اتوار، 3 جولائی، 2016

کُبڑے چیف کا فیصلہ : زندگی کہاں ہے !! تحریر : زرک میر



سن 80کادور ہے،زمین کی ملکیت پر سردجنگ کافی عرصہ سے جاری تھی ،مخاصمت عروج پرتھی ، لکھت پڑھت نہ ہونے کے باعث مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیاتھا اگر لکھت پڑھت ہوبھی تو قبائلی غیرت اسے کیسے گوارہ کرسکتا ہے،ثالثی کی عمومی کوششوں کو رد کردیاگیاتھا۔۔۔۔ مورچے سنبھالے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھروں میں ٹی وی پنکھے اور استری کی بجائے موجود اسلحہ مورچوں میں پہنچا دیاگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھالاوان کا علاقہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ سرکار ہے نہ کوئی برسرپیکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قبائلی باالفاظ دیگر علاقہ غیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔زمین پر ملکیت پردعویٰ کی بنیاد یہ تھی کہ ایک قبیلہ کہتاتھا کہ ہمارے دادا نے تو اس زمین پر رہ کر بچپن اورجوانی دیکھی ، پہلی بار انہوں نے بندوق چلانا یہی سیکھا اور پھر یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کی ہماری پہلی دادی سے شادی ہوگئی البتہ دوسری دو شادیاں قلات کے اس پار گزگ میں ہوئی تھیں لیکن پہلی شادی اور اس کے الگ گدان کی زمین تو یہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے قبیلے کے پاس اس سے بھی زیادہ ٹھوس حوالے موجودتھے اس زمین پر ہمارے داداد پردادا کاگدان تھا ،ان کے ختنہ سے لے کر شادی تک تمام رسم ورواج اس زمین پرادا ہوئے۔ شکار یہی پر کھیلا۔۔۔۔۔۔۔ نوجوان اپنے اپنے داداؤں کی سوانح عمری سن کر جوش میں آگئے تھے۔۔۔۔ ایسے موقعوں پر سوانح عمری میں مبالغہ آرائی آجائے تو کوئی قباحت نہیں جنگ میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہید اور شہید کے درجات کی بلندی کا بلندوبانگ فلسفہ بیان کیاجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھاجائے تو جنگ کی نفسیات ایک ہی ہے یعنی مبالغہ آرائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انفرادی خاندانی قبائلی قومی وطنی اور ریاستی جنگوں میں یہی بنیادی فلسفہ کارگرثابت ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔تب ہی تو انسان جان سے گزرتا ہے اور دلچسپ تو یہ ہے کہ جو جو چیزیں جنگوں کا سبب بنتی ہیں ان مفادات کا تعلق بنیادی طور پر زندگی سے ہی ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس ان مفادات کے لئے زندگی قربان کی جاتی ہے زندگی اور مفادات گم ہوجاتے ہیں لیکن مبالغہ آرائی باقی رہتی ہے اس مبالغہ آرائی کو جس قدر خوبصورتی اور تصوراتی طورپرپیش کیاجائے وہ اتنا ہی ماہر استاد رہبر اور اوتار کہلاتا ہے یعنی مبالغہ آرائی کے ماہررہنماء بنتے ہیں اور لوگ ان کے اقوال پر جان نچھاور کرتے ہیں حالانکہ یہ رہنماء ان کی زندگیوں کو سہل بنانے کے بہانے درآتا ہے لیکن زندگیاں چھین لیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہ فلسفہ پارٹیوں کا منشور بن جاتا ہے یعنی ’’سروں کا سودا ‘‘ یہ جن کے سر کاندھوں پر نہیں رہتے ان کو اس سروں کے سودا سے کیا ملتا ہے محض شہید کا رتبہ۔۔۔۔۔ مجھے تجربہ نہیں شاہد شہید کہلانے سے بھی ان بغیر سروں کے کندھوں کو کچھ راحت ملتی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قبائلیوں نے اپنے داداؤں کی سوانح عمری سن کر فورا پہاڑ پر چڑھ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چونکہ گاؤں ایک تھا ، مشرق میں ایک قبیلہ تو مغرب میں دوسرا قبیلہ‘درمیان میں دونوں قبیلوں کے گھر آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ مشرق کی طرف پہاڑی پر ایک قبائلی لشکر تو مغرب کی پہاڑی پر دوسرالشکر قابض ہوگیا اور مورچوں میں بیٹھ کر دوربین آنکھوں پر لگائے ایک دوسرے کی حرکتوں کو دیکھتے رہے۔۔۔۔۔۔۔ کماشوں کا تعین بھی ہوگیا اور عام نوجوان کماشوں (جنگی کمانڈر) کے اشاروں کے منتظر رہے۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دوسرے کے مورچوں کودوربینوں سے دیکھاجارہاتھا ، دوربین اکثر گھروں کی جانب گھومتے۔۔۔۔۔۔ ایک دوسرے کے گھروں پر نظریں گھاڑی گئیں۔۔۔۔۔۔ عورتوں کو بھی گورا گیا جو عام طورپر قبائلی باہمی احترام کے باعث نہیں دیکھی گئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بس طبل جنگ بجنے کی دیر تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوجوان بندوق سنبھالے ہوئے تھے ، ایک دوسرے کی عام برائیوں کا بھی ذکر شد ومد سے کیاجارہاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔ عام اوقات میں ایک دوسرے کے گھروں میں چوری چھپے جھانکنے ، ایک دوسرے کی چیزوں کی چوری ، پانی کے اوپر مخاصمت اورکھیل کود میں جھگڑوں کو بھی یاد کرکے بدلہ چکانے کے عزم کا اظہارکیاجارہاتھا۔
مشرقی مورچے میں بیٹھا ایک کہہ رہا تھا کہ
یہ گزو عام دنوں میں بڑا پنے خان بنا پھرتا ہے آج مزا چکادینگے اسے
ان میں سے ایک نسبتا نوخیز نوجوان نے کہا!
یہ خیرو بھی آج اپنی گناہوں کا سزا پائے گا جو چھوٹے بچوں کو بہلاپسلا کراپنی ہوس ہوس پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
مغربی مورچے میں بھی یہی باتیں ہورہی تھیں کوئی کہہ رہا تھا کہ عبدو دکاندار نے بھی سود کھا کھا کرہمیں لوٹا ہے آج موقع ہے کہ اسے بھی سبق سکھایاجائے۔
ایک اور نے کہا !
یار یہ چورکے بچے ولو کوتو آج نہیں چھوڑنا ہے اس نے بھی بہت بھیڑ بکریاں چرائی ہیں
ان میں سے مورچے میں بیٹھے نسبتا کاہل اور سست شخص بھی گویا ہوا !
یاروں آج اگر ماں کا دودھ پیاہے تو اسے ثابت کرناہوگا اورآج اس شیرا سے بھی دودوہاتھ کرناپڑیگا جو ہمارے گھروں کی طرف بہانے بہانے سے آکر ہیرو بننے کی کوشش کرتا ہے۔
دونوں طرف سے اپنے عام دنوں کی کارستانیوں اور اس حوالے سے کرداروں کو یادکرکے برسوں کے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا مصمم ارادہ کرچکے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر ایک نے اپنے اپنے دشمن ٹارگٹ کئے ہوئے تھے۔۔۔۔ عورتیں جائے نماز کیساتھ لگ گئیں دعائیں مانگنے لگیں۔۔۔ کچھ اپنے مردوں کی کامیابی کی دعائیں مانگ رہی تھیں تو ان میں سے بوڑھی شیرزال عورتیں امن اور خیر کی دعائیں مانگ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی اثناء میں مشرقی مورچے میں بیٹھے لوگوں پر پڑی جو مشرق کی پہاڑ ی پر بنے مورچوں کی جانب آتے ہوئے دکھائی دیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اور مستعد ہوئے ،کماش نے دوربین نکالی اوران کو دیکھنے لگا کہ یہ کون ہیں جو ان کی طرف آرہے ہیں۔وہ ان کو پہچان گیا یہ گاؤں کے وہ لوگ تھے جومختلف قبیلوں سے رکھتے تھے ان کے ساتھ مسجد کا مولوی بھی تھا اور یہ لوگ ثالثی کے لئے آرہے تھے۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ مورچہ میں پہنچے توان کو بٹھایاگیا احوال کیاگیا احوال میں ان سفید ریش ثالثوں نے اپنا مدعا بیان کیا کہ وہ اس جنگ کو روکنا چاہتے ہیں جو اپنی تک خونی سطح پر نہیں پہنچی۔انہوں نے متنازعہ زمین کا پرامن تصفیہ کرانے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ اب قبائلی روایات کے مطابق ان مورچہ بند لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ایک موقع ہمیں دیں تاکہ مسئلہ کوپرامن حل کرنے کی کوشش کریں اور وہ اس مسئلے کو اگر حل نہ کرسکے تو چیف (تمام قبائل کا سربراہ ) کے پاس لے جائیں گے۔۔۔۔۔۔ جب ان قبائلی معتبر ثالثین میں سے ایک یہ باتیں کررہاتھا تو مورچے میں بیٹھے کچھ نوجوان بڑبڑاتے رہے ،کماش ان کو اشارے سے خاموش رہنے کی تاکید کرتے رہے لیکن وہ برابر بڑبڑاتے رہے اورپر امن طریقہ سے مسئلہ حل کرنے کی کوششوں کو مسترد کرتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثالثوں کی بات سن کر کماش نے ان کو کہا کہ اب ہمارا مسئلہ پہاڑوں پر چڑھنے تک آگیا ہے اب ہمارے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ بغیر جنگ کئے نیچے اتریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توفورا مولوی نے اسلامی تعلیمات میں سے درگزر اور صلح رحمی کی بات کی۔ مولوی کی بات سن کر کماش نے کہا !
مولوی صاحب آپ کی بات بجا لیکن آپ ہی خطبے میں کہتے ہیں کہ حق کے لئے لڑنا جہاد ہے اور یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی زمین پر اپنا حق حاصل کریں۔
قبائلی معتبرثالثین میں سے ایک ماماہدایت جو اس اثناء میں خاموش بیٹھا تھا بولا !
قبائل میں جنگیں ہوتی رہتی ہیں ہم بھی کسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہمیں ایک دوسرے کی بات پر اعتماد کرنا چاہیے اور مسئلے کو بات چیت سے حل کرنا چاہئے۔
یہ سن کر مورچے میں بیٹھے قدرے پختہ عمر کے ایک شخص نے کہا !
خواجہ پچھلے سال آپ لوگوں کی آپس میں جب جنگ ہورہی تھی تو آپ لوگوں نے ہمارے سفید ریشوں کی بات نہیں مانی اور جنگ ہوکررہی جس میں آپ کا نوجوان لڑکا محمدجان شہید ہوگیا۔ یہ سن کر ماماہدایت نے سردآہ بھری اور کہا!
بیٹا اسی لئے کہہ رہاہوں کہ جو غلطی ہم سے ہوئی وہ تم لوگوں میں سے نہ ہو میں نہیں چاہتا کہ خدانخواستہ اس مورچے میں بیٹھے آپ میں سے شام تک کوئی یہاں موجود نہ ہو۔
یہ سنتے ہی ایک نوجوان نے قدرے جذباتی انداز میں کہا!
کس میں دم ہے کہ ہمارا بال بیگا کرسکے ہم لڑیں گے اور ان بزدلوں (لغوروں ) کو سبق سکھا کر ہی رہیں گے آپ کا بیٹا آپ کے قبیلے کا شہید ہے اور آپ لوگوں کو اس پر فخر ہونا چاہیے۔
ان جذباتی باتوں کو سن کر ماماہدایت غصہ آنے کی بجائے مزید گہرائی میں چلے گئے اور کہنے لگے!
یہ تو مجھے پتہ ہے کہ اسے شہید محسوس کرتے ہوئے بھی میرے آنسونہیں رکھتے اور نہ ہی مجھے قرارآتا ہے۔ماں نڈھال ہے ، بہن بھائی ابھی تک یادکرکے روتے رہتے ہیں۔ میں نے بیٹا پیدا کیاتھا جینے کے لئے میراسہارا بننے کے لئے شہید ہونے کیلئے نہیں ، آج بھی بچپن سے لے کر شہادت تک اس کاایک ایک دن ایک ایک یاد مجھے اچھی طرح یاد ہے ، اسے تو کبھی شہادت کا شائبہ نہ گزرا وہ تو ہمیشہ زندگی سے بھر پور نظرآیا ، وہ اپنے بال وقت کے ساتھ ساتھ فیشن کے مطابق کٹوانے شہر جاتا ، باسکوپ جاتا فلمیں دیکھتا ، کپڑے خرید کر سلواتا ، اپنے ساتھ شہر سے نئی نئی چیزیں لاتا ، مٹھائیوں کا تو اسے بہت شوق تھا ، خود بھی کھاتا گھروالوں کے لئے بھی لاتا ، وہ تو بہت جلد شہر منتقل ہوکرخوب کام کرنا چاہتا مجھے اوراپنی ماں کو شہر میں بساناچاہتا تھا اور اپنی منگیترفضوکو شادی کے بعدشہر اور پارک لے جاناچاہتاتھا زندگی کی خواہشوں اور ضرورتوں کو پوراکر نا چاہتا۔ بیٹا تم سب کو پتہ ہے وہ حسب معمول شہر سے آرہا تھا اس کے ہاتھوں میں میرے لئے ماں بھائیوں بہنوں اورفضو کے لئے خریدی گئی چیزیں تھیں وہ تو یہاں چھڑنے والی جنگ سے بھی بے خبرتھا کہ راستے میں اسے گولیوں کا نشانہ بنایاگیا ، میرے بیٹے کو جب گولیاں لگی ہونگی وہ ضرور یہ سوال کررہاہوگا کہ اسے گولیاں کیوں ماری جارہی ہیں۔
یہ سن کرمورچے میں بیٹھے لوگوں کے چہرے لٹک گئے اور اپنے کماش کو دیکھنے لگے اور صاف لگ رہا تھا کہ سفید ریش کی باتوں نے اثر کیاتھا جس پر کماش گلہ صاف کرتے ہوئے گویا ہوئے۔
ماماہدایت چلو اگر ہم پہاڑ سے اتریں بھی تو کیا گارنٹی ہے کہ ہمارا مسئلہ پرامن حل ہوگا اور دوسرا فریق اس بات کو کیسے تسلیم کریگا۔
مولوی گویا ہوئے ، ہم ان کے پاس بھی اللہ کا کلام لے جائیں گے۔ جس پرماماہدایت نے کہا !
، دیکھو جو باتیں آپ لوگوں سے کہی ہیں وہی باتیں ہم ان کے پاس جا کرکرینگے اور ہمیں امید ہے وہ بھی مان جائیں گے اور جہاں تک پرامن طورپرمسئلہ حل کرنے کی بات ہے تو ہم خون خرابہ سے پہلے ہی اس مسئلے کوبراہ راست چیف کے پاس لے جائیں گے اورجس سے یقین ہے کہ آپ لوگوں کا مسئلہ خون بہائے بغیر حل ہوجائے گا اور ہم آخرتک آپ لوگوں کے ساتھ ہونگے۔
سفید ریش کی باتیں ایک بارپھر اثر دکھاگئیں۔
کماش مڑ کے مورچے میں بیٹھے اپنے لوگوں سے مخاطب ہوا اور کہا !
کہو نوجوانوں کیا خیال ہے سفید ریش ماما ہدایت اللہ کی باتوں پر ایک باراعتبارکرکے دیکھ لیاجائے اور امید ہے کہ وہ ہمیں مایوس نہیں کرینگے یہ سنتے ہی ایک پرجوش نوجوان نے کہا!
فیصلہ تو یہی ہوگا ،یہ لوگ تو فریق مخالف کو بھی یہی یقین دہانی کرائیں گے یہ ہمارے لئے بات نہیں کرینگے
ماماہدایت نے کہا !
فیصلہ تو ایسا ہی ہوتا ہے دونوں کی بات کی جاتی ہے فیصلہ تو حق کی بنیاد پر ہی ہوگا۔ مولوی اور دیگر سفید ریشوں نے بھی اثبات میں سرہلا کر بہ یک زبان کہا !
اللہ نے چاہا تو فیصلہ دونوں کے حق میں بہتر ہی ہو گا۔
یہ سن کر مورچے زن لوگ خاموش ہوگئے لیکن ان میں نسبتا کاہل اور سست جو عام دنوں میں محض چوراہے پر بیٹھ کر لوگوں پر بھپتیاں کھستا رہتا تھا اور لوگوں کی برائیاں کرتا رہتا تھا نے کہا ! آپ لوگوں کی بات اپنی جگہ ،مولوی صاحب بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن یہ جنگ صرف زمین کے اوپر نہیں ویسے بھی اس گاؤں میں مخالفین نے ہمارا جینا حرام کررکھا ہے ، مختلف بہانوں سے ہمیں تنگ کرتے ہیں آج تو ہم سب حساب چکتا کرنے آئے ہیں۔
یہ کہہ کر اس نمکے نے مسئلے کو مزید طول دینے کی کوشش کی اور اس کے علاوہ باقی سب معتبرین کی بات ماننے پر تیار ہوگئے تھے کہ اس نے ان کو
ایک بارپھر بھڑکنے کی کوشش کی۔ایسے لوگ اکثر ایسے موقعوں پر ایسا ہی کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ سن کرماماہدایت نے کہا !
بیٹا باقی مسائل اپنی جگہ لیکن بنیادی مسئلہ زمین کا ہی ہے اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو پھر کس بات پر آپ لوگوں کی ان سے ان بن رہے گی ؟پھر تو ایک دوسرے کو تنگ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔
یہ سن کر کماش نے کہا : ہمیں آپ لوگوں کی بات پر اعتماد ہے ، لیکن ہم تاحال اپنے مورچے پر بیٹھے رہیں گے جب تک مخالفین اپنے مورچے کو خالی نہیں کرینگے۔
ثالثین اور مولوی کے چہروں پر خوشی کے آثار نمودار ہوئے اور کہا ٹھیک ہے ہم جاکران سے بات کرتے ہیں، یہ کہتے ہوئے یہ لوگ دوسرے مورچے کی طرف بڑھ گئے۔
ان لوگوں کے مورچے سے اترتے ہی کچھ نوجوان بڑبڑاتے ہوئے اٹھے اور کہا!
اگر یہ لوگ ناکام ہوگئے اور مخالفین کی بات مانی گئی تو ہم اس گاؤں کی اینٹ سے اینٹ بجھادیں گے۔ کماش اپنے فیصلے پر دل میں تو خوش تھا لیکن نوجوانوں کے جذبات کے طورپرگویا ہوا
اگر ایسا ہواتو کیا میں تم لوگوں سے پیچھے رہوں گا اور پیٹ دکھا ؤں گا۔
یہ سن کر جذبات نوجوان خاموش ہوگئے اور ثالثین کو دیکھنے کے لئے دوربین کرنے لگے جو مخالفین کے مورچے کو پہنچ گئے تھے۔اور یہ لوگ ان کی حرکت وسکنات کو بھی بمشکل محسوس کررپارہے تھے۔اس اثناء میں ایک آدھا گھنٹہ گزرگیا جس کے بعد انہوں نے دوربینوں سے دیکھا کہ ثالثین اٹھنے لگے ہیں اور ان کے ساتھ مورچے والے بھی اٹھ گئے لیکن ان کی آپس میں کچھ باتیں ہوئیں جس پر صرف مولوی مورچے سے اترتے دیکھے گئے جو تیزی سے اترتے ہوئے مشرق کے مورچے کی طرف بڑھنے لگا تھا اور یہاں پہنچ کر اس کی سانس ہی پول گئی تھی ،بیٹھ گیا اور پانی طلب کی پانی پینے کے بعد کہنے لگا!
وہ بھی پرامن طورپر مسئلہ حل کرنے پر راضی ہوگئے لیکن انہوں نے کہا کہ ہم اور مخالفین ایک ساتھ مورچوں سے اتریں گے اگر ہم ان سے پہلے اترے تو ہمیں لغور(کمزور) سمجھ کر ہمارا مذاق اڑائیں گے قبائلی برابری کے تاثر کو دیکھ کر میں یہاں آیا ہوں اور اب میں ان کو اشارہ کروں گا اور وہ بھی ہمارے ساتھ ساتھ وہاں کے مورچے سے اتریں گے۔
مولوی نے بھی مورچے والوں کواتاردیااور کہا کہ دودن کی جنگ بندی کا فیصلہ بھی ہوا ہے، مغرب کی نماز پر یہ فیصلہ ہوگا کہ مسئلے کو کب اورکیسے چیف کے پاس لے جانا ہے اور آپ لوگ فی الحال مسجد نہیں آئیں گے۔ ثالثین کا جوبھی فیصلہ ہوگا اس سے آپ لوگوں کو آگاہ کردیاجائیگا یہ کہہ کروہ چلاگیا۔اگلے روز ثالثین گاؤں کے مشرق کی طرف آئے اور کہا کہ چیف کے فیصلے تک یہ جنگ بندی رہے گی اس کے بعد جنگ بندی اور باقی فیصلے کا اعلان چیف کرینگے ، ہم دودن بعد مسئلے کو چیف کے پاس لے جائیں گے اور آپ لوگوں میں سے پانچ لوگ بھی آئیں گے اور فریق دوئم کی طرف سے بھی پانچ لوگ آئیں گے ابھی تک مسئلہ اس قدر گھمبیر نہیں کہ تم لوگ ساتھ نہ آسکو تم لوگوں کیساتھ چل کر مسئلہ
چیف کے سامنے رکھا جائیگا۔
