پیر، 30 ستمبر، 2013

کم اِل سُنگ: تحریر ڈاکٹر شاہ محمد مری



(15 اپریل 1912۔۔۔۔۔۔8 جولائی 1994)

تحریر ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری

.............................

عوامی جمہوریہ کوریا کے عظیم کمیونسٹ لیڈر مغربی دانشوروں کے بقول ،’’ایشیا میں امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘‘(1)کامریڈ کم ال سنگ 82 سال کی عمر میں آٹھ جولائی 1994 کو انتقال کرگیا ۔ اس کا انتقال ایک ایسے دور میں ہوا جب ایک طرف عظیم سوویت یونین کا وجود موجود نہیں رہا ، دیگر تمام سوشلسٹ ممالک کا گلا معاشی اور سیاسی طور پر دبوچا جا رہا ہے اور دوسری طرف سرمایہ ایک عالمگیر اور بے پایاں اقتدار اور حشمت حاصل کر چکا ہے ۔ امریکہ سارے جہاں کا آقا بن چکا ہے ۔ طبقاتی لوٹ کو مقدس قرار دیا گیا ہے اور دکاندار کے سامنے آزادی ، آبادی، ضمیر اور سا لمیت و وقار رہن رکھ دیے گئے ہیں۔ ایک ہی عالمگیر طبقے کا واحد نمائندہ ہی تمام ممالک کی سرحدوں، وہاں کے طرزِ حیات، فوجی قوت و تعداد اور اسلحہ کی قسم کا تعین کرتا ہے ، بحث مباحثہ، حیل و حجت، پس و پیش اور اگر مگر کی جرأت کی سزا بہت بھیانک ہے ۔ انسانیت کے روشن مستقبل کے لیے جدوجہد کرنے والے کاررواں کو تتر بتر کر دیا گیا ہے ۔ امید کی تسبیح کے دانے بظاہر بکھر گئے ہیں ۔ آزادیوں کے نام پر برلن کی دیوار توڑ دی گئی اور آزادی ہی کے نام پہ روزگار کی ضمانت، مفت تعلیم کے حصول اور صحت و رہائشی سہولیات کی یقینی ترسیل کی لائن کاٹ دی گئی ہے ۔ زر کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا اور کرنسی کی تھاپ سے مسحور انسان اپنے باپ دادا کی تصویریں زمین پر پٹخنے لگے۔ شرفِ آدمیت کے تاریخی کاررواں کے ہر سنگِ میل کو ندامت کا نشاں ثابت کیا گیا۔ ستر سال سے خوش خوشحال لوگ اپنی ہی موت پہ جشن منا کر انتہائی تیز رفتاری سے عصمت فروشی کے تاریک بازار کی طرف دوڑنے لگے ۔ امن کی تحریک کو دفن کر کے کروڑوں لوگ نیو ورلڈ آرڈر کے وحشی دیو کے سامنے رقص کرنے لگے اور اپنی ہی منتخب پارلیمنٹ پر ٹینکوں سے گولہ باری کر کے ایک نئی قسم کی بورژواجمہوریت مسلط کرنے لگے ہیں۔

اس پس منظر میں جناب کم ال سنگ کا انتقال ہو گیا۔ اس کم ال سنگ کا جس نے نہ تو نیو ورلڈ کومانا ، نہ سوشلزم کی موت کے پروانے پر دستخط کیے اور نہ ہی کوریائی عوا م کے اتحاد کے اپنے عزم سے پیچھے ہٹا۔ کامریڈ کم ال سنگ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ایک سامراج دشمن انسان تھا ۔وہ نو آبادیت اور جدید نو آبادیت کے خلاف ایک عملی مجاہد تھا۔ وہ جمہوریت، امن، انصاف اور ناوابستگی کا داعی تھا ۔
گو کہ اس نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں جگہ جگہ اپنے دیو قامت مجسمے کھڑے کرنے اور اپنے آپ کو مافوق الفطرت مخلوق ثابت کرنے پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کر کے شخصیت پرستی کے زہریلے بیج بو دیے تھے اور پھر پارٹی کو اولیت دینے کے بجائے اپنے بیٹے کو اقتدار عطا کر کے اس نے اپنی پارٹی میں جمہوریت اور اس کے اداروں کی بنیادیں ہلا ڈالنے کی حرکت کی ہے، مگر اس سب کے باوجود کم ال سنگ ایک سچا کمیونسٹ، عظیم محب وطن اور عوام سے سچا پیار کرنے والا عظیم لیڈرتھا ۔
کامریڈ کم ال سنگ کا اصل نام ’’ کم سنگ جو ‘‘ تھا ۔ وہ 15 اپریل 1912 کو کوریا میں پیانگ یانگ کے قریب پیدا ہوا۔ کوریا ایک قدیم اور بڑاملک ہے ۔ اس کے مغرب میں Yellow Sea اور جنوب میں آبنائے کوریا واقع ہے ۔ مشرق میں بحیرہ جاپان اور شمال میں یالو اور تومین نامی دریا ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ اس کی سرحد ملتی ہے اور سابقہ سوویت یونین، کوریا کا زبردست دوست اور پڑوسی تھا ۔
کوریا کے وجود کی تاریخ سن 57 قبل مسیح تک جاتی ہے ۔ آٹھویں صدی میں اس کا نام سلطنت ’’ کوریا ‘‘ پڑا۔ کوریا سو سال تک منگولوں کے تسلط میں رہا اور 1395 میں جنرل یی سانک گائی نے اقتدار پر قبضہ کر کے یی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور مرکزی انتظامیہ رائج کی ۔ کنفیوشس کا فلسفہ یہاں کااخلاقی نظام قرار پایا ۔ سولہویں صدی میں چین نے جاپانی حملے کو پسپا کرنے میں کوریا کی مدد کی ۔ مگر سترہویں صدی میں چین نے خود اس مملکت سے خراج لینا شروع کر دیا۔ انیسویں صدی تک یہ علاقہ چین اور جاپان کے درمیان جھگڑے کا باعث بنا رہا ۔ اور 1910 میں جاپان نے مکمل طورپر اس علاقے پر قبضہ کر کے اسے اپنا مطیع بنا لیا ۔
کم ال سنگ کا والد جاپانی سامراج کے خلاف تحریک آزادی میں فعال طور پر شریک تھا ۔ اس کی مادرِ مہربان بھی حبِ وطن اور آزادیِ نسواں کے نشے میں سرشار تھی اور اپنے رفیقِ حیات کی انقلابی سرگرمیوں میں مدد گار تھی۔اس کی ماں صرف ایک انقلابی مجاہد کی رفیقہِ حیات ہی نہ تھی، وہ ایک ایسے باپ کی بیٹی بھی تھی جس نے جاپانی سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ۔ محترمہ کانگ بین سوک نے نہ صرف ایک عمدہ کمیونسٹ کو جنم دے کر اسے جوان کیا بلکہ خود بھی آزادی کی قومی جدوجہد اور معاشرتی انقلاب میں حصہ لیا ۔
کم ال سنگ 1925 میں قابض جاپانیوں کے تشدد سے فرار ہو کر مانچوریا چلا گیا۔ 1926 میں 14 سال کی عمر میں مانچوریا کے سکول میں داخل ہوا اور وہاں وہ کمیونسٹ بن گیا ۔ اس نے نوجوان کمیونسٹ اتحاد میں شمولیت اختیار کی اور اپنی محنت، نظریاتی وابستگی اور فعال جدوجہد کی بدولت تین سال کے اندر اندر مانچوریا کی کمیونسٹ یوتھ الائنس کیکمیشن کا سیکرٹری بنا ۔ 1917 کا زمین ہلاڈالنے والا بابرکت انقلاب روس میں بپا ہو چکا تھا ۔ سماجی برابری اور انسانی شرف کا محدود قافلہ عالمگیریت کی منزلیں طے کر رہا تھا ۔ سوشلزم مقبولیت پا رہی تھی اور دنیا بھر کی غلام قوموں میں آزادی کی تحریکیں کامیابیوں سے ہمکنار ہو رہی تھیں ۔ کوریائی تحریک آزادی بھی اس گرما دینے والے انقلاب کے اثرات کے خوشگوار زد میں تھی ۔ کامریڈ کم ال سنگ 1931 میں باقاعدہ طور پر چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ممبربن گیا اور ایک سال کے اندر اندر اس نے کوریا کی عوامی انقلابی فوج کی بنیاد رکھی ۔ اس نے اپنا نام کم سونگ جو سے بدل کرکم ال سنگ رکھا اور 1936 میں آبائی وطن کی آزادی کے لیے جاپانیوں کے خلاف پہلا متحدہ نیشنل فرنٹ قائم کیا اور اس کا چیئرمین منتخب ہو گیا۔ 
وہ جاپان کے خلاف گوریلا جنگ کی قیادت کرتا رہا ۔ وہ چاولوں کے کھیت میں کسانوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے بھی کام کرتا گیا اور انہیں آزادی اور انقلاب کا شعور بھی بخشتا رہا ۔ وہ بچوں کے ساتھ بنٹے کھیلتے کھیلتے انہیں آزادی اور سوشلزم کا سبق دیتا تھا۔ انہوں نے اپنی سچائی اور کھرے کمیونسٹ خیالات سے لوگون کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ وہ جدوجہد اور انقلابی عمل کے ہر مرحلے پر اپنے لوگوں کے دوش بدوش کام کرتا ۔ وہ عام لوگوں کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتا۔ اس نے خود کو مکمل طور پر عوامی انسان بنا لیا تھا اور جاپانیوں کے خلاف ملکی آزادی کی چوتھی لڑائی میں مرکزی کردار ادا کیا ۔
وہ 1942 میں سوویت یونین چلا گیا اور سوویت فوج میں میجر بن گیا ۔ جنگ عظیم دوم میں وہ جاپان کے خلاف کوریائی کمیونسٹ کے ساتھ سوویت فوج کے شانہ بشانہ لڑا۔ جب جاپان نے ہتھیار ڈالے تو اس وقت جنوبی حصے میں امریکی فوجیں موجود تھیں اور شمالی حصے میں کوریائی کمیونسٹ اور سوویت سرخ فوج کاقبضہ ہو چکا تھا ۔ 1945 ہی میں کم ال سنگ نے کوریا میں کمیونسٹ حکومت کے قیام کا اعلان کیا ۔ وہ عوام میں ایک ہیرو کی حیثیت اختیار کر چکا تھا ۔ وہ جلد ہی شمالی کوریا کی لیبر پارٹی کا وائس چیئرمین بن گیا ۔ 3 ستمبر 1948کو ملک کا نام عوامی جمہوریہ کوریا ہوا اور کم اس ملک کا پہلا وزیراعظم منتخب ہو گیا ۔ اس ملک کا رقبہ 122,400 مربع کلو میٹر ہے اور اس کا دارالحکومت پیانگ یانگ ہے ۔
کم ال سنگ 1949 میں کوریائی ورکرز پارٹی کا چیئرمین بن گیا جو کہ 23 اگست 1946 میں بنی تھی ۔ شمالی کوریا میں تیزی سے سوشلسٹ معاشرہ تشکیل پا رہا تھا۔ جبکہ جنوبی کوریا میں امریکی سامراجی پالیسیاں چل رہی تھیں۔ 1950 میں دنیا کے کمیونسٹ دشمنوں کے سب سے بڑے سرخیل پاگل میکارتھی نے اپنی فوجیں اتار دیں۔
الامان از جنگِ اِستعماریاں
کوریا با کوریا آمد بہ جنگ
امریکہ اور مغربی طاقتیں جنوبی کوریا کی پشت پر تھیں۔ یہ جنگ ’’ کورین وار ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ اس جنگ کے خلاف ساری دنیا میں امن تحریک چلائی گئی ۔ خود ہمارے بلوچستان میں کمیونسٹوں نے اس جنگ کے خلاف زبردست مہم شروع کر دی تھی ۔ بابو عبدالکریم امن نے اپنے دیگر کمیونسٹ رفقا کی مدد سے جناح روڈ کوئٹہ کے میٹرو ہوٹل میں پریس کانفرنس منعقد کی تھی جس میں اس نے دو نکات پر زور دیا تھا۔ اس کی ایک دلیل یہ تھی کہ کوریا کی جنگ صرف کمیونسٹ کوریا کو تباہ کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد کمیونسٹ چین کو بھی گھیرے میں لینا ہے اور وہاں چیانگ کائی شیک کی فارموسا والی حکومت کو پھر سے مسلط کرنا ہے ۔ امن بابو کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ امریکہ اپنے دیگر اتحادی ممالک کو بھی چین اور عوامی کوریاکے خلاف استعمال کرے گا اور پاکستان کو بھی اس جنگ میں جھونک دیے جانے کا خطرہ موجود ہے ۔ اس لیے اس کا مطالبہ تھا کہ پاکستان کو اس سامراجی جنگ سے دور رکھا جانا چاہیے ۔
اس پریس کانفرنس کے بعد انہی امور پر عوام میں ایک دستخطی مہم شروع کی گئی ۔ یہ مہم جاری تھی کہ 17 اگست 1950 کو بابو عبدالکریم اور اس کے رفقا محمد ہاشم خان غلزئی ، مولوی حکیم عبداللہ جان بازئی، مرزا فیض اللہ خان، عبدالصمد درانی اور محمد یوسف خان غلزئی کو 40 ایف سی آر کے تحت گرفتار کر لیا گیا ۔ ہتھکڑیوں اور جولانوں سے انہیں آراستہ کر کے سی کلاس کے کپڑے پہنا کر مچھ جیل بھیج دیا گیا ۔ ہمارے یہ اکابرین چھ ماہ تک جیل میں رہے ۔ آج ہم روایت پرستی کی ہزاروں بد صورت کارستانیوں کے بجائے بلوچستان کے ان سچے بیٹوں کی سامراج دشمنی اور کمیونسٹ بین القوامیت کے اقدام پر جیل میں کاٹے گئے ان 180 دنوں پہ افتخار سے سر بلند کرتے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے اکابرین توسیع پسند اور لٹیری قوتوں کے حلیف ہونے کے بجائے کوریا کی آزادی اور سامراج دشمنی کے کیمپ میں سر بلند کھڑے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ کم ال سنگ کی آزادی کی افواج کے سپاہیوں میں بلوچستانی کمیونسٹوں کے نام بھی جلی حروف میں موجود ہیں۔
یہ جنگ تین سال تک جاری رہی اور اس میں تیس لاکھ انسان ہلاک ہو گئے جن میں امریکیوں کی تعداد 54 ہزار تھی ۔ چین کی انقلابی حکومت کی موثر اور فعال یکجہتی کی وجہ سے شمالی کوریا کی کمیونسٹ حکومت بالآخر امریکی پیش قدمی کو روکنے میں کامیاب ہو گئی اور کوریا کے مزدور اور کسان جنگ زدہ معیشت اور تباہ شدہ مملکت کی تعمیر میں جت گئے ۔
دسمبر1972 میں کامریڈ کم ال سنگ ملک کا صدر منتخب ہوگیا۔ اس نے بار بار شمال اور جنوب کے اتحاد کی کوششیں کیں اور جنوبی کوریا سے امریکی فوجوں کے انخلا کی جدوجہد جاری رکھی ۔ بڑی طاقتوں کی آمیزش سے خود کو جدا رکھتے ہوئے سوشلزم کے عمومی اصولوں کے ساتھ مضبوط وابستگی رکھ کر کم ال سن نے کوریا کو ایک پسماندہ زرعی ملکسے ایک عظیم صنعتی قوت بنا دیا۔ سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین کے بے لوث تعاون سے کورین وار کے نتیجے میں تباہ شدہ شہری مراکز کو دوبارہ تعمیر کرکے صنعتی عمل کو بہت تیز رفتاری عطا کی گئی ۔ آج جمہوریہ کوریا فولاد، صنعتی و زرعی مشینری اور ٹیکسٹائل کی صنعت میں لاثانی مملکت بن چکا ہے ۔ اس کے علاوہ کیمیکل ، آٹو موبائل، سیمنٹ اور شیشہ کی صنعت بھی بہت ترقی کر چکی ہے ۔ صنعتی ترقی نے بجلی کی ترقی کی رفتار کو تیزی دی اور جواباً بجلی کی عظیم ترسیل و ترقی نے صنعتی ترقی کو آسمان تک پہنچا دیا۔ عوامی جمہوریہ کوریا بجلی کے میدان میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ اپنی عظیم الجثہ صنعتی و شہری ضروریات کو پورا کر کے عوامی جمہوریہ چین کو بھی بجلی بیچتا ہے ۔
انقلابی حکومت نے زراعت کو بھی بہت ترقی دی ہے ۔ چاول ، مکئی، گندم ، سبزیاں اور میوے یہاں کی بڑی پیداواری اجناس ہیں۔ ساری زراعت کو آپریٹو ہے ۔ اس ملک میں تقریباً 3000 کوآپریٹو ہیں۔ ہر کوآپریٹو میں تقریباً 300 خاندان ہیں اور وہ 1000ایکڑ پر مشتمل ہوتی ہے ۔ کواپریٹو میں شامل لوگ جمہوری انداز میں اپنے علاقے میں بیج، کھاد اور دیگر ضروریات کا تخمینہ لگاتے ہیں، پیداوار کا ہدف مقرر کرتے ہیں اور علاقے کی معاشرتی، معاشی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔
کمیونسٹ کوریا نے ہر خاندان کو مکان مہیا کیا ہوا ہے اور کچے فرسودہ مکانات کی جگہ پکے مکانات تعمیر کر کے لوگوں کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ اس طرح دنیا بھر میں دیگر کمیونسٹ ممالک کی طرح کوریا میں بھی رہائش کا کوئی مسئلہ نہیں۔ تیز رفتاری صنعتی ترقی کے باوجود وہاں نہ تو کوئی کچی آبادیاں ہیں اور نہ ہی پینے کے پانی اور نکاسیِ آب کے مسائل موجود ہیں۔
عوامی جمہوریہ کوریا میں تعلیم مفت ہے ۔ ہر شخص کے لیے تعلیم کا حصول قانونی طور پر لازمی ہے ۔ کوئی بچہ بغیر تعلیم کے نہیں رہ سکتا اور چار برس کی عمر میں ہر بچہ سکول جانے لگتا ہے ۔ نصاب تعلیم میں فضول اور غیر ضروری مضامین موجود نہیں ہیں بلکہ تربیت یافتہ کارکن، ٹیکنیشن اور سائنسدان پیدا کرنے کی طرف سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔ کم ال سنگ کے ملک میں شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ تکمیل علم کے بعد روزگار کا حصول کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ روزگار کی ضمانت سرکار دیتی ہے اور ہر شخص اپنی اہلیت اور قابلیت کے مطابق روزگار پاتا ہے ۔
تقریباً ہر گاؤں میں بنیادی سہولیات سے مزین ہسپتال موجود ہے۔ ملک میں علاج معالجہ مفت ہے ۔ زچہ بچہ کی نگہداشت پہ خصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔ بڑھاپے میں دیکھ بھال کی سہولیات بہت اعلیٰ ہیں ۔ تفریح گاہوں، کھیل کے میدانوں، بہتر خوراک اور صاف ستھرے ماحول کی فراہمی سے حکومت نے لوگوں کی صحت کا معیار بلند کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں عوامی جمہوریہ کوریا میں اوسط عمر 70 سال ہے ۔ صحت کے نظام میں بیماریوں سے بچاؤ اور پرہیز پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جس سے وبائی امراض بہت حد تک کنٹرول ہو چکے ہیں ۔
ہر چار سال بعد 615 ممبروں پر مشتمل اسمبلی کے انتخابات منعقد ہونے والے ملک میں کلچرل زندگی زبردست ترقی کر گئی ہے ۔ حکومت نے لوگوں کی روحانی زندگی کی بہتری کے کئی زبردست ادارے قائم کر دیے ہیں۔ مثلاً تھیٹر ، نیشنل آرکسٹرا اور نیشنل ڈانسنگ تھیٹر وغیرہ ۔ ہرجگہ میوزیم قائم ہیں۔ حکومت دل کھول کر انہیں فنڈ فراہم کرتی ہے ۔ صرف دارالحکومت میں کم از کم بارہ میوزیم موجود ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی نشریات تک تقریباً ہر شخص کی رسائی ہے ۔ دیہات میں ایک خاص نظام کے تحت ریڈیو نشریات ہر گھر تک پہنچائی جاتی ہیں۔ ملک بھر کے دیہاتوں میں ٹی وی نشریات دیکھی جا سکتی ہیں۔
یہاں کی زبان کوریائی ہے جس میں لکھنے والے شاعروں اور ادیبوں کاخاص خیال اور احترام کیا جاتا ہے ۔ حکومت ان کی کتابیں شائع کرنے اور فروخت کرنے کا انتظام کرتی ہے ۔ ایک زندہ معاشرے میں ادیب اور دانشور کی ضروریات کے عین مطابق انقلابی حکومت سہولیات فراہم کرتی ہے ۔ لائبریریاں وافر تعداد میں ہر دیہات میں موجود ہیں۔ بہترین تخلیقات پر ایوارڈ اور انعامات دیے جاتے ہیں ۔ ادبی اور ثقافتی وفود دنیا بھر کے ممالک کے دورے کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح فلم سازی کو خصوصی ترقی نصیب ہوئی ہے ۔
کم ال سنگ کے ملک میں دیگر سوشلسٹ ملکوں کی طرح عورت کو تکریم حاصل ہے ۔ اسے برابری کا درجہ حاصل ہے اور کوریا میں جنس کی بنیاد پر ہر قسم کے امتیاز کا خاتمہ سوشلزم کے اولین اقدامات میں سے تھا۔ جاگیر داری اور قبائلی غیرت کے نام پر عورت پہ ہونے والے ہر ظلم کا خاتمہ کر دیا گیا ۔ عورتوں کی جمہوری تنظیم منظم کی گئی ۔ اس پر تعلیم اور ترقی کے دروازے کھول دیے گئے اور سماجی ترقی کے عمل میں عورت کی بھر پور شرکت کو یقینی بنایا گیا ۔
کامریڈ کم ال سنگ کوریا کے درمیان اتحاد کے لیے کوشاں رہا ۔ امریکی سامراج دنیا میں ہر جگہ کے عوام کی طرح کوریا کے عوام کے اتحاد کوبھی سرمایہ داری کے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے ۔ لہٰذا کبھی دہشت پسندی کا الزام لگایا گیا تو کبھی ایٹم بم کی تیاری کا راگ الاپ کر وہ عوامی کوریا کے خلاف حلقہ تنگ کرتا رہا ۔ ایسے دور میں جب دستِ قاتل کو جھٹک دینے والے سارے مجاہد ایک ایک کر کے بچھڑ گئے ،کم ال سنگ نے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ۔ وہ سوویت خاتمے کے باوجود نہ تو کمیونزم سے تائب ہوا نہ ہی ڈالر کی تلاش میں اس نے اپنی تنی ہوئی گردن کو جھکانا گوارا کیا ۔ کم ال سنگ صرف سیاستدان ہی نہ تھا وہ ایک فلاسفر ، نظریہ دان اور ایک مفکر بھی تھا ۔ وہ آج کے پیچیدہ عالمی سیاسی منظر نامے میں ایک کامیاب اور باعمل سیاستدان تھا ۔ وہ ایک مدلل اور بہترین مقرر تھے ۔ اچھے لکھاری اور بہترین استاد تھا ۔ ایک سچے کمیونسٹ تھا ۔ ایک عظیم انسان دوست اور بین الاقوامیت پسند انسان تھا ۔ اس کی تصانیف چھ جلدوں کی صورت میں موجود ہیں۔ اس کی نشانی ہمارے درمیان موجود ہے اور وہ نشانی ہے؛ کمیونسٹ عوامی جمہوریہ کوریا۔ ہم اس عظیم لیڈر کی اس نشانی کی بقا ، خوشحالی اور ترقی کے خواہاں ہیں۔


0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں