جمعرات، 28 جون، 2018

ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے کتنی دیر سونا ضروری ہے؟



ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے کتنی دیر سونا ضروری ہے؟
ایوا اونٹیویروس
آپ نے کتنے لوگوں کو اپنی کم سونے کی عادت کے بارے فخریہ طور پر کہتے سنا ہو گا مگر نیند کی کمی ہمارے دماغ اور جسم کو حیرت انگیز طرح سے متاثر کر سکتی ہے۔
یہاں تک کہ کم سونے والوں کے بارے میں جان کر آپ کو ان کے فیصلوں اور معقولیت پر شک گزرنے لگے گا۔
پروفیسر میتھیو واکر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں نفسیات اور علم الاعصاب کے استاد ہیں۔
وہ 'ہم کیوں سوتے ہیں' نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ یہ کتاب ممکنہ طور پرآپ کی زندگی بدلنے (عمر بڑھانے) کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ان کے خیال میں لوگ بہت مصروف ہو گئے ہیں اور تھوڑے وقت میں بہت کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق ایسے لوگ نیند پوری نہیں کرتے۔
ہم اپنی جسمانی ضروریات کو زیادہ دیر تک نظرانداز نہیں کر سکتے۔ نیند کا پورا کرنا ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو نتیجہ طبعیت کی خرابی اور امراض کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

پروفیسر میتھیو واکر کا یہ مضمون نیند کی اہمیت اور صحت افزا طرز زندگی کے بارے میں ہے۔

نیند کیوں ضروری ہے؟

لاکھوںمریضوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیند اور عمر کا براہِ راست تعلق ہے۔ نیند جتنی کم ہوگی عمر بھی اتنی ہی کم ہوگی۔
لہٰذا اگر آپ زیادہ جینا اور صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو نیند پوری کرنے کے لیے جو بن پڑے کریں۔
نیند خود کو صحت مند رکھنے کا ایسا نسخہ ہے جس پر کچھ خرچ نہیں آتا اور نہ ہی یہ کوئی کڑوی دوا ہے جسے پینے سے انسان ہچکچائے۔
درحقیقت نیند کے اتنے زیادہ فائدے ہیں کہ پروفیسر واکر نے ڈاکٹروں کو قائل کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ اپنے مریضوں کو نیند بطور علاج تجویز کریں۔
نیند کے لاتعداد فائدے ہیں۔ ذہن اور جسم کا کوئی ایسا حصہ نہیں جو کم نیند کی وجہ سے بری طرح متاثر نہ ہوتا ہو مگر نیند قدرتی ہونی چاہیے کیونکہ نیند کی گولی سے دوسرے امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔

کم خوابی کے ذہن اور جسم پر اثرات

ترقی یافتہ ممالک میں موت کا سبب بننے والے تقریباً تمام امراض کا تعلق کسی نہ کسی طور نیند کی کمی سے ہے۔
ان میں الزائمر یا بھولنے کی بیماری، کینسر، امراضِ قلب، موٹاپا، ذیابیطس، ڈپریشن، ذہنی پریشانی اور خودکشی کا رحجان شامل ہیں۔
تمام جسمانی اور ذہنی افعال کی ٹھیک طور پر انجام دہی کے لیے نیند ضروری ہے۔
کیونکہ ہمارے جسم اور دماغ میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت نیند کے دوران ہوتی ہے اور ہم تازہ دم ہو کر بیدار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر نیند پوری نہ ہو تو مرمت بھی نامکمل رہتی ہے۔
پچاس سال پر مبنی سائنسی تحقیق کے بعد نیند کے ماہرین کہتے ہیں کہ سوال یہ نہیں کہ 146نیند کے فائدے کیا ہیں' بلکہ یہ ہے کہ 'کیا ایسی بھی کوئی چیز ہے جس کو نیند سے فائدہ نہیں پہنچتا'۔
اب تک کوئی ایسی چیز سامنے نہیں آئی جس کے لیے نیند کو مفید نہ پایا گیا ہو۔

کتنی دیر سونا کافی ہے؟

مختصر جواب ہے سات سے نو گھنٹے۔
سات گھنٹے سے کم نیند جسمانی اور ذہنی کارکردگی اور بیماریوں کے خلاف جسم کے مدافعتی نظام کو متاثر کرتی ہے۔
بیس گھنٹے تک مسلسل جاگتے رہنے کا اثر انسان پر ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ کسی نشہ آور چیز کے قانونی حد سے زیادہ لینے کا۔
نیند کی کمی کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو فوری طور پر اس کے برے اثرات کا علم نہیں ہوتا۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی نشہ میں دھت شخص خود کو بالکل ٹھیک ٹھاک سمجھتا ہے۔مگر آپ جانتے ہے کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔

گہری نیند کیوں نہیں آتی؟

گذشتہ 100 برس کے دوران ترقی یافتہ ملکوں میں نیند میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
اب لوگوں کو گہری نیند نہیں آتی جس کی وجہ سے وہ خواب بھی نہیں دیکھ پاتے۔ حالانکہ خواب کا آنا ہماری تخلیقی صلاحیت اور ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے۔
(گہری نیند کو طب کی اصطلاح میں 146آر ای ایم سلیپ145 یا ریپِڈ آئی موومنٹ سلیپ کہتے ہیں۔ یعنی وہ نیند جس میں آنکھیں گاہے گاہے تیزی سے حرکت کرتی ہیں اور اچھے خواب آتے ہیں۔)
بالفاظِ دیگر گہری نیند یا آر ای ایم ہمارے لیے جذباتی سطح پر ابتدائی طبی امداد فراہم کرتی ہے مگر کم نیند کی کئی وجوہات ہیں۔

اہمیت سے ناواقفیت

اگرچہ سائنسدانوں کو نیند کی اہمیت کا احساس ہے لیکن اب تک انھوں نے اس کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔
زیادہ تر لوگوں کو اس کی اہمیت کا ادراک نہیں اس لیے وہ اس کے بارے میں زیادہ سوچتے ہی نہیں۔

زندگی کی رفتار

عام طور پر ہم کام زیادہ کرتے ہیں اور پھر سفر میں بھی خاصا وقت صرف ہوجاتا ہے۔ ہم صبح جلدی نکلتے ہیں اور شام کو دیر سے گھر آتے ہیں۔
پھر ہم اہلِ خانہ اور دوستوں کے ساتھ بھی وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے ٹی وی بھی دیکھتے ہیں۔ ان سب کا نتیجہ نیند کی کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔
نیند کے بارے میں تصورات اور رویے

ایک بڑا مسئلہ نیند کے بارے میں ہمارا تصور ہے۔ اگر آپ کسی سے کہیں کہ نو گھنٹے کی نیند ضروری ہے تو وہ آپ کو عجیب نظروں سے دیکھے گا۔
کیونکہ عام لوگوں کے خیال میں اتنی دیر تو کوئی کاہل شخص ہی سوتا ہے۔ زیادہ سونے کی عادت اتنی بدنام ہو گئی ہے کہ لوگ فخریہ بتاتے ہیں کہ وہ کتنا کم سوتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں جب کوئی بچہ زیادہ سوتا ہے تو اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ بچوں میں زیادہ نیند کو نشو ونما کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
مگر عمر کے بڑھنے کے ساتھ نیند کے بارے میں ہمارا رویہ بدلنے لگتا ہے۔ بلکہ زیادہ سونے والوں کی سرزنش کی جاتی ہے۔

گرد و پیش

ہم رات کی تاریکی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمیں اچھی اور صحت افزا نیند کے لیے ایک ہارمون یا کیمیائی مادے 146میلاٹونِن145 کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارا جسم صرف تاریکی میں ہی پیدا کرتا ہے۔
بد قسمتی سے صنعتی ترقی کے اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ اب ہم مسلسل روشنی میں نہائے رہتے ہیں۔
یہ ایل ای ڈی سکرینز کے ساتھ بدتر ہو جاتا ہے کیونکہ نیلے رنگ کی روشنی میلاٹونن کی پیداوار کو اور کم کر دیتی ہے۔

کیا نقصان کا ازالہ ممکن ہے؟

ہاں اور نہیں: گزرا ہوا وقت تو واپس نہیں آ سکتا مگر اچھی تبدیلی کسی وقت بھی لائی جا سکتی ہے۔ یہ خیال کے آپ کھوئی ہوئی نیند بعد میں پوری کر سکتے ہیں غلط ہے۔
اس لیے ہفتے بھر کم سونا اور چھٹی والے دن حد سے زیادہ سونا کھوئی ہوئی نیند کا مداوا کبھی نہیں کر سکتا۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی لائی جائے اور نیند کو پورا وقت دیا جائے۔ اس کا فائدہ فوری ہوگا۔ اس کے شواہد موجود ہیں۔
مثلاً ایک گروپ کے (جس میں نیند کی خرابی کی وجہ سے زیادہ خراٹے لینے اور سانس میں تکلیف کی شکایت تھی) مطالعے سے پتہ چلا کہ جن لوگوں نے اپنی نیند پوری نہیں کی ان کی شکایات برقرار رہیں۔ البتہ جن لوگوں نے اپنی عادات بدل کر گہری نیند سونا شروع کیا انھیں اس کا فائدہ ہوا۔

کیا نیند کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے؟

کاش ایسا ہو سکتا!
ویسے چربی کے معاملے میں ایسا ہوتا ہے۔ جب اچھی اور زیادہ خوراک میسر ہو تو وہ ہمارے جسم میں ذخیرہ ہو جاتی ہے اور خوراک کی کمی کی صورت میں یہ ہی چربی گھل کر ہمیں توانائی فراہم کرتی ہے۔
مگر نیند کے لیے ایسا ممکن نہیں کیونکہ یہ مسئلہ جدید دور کا ہے۔ انسان کے ارتقائی عمل میں یہ موجود ہی نہیں تھا۔ اس لیے نہ ہی نیند کی قضا ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ پیشگی ادا کی جا سکتی ہے۔

_________________
اچھی نیند لینے کے گر
ایک :  ہر روز ایک ہی وقت پر اٹھیں

دو :  خود کو اندھیرے کا عادی بنائیں، بستر میں لیٹنے سے ایک گھنٹہ پہلے لائٹ دھیمی کر دیں اور سکرینز بند کر دیں

تین : درجۂ حرارت کو اٹھارہ ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھیں جو کہ آئیڈیل ہے

چار : اگر آپ کو نیند نہیں آ رہی تو بستر پر بیس منٹ سے زیادہ نہ لیٹیں

پانچ :  ،کیفین چستی پیدا کرنے والا محرک ہے اسے سونے سے بارہ گھنٹے پہلے کم سے کم آدھا کاٹ لیں

چھ :  شراب آپ کے آرام کو بہتر نہیں کرتی اور یہ آپ کے آر ای ایم یا گہری نیند کو بلاک کرتی ہے

ہم کیوں سوتے ہیں، تحریر پرفیسر واکر
بی بی سی 

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں