پیر، 9 ستمبر، 2013

ٹارچر



(چند عمومی اور نفسیاتی پہلو )

تحریر۔۔۔ فرنانڈوزاچیرسن
............................................................




اس مضمون میں ریاستی سیاسی ایذارسانی کے کچھ عمومی اور خصوصی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے جن کا استعمال کئی لاطینی امریکی ممالک میں کیا جاتا ہے تاکہ آمرانہ تسلط کو قائم اور تبدیلی کو روکا جاسکے۔نیز ایسی ایذا رسانی کے مقاصد،طریقہ کار اور اثرات پر بھی بحث کی گئی ہے۔مضمون میں اُن چند عوامل کی بھی وضاحت کی گئی ہے جو ایک شخص کو ایذارساں بنانے میں مدد دیتے ہیں۔خود ایک ایذارساں کن تضادات کا شکار ہوتا ہے اور ان تضادات کو حل کرنے کے لئے وہ کن نفسیاتی حربوں کو استعمالکرتا ہے ۔ان امور کا بھی اس مطالعۃ میں جائزہ لیا گیا ہے دوسرے لفظوں میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حقیقتاً ایذارساں کون ہے؟
ہم ایذارسانی کی تعریف یوں کرسکتے ہیں کہ یہ تشدد کی وہ شدید اور سوچھی سمجھی صورت ہے،جس میں سے گزرنے والا شخص اُسے شعوری طور پر محسوس کرتا ہے۔مگر اس کا تشدد کے اس تجربے کی نہ تو نوعیت پراور نہ ہی دورانیے پر کوئی کنٹرول ہوتا ہے۔اس سے تکلیفدر اور ذہنی و نفسیاتی دباؤSTESSپیدا ہوتا ہے جس کا مقصد اُس شخص کی قوت ارادی کو توڑنا ہوتا ہے تاکہ قوت و اختیار کے نظام کے متعین کردہ تعلقات کا تسلسل یقینی بنایا جاسکے۔جب یہی طریقے ایک ریاست قوم کے افراد کو مغلوب کرنے کے لئے اختیار کرتی ہے تو اسے ریاستی ایذارسانی کہا جاسکتا ہے۔لیکن جب ان ہتھکنڈوں کا بنیادی نشانہ وہ شہری ہوں جو ریاست کی جانب سے بنائے ہوئے رشتوں کے نظام کے مخالف ہوں یا جن پر مخالفت کا شک ہو تو ہم اس طریقہ کار کو ریاستی سیاسی ایذارسانی قراردے سکتے ہیں۔ براعظم امریکہ کے کئی ممالک میں ایذارسانی کا استعمال انتظامی پالیسی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن چلّی، یوروگوائے،ارجنٹائن ،پیراگوئے،ایل سلواڈور اور گوئٹے مالا پچھلے دس سال میں خصوصی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ان ممالک میں ہزاروں شہریوں کو جو اپنی حکومتوں کے مخالف ہیں،ایذارسانی کے نیم خفیہ مراکز میں ایذادی جاتی رہی ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔یہاں اذیت کے تقریباً ایک جیسے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ایذارسانی کے لئے لوگں کی شناخت اور چناؤ فوج کے مختلف شعبے کرتے ہیں اور پھر انہیں سادہ لباس میں ملبوس مسلح افراد اغواء کرلیتے ہیں،جن پر کسی قسم کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔ان افراد کو خفیہ جیلوں میں لیجایا جاتا ہے جہاں سے بہت کم لوگ زندہ باہر آتے ہیں کہ اپنی کہانی سناسکیں۔
اس ایذا رسانی کا مقصد کیا ہے؟ پہلی نظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس کا مقصد معلومات حاصل کرنا ہو لیکن اگر ہم ایذا کے طریقہ کار کا جائزہ لیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان ممالک میں ایذا رسانی کس طرح ریاست کے ایک نیم خفیہ ادارہ کی حیثیت اختیار کرچکی ہے تو پھر ہمارے لئے یہ باور کرنا مشکل ہوگا کہ اس کا مقصد محض معلومات حاصل کرنا یایا اقرار جرم کرانا ہے۔ہم کس طرح اس بات کا یقین کرسکتے ہیں کہ معلومات کے حصول کے لئے کسی حاملہ عورت کی چھاتیاں اور جنسی اعضاء جلائے جاسکتے ہیں۔اس کی بچہ دانی پر بجلی کے جھٹکے دیئے جاسکتے ہیں۔تاکہ بچہ ضائع ہوجائے یا بچہ کے دماغیں چوٹ آجائے۔یا کان کے پردے میں تیز دھاری ٹکڑے ڈالے جاسکتے ہیں پھر ان تشدد آمیز کاروائیوں کے ظالمانہ پہلو سے قطع نظر،یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ طریقوں یا دواؤں کے استعمال کے ذریعہ کرلیا جانے والا اقرار جرم خود کتنا قابل اعتبار ہوسکتا ہے دراصل اس سفاکی کا خاص مقصد فرد کی انسانیت کو ختم کرنا نظر آتا ہے جبکہ عمومی مقصد مخالفت کی روک تھام کی کوشش ہے۔تاکہ خوف کے ذریعے اقتدار کو جاری رکھا جاسکے۔
تعریف کی رو سے ایذا رسانی میں کم از کم دو افراد کوملوث ہونا ضروری ہے،ایک اذیت رساں جو اپنی جگرانی اور قبضے میں آنے والے فرد پر ایذا رسانی کے طریقے استعمال کرتاہے تاکہ اس کو ہر ممکنہ حد تک اطاعت پر مجبور کرسکے اور دوسرا وہ شخص جس کو اذیت دی جاتی ہے اور جو اس حالت میں ہوتا ہے کہ فوری طور پر تشدد کی مزاحمت سے بھی معزور موتا ہے۔ذیل کے حصوں میں ہم ایذارسانی کے طریقوں اور اذیت رساں اور اس کے عمل کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔
ایذا رسانی کی طریقے:
جب ایذارسانی ریاستی پالیسی کا حصہ ہوتو پھر افراد کے مورال اور جسمانی سالمیت کو ختم کرنے کے بہت سے طریقے وجود میں آجاتے ہیں،فردکو توڑنے کے لئے پرانے اور جدید دونوں طرح کے طریقوں اور تکنیک کا ستعمال کیا جاتا ہے چاہئے وہ جسمانی خرابی کے ذریعے ذہنی افعال کو ضرر پہچانا ہو یا ذہنی دباؤ میں اضافہ کرنا ہو۔
ایذاکب اور کیسے دی جائے،یہ ایسی چیز ہے جو مقامی اور بین الاقوامی تجربات سے طے پوچکی ہے کبھی کبھی اس کی مدد جدید طب اور ریسرچ کے نتائج سے بھی کیجاتی ہے جس میں ڈاکٹر بھی براہ راست شامل ہوتے ہیں۔ایسی تصدیق شدہ رپورٹیں موجود ہیں جن کی رو سے ایذارسانی کے وقت ڈاکٹروں نے اس پورے عمل کی نگرانی کی اور اس نگرانی کا مقصد یہ ہے کہ ایذارسیدہ شخص بے ہوش نہ ہو اور نہ ہی تشدد کی سختی کی بناء موت کے منہ میں چلاجائے ایسے ڈاکٹروں کا کام یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ایذارسیدہ فرد پر زیادہ سے زیادہ ذہنی دباؤ ڈالا جائے اور اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل کئے جائیں۔