بالآخر دودن بعد طے شدہ فیصلے کے مطابق ثالثین اور دونوں فریقین کے منتخب لوگ چیف کے پاس پہنچے ، وہاں چیف کے پاس کافی رش تھا ،اوتاخ میں تل دھرنے کی جگہ ہی نہیں تھی۔صحن بھی کچا کچ بھرا ہواتھا بلکہ باہر گلی میں بھی لوگ جمع تھے ، ثالثین میں سے کچھ اندر گئے اور چیف سے اپنا مدعا بیان کرنے کے لئے وقت مانگا تو چیف کے ایک نائب نے انہیں باہر انتظارکرنے کو کہا ، یہ لوگ باہر آئے اورایک گھٹنے تک انتظار کرتے رہے لیکن ان کی باری نہیں آئی ثالثین میں سے دوبندے پھر اندر گئے اور تھوڑی دیر بعد واپس آئے اور کہا کہ ہمیں ایک دن پہلے وقت لینا تھا، پہلے سے آئے ہوئے لوگوں کو سننے کے بعد ہماری باری آئے گی اب مزید انتظار کرنا ہوگا ، دونوں فریق ایک دوسرے سے الگ الگ بیٹھے انتظارکررہے تھے ،رش بھی کافی کم ہوچکا تھا نائب نے انہیں اندرآنے کوکہاوہاں جا کر دیکھا کہ کبڑا چیف بالشت کے اوپر بیٹھا کافی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔اس کے ہاتھ میں رومال تھا جسے بارباراپنے بڑے بڑے مونچھوں پرپھیررہا تھا۔
ثالثین اور فریقین سے بلوچی حال احوال کیا جس میں ثالثین نے مسئلہ بھی تفصیل سے بیان کیا جس پر کبڑے چیف نے استفسار کیا !
زمین کے کچھ ثبوت ہیں کسی فریق کے پاس ؟ کوئی دستاویز یا کوئی تعمیر اور رہائش وکاشتکاری کے نشانات ؟
ماماہدایت نے کہا !
چیف صاحب یہی تو مسئلہ ہے کہ یہ زمین ویران پڑی ہے یہ دونوں اس گاؤں میں رہتے ہیں جہاں شمال مغرب میں یہ زمین پہاڑی کیساتھ منسلک ہے اور یہ دونوں دعویدار ہیں کہ ان کے دادا پرداد اس زمین پر رہتے آئے ہیں اور ان کی یادیں ہی اس زمین پر دعویداری کا ثبوت ہیںِان کا قبرستان ہے۔یہ سن کر چیف سردار نے ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ سجائی اور کہا !
اگر ان باتوں پرمیں یقین کروں تو میرے دادا پردادا نے ایسے کہیں جگہوں پر پڑاؤکیا ہے ، شادیاں کی ہیں ،خان آف قلات کے حکم پر جنگیں لڑنے کے لئے شمال میں قندھار تک مشرق میں جیکب آبا دتک ا ور جنوب میں لسبیلہ تک گئے ہیں ، میری دادیوں نے ان جیسی جگہوں پر بچے جنے ہونگے۔ کیا تم لوگ میرے اس دعوے کو سچا ثابت کرنے کیلئے میراساتھ دوگے۔اگر پڑاؤڈالنے پر زمین کی ملکیت پر وراثت ملتی تو میں آدھے بلوچستان کا وارث ہوتا۔ہم نے یہ زمین جس پر ہم رہ رہے ہیں خون دے کر اور خون لے کر حاصل کیا ہے اور باقی بلوچستان کا حصول بھی خون سے عبارت ہے۔
چیف کی یہ باتیں تیر کی طرح فریقین اور ثالثین کو لگتی رہیں ‘چیف یہ سب کہتا رہا اور فریقین کی پیشانیوں میں بل پڑتے گئے اور ان کے چہرے سرخ ہوتے گئے کیونکہ چیف سردار ان کی تضحیک کررہاتھا جس زمین کو یہ اپنے باپ دادوں کی حسین یادوں سے مزین کرکے سینے سے لگائے اس کے حصول کے لئے سروں کی قربانی کے لئے کٹ مرنے کے لئے تیارتھے اور چیف انتی آسانی سے ان کی تضحیک کئے جارہاتھا تاہم قبائلی آداب ملحوظ خاطرتھے اور پھر وہ بپھر ے نوجوان بھی یہاں نہیں تھے۔
چیف سردار کی باتوں پر سب خاموش تھے ایک سکوت طاری تھا چیف نے تو ان کے دعوؤں کو ملیا میٹ کردیا تھا اور الٹا ان کی باپ داداؤں کی حسین یادوں کو اپنی تضحیک اور طنز کانشانہ بنایاتھا ، سب دل ہی دل میں چیف کے اس روئیے پرخائف ہورہے تھے ، فریقین کی حالت تو دیدنی تھی جو سرجھکا کرنرم اور نازک قالین میں انگلیاں پھیر رہے تھے ، ثالثین بھی ہمہ تن گوش تھے لیکن چہرے کی سرخی بتا رہی تھی کہ چیف نے ان کی توقعات پر پانی پھر دیاتھا لیکن پھر سرداروں کی محفلوں میں عام قبیلوں کی ایسی تضحیک کو معمول خیال کرکے اس انتظار میں تھے کہ چیف سردار اپنا آخری کیا فیصلہ دینگے کیونکہ سرداربالشت پر بیٹھ کرتضحیک پر تضحیک کئے جارہاتھا تاہم کبڑا چیف اب جو بات کہنے والاتھا جو ان سب کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔جب چیف سردار اپنی تمام تضحیک آمیز جملے بول گیا تو قدرے سنجیدہ ہوکر فریقین اور ثالثین کو مخاطب کیا
اور کہا !
زمین کے لئے کچھ تو ثبوت چاہئے ہونگے ایسا فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے ؟اگراور کوئی ثبوت نہیں تب خونی ثبوت لاؤ۔۔۔۔ مرو اورمارو تب میرے پاس آؤ تاکہ میں کسی فیصلے کی پوزیشن پر آسکوں۔
یہ سن کر چیف اٹھ کردوسرے کمرے میں چلا گیا۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ اپنا حق ملکیت جتانے کیلئے خون دو اور لو کا فارمولہ اپناؤ۔
ثالثین ہکابکا رہ گئے اوردبے پاؤں اٹھ گئے لیکن فریقین اپنے پٹوؤں کو ترندی سے جھاڑتے ہوئے اٹھ گئے ،انہیں چیف کی تضحیک آمیز باتوں نے طیش دلایاتھا اورفیصلے تک پہنچنے کے لئے راستہ چننے کا اشارہ بھی دیاتھا۔ جب یہ طیش طاقتور کی طرف سے دی جائے تو غصہ اس پر نہیں آتا بلکہ اپنے جیسے کمزوروں پر آتا ہے جیسا کہ مشہور مقولہ ہے کہ طاقتورکو دیکھ کر مجھے غصہ نہیں آتا اور کمزورکو دیکھ کر میرا غصہ نہیں جاتا۔ اس کیمصداق فریقین ثالثین کو وہی چھوڑ کر کس برق رفتاری سے گاؤں پہنچے تھے کہ ثالثین کے پہنچے تک مورچے دوبارہ سنبھالے گئے تھے گاؤں میں یہ بات پہنچ گئی تھی کہ چیف نے اپنی دانش مندی سے کیا پیغام دیاتھا اوروہ پیغام صاف تھا کہ جنگ اور بس جنگ ہی فیصلہ کریگا‘ گلیاں سنسان ہوگئیں ، عورتیں صورتحال کو دیکھ کر سم گئی تھیں ، ماحول کودیکھ کر چھوٹے بچے رونے لگے تھے ،بھیڑ بکریوں نے بھی حالت بھانپ لئے تھے کہ ان کے چہروں سے بھی خوفناک صورتحال کا اندازہ لگایاجاسکتاتھا ، طبل جنگ بچ چکا تھا ،کان جنگ کا آغاز کرنے والی آواز کے منتظر تھے کہ وہ آواز بھی فضا میں گونجی جس سے فضاء بندوق کی آواز سے تھرتھر کانپنے لگا ، دونوں طرف سے فائرنگ شروع ہوئی ، ثالثین کو مورچوں تک پہنچنے کا موقع ہی نہیں ملا کہ غیرت اور حمیت کی جنگ نے اپنے تقاضے پورے کئے تھے اور گولیاں تیزی سے چلنے لگیں ، دیگر قبائل کے لوگ تیزی سے گاؤں کے جنوب کی طرف نکلنے لگے ،عصر کے وقت جاری لڑائی رات کی تاریکی تک جاری رہی ، پھر آہستہ آہستہ گولیوں کی آواز تھمنے لگی ، رات خود ایک وقفہ ہے جاری زندگی کا تب فضاء خاموش ہوگئی ثالثین کو لگا یہ وہ مناسب وقت ہے کہ مورچوں پر جاکر ایک بارپر جنگ بندی کی کوشش کریں تب ماماہدایت سمیت کچھ سفیدریش جمع ہوگئے اور مشرق کی جانب قائم مورچے کی جانب بڑھے جونہی وہ مورچے کے قریب پہنچے تو انہیں وہ آوازیں سنائی دیں کہ ان کے لئے واپس جانا ہی بہترٹھہرا۔ مورچے سے آوازیں آرہی تھی کہ خیرو اور ہدو مارے گئے ہیں اور رحیم سمیت پانچ لوگ شدیدزخمی ہیں ، کماش کہہ رہاتھا کہ لاشوں اورزخمیوں کو گھروں میں منتقل کرواور کچھ لوگ میرے ساتھ چلو ان کے گھروں پر حملہ کرکے صبح تک بدلہ چکانا ہے۔ نوجوان جو انتہائی مشتعل تھے بیس سے پچیس نوجوان کماش کے ساتھ ہولئے ،دوسری طرف بھی یہی صورتحال تھی وہ بھی اپنے زخمی اپنے گھروں کولارہے تھے اور بدلے کی نیت لئے مشرق کی جانب آرہے تھے کہ راستے میں مڈبھیڑ ہوگئی اور گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی جس سے گاؤں گولیوں کی آواز سے پھر سے تھر تھر کانپنے لگا ، اندھیرے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کون کہاں گولیاں چلارہاتھا بس ہر ایک کو اپنی گولیاں چلانی تھی۔ کافی عرصہ تک فائرنگ جاری رہی ، بالاخر صبح صادق کونماز کے بعد معتبرین نے پھر سے گاؤں کا رخ کیا ‘ جب مسجد سے ملحق گاؤں کی گلی میں داخل ہوئے تو انہیں لاشیں ہی لاشیں نظر آئیں ان کے قدم بھی تیز ہوگئے ، تیزی سے آگے بڑھے اور لاشیں پڑھی ہوئی ملیں ،جب وہ کچھ دور مغرب کی طر ف گئے تو دوسرے فریق کی لاشیں بھی پڑی ہوئی ملیں ،عورتیں بھی گھر سے نکل گئیں او ربین کرناشروع کردیں جو بچے کچے مسلح لوگ تھے وہ پہاڑوں میں غائب ہوگئے تھے۔سفید ریشوں نے لاشیں اٹھانے کا بندوبست کیا ‘دونوں طرف سے سات سات لوگ شہید ہوگئے تھے۔صبح کبڑے چیف تک خبر پہنچی تو وہ فورا گاؤں پہنچا۔کبڑے چیف کی آمد کیساتھ ہی گاؤں شانت ہوگیا۔ایسا سکوت جیسا کہ شدید درد کے بعد جسم کو سن کردیاجائے۔یہ سکوت کبڑے چیف کے فلسفے پر عملدرآمد کاکے سبب تھا۔
تیسرے دن جب رسم سوم منایاجارہا تھاتو چیف نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے زمین تقسیم کردی ہے ‘فیصلے کے مطابق زمین دونوں قبیلوں میں برابر تقسیم ہوگئی ہے‘چونکہ لاشیں بھی دونوں طرف سے برابر گرائی جاچکی تھیں سو قبائلی روایات کے مطابق ان کو بھی برابر قراردے کر معاملہ نمٹادیاگیا ہے۔لاش کو لاش سے نفی کیاگیاباقی بچا صفر۔
چودہ اجڑے گھر شہید کا لقب ماتھے پر سجائے اندر سے خون کے آنسورورہے تھے۔ہدو اور خیرو کی نئی نویلی دلہنیں زندگی بھر کے لئے شہید کی بیوائیں قرارپاچکی تھیں جبکہ زمین اور لاشوں کو برابر تقسیم کرکے کبڑا چیف اپنی ذہانت کا داد وصول کررہاتھا۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں