ میں مسلسل کئی سال مقیم رہ کر،طالب علمانہ حیثیت سے سیکھا تھا ابتدا میں اُس کا تقرربمبئی کے الفنسٹن کالج میں سنسکرت پڑھانے پر ہوا تھا لیکن بعد کو اُس کی خدمات حکومتِ ہند نے حاصل کر لی تھیں، عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بوہلر کی کوشش سے سنسکرت کے پانچ ہزار مسودے حکومتِ ہند کو میسر آئے۔ہندوستان میں اپنی ملازمت کی معینہ میعاد ختم کر کے بوہلر کو ویانایونیورسٹی میں ہندوستانی زبانیں پڑھانے کا کام مل گیا تھا۔ وہیں1899ء میں اس کا انتقال ہوا۔


مخطوطات ومسودات کا ایک اور نادر مجموعہ ،سرآرل سٹامین کے توسل سے لائبریری کو حاصل ہوا تھا۔سر آرل سٹائین،وطنیت کے اعتبار سے ہنگری کے باشندے تھے۔ لیکن بعد کو انھوں نے برطانوی قومیت اختیار کر لی تھی۔اُن کا تقرر پہلے پہل لاہور میں اورنٹیل کالج کے پرنسپل کے عہدے پر ہوا تھا جہاں وہ 1888سے 1899ء تک پرنسپلی کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ لاہور ہی میں ان کے تعلقات سرٹامس آرنلڈ، پروفیسر پیایس ایلن،سر ایڈ ورڈڈگلس مکلیگن اور ہنری اینڈ ریوز سے استوار ہوئے جنھوں نے آگے چل کر مدت العمر کی دوستی کی صورت اختیار کر لی تھی۔پیایس ایلن گورنمنٹ کالج میں پڑھاتے تھے۔ہنری اینڈ ریوز آرٹ سکول کے پرنسپل تھے اور ڈگلس مکلیگن سول سروس کے اہلکار تھے۔


آرل سٹائین طبعاً ایک صحرا نورد اور جہاں گرد قسم کے انسان تھے۔چنانچہ اُنھوں نے اپنی صحرا نور دی کے لیے وسط ایشیا کو منتخب کیا۔جہاں اُنھوں نے ایک بار نہیں بلکہ تین بار ہزاروں میل کا سفر پیدل کیا تھا۔اُنہی صحرا نوردیوں کے دوران میں اُنھوں نے قدیم تبتی اور چینی زبانوں کے بے شمار مسود ے حاصل کیے جو لکڑی کے تختوں اور پتھر کی سلوں کے علاوہ درختوں کی چھال اور پتوں پر مر قوم تھے سرآرل سٹائین نے یہ تمام مسودے انڈیا آفس لائبریری کو مفت پیش کر دئیے تھے۔


برائن ہا جسن نے دوہزار کے لگ بھگ قلمی مسودے انڈیا آفس لائبریری کو نذر کئے۔ان میں چار سو کے قریب مسودے سنسکرت کے تھے اور باقی نیپالی زبان کے۔ ہا جسن اٹھارہ سال کی عمر میں بھرتی ہو کر کلکتہ چلا گیا تھا۔جہاں اُس نے فورٹ ولیم کالج میں داخل ہو کر فارسی کی تحصیل کی ۔پھر اُس کا تقرر اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے کمایوں کے علاقے میں ہوا۔ وہیں سے اس کا تبادلہ نیپال ہو گیا۔نیپال پرانگریزوں کا قبضہ بالکل تازہ تھا ۔اور ہنوز اُن کے پاؤں اچھی طرح جمے نہیں تھے۔ہاجسن نے بہت جلد گورکھوں کی عسکری صلاحیت کو محسوس کر لیا تھا ۔چنانچہ اُسی کی سفارش پر ہندوستانی فوج میں گور کھوں کی بھرتی شروع کی گئی تھی۔ہاجسن ،لارڈ مکالے کی اس تجویز کا سخت مخالف تھا کہ ہندوستان میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم قرار دیا جائے اُس نے ہندوستان کی مقامی زبانوں کی حمایت میں بار بار آواز بلند کی۔لیکن لارڈ مکالے کی زبردست شخصیت کے سامنے اُس کی پیش نہ جا سکی۔


سنہ1820ء سے1843ء تک مسلسل تئیس سال ہاجسن نیپال میں رہا اور آخرمستعفی ہو کر واپس انگلستان آگیا۔لیکن سال بھر بعد،وہ پھر ہندوستان چلا گیا اور اب اُس نے نجی طور پر ایک عام باشندے کی حیثیت سے دارجیلنگ میں قیام کیا جہاں آئندہ تیرہ سال تک وہ تحقیق تفتیش کے کام میں مصروف رہا۔ نیپال کی سیاسی ،ادبی ،معاشرتی اور زرعی واقتصادی زندگی کے جملہ پہلوؤں پر جتنی کتابیں ہاجسن نے جمع کیں اور کوئی شخص نہیں کر سکا۔یہ سارا ذخیرہ اُس نے انڈیا آفس لائبریری کو مفت پیش کر دیا ۔مئی1894 میں ہاجسن کا لندن ہی میں انتقال ہوا۔سر ڈینی سن راس نے بھی تبت پر بہت سی قلمی کتابیں جمع کی تھیں جو 1907ء میں لائبریری نے حاصل کر لی تھیں۔


کالن میکنزی کا ذخیرۂ کُتب بھی انڈیا آفس لائبریری نے خرید لیا تھا۔میکنزی کا انتقال1821ء میں کلکتہ میں ہوا تھا ۔تیس سال کے قریب اُس نے ہندوستان میں بسر کئے تھے۔پانڈی چری کے محاصر ے اور سرنگاپٹم کی فتح کے وقت وہ برطانوی فوج میں شامل تھا۔ جاوا اور لنکا کو جو برطانوی مہمیں بھیجی گئی تھیں۔اُن میں بھی میکنزی کی موجودگی ثابت ہوتی ہے۔اُس نے سرکاری طور پر جنوبی ہندوستان کے تمام علاقوں کا سروے کیا تھا اور اسی سلسلہ میں اُسے جنوبی ہند کے ایک ایک گوشے سے واقفیت ہو گئی تھی۔موت سے پہلے میکنزی کو پورے ہندوستان کا سروئیر جنرل بنا دیا گیا تھا۔عربی فارسی اور سنسکرت کی تمام کتابیں ،جن کی تعداد دو ہزار سے کم نہ تھی،میکنزی کی وفات کے بعد اُس کی بیوہ نے لارڈ ہیسٹنگز کے پاس فروخت کر دی تھیں۔اور وہاں سے ذخیرہ انڈیا آفس لائبریری میں پہنچا ۔کتابوں کے علاوہ پُرانے سکے سنگ تراشی کے مجسمے اور نقاشی کے نمونے بھی میکنزی کے پاس جمع تھے وہ بھی لندن آگئے۔


سر فلپ فرانس کا ذخیرہ کتب بھی لائبریری نے خریدا۔ اس ذخیرے میں سب سے بیش قیمت چیز سر فلپ کی دستاویزات، رپورٹیں، شہادتیں،بیانات اور مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین ہیں،جو پچاس جلدوں بند ہیں۔سر فلپ فرانس اور ہندوستان کے گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز کی باہمی نزاع پر،ان جلدوں کے مطالعہ سے نئی روشنی پڑتی ہے۔


سنہ1825میں انڈیا آفس لائبریری نے فرانسس بکانن کی کتابوں کا مجموعہ بھی خرید لیا۔بکانن1783ء سے 1815تک ہندوستان میں مقیم رہا تھا ابتدا میں وہ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت میں شامل ہوا تھا۔بعد کو اُسے میسورا اور مالا بار کی تاریخی ،تمدنی اور زرعی تحقیقات کرنے پر مامور کیا گیا تھا۔کچھ عرصہ اُس نے نیپال میں بھی بسر کیا تھا۔پھر اُسے حلقہ بنگال کی نباتات پر تحقیق کرنے کا کام دے دیا گیا تھا۔اور ملازمت کے آخر ی دو برسوں میں وہ کلکتہ کے بوٹا نیکل گارڈن کا مہتمم مقرر ہو گیا تھا۔1799 ء جب سر نگاپٹم پرانگریزوں کا قبضہ ہوا ،تو ٹیپو سلطان کا کتب خانہ بھی انگریزی فوج کے ہاتھ آیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس کتب خانے میں عربی،فارسی ترکی ،دکنی وغیرہ مختلف زبانوں کے دوہزار نسخے تھے۔یہ کتب خانہ مسلسل کئی سال تک فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں پڑا رہا ۔ پھر ایشیاٹک لائبریری سے ہوتا ہوا 1838ء میں یہ کتب خانہ انڈیا آفس لائبریری میں منتقل کر دیا گیا تھا۔


سنہ1857ء کے ہنگامے کے بعد جب دہلی کے لال قلعہ پر انگریزوں نے قبضہ کیا تو شاہان مغلیہ کی عظمت رفتہ کے ساتھ اُن کا لٹا پٹا کتب خانہ بھی انگریزوں کے ہاتھ آیا،شاہجہاں کے وقت میں اس کتب خانے میں چوبیس ہزار نسخے تھے۔اٹلی کے مشہور سیاح سیبتسین منریکے نے شاہجہاں کے عہد میں ہندوستان کا سفر کیا تھا۔ اُ س کے سفر نامے کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔وہ لکھتا ہے کہ ان چوبیس ہزار کتابوں کی جلدوں پر اس کثرت سے سونا چاندی منڈھا ہوا ہے کہ محض جلدوں کی مجموعی قیمت کا اندازہ کیا جائے تو یہ رقم چونسٹھ لاکھ تریسٹھ ہزار ،سات سو اکتیس روپے تک پہنچ جاتی ہے۔

بہادر شاہ ظفر کے وقت اس حیرت انگیز کتب خانے کا بمشکل ایک چوتھائی حصہ باقی رہ گیا تھا۔اور اس چوتھائی حصّے میں بھی شاہجہاں کے عہد کی کتابوں کا عنصر ۵؍۱ سے زیادہ نہ تھا۔سونے چاندی کی جلدیں ،تخت طاؤس اور خزانہ شاہی کی طرح،ایرانیوں ابدالیوں،رہیلوں اور مرہٹوں کی ترکتازیوں کا شکار ہو چکی تھیں۔تاہم1857ء میں لال قلعہ کا جو بچاکھچا کتب خانہ انگریزوں کے ہاتھ آیا،اُس میں صرف تین ہزار چھ سو نسخے موجود تھے۔جن میں عربی کی1950،فارسی کی550۱اور اُردو کی صرف ایک سو کتابیں تھیں۔یہ مجموعہ1865 ء میں انڈیا آفس لائبریری میں شامل کیا گیا۔

اسی طرح جب برماپرانگریزوں کا قبضہ ہواتو برمی بادشاہ کا کتب خانہ بھی پہلے کلکتہ منتقل کیا گیا دو سال وہاں پڑا رہا۔پھر اُسے انڈیا آفس لائبریری میں شامل کر دیا گیا تھا۔میں نے اُوپر صرف چند ذخائر کا ذکر کیا ہے۔جو وقتاً فوقتاً انڈیا آفس لائبریری کی نذر ہوتے رہے ۔بعض مفت حاصل ہو ئے اور بعض کی قیمت ادا کی گئی۔اگر اسی طرح تمام ذخیروں کی تفصیل بیان کی جائے تو یہ داستان بہت طویل ہو جائے گی ۔انفرادی طور پر ،انگریز حکام نے لائبریری کو جو کچھ عطا کیا۔اُس کی تفصیل کے لیے بھی ایک دفتر درکار ہے۔انڈین سول سروس اور فوج کے انگریز افسرپنشن لینے کے بعد جب واپس انگلستان آتے تو اپنے مسودے ،یا وداشتیں ،خطوط اور قلم بند کئے ہوئے سیاسی و غیر سیاسی تاثرات بھی لائبریری کو نذر کر دیتے تھے۔ ان چیزوں کے مطالعہ سے ہماری معلو مات میں اُتنا ہی اضافہ ہوتا ہے جتنا مطبوعہ تصانیف دیکھنے سے۔


اسی سلسلہ میں گزشتہ چند مہینوں میں لائبریری کو جو کچھ ملا ہے۔اس میں اٹھارھویں صدی کے مسودات کا ایک مجموعہ ہے جسے لارڈ اومتھ ویٹ نے لائبریری کے حوالے کیا ہے۔اس مجموعہ میں کلایو کے بہت سے خطوط بھی موجود ہیں۔ لارڈنارتھ بروک نے اپنے جدا علیٰ کے تمام کاغذات لائبریری میں جمع کر دئیے ہیں۔لارڈنارتھ بروک اول ۱۸۷۲ء سے ۱۸۷۶ء تک ہندوستان کے وائسر ائے تھے لارڈ ہیلی 1898ء سے1933ء تک انڈین سول سروس میں منسلک رہے اور اس اثنا میں وہ چار سال تک پنجاب کے گورنر بھی تھے۔اُنھوں نے بھی اپنے تمام کاغذات لائبریری کے حوالے کر دئیے ہیں۔


مئی 1836ء میں چارلس ولکنز کا انتقال ہو گیااور لائبریرین کا عہدہ خالی ہو ا۔ چارلس ولکنز نے نہایت جانفشانی سے پینتیس سال تک لائبریری کی خدمت کی تھی۔وہ خود بھی عربی ،فارسی اور سنسکرت کا ایک منجھاہوا عالم تھا ۔مرنے سے تین سال پہلے اُسے نائٹ ہڈ کا اعزاز عطا ہوا تھا۔آکسفورڈ یونیورسٹی نے اُسے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی عطا کی تھی۔1878ء میں اُسے رائل سو سائٹی کا فیلو منتخب کیا گیا تھا۔ فرانس نے بھی اُسے اپنی انسٹی یٹوٹ کا ممبر مقرر کیا تھا۔ولکنز کی بیوہ نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد عربی،فارسی اور سنسکرت کی تمام کتابیں انڈیا آفس لائبریری کو نذر کر دیں


چارلس ولکنز کے بعدپروفیسرہاریس ولسن کو لائبریرین مقرر کیا گیا۔ولسن پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھااور ایک ڈاکٹر ہی کی حیثیت سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم ہو کر ہندوستان گیا تھا۔وہیں اس نے اردو فارسی اور سنسکرت میں مہارت پیدا کی تھی۔ کالی داس کے دوڈراموں کو ازسرِ نوایڈٹ کر کے اُس نے شائع کیا۔اور1819ء میں اُس نے انگریزی اور سنسکرت کی لُغت مرتب کی،جسے اس کی زندگی کا ایک عظیم الشان کارنامہ سمجھنا چاہےۂ اور جب تک کہ 1875ء میں جرمنی سے لغت شائع نہیں ہوئی تھی۔پروفیسر ولسن کی یہ لغت اپنی نوعیت کی بہترین تالیف تسلیم کی جاتی تھی۔انڈیا آفس لائبریری کے تقرر سے پہلے ہاریس ولسن آکسفرڈ یونیورسٹی میں سنسکرت کا پروفیسر تھا۔ولسن کے زمانے میں لائبریری کی کتابوں میں قابلِ قدر اضافہ ہوا اس کے علاوہ ایک ضروری تبدیلی یہ بھی ہوئی کہ میوزیم ،جو ابتدائے کار میں لائبریری کا ایک حصہ تھا اب پھیلتے پھیلتے اور بڑھتے بڑھتے اتناوسیع ہو گیا تھا کہ اُس کی نگرانی اور دیکھ بھال کے لیے ایک الگ آدمی رکھنا پڑا۔

سنہ1857ء میں جب ہندوستان میں غدر برپاہوا تو لائبریری کا انچارچ ہاریس ولسن ہی تھا۔غدر کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور دورہ ختم ہوا۔تو ہندوستان کی حکومت بھی براہِ راست پارلیمنٹ کے قبضے میں چلی گئی۔اب لائبریری کو لیڈن ہال سٹریٹ کی عمارت سے ہٹا کر کنین روکے ایک مکان میں منتقل کر دیا گیااور میوزیم کو لائبریری سے ہمیشہ کے لیے علیحدہ کر دیا گیا۔یہ لائبریری،جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا جا چکا ہے اورینٹل ریپازیٹری کہلاتی تھی۔لیکن جب غدر کے بعد ہندوستان کے نظم ونسق کی نگرانی کے لیے لندن میں ایک الگ سر کاری دفتر انڈیا آفس کے نام سے کھولا گیا ،تو لائبریری بھی اُس دفتر کا ایک جزو قرار پائی۔اور آئندہ اس کا نام انڈیا آفس لائبریری تجویز کیا گیا۔انڈیا آفس کے دیگر شعبوں کی طرح یہ لائبریری بھی وزیر ہند کے تحت تھی۔


سنہ1869ء میں پروفیسر ہارلیس ولسن کا انتقال ہوا تو ڈاکٹر جیمزبیلسنٹائن کو لائبریرین مقرر کیا گیا ،جو اس سے قبل پندرہ سال تک گورنمنٹ سنسکرت کالج بنارس کے پرنسپل رہ چکے تھے۔اور اُن کا نام ہندوستان کے گوشے گوشے میں پہنچ گیا تھا۔موصوف نے بنارس کالج کی ترقی وتنظیم کے لیے جتنی کوششیں کیں اُن کے نتائج آج ہندویونیورسٹی کی صورت میں نظر آرہے ہیں۔ ڈاکٹر بیلسنٹائن، سنسکرت ،فارسی اور اُردو کے عالم تھے۔بالخصوص سنسکرت سے اُنھیں بے حد شغف تھا۔اُنھوں نے ایک طرف سنسکرت کی کتابوں کے انگریزی تراجم کر کے اہل انگلستان کو ہندو تہذیب اور ہندو دھرم سے آشنا کیااور دُوسری طرف مغربی سائنس اور فلسفہ کو سنسکرت میں منتقل کر کے ہندوؤں کو یورپ کی موجودہ علمی ترقی سے بھی روشناس ہونے کا موقع دیا۔ موصوف اُردو،فارسی اور سنسکرت کی کم سے کم سولہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ڈاکٹر بیلنسٹائن کی صحت خراب تھی۔اس لیے صرف یہ چار سال انڈیا آفس لائبریری میں کام کر سکے۔فروری 1864ء میں اُن کا انتقال ہو گیا تو نئے آدمی کی تلاش شروع ہوئی۔بالاآخر پروفیسر فٹز ڑور ڈہال کا انتخاب عمل میں آیا ۔جو ہارور ڈیونیورسٹی(امریکہ) کے تعلیم یافتہ اور اُردو فارسی اور سنسکرت سے بخوبی آشنا تھے۔1869ء تک اُنھوں نے لائبریرین کے عہدے پر کام کیا۔


ڈاکٹر بیل بنارس کالج کے علاوہ لندن کے کنگز کالج میں بھی اُردو اور سنسکرت پڑھاتے رہے تھے۔سول سروس کے امتحان میں وہ ہندی ،اُردو اور سنسکرت کے ممتحن بھی تھے۔ڈاکٹر بال کے بعد ڈاکٹر رائن ہو لڈروسٹ لائبریرین مقرر ہوئے۔قومیت کے اعتبار سے ڈاکٹر روسٹ جرمن تھے۔اور اُن کی تعلیم وتربیت بھی تمام تر جرمنی میں ہوئی تھی شروع میں وہ جرمن زبان کے معلم کی حیثیت سے انگلستان آئے تھے اور کنٹربری میں اُن کا تقرر ہوا تھا۔جن میں عربی ،فارسی ،سنسکرت ،اُردو ہندی تامل، تلگو،کے علاوہ افریقی ،جاوی،بتتی اور چینی زبانیں بھی شامل تھیں۔کہا جاتا ہے کہ ایک ہمہ گیر زبان دان کی حیثیت سے صرف سر ولیم جونز کو اُن پر فوقیت دی جا سکتی ہے۔


ڈاکٹر روسٹ بہت سی کتابوں کے مصنف ،مولف اور مترجم ہیں۔لیکن اُن کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے مسلسل چونتیس سال انڈیا آفس لائبریری میں محنت سے کام کیا۔جس کے گہرے نقوش آج بھی لائبریری کے درودیوار پر نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر روسٹ کے عہد میں دو بڑی تبدیلیاں وقوع میں آئیں۔ایک یہ کہ لائبریری کو کینن رو سے اُٹھا کر،وائٹ ہال کی موجودہ عمارت میں منتقل کیا گیا اور دوسری یہ کہ1876ء میں ایک قانون وضع کیا گیا کہ آئندہ ہندوستان میں جو کتاب چھپے گی،اُس کا یک نسخہ انڈیا ،آفس لائبریری کو لازماً بھیجا جائے گا۔اس قانون کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان میں بیسیوں زبانوں کی جو چھوٹی بڑی اچھی بُری اور معمولی وغیر معمولی کتابیں چھپتی تھیں،اُن کی ایک ایک جلد باقاعدہ یہاں پہنچنے لگی۔چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے انڈیا آفس لائبریری میں کتابوں کا ایک ایسا بوقلموں رنگارنگ اور نادر ذخیرہ جمع ہو گیا ،جس کی مثال شاید دُنیا کا اور کوئی کتب خانہ پیش نہیں کر سکتا۔یہ قانون 1947ء تک نافذ رہا۔ابتدا میں انڈیا آفس لائبریری کے ساتھ جو میوزیم قائم کیا گیا تھا ،اُس کے لیے بدقسمتی سے کوئی مستقل عمارت مہیا نہ ہو سکی۔وزیر ہند کی خواہش تھی کہ برطانوی حکومت اپنے خرچ سے ایسی عمارت بنوادے ،لیکن برطانوی حکومت نے انکار کر دیا چنانچہ میوزیم کی تمام چیزیں لندن کے متعدد عجائب گھروں میں تقسیم کر دی گئیں آج وہی نوادر ہمیں جیالوجیکل میوزیم وغیرہ میں بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 


ڈاکٹر روسٹ کے بعد پروفیسر چارلس ٹانے کا تقرر بطور لائبریرین کے ہوا پر وفیسر ٹانے ،کیمبرج کے تعلیم یافتہ اور سنسکرت کے عالم تھے،اس سے قبل پریذ یڈنسی کالج کلکتہ کے پرنسپل اور احاطہ بنگال کے سررشتہ تعلیمات کے ڈائرکٹر بھی رہ چکے تھے۔1903ء میں پروفیسر ٹانے لائبریری سے سبکدوش ہو گئے تو اُن کی جگہ ڈاکٹر ایف ڈبلیوٹامس کا تقرر ہوا۔اور اُن کے ساتھ سرٹامس آرنلڈ اسسٹنٹ لائبریرین مقرر ہوئے۔ سرٹامس آرنلڈوہی بزرگ ہیں جو لاہور کے گورنمنٹ کالج میں اقبال کے اُستاد تھے۔اور جن کی یاد میں اقبال نے اپنی مشہور نظم نالۂ فراق لکھی تھی۔آرنلڈ صرف چھ سال اسسٹنٹ لائبریرین رہے تھے لیکن اس مدت میں اُنھوں نے لائبریری میں عربی فارسی کی جتنی کتابوں کا اضافہ کیا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔


موجودہ لائبریرین کا نام ایس سی سٹن ہے ۔جو بہت ذی علم اور وسیع المعلومات شخص ہیں۔لائبریری میں کتابوں کی تعداد تین لاکھ کے لگ بھگ ہے۔لیکن نئی کتابوں کا اضافہ برابر جا ری ہے۔یورپین زبانوں کے تحت ستر ہزار کے قریب کتابیں موجود ہیں۔جن میں انگریزی،فرنچ،جرمن وغیرہ زبانوں کی مطبوعات شامل ہیں قلمی مسود ے علیحدہ ہیں جن کی صحیح تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے۔میرے اندازے کے مطابق ایک ہزار کے قریب بڑی بڑی جلدوں میں یہ مسودے بند ہیں ان کے علاوہ کئی ہزار مسودے غیر مجلد بھی ہیں۔


ایشیائی زبانوں کے تحت عربی ،فارسی ،سنسکرت،پالی، تبتی، گجراتی،بنگلہ، ہندی، کشمیری، بلوچی، آسامی، مراٹھی، ملتانی،نیپالی اور یائی،پنجابی ،سندھی اُردو، پشتو، کناڑی، تامل، تلگو، ملیالم، برمی، جاوی، ملائی، سیامی، رکی ہنلی وغیرہ کی کتابیں اور غیر مطبوعہ مسودے موجود ہیں۔ان مسودوں میں بعض سونے چاندی کے پتروں پر مرقوم ہیں۔بعض درختوں کی چھال اور پتوں پر۔بعض ہاتھی دانت اور لکڑی کے ٹکڑوں پراور بعض جانوروں کی کھال پر لکھے ہوئے ہیں۔مثلاً۱۶۹۱ء میں کالی کٹ کے راجہ زمو رن اور ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا وہ ملیالم زبان میں سونے کے ایک پترے پر درج ہے جس کا وزن تقریباً چودہ اونس ہے۔اُردو کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد بیس ہزار کے قریب ہے اور قلمی مسودے ۲۷۰ہیں،جو دینیات، تاریخ، سوانح، تذکرے، قصص وحکایات، شعروسخن، اخلاقیات، لُغت، علم الادویہ، موسیقی وغیرہ متعدد موضوعات پر مشتمل ہیں۔تذکروں میں قائم چاند پوری کا مخزنِ نکات ،میر قدرت اللہ خاں قاسم کا مجموعہ،نغز، مرزالطف علی کاگلشن ہند،غلام قطب الدین باطن کا گلشنِ بے خزاں ،خوب چندذکا کاعیارالشعرأموجودہیں۔


دواوین میں بعض نادر چیزیں بھی ملتی ہیں۔مثلاً سید عبدالوالی عزلتؔ سورتی کا دیوان جو ۱۷۵۹ء کے لگ بھگ لکھا گیا تھا،نواب آصف الدولہ والئی اودھ کا دیوان کلیات زٹلی کے چارنسخے ،حافظ الملک نواب حافظ رحمت خاں حاکم بریلی کے فرزند اکبر نواب محبت خاں کا دیوان،میرقدرت اللہ خاں قاسم دہلوی کے صاحب زادے میر عزت اللہ خاں عشق کا دیوان۔حیدرآباد کی مشہور مغنیہ ماہ لقا بیگم چندا کادیوان ، علاالدولہ،یمین الملک،سید محی الدین فقیر دہلوی ،خلف نواب اعظم الدولہ کا دیوان ،مرزامحمود بیگ شور،شاگرد انشاء کا دیوان۔کتابوں کے علاوہ انڈیا آفس لائبریری میں تصویروں کا بھی ایک لاجواب ذخیرہ موجود ہے۔جس میں فوٹو گرافی اور مصوری کے نمونے شامل ہیں۔بیشتر تصویریں دورمغلیہ سے تعلق رکھتی ہیں جن کی مجموعی تعداد ساڑھے تین ہزار کے قریب ہے۔ان میں داراشکوہ کا مشہور البم بھی ہے جو اُس نے اپنی محبوب بیوہ نادرہ بیگم کے لیے تیارکرایا تھا۔اور جس میں ایک سو چالیس تصویریں ہیں۔فوٹو گرافی کے ذخیرے میں کم وبیش پچیس ہزار کے قریب تصویریں ہیں جن میں ہندوستان کے باشندوں سے لے کر معدنیات ونباتات تک ہر چیز کی عکاسی کی گئی ہے۔ خطاطی وخوش نویسی کے بھی بعض بے مثال قطعے موجود ہیں اس کے علاوہ ہندوستان کی قدیم پار چہ بافی کے نمونے بھی ہیں۔مثلاً ڈھاکے کی ململ،بنارس کی زری، کشمیر کی شال،دلی کا گوٹا،لاہور کی سوسی ،مرزاپور کے قالین امرت سر کے دُھسے۔


اگست 1947ء میں تقسیم کے بعد وزیر ہند کا پرُانا دفتر یعنی انڈیا آفس بھی ٹوٹ گئے لیکن لائبریری کا نام بد ستور انڈیا آفس لائبریری رہا۔اس کا موجود ہ انتظام دفتر کامن ویلتھ کے سپرد ہے۔ لائبریر ی کی عمارت کا من ویلتھ آفس کی تیسری منزل پر ہے،جس کے عین وسط میں ریڈنگ روم ہے جہاں روزانہ صبح 9.30سے شام5.30بجے علم وادب کے شائقین لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں ،میں نے1953ء سے گاہے بگاہے یہاں آنا شروع کیا تھا۔اُس وقت سے اب تک ان لوگوں میں برابر اضافہ ہو رہا ہے چنانچہ1953ء میں یہ تعداد5905تھی۔ 1954ء میں6828ہوئی اور1960ء میں آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہو گی ہے۔ 


اب میں خاتمۂ کلام پر یہ عرض کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس لائبریری کا یہیں لندن میں رہنا ہراعتبار سے مستحسن اور ضروری ہے اسے کسی قیمت ،کسی شرط اور کسی معاہدے پر یہاں سے ہٹا نا نہیں چاہےۂ ۔اگر علم وادب کا یہ گراں بہاخزانہ یہاں سے اُٹھا ،تو یقین کیجئے کہ سومیں سے نوے کتابیں ہندوستان چلی جائیں گی اور مشکل سے دس کتابیں پاکستان کے حصے میں آئیں گی۔پھر اس قسم کی نقل مکانی سے فائدہ۔


میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ پاکستان کے بعض لوگ آٹھ آٹھ دس دس سال سے لندن میں مقیم ہیں اور بحداستعداد اس لائبریری سے استفادہ کر رہے ہیں۔کوئی شخص ان سے تعرض نہیں کر سکتا ۔سال بہ سال بیسیوں طلبہ پاکستان سے یہاں آتے ہیں اور اس لائبریری کے دروازے ہر وقت اُن کے لیے کھلے رہتے ہیں۔لیکن دہلی کون جا سکے گااور جائے گا بھی تو کتنے دن ٹھہر سکے گا؟بلاشبہ آج لاہور سے لندن آجانا آسان ہے۔لیکن لاہور سے دہلی جانا مشکل ہے،تعجب ہے کہ پاکستان کے بہت سے اخبار اور سیاست دان حالات کا جائزہ لیے بغیر یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ انڈیا آفس لائبریری کو فوراً لندن سے منتقل کیا جائے۔یہ شوروغو غاجس قدر جلد بند ہو جائے اچھا ہے۔ لندن کے ہندوستانی ہائی کمیشن میں اس وقت ایک نہایت مفید اور بیش قیمت لائبریری موجود ہے۔جس کی تعمیر وترقی میں ہمارے گذشتہ پچاس سال صرف ہوئے تھے۔اُس لائبریری کی ایک کتاب بھی پاکستان کو نہیں مل سکی،حیدر آباد اور بمبئی سے لے کر کلکتہ ودلی تک بیسیوں کتب خانے موجود ہیں۔جن کا بٹوا رہ نہیں ہو سکا ۔تو پھر انڈ یا آفس لائبریری کو ہندوستان منتقل کرنے پر پاکستان کو کیا کچھ مل جائے گا؟۔۔ لندن 1960

جمعہ، 11 اپریل، 2014

قلات آپریشن

قلات آپریشن 
سیاسی گدھ اورکرگزی سوچ

تحریر نود بندگ بلو
کرگز (گدھ) کی عجیب فطرت ہے کہ وہ ایک گوشت خور پرندہ ہونے کے باوجود کبھی شکار نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ آسمان پر منڈلاتے ہوئے بس اس تاک میں رہتا ہے کہ جیسے ہی کوئی جانور خود مرجائے یا کوئی شکاری جانور اپنا بچا ہوا چھوڑے تو وہ جھپٹ کر دوسروں کے شکار کو نوچنا شروع کردیں۔ اسی لئے گوشت خور ہونے اور اونچی اوڑان بھرنے کے باوجود بھی ہم کبھی گدھ کو شاہین نہیں کہہ سکتے،کہتے ہیں کہ انسان کسی دور میں کوئی بندر نما جانور ہوا کرتے تھے اور جانوروں کے ساتھ رہا کرتے تھے،ایک طویل ارتقائی عمل کے بعد آج انسان عقل شعور اور تہذیب کے اِس معراج کو پانے میں کامیاب ہوا ، لیکن اس طویل ارتقائی عمل کے باوجود شاید انسانوں کی جبلت میں ابھی تک کچھ جانوروں کے خصائل موجود ہیں،اسی گدھ کے ہی مثال کو دیکھیں اور پھر پاکستانی سیاست پر ایک نظر دوڑائیں کے کیسے انکی پوری سیاست لاشیں نوچنے پر کھڑی ہے۔ کیسے ایک \" شہید بھٹو \" ایک \" گدھ بھٹو \" کو جنم دیتا ہے ،کیسے وہاں ایک وزیر آکر کوئی پروجیکٹ شروع کرتا ہے تو دوسرا آتے ہی اس پروجیکٹ پر اپنے نام کا تختی لگوا کر افتتاح کر دیتا ہے ، کیسے کسی زلزلے ،سیلاب اور آفت کی صورت میں ان کے سیاستدانوں کی فوٹو شوٹنگ شروع ہوجاتی ہے،یہ درحقیقت سیاست میں وہی \" کرگزی سوچ \" ہے کہ موقع کے تلاش میں رہا جائے اور بغیر محنت کے کسی مردے یا کسی کے بچے ہوئے شکار کو نوچا جائے۔
یہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ \" کرگزی سوچ \" بلوچ سیاست میں بھی اب بدرجہ اتم پائی جارہی ہے،باقی کئی خصائل کی طرح ہم نے یہ \" کرگزی سوچ \" بھی اپنے قابض سے من و عن مستعار لیا ہوا ہے۔ ماما قدیر کے لانگ مارچ کو کیش کرنے کیلئے کیسے ہماری سیاسی جماعتوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا وہ ہمارے سامنے ہے ، حالانکہ وہی سیاسی پارٹیاں ماما کو ایک گلاس ٹھنڈا پانی تک نا پلا سکے لیکن ان کے خشک اخباری بیانوں میں اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں سے اپیل نما دھمکیوں کا ایسا تانتا بندھا ہوا تھا کہ جیسے ماما نے انکی اجازت سے ہی لانگ مارچ کرنے کی جسارت کی تھی، حقیقت تو یہ ہے کہ جب ماما محنت کر رہا تھا تو یہ گدھ کی طرح آسمان پر منڈلا رہے تھے جیسے ہی اور جہاں بھی ماما کو تھوڑا میڈیا کوریج کی صورت میں کوئی پھل ملنے لگتا تو یہ سیاسی گدھ اپنے ناخن تیز کئے اسے نوچنے کیلئے امڈ آتے ، مارچ کے کراچی پہنچتے وقت آپ اس سوچ کی اچھی خاصی جھلک باآسانی دیکھ سکتے تھے۔ ذرا غور کریں کہ 13 نومبر کے دن یوم شہداء منانے سے یہ سیاسی گدھ کیوں کتر ارہے تھے ؟ ظاہر ہے کہ جب نوچنے کیلئے ہردن انہیں ایک علیحدہ شہید کی لاش میسر ہو تو پھر وہ کیونکر خود کو محدود کرکے ایک دن میں قید کردیں۔ 11 اگست ہو یا 27 مارچ یا کوئی اور قومی سانحہ کا دن ان کو کیش کرنے کیلئے جیسے ایک دوڑ لگی ہے، کہیں دشمن نے بلوچوں کا خونِ ناحق بہایا ہو تو دکھ کا احساس بعد میں ہوتا ہے پہلے تو آنکھوں میں چمک آجاتی ہے کہ \" مل گیا سرخیوں میں زندہ رہنے کا ایک اور موقع \"۔ ہڑتالیں کر کر کے عوام کو ہلکان کردیں گے لیکن مجال ہے کہ ایک بار بھی لاش نوچنے کا موقع ضائع کریں،کیا آج تک کسی سیاسی تنظیم نے کبھی تجزیہ کِیا ہے کہ ان ہزاروں نیم ہڑتالوں کا ہمیں کتنا فائدہ یا نقصان ہوا ہے ، کوئی سوچے بھی تو کیوں ؟ گدھ کا فطرت سوچنا نہیں صرف نوچنا ہوتا ہے۔
باقی بلوچ سیاست کو چھوڑیں صرف کل کے دن کا ہی جائزہ لے لیں تو بندہ حیران ہوجائے کہ اس \" کرگزی سوچ \" پر رووں یا ہنسوں، قلات میں پاکستانی فوج ایک آپریشن کرتی ہے ، کچھ دیر بعد اطلاع آتی ہے کہ انکا ایک ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوا ہے پھر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک آپریشن میں انہوں نے 30 بلوچ مزاحمت کاروں کو شہید کیا ہے، بس ان خبروں کا آنا تھا کہ سارے گدھ آسمان پر منڈلانے لگے، سب سے پہلا جھپٹا بی این ایف نے حسبِ روایت ماردی کہ صرف پاکستانی میڈیا کی طرف سے دی جانے والی معلومات پر اکتفاء کرکے شٹر ڈاون ہڑتال کی کال دے دی، کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ پوری خبر ہی جھوٹی ہوتی ؟ کیا یہ واجب نہیں تھا کہ ہڑتال کی کال دینے سے پہلے بی این ایف تھوڑا انتظار کرتی اور مصدقہ معلومات کے بعد کوئی فیصلہ کرتی ؟ لیکن ایسا نہیں ہوا ، کیوں ؟ کیونکہ اگر بی این ایف ان چکروں میں پڑتی تو ہڑتال کی کال دینے کے ریس میں بی آر پی یا بی ایس ایف اس سے بازی لیجاتے، میں یہاں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ہڑتال ہونی چاہئے تھی یا نہیں میں صرف یہاں آپ کے سامنے وہی \" کرگزی سوچ \" واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کیسے بچے ہوئے لاش پر جھپٹا مارنے کیلئے گدھ ایک دوسرے سے بازی لیجانے کی کوشش میں ہوتے ہیں اس ہڑتال کے پیچھے اگر واقعی کوئی سیاسی سوچ ہوتی تو میرا یقین کریں ہڑتال کی یہ کال جیو کی پٹیاں دیکھ کر نہیں دی جاتی،کیا فرنٹ ایک بارتحمل سے سوچنے اور جانچنے کے بعد یہ ہڑتال کی کال نہیں دے سکتی تھی ؟ لیکن کوئی سوچے بھی تو کیوں ؟ گدھ کا فطرت سوچنا نہیں صرف نوچنا ہوتا ہے۔
اس گدھ کے بعد دوسرے گدھ کی باری آئی ، اچانک سے یو بی اے کا ایک بیان سامنے آیا کہ گرنے والے ہیلی کاپٹر کو ان کے سرمچاروں نے مار گرایا تھا۔ عجیب اتفاق ہے جو ہیلی کاپٹر گری اس پر حملہ \"پارود\" کے پہاڑوں میں سے ہوا تھا اور ذمہ داری یو بی اے نے قبول کرلی ، معلومات لی تو پتہ چلا کہ پارود و نیمرغ کے علاقوں میں تو یو بی اے کا کوئی کیمپ ہی نہیں ، یو بی اے پر شاید اسپلنجی اور جوہان کے علاقوں میں کوئی آپریشن ہوا تھا جس میں ہیلی کاپٹر بھی شریک تھے، جب یو بی اے نے یہ اطلاع سنی کہ قلات میں ایک ہیلی کاپٹر گرا ہے تو پھر وہی \" کرگزی سوچ \" امڈ کر باہر آئی ہے ، یار لوگوں نے سوچا کہ موقع یہی ہے جلدی سے قبول کرلو کس کو پتہ چلے گا کہ کس نے مارا تھا یا کسی نے مارا بھی تھا کہ نہیں، بس اخباروں کے سرخیوں میں رہنے کا اچھا موقع ہے، جن دوستوں کو پارود سے جوہان کے بیچ کا فاصلہ پتہ نہیں تو معلومات کرلیں ہنسی چھوٹ جائے گی،کیا یو بی اے اتنا نہیں سوچ سکتا تھا کہ اگر اس واقعے کی تفصیلات بعد میں آگئی اور پتہ چلا کے یہ نشانہ کہیں اور سے بنا تھا تو پھر ان کی کتنی جگ ہنساء ہوگی اور عوام کا اعتماد کتنا اٹھ جائے گا ؟ لیکن کوئی سوچے بھی تو کیوں ؟ گدھ کا فطرت سوچنا نہیں صرف نوچنا ہوتا ہے۔
غالباً جس علاقے میں آپریشن ہوا وہاں بی ایل اے کے کیمپ سے بی آر اے کا کیمپ اتنا دور نہیں، آپریشن شروع ہوا تو بی آر اے کے سرمچار صحیح سلامت حصار سے نکلنے میں کامیاب ہوئے، وہ پھر آپریشن کے آخری وقت میں شاید بی ایل اے کے دوستوں سے کہیں ملے لیکن سرباز بلوچ صاحب کو شاید کہیں اور سے کچھ اور الہام ہوا۔ جب ان کا بیان آیا تو پہلے 10 کمانڈو ہلاک کرنے کا دعویٰ اور پھر خود ہی بی ایل اے کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ دعویٰ کے انہوں نے مشترکہ طور پر یہ جنگ لڑی ہے،اب اگر آپ کبھی اہل علاقہ یا پھر انہی بی آر اے کے سرمچاروں سے پوچھیں گے تو وہ ان باتوں پر ہنسیں گے اور حیرت کا اظہار کریں گے کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ وہاں مزاحمت آخری وقت تک بی ایل اے کے دوست کرتے رہے اور ہیلی کاپٹر پر حملہ وہیں ہوا اور وہیں سے ہیلی کاپٹر دھواں چھوڑتے ہوئے جاکر قلات میں گر گیا، بی آر اے کے دوست شاید کہیں مزاحمت کررہے ہوں لیکن وہ اس وقت کم از کم مشترکہ طور پر ایک علاقے میں مزاحمت نہیں کر رہے تھے،لیکن پھر یہ از خود بی ایل اے کی ترجمانی کرکے مشترکہ جدو جہد کی نوید کیونکر ؟ کیونکہ یہاں پھر سے \" کرگزی سوچ \" ہڈیاں نوچنے آیا تھا۔ اس کرگزی سوچ کو اس وقت مایوسی ہوئی جب بی ایل اے کا بیان آیا اور اس میں مشترکہ والی کوئی بات نظر نہیں آئی ( کیونکہ تھی ہی نہیں )۔ پھر یار لوگ اس گِلے میں لگ گئے کہ ہمارے منہ سے وہ گوشت کا ٹکڑا کیوں چھینا گیا ، حالانکہ کوئی گلہ بنتا ہی نہیں تھا بی ایل اے نے اپنے بیان میں اپنا روئیداد بیان کیا تھا اور کوئی لگی لپٹی کے بغیر پیش کیا ، حالتِ جنگ میں آپ کو پتہ نہیں چلتا کے آپ نے کتنے دشمن مارے ہیں اس لئے واضح تعداد کے بجائے صرف متعدد کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ اگر کوئی تنظیم تعداد بتانے میں بھی اتنا محتاط ہو تو پھر وہ کیسے از خود وہ باتیں بیان کرے ( مشترکہ جنگ) جو وقوع پذیر ہوئے ہی نہیں ؟چلو چاہے ہیلی کاپٹر اور دشمن کو جس نے بھی مارا ہو آخر خوشی کی بات ہے کہ دشمن کا ہیلی گرا اور اسے نقصان ہوا لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس میں تاج پہنے اور وہ بھی شریکی تاج کی کیا ضرورت ہے ، کیا عوام کا حوصلہ جھوٹ سے بلند کیا جائے گا ؟ سرباز بلوچ کا یہ بیان کے بی ایل اے نے اپنے بیان میں میرا نام کیوں نہیں لیا ہے کم از کم میرے سمجھ سے بالا تر ہے،کیا بی آر اے ایک بار نہیں سوچ سکتا تھا کہ فوراً کیش کرنے کے بجائے تھوڑا حقیقت حال کو جانچ کر سچائی سے کام لیتی؟لیکن کوئی سوچے بھی تو کیوں ؟ گدھ کا فطرت سوچنا نہیں صرف نوچنا ہوتا ہے۔
میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ میں ایک آدھ زخمی و مردہ ہیلی کاپٹروں کا تاج کسی کے سر پر سجانے کی کوشش کروں ، یہاں صرف اتنا اگر ہم غور کریں کہ وہ \" کرگزی سوچ \" کیسے ہماری تحریک کو پراگندہ کر رہی ہے تو پھر شاید اس سے چھٹکارے کی کوئی راہ بھی واضح ہوجائے۔ کیونکہ یہی \" کرگزی سوچ \" ہی ہمارے سیاست میں تقسیم در تقسیم ، موقع پرستی اور کدورتوں کو جنم دے رہا ہے۔ جب تک ان ردِ انقلابی رویوں سے ہم چھٹکارہ حاصل نہیں کرتے تب تک ہم صرف \" رد \" ہی رہیں گے کبھی \" انقلابی \" نہیں بن سکیں گے۔ 

ہفتہ، 11 جنوری، 2014

مسئلوں کا تعین ..تنقید و تحقیق کی بنیاد پر


۔۔تحریر۔۔۔زامر بلوچ
بلوچستان میں بلوچ قومی آزادی کے سیاست کے حوالے سے دعوے ،ردوخلاف اور تردید و تشریح کا جو سلسلہ چل پڑا ہے یہ بلوچ سیاسی و سماجی حوالوں سے کوئی تاریخی پس منظر نہیں رکھتا بلکہ جو کچھ ہورہا ہے وہ بالکل ایک نئی ریت ہے، سوال اٹھانے کا عمل اور انحراف کو بھانپ کر اسے پیشگی طور پر نپٹنے کا عمل اس حوالے سے بھی یکتا ہے کہ اب لیڈر شپ کی دامن پکڑ کر چلنے کی روایت دم توڑ رہی ہے،اب ہاتھ دامن پکڑنے کے بجائے گریبانوں کی طرف بڑھ رہے سامراج کی غلامی سے باخبر قوم اب اپنی ذہنی و فکری غلامی سے گلوخلاصی کے لئے پر تول رہی ہے اور امر اطمینان بخش ہے کہ اب سوال اٹھانے اور جواب مانگنے جرات پروان چڑھ رہی ہے، اس کو لیکر عام لوگ تو خیر مگر بڑے بڑے عقل دانش کے دعویدار بھی اپنی دامن بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں بنیادی طور پر انہیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ بحث کہاں جاکر اختتام پذیر ہوگی اور اسکے نتائج کیا نکلیں گے اور اچھے اور برے نتائج کی ذمہ داری کس کی گردن پہ ہوگی۔
پہلے مسئلے کا تعین ہونا لازمی ہے۔۔۔
اگر ہم ہر چیز پر مطمئن ہیں اور ہمارے درمیان اور ہماری عقلی حدود کے مطابق کوئی بھی ایسا نقطہ موجود نہیں کہ جس کو لے کر ہمیں کوئی پریشانی ہو، تو پھر یہ بات کرنا کہ یہ کام غلط ہے یہ طریقہ ناقص ہے وہ ہونا چاہیے اور وہ نہیں ہونا چاہیے ،کیونکہ بذاتِ خود ہم مطمئن ہیں اور ایک مطمئن انسان کو مسائل کی فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوگی،لیکن اگر کہیں سے کوئی اور آکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ جی نہیں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے بلکہ خامیاں اور کوتاہیاں موجود ہیں اور وہ ان تمام امور کی نشاندہی بھی کروالے پھر تو بات ٹھن جاتی ہے، کیونکہ لازمی بات ہوگی کہ وہ شخص باقی تمام لوگوں کے برعکس معاملات کے بارے میں ایک الگ نقطہ نظر رکھتا ہے اور اسکی رائے باقیوں سے یکسر مختلف ہے، مطلب یہ کہ منفی یا مثبت سے برعکس وہ ان تمام لوگوں کی عقلی دائروں سے کہیں باہر نکل کر سوچ رہا ہے، اب لازمی بات ہے اس چیز پر دو رائے ہونگے اور چیزوں میں موجود یکسانیت کا عنصر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا، اب مسئلہ یہ ہوگا کہ بحث و تکرار کی ایک کیفیت جنم لے گی اور اس میں یا تو وہ قائل ہوگا یا پھر قائل کرے گا، کوئی دو متضاد سوچ طویل دورانیہ تک ایک ہی نقطے پر اٹک کر نہیں رہیں گے۔
اگر دونوں اپنی اس بات پر قائم رہیں کہ جی میں ٹھیک ہوں اور تم غلط ہو تو پھر دو متضاد نظریات کا جنم اور ان پر بھر پور انداز میں کام کرنے سے کوئی ایک فریق دوسرے کو روک نہیں سکتا اور اسکے بعد یہ لازمی امر ہے کہ بات ان مخصوص دائروں سے نکل کر عام عوام یا ارد گرد موجود لوگوں تک پہنچ جائے کیونکہ حقیقت شناسی کا لازمی طلب یہ ہوگا کہ آپکی اس رائے کو عمومیت کی بنیادوں پر پذیرائی ملے اور مخالف کا نقطہ نظر مسترد کردیا جائے، یہ کوئی انہونی بات نہیں ہوگی کہ چیزیں کیوں سرِ عام بحث کی جارہی ہیں بلکہ چیزوں کا باہر نکلنا خود اسی اختلافی تسلسل اور اسکی وجودکا ایک کھڑی ہے، کیونکہ اختلاف ان سطحوں یا نقاط پر ہوئے ہیں کہ جن کو حل کرنے کے لئے وہ اندرونی روایتی سوچ کسی بھی حالت میں تیار نہیں ہے۔پہلے ہر کوئی اپنے دعوے کی استرداد و قبولیت کے لیئے اسے عام کردے گا اس کی حق میں مطلوبہ دلائل بھی فراہم کرے گا، اور اسی بنا پر یہ دیکھا جائے گا کہ کیا میں اور میرے ساتھی جو اختلافی نقطہ نگاہ رکھتے ہیں واقعی عام لوگوں کی ذہنوں میں اور زمینی حقائق کی بنیاد پر وہ تمام باتیں مسترد یا قبول کی جاتی ہیں کہ نہیں، سب سے پہلے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تم کہتے ہو کوئی مسئلہ موجود نہیں اور میں کہتا مسئلے موجود ہیں اور انکی حل بھی نکالا جاسکتا ہے اسی قبولیت و استرداد کے دوران ہم سب سے اولین جو کام کرتے ہیں یہ کہ ہم کسی چیز کی وجود کو ثابت یا رد کرنے کوشش کرتے ہیں اور اسمیں شامل دونوں فریق اپنا اپنا پھر پور طاقت استعمال کریں گے، چونکہ انسانی سماجی زندگی کا ارتقائی عمل اسی مسئلے کی تعین اور اسکی حل ڈھونڈنے میں مضمر ہے،اگر ہمارے پیش روؤں نے یہ سوچا ہی نہیں ہوتا کہ فطرت کے ان تمام مہیاشدہ عوامل میں انسان کو اجتماعی حیثیت سے کوئی اہم مسئلہ درپیش ہی نہیں تو ہم کیوں نہ اسی پتھر کے زمانے میں جی رہے ہوتے،مسئلے کا تعین دراصل جدت کی جانب سفر کرنے کا اولین قدم ہے۔۔۔
تجاہلِ عارفانہ cogniitive dissonance
تجاہلِ عارفانہ کا جو تصور ہے وہ 1950میں Leon Festingerنے پیش کی تھی اور اسکو تجرباتی بنیادوں پر ثابت کردیا کہ لوگ کس طرح اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو جان بوجھ کر رد کرتے ہیں اور اسے ایک زریعہ بناتے ہیں خود کو صحیح ثابت کرنے کے لیئے، کو ئی بھی انسان ایسا نہیں جسکا عمل کسی محرک سے وابستہ نہ ہو اگر وہ محرک شعوری یا جسمانی طور پر موجود نہ تو اس کام سر انجام پانا بذاتِ خود ایک عبث بات ہوگی ہر کام اورہر بات کے پیچھے ایک محرک کار فرما ہے جو ہمیں اکساتا ہے عمل کرنے کے لیئے، اب اگر میں غلط کررہاہوں اور کوئی آکر مجھے سمجھانے کی کوشش کرے اول تو میں مانوں گا ہی نہیں کیونکہ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ غلط ہے تو میں ارادہ وہ کام ہی کیوں کرتا اور اگر میں ارادی طور پر اس کام میں مشغول ہوں تو مجھے پہلے سے پتہ ہے کہ میں غلط سمت میں جارہاہوں اور غلط کام کررہاہوں تو میں کسی اور کہ کہنے سے کیوں مانوں بلکہ میں وہ عمل کسی اور مقصد سے انجام دے رہا ہوں جو کہ کسی دوسرے کو معلوم نہیں اور میں اپنے اس عمل کا دفاع کسی بھی صورت اور کسی بھی قیمت پر کرنے کو تیار رہوں گا۔
کیونکہ بسا اوقات انسان اپنے اعمال کی انجام دہی میں بہت ساری غلطیوں،کوتاہیوں اورکمزوریوں کو درگزر کردیتا ہے کیونکہ اسکے مطابق یا تو وہ غلطی کے زمرے میں ہی نہیں آتے یا پھر وہ جو کام کررہاہے اس کام کے مقابلے میں یہ غلطیاں اسکی عشرِعشیر تک نہیں ہیں،اس حوالے سے ہمیں بچپن میں پڑھی ہوئی وہ کہانی یاد ہے کہ انگور کٹھے ہیں، ’’کیونکہ لومڑی ان تک پہنچ نہیں سکتا اور وہ یہ قبول کرنے سے انکاری ہے میں پہنچ نہیں سکتا بلکہ وہ اس حوالے اپنے دل کو تسکین دیتا ہے کہ انگور مجھے واقعی میں نہیں چاہیءں کیونکہ انگور کٹھے ہیں‘‘ یہی چیز تجاہل عارفانہ(جان بوجھ کر غلطی کرنا)کی بنیادی اسباب ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہوئے بھی ماننے سے انکاری ہیں اور تجاہل عارفانہ سماجی و سیاسی حوالوں سے تباہ کن ہے کیونکہ سیاست میں دراصل جذباتی پن کا بہت زیادہ عمل دخل ہے اور یہ عمل دخل بہت سارے دیگر لوگوں کے لیئے ان تمام باتوں کی حقیقت ہونے کی دلیل ہوگی کہ فلاں شخص نے یہ باتیں کی ہیں لہذا وہ سند کا درجہ رکھتی ہیں،اور وہ اس تجاہل عارفانہ کی روش کو باآسانی سمجھنے سے قاصر ہیں اور نتیجتاَ وہ اسکے پیچھے ہو لیتے ہیں،
اس روش کی بنیاد پراصل میں حقیقی مسائل کو لے کر لوگوں کا دھیان بانٹنے کا یہ عمل ایک منظم بنیادوں پر کی جاتی ہے، جس کی بنا پر وہ لوگ جو مسائل سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہوئے بھی مسائل کو اس انداز اور سلیقے کے ساتھ گھما پھرا دیتے ہیں کہ جیسے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مسئلہ اصل میں موجود ہی نہیں ہے،وہ بحث بھی کرتے ہیں دلیل و حجت سے کام لیتے ہوئے وہ غلبہ پانے کی ضرور کوشش کرتے ہیں مگر نادم ہوکر اور کئی دیگر طریقے بھی آزماتے ہیں، انکا صرف ایک متعین مقصد ہوتا ہے کہ اصل بات تک لوگوں کی سوچ کسی بھی صورت نہ پہنچے،کیونکہ لوگوں کی سوچ اگر اس مدار تک پہنچ گئی تو پھر الٹ پلٹ کرنے کا کوئی خاص امکان بھی باقی نہیں رہے گا اور اسکا سب سے بہترین حل تو یہ ہوگا کہ اصل میں اسی بات کو حل کئیے بغیر اسکو دبایا جائے، مگر طویل مدت تک یہ امر ممکن نہیں۔ 
کیا مسئلے کی جستجو و تلاش نقصان دہ ہےجستجو اور تلاش اس چیز کا لازمی ہے کہ جو موجود تو ہے مگر زہنوں اور آنکھوں سے شاید اوجھل ہے، مثلاَ انقلابی جنگوں،سیاسی و عسکری عملداریوں سمیت دنیا کے بہت سارے تزویراتی فیصلوں میں تقریباَ تمام تر چیزیں راز داری سے سرانجام پاتی ہیں اور ان میں اگر کوئی مسئلہ بھی موجود ہو تو اسے اندرونی تہہ خانوں میں نمٹا کر صلح صفائی کی جاتی ہے مگر جب چیزیں اندرونی سطحوں سے ابھر کر باہر آنا شروع ہوجائیں تو جستجو اور تلاش فرض بن جاتا ہے،اور ایسے معاملات عام طور پر باہر نہیں لائے جاتے اور اگر کبھی انکو عام حوالوں سے آشکار کیا گیا تو اسکے پیچھے چھپے محرکات کا سمجھنا بھی لازمی ہے،کیا سر بستہ رازوں کو طشت از بام کرکے وہ لوگ کوئی مراعات یا مادی فوائد کا حصول چاہتے ہیں؟ کیا ان رازوں کو افشاں کرنے کے ساتھ ان لوگوں نے اپنی ذمہ داریاں بھی چھوڑ دی ہیں؟کیا وہ لوگ اس دورانیے میں اپنے نصب العین سے منحرف ہوئے ہیں؟ کیا انہوں نے ان تما م سوالات کی نشاندہی کرتے ہوئے انکی مجوزہ حل کو اپنی ذاتی پسند نا پسند تک محدود کردیا ہے ؟ یہ اور ان جیسے بہت سارے دیگر سوالوں کے جوابات ہمیں ہرحال میں حاصل کرنے ہونگے، اطلاعات کی حصول اور اسکو چھان بین نقصاندہ امر نہیں ہے بلکہ اطلاعات کو من و عن قبول کرنایا پھر اسے آنکھیں بند کرکے مسترد کردینا تباہی کی علامات ہیں، مسئلے کی وجود، معیار اور دعوے کی جامعیت کے لیئے ہم چیزوں کو انکو پس منظر اور تاریخ وردات کی شکل میں جانچ سکتے ہیں، کوئی بھی دعوی یا الزام خلا سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ ہم جیسے انسانوں کی مادی و دنیائی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، اور اسی دنیا میں ہمارے سماج کے صفوں کے اندر ہونے والے ان سرگرمیوں سے متعلق الزامات کی باتیں کی جاتی ہیں جنہیں ہم شب و روز اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، اور ان کی تجربات سے ہم براہ راست استفادہ کررہے ہوتے ہیں۔لہذا ان تمام حقیقتوں اور ان کے پس پردہ محرکات و عوامل کو غور و خوض کے بعد سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔مسئلے کے بارے میں تحقیق نقصاندہ امر نہیں ہے مگر ان لوگوں کے لیئے جو پہلے سے یہ سمجھ چکے ہیں کہ مسئلہ اگر واضح ہوگیا تو ان کے کرتوت واضح ہوجائیں گے لہذا ان کے لیئے اس مسئلے کو لے کر بات کرنا بہرصورت نقصاندہ امر ہوگی لیکن بحیثیت قوم ہم نقصانات کو مجموعی اعتبار سے دیکھتے ہیں نہ انفرادی حوالوں سے، البتہ غور و تحقیق سے ملزمان کا تعین اور مستقبل میں ان غلطیوں کے دہرانے کا سدباب ضرور ہوگا۔
کیا تعمیری اختلافات دشمن کے مفاد میں ہونگے۔
اگر اختلافات و انحرافات اس قدر بڑھ جائیں کہ رسمی و تنظیمی سطحوں پر انکا حل ہونا نا ممکن ہو تو اختلافات کو سمجھنے اور انہیں دوسروں کو سمجھانے کے لیئے عوام کے سامنے رکھنا لازمی امر بن جاتا ہے کیونکہ دیگر تمام اختیاری تدابیر ختم ہوجاتے ہیں اور مسائل اپنی سطح پر باقی رہ جاتے ہیں، لیکن اس امر کو سمجھنا لازمی ہے کہ اختلاف پر تنقید و غور فکر کرنے سے دشمن کو عارضی طور پر تو شاید نقصان نہ ہو مگر طویل دورانیے میں قومی سیاسی اداروں کی ساخت اس طرح مضبوط بن کر ابھری گی کہ دشمن کا ان پر وار کرکے انہیں شکست سے دوچار کرنا مشکل بن جاتا ہے، دشمن کو بلواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ اس صورت میں پہنچ سکتا ہے کہ کسی طرح کی تنقید اور اختلاف کو ابھارنے میں دشمن خود ملوث ہو، مگر اس طرح کہ تنقید و تحقیق کا عمل ایک آزاد حیثیت میں شروع ہوکر بغیر کسی دباؤ کے محض معروضی حقائق کا تجزیہ کرتے ہوئے انکو ایک منطقی انجام تک پہچانے کی کوشش کرے اور اس عمل میں بد نیتی کا شائبہ تک موجود نہ ہو تو پھر دشمن کس طرح فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔
تنقید و تحقیق کا جو نچوڑہوگا وہی قومی اداروں کی تشکیل کی راہیں کھول دے گا، تنقید سے ڈر نے والے وہ ہونگے جو اسکے زد میں آنے کی خوف سے منہ پر تالے لگائے ہوئے ہوتے ہیں، اگر بغیر غور و تحقیق کے قومی ادارے تشکیل پاتے اور اس طرح راتوں رات انقلابی عمل کی آبیاری ہوتی تو ہم بحیثیت ایک قوم پچھلے کئی سالوں سے گرتے پرتے مگر لڑتے ہوئے آرہے ہیں تو آج حالت کیا ہے، وہی قومی تنظیم اور پارٹیاں جنہیں ہم بہ زعم خود ادارے سمجھتے تھے آج انکی کیا حالت ہوچکی ہے، اگر سیاسی میدان کی بات کریں یا پھر جنگی محاز کی ہمیں جس شدت سے آج ادارہ سازی کی ضرورت محصوص ہو رہی ہے وہ شاید پہلے کبھی نہ تھی اور یہی سبب ہیکہ ہم بغیرغور وتحقیق کے عمل کرتے رہے اور محض چند کوتاہیوں نے آج پوری جنگ اور سیاست کی بساط ہمارے سامنے واضح کردی ہے، اس تنقیدی عمل کو منطقی انجام تک چلنا پڑے گا کہ جہاں پہنچ کر سیاہ و سفید کا فیصلہ کن مرحلہ آئے، اس سے دشمن کو کامیابی کچھ نہیں مل سکتی ہاں دشمن یہ ضرور چاہے گا کہ کسی طرح اس غور و فکر اور خامیوں و کوتاہیوں کی نشاندہی و سدباب کے عمل کو بند کیا جائے کیونکہ دشمن سمیت ہم سب کو معلوم ہے کہ جب احتساب کا عمل ہوگا تو اسمیں سردار و نواب سے لیکر ایک عام بلوچ تک سب کی اچھائیوں اور برائیوں کا فیصلہ بھی ہوگا اور اس عمل سے ایک نئی رجحان اور روایت جنم لے گا جو آئندہ کی ممکنہ کوتاہیوں اور خامیوں کی تدارک کے لیئے ایک تسدیدی حیثیت کا حامل ہوگا۔۔۔۔۔۔تنقید و تحقیق انقلابی عمل کا اساس ہیں۔۔۔