ایذارسانی کے لئے سائنسی نکتہ نظر کو کئی لوگوں نے بڑی سنجیدگی سے لیا ہے۔حال ہی میں’’ جرنل آف میڈیکل ایتھکس‘‘ میں ایک مضمون’’ایذارسانی کی اجازت پر‘‘ چھپا جس میں جی او جونز نے ایذارسانی کی حمایت میں دلائل دیئے ہیں۔نظریہ ضرورت کی بنیاد پر اس کا دفاع کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے: 
’’ اس سے(ایذارسانی ) موت واقع نہیں ہونی چائیے اور جدید ترین دستیاب میڈیکل تکنیک کو ضرور استعمال کرنا چاہئے تاکہ غیر ضروری نفسیاتی جسمانی نقصان نہ ہو صرف اتنی تکلیف دینے کی ضرورت ہے جس سے معلومات اخذ کی جاسکیں۔‘‘اور پھر مزید واضع بنیاد ذہنیت کے ساتھ جب وہ ایذارسانی کی مناسب قیمت و منافع COST BENEFIT RATIOبحث کرتا ہے(جس کا وہ شمسی توانائی سے مقابلہ کرتا ہے جو لمبی مدت میں فائدہ مند ثابت ہوتی ہے) اور جسے وہ انسانیHUMANEایذارسانی کہتا ہے،وہ مزید لکھتا ہے:
’’ٹیکنالوجی اتنی اعلیٰ سطح پر ہے کہ ہم دماغ کے کچھ مرکزوں کو اس طرح چھیڑ سکتے ہیں کہ اُسے جودرد پیدا ہوگا اس سے کوئی جسمانی خرابی یا برے جسمانی اثرات نہیں پیدا ہوں گے۔‘‘
جونزا ایذارسانی کے جس طریقے کی بات کرتا ہے اُس میں بظاہر بجلی کے جھٹکے یا مائیکروسرجری سے دماغی مرکزوں کو چھڑنا شامل ہیں۔وہ جان بوجھ کر یہ نظر انداز کرجاتا ہے کہ صرف اس کے نظر آنے والے نتائج ہی نہیں بلکہ ایذا رسانی بذات خود ایک خوفناک تجربہ ہے۔جونز جس بات پر پریشان ہے وہ ہیں عوام یا ایذارسانی کے مشاہداتی ثبوت،نہ کہ اس سے کہ وہ کس چیز کی نمائندگی کرتی ہے اور نہ ہی اُسے ٹوٹی ہوئی خودی اور ایذیت زدہ افراد پر مسلط کردہ نئے تعلقات کی پرواہ ہے ایذارسانی ایک ٹوٹ پھوٹ کا تجربہ ہے جو بچ نکلنے والے کے ساتھ ساری عمر رہتاہے اور اُسے جسمانی یا افعالی پہلوؤں سے زیادہ متاثر کرتا ہے جس کی وضاحت ہم بعد میں کریں گے جونز کا یہ کہنا ہے کہ صرف اتنی تکلیف دی جائے کہ معلومات حاصل کی جاسکیں بہت بھولپن کی نشاندہی کرتا ہے۔کیا کوئی اذیت رساں کبھی یہ بات ماننے کو تیار ہوگا کہ اُس نے اپنے زیر تشدد شخص پر اس کی برداشت سے زیادہ تشددکیا؟
ایذارسانی کی مختلف طریقوں سے پیدا کی جانے والی تکلیف اور دباؤ کی کیفیات مختلف النوع اور غیر متوقع ہوتی ہیں۔اس طرح اذیت زدہ کی یکساں انداز یا مختلف شخصی رویے اپناکر تکلیف کو بہتر طور پر برداشت کرنے کی کوشش ناکام ہوجاتی ہے۔لاطینی اوروسطی امریکہ کے چھ ممالک میں ایذارسانی کے طریقے اور تکنیک اکثر ایک جیسی ہی ہوتی ہیں یہاں تک کہ ایذارسانی کی اشکال کے نام بھی وہی ہیں۔ بین الاقوامی امداد باہمی کی اس صورتحال کا اندازہ مندرجہ ذیل جدول سے ہوسکتا ہے۔
ایذارسانی کے طریقے : 
-1ماحولیاتی حربے: سماجی محرومی (خاندان اور دوستوں سے علیحدگی) ۔تنہائی (رفاقت،جنس ،کام سکون اور کھانے میں کمی)۔
حسیاتی محرومی یا زیادتی(قید تنہائی،شور ،انعکاسی شیشے وغیرہ)۔
نیند سے محرومی۔
-2ادویات کے حربے:
خمار والی دوائیاں اور باربی چوریٹ کے انجکشن۔
ایل ایس ڈی یا ایسی ہی دوائیں۔
ایپومارفین(مافیا کا توڑ کرنے والی دوا)۔
سائیکلو فاسفے سائیڈ(جلادینے والے کیمیکل)۔
پٹھوں کو اکڑادینے والی دوائیاں۔
-3جابرانہ حربے:
دوسرے لوگوں پر ایذا رسانی کومجبوراً دیکھنا یا سننا (دوست ،رشتہ دار ،بیوی / شوہر ،بچے)جھوٹے الزامات۔
کبھی کبھار غیر معمولی طور پر انتہائی شفقت آمیز رویہ اختیار کرنا اور پھر دوبارہ تشدد کا آغاز کردینا۔
-4جسمانی طریقے:
جبری طور پر کھڑے رکھنا ،ایک مخصوص پوزیشن میں دیر تک اور عموماً بغٖیر کپڑوں کے کھڑے رکھنا) ٹھنڈا پانی ڈالنا یا اس میں ڈبودینا۔
لوئے کے سلاخوں ،ربڑ کے کوڑوں ڈنڈو سے مارنا اور پیٹنا۔
فاقہ زدگی۔غذا اور پانی سے محرومی۔
قاطع اعضاء جسم کے مختلف حصوں کو علیحدہ کردینا،ہڈیاں توڑدینا۔
جنسی ایذا۔کپڑے پھاڑنا،جسم کو محسوس کرنا،آبروریزی کی کوشش۔
آبروریزی،ایذارسیدہ فرد کی آبروریزی یا اسے ہم جسنی پر مجبور کرنا۔
بجلی۔انکھوں ،دانت،سرجنسی اعضاء،مقعد پر بجلی کے جھٹکے لگانا،الیکٹرک بسترپر لٹانا۔
آگ۔مثلاً ویلڈنگ کرنے والی ٹارچ کو آنکھ ،سرجنسی اعضاء پر استعمال کرنا۔
-5نفسیاتی حربے:
بے عزتی کرنا،جھوٹے الزامات،گندی اور دھمکانے والی زبان،پھانسی کی دھمکیاں نمائشی پھانسی۔
اذیت زدہ کے سامنے اُس کے خاندان یا دوستوں کو ماردینا۔
دوسرے لوگوں کی ایذا رسانی کی وڈیو یا آڈیوٹیپ جس میں رشتہ داروں، بیوی، شوہر اور بچوں پر ایذا بھی شامل ہے،اذیت زدہ کو سنوانا۔
اپنے دوستوں،بیوی/شوہر،رشتہ داروں کی آبروریزی ہوتے دیکھنا۔
مخصوص طریقے:
’’آب وند‘‘ یا علاج زیر آب‘‘ ایذا رسیدہ شخص کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا سر کسی حوض یا بالٹی میں ڈالے جو فضلے،پیشاب اور پانی سے بھری ہوتی ہے۔
’’کلاہ‘‘ بندے کے سرپر زبردستی ایک پلاسٹک کا تھیلا چڑھادیا جاتا ہے جس میں اکثر کیڑے ماردوائی ہوتی ہے۔یہاں تک کہ اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔
’’ٹیلی فون‘‘ پیچھے سے دونوں کانوں پر ایک ساتھ پٹائی کرنا۔
’’طوطے کی شاخ پہ بیٹھنا‘‘ایذا رسیدہ شخص کی کلائیاں اور ٹخنے ایک ساتھ باندھ دیئے جاتے ہیں اور پھر جسم گھٹنوں کے نیچے ایک لوہے کے تار کے ذریعے لٹکادیا جاتا ہے جس سے سارا جسم اوندھا اور ناقابل مدافعت ہوجاتا ہے۔اس پوزیشن میں بجلی کے جھٹکے دیئے جاتے ہیں اور گندہ پانی منہ میں ٹھنسا جاتا ہے۔
’’کتے کا کھتنہ‘‘زیر تشدد شخص کو زمین سے کچھ فٹ اوپر بازوؤں کے ذریعے لٹکادیا جاتا ہے جو کمرکے پیچھے بندھے ہوتے ہیں۔
’’کنٹا یالٹکایا‘‘ زیر تشدد فرد کو کمرے کے گرد ایک رسے سے باندھ کر لٹکا دیا جاتاہے جبکہ اس کے ہاتھ کے پیچھے بندھے ہوتے ہیں۔
’’مٹریوں کی صدی‘‘ اس صدری کو آہستہ آہستہ پھلایا جاتا ہے یہاں تک زیر تشدد شخص کی سینے کی ھڈیاں ٹوٹنے لگتی ہیں اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
’’پی کاڈا‘‘ ایک لمبی سوئی کو عموماً ایذا رسیدہ شخص کے ناخنوں کے نیچے گھسادیا جاتا ہے۔
ایذا رسانی کے اثرات:
کتنی انسانیت 
اب درد ،دہشت اور خوف میں ہے۔
ہم چھ تھے
جوخلاء میں ستاروں میں کھوگئے۔
ایک مرگیا،ایک کو اتنا مارا گیا کہ مجھے یقین نہیں آتا۔
کہ انسان کو اتنا مارا پیٹا جاسکتا ہے۔
باقی چار خوفوں سے بھاگنا چاہتے ہیں
ایک خلاء میں چھلانگیں لگاتا ہے
اور باقی دیواروں سے اپنا سرپھوڑتے ہیں
سب کی نظروں میں موت منجمد ہے۔
فوج اپنا کام بہت تیکھے پن سے کرتی ہے۔
خون اُن کے لئے تمغہ ہے۔
اور قتل عام،مردانگی وبہادری کا نشان 
وکٹر حارا کا نغمہ
اذیت زدہ کے لئے ایذا رسانی وجود کی بہیمانہ تباہی کی علامت ہوتی ہے جو یقیناًبچ نکلنے والے اور اس کے سماجی حلقے میں دائمی نشان چھوڑ جاتی ہے۔خوف ،شرمندگی،بے عزتی کا خیال اور جسمانی اذیت کیسے اور کس حد تک اذیت زدہ پر اپنا نشان چھوڑدیں گی ،ایسی بات ہے جسے عمومی انداز میں نہیں دیکھا جاسکتا۔اذیت کا شکار ہونے والے کی شخصیت کی ساختی خصوصیت بہت اہم ہیں۔ اذیت زدہ کا اپنا واضع پن اور حوصلے کی مضبوطی،مقصد کا اداراک کو مٹ منٹ اور نظام کے خلاف نفرت بھی جو تکلیف کا باعث بنتی ہے لیکن ایسے شخص پر ایذا رسانی کے اثرات اس بات پر بھی منحصر ہوتے ہیں کہ اُس پر کتنا دباؤ ڈالا گیا ہے یعنی اس کی شدت اور دورانیہ کیا تھا۔
تکلیف کا اندازہ صرف جسمانی نقص ،کمی یا خرابی سے نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس تجربے کی جذباتی اہمیت کیا ہے جس سے تشدد کا نشانہ بننے والے کی باقی ماندہ زندگی میں بڑی تبدیلی آجاتی ہے۔ ایذا رسانی سے گھبراہٹ و بے چینی،سوچنے میں مشکل،اپنی نظر میں گرنا ،سماجی میل جول میں کمی،پیداواری صلاحیت میں کمی اور مقاصد سے دستبرداری پیدا ہوتی ہے۔وہ لوگ جو مزاحمت نہیں کرپاتے اور ٹوٹ جاتے ہیں،مزید خطاداری اور مایوسی اُن کا انتظار کرتی ہے۔
امراض نفسیاتی کی نکتہ نظر سے ایذا رسانی شدید دباؤ کی صورتحال کو پیش کرتی ہے جو واضح طور پر گھبراہٹ وبے چینی کو جم دیتی ہے جو صرف درد اور شرم و ذلت سے نہیں پیدا ہوتی بلکہ اُس میں بے یقینی کو جتم دیتی ہے جو صرف درد اور شرم و ذلت سے نہیں پیدا ہوتی بلکہ اُس میں بے یقینی کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ ایذا رسانی کے زیر اثر فنا ہوجانے کا خطرہ سر پر منڈلاتے ممکنہ امکان سے زیادہ ہوتا ہے،بلکہ شروع ہوچکا ہوتا ہے لیکن پھر بھی اذیت زدہ کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کیسے اور کب اور کیا واقعی فنا کرنے کا عمل مکمل ہوگا۔امراض نفسیات کی زبان میں، ایذا رسانی کے بعد ازاثرات کی علامتوں بشمول غیر معمولی نوعیت اور عمومی انسانی تجربے سے باہر کے نفسیاتی حادثاتی واقعات کو بعد ازحادثاتی دباؤ کے عوارض کا نام دیا جاتا ہے۔مختصراً یہ عوارض ایک ایسی صورتحال کو پیش کرتے ہیں جس سے خودی میں تخریف اور انتشار پیدا ہوتا ہے اور اس طرح فوری یا پرانی علامات کا مجموعہ بنتا ہے جس کی خصوصیات یہ ہوتی ہیں۔
۱۔حادثاتی واقعہ کی بے جاتکرار اور خوفناک خواب جس میں واقعہ دوبارہ ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
۲۔تحلیلی حالتDISSOCIATIVE STATEجومنٹوں سے دنوں پر محیط ہوسکتی ہے جس میں وہ شخص ایسے برتاؤ کرتا ہے جیسے حادثہ رونما ہورہا ہو۔
یہ ایسے وقت ہوتا ہے جب ماحول میں یا کسی خیالی محرک نے پرانے واقعہ سے کوئی نسبت جوڑدی ہو۔
۳۔جذبات میں کھنچاؤ،گردوپیش کے حالات پر ردعمل میں کمی اور دوسروں سے بیگانہ محسوس کرنا۔
۴۔غیر ضروری چوکنا پن،حد سے بڑا ہو بدحواسی ردعمل،بے چین نیند کمزور یادداشت وغیرہ۔پھر بھی جیساکہ مشاہدہ کیا گیا ہے،انسان کی پیدا کردہ تباہی سے مثلاً ایذا رسانی سے پیدا کردہ علامات دوسرے دباؤ کے مقابلے میں شدید اور نتائج کے اعتبار سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں اور قبل از موت کو جنم دے سکتی ہے۔
اگرچہ سارے محقق اس بات پر متفق نہیں ہیں لیکن کچھ تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ایذا رسانی سے پیدا ہونے والے نفسیاتی اثرات کو بذات خود ایذا رسانی علامتی مجموعہTORTURE SYNDROMEکہا جاسکتا ہے۔ ایذا رسانی کے نتیجے میں انسانی جسم اور ذہن پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں ہمارا علم بڑی حد تک محدود ہے کیونکہ تشدد کے نتیجے میں ہونے والی نفسیاتی اور جسمانی تبدیلیوں کے بارے ابھی بہت کچھ تفصیلات واضع نہیں ہوئی ہیں۔ ایذا رسانی کے طویل المدت اثرات پر تحقیقات بھی تقریباً ناپید ہیں۔اگرچہ ڈنمارک کے ایک حالیہ مطالعہ نے جو ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایما پر کیا گیا تھا کچھ خیالات اُبھارے ہیں۔اس مطالعہ میں135اذیت زدہ افراد کا طبی اور ذہنی معائنہ کیا گیا۔تحقیق کے مطابق معائنہ کے وقت جو ایذا رسانی کے چھ ماہ سے ایک سال بعد کیا گیا،90فیصد افراد نے مختلف علامتوں کا اظہار کیا جو ایذا رسانی کے ساتھ یا بعد میں شروع ہوئیں ۔ان میں 75فیصد نے نفساتی امرا ض کی علامات پیش کی ہیں جن میں کمزور یادداشت،توجہ مرکوز کرنے میں خلل، ذہنی تبدیلیاں،نیند میں جنسی افعال میں خرابی شامل ہیں۔تمام افراد گرفتاری سے پہلے بالکل ٹھیک تھے۔دوسری طرف آلوڈی اورکاؤگل نے ایذا رسانی کے 41معاملات کی تفتیش کی اس تفتیش کا محور اُن ہزاروں پناہ گزینوں میں سے منتخب افراد کو بنایا گیا ہے جو ایک مخصوص لاطینی امریکی ملک سے تعلق رکھتے تھے اور جنہوں نے کینیڈا میں سکونٹ اختیار کی تھی۔تحقیق میں ایذا رسانی کے شکار32مرد اور 9عورتیں تھیں جن کی عمر دس سال سے کم سے لیکر 46سال تک تھیں (اوسط عمر 26-9سال،ان میں سے 25فیصد کو یونیورسٹی ٹریننگ تھی ماسوائے دو عورتوں کی جنہوں نے کل 112مرتبہ جیل کاٹی تھی جومہینوں سے سالوں پر محیط تھی۔ایک شخص پانچ سالوں میں 11مرتبہ جیل ہوا تھا۔ان تمام افراد کو جسمانی اور ذہنی ایذا رسانی سے گزرنا پڑا۔آلوڈی اور کاؤگل نے نتیجہ اخذ کیا کہ وہ سب ایک ہی جیسے نفسیاتی عارضے میں مبتلا تھی جس کی علامت شدید گھبراہٹ و چینی،نیند میں کمی،جبرے متعلق خواب یا اُن کا اپنا ایذا رسانی کا تجربہ،جسمانی علامات،بے جا خوف شک اور ڈر ہیں۔اپنے تجزئیے میں انہوں نے یہ اخذ کیا کہ شخص نظریاتی تیاری ،لگاؤ اور گروپ کا سہاراایذا رسانی سے نفسیاتی صحت یابی کے لئے مثبت نسبتی تعلق رکھتے ہیں۔
بعض اوقات باقی باندہ علامتیں SEQUALعضو یا افعال میں ایسی خرابی پیدا کرسکتی ہیں جو ایذا رسانی کا براہ راست نتیجہ نہیں ہوتی۔مثلاً لنڈی،امردوں کے جنسی افعال کا مطالعہ کیا۔انہوں نے دیکھا کہ سریا جنسی اعضاء پر چوٹ یا ایذا رسانی کی شدت سے آزاد 19فیصد لوگوں نے جنسی افعال میں گڑبڑ کی شکایت کی جو خواہش میں کمی یا خیزش میں خلل پر مشتمل تھی جبکہ دماغی یا جنسی کی ہارمون میں کوئی کمی نہ تھی۔ایک اور مطالعہ میں جنسن،حنسیفکی اور دوسروں نے پانچ افراد میں جن کی عمریں چوبیس سے انتیس سال کے درمیان تھیں جو شرابی نہ تھے اور پہلے بالکل مند تھے، دماغ اورپری جھلی یا مرکزی حصے میں ناکارہ پCORTIACALORCENTALکمپیوٹرائزڈ ایکذئیل ٹوموگرافیCOMPUTRISED AXIAL TOMOGRATHYکے ذریعے دیکھا۔
یہ افراد شدید اور لمبے درد،گھبراہٹ ،اُداسی ،کمزوری،نیند کی گڑبڑ ،ذہنی تھکن آنکھوں میں درداور کمزوری جنسی افعال میں گڑبڑ کی علامتیں کئی سال تک موجود ہیں۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ ناکارہ پن کی تبدیلیاں سر پر چوٹ کی وجہ سے نہیں ہوتیں،ایک ممکنہ طریقہ کار جس سے یہ علامتیں ہوسکتی ہیں وہ ہے شدید اور طویل المدت ایذا رسانی کے نتیجے میں کورتی سول CORTISOLہارمون کی زیادتی۔
ایذیت رساں:
’’ہم نے اُن تمام(سیاسی قیدیوں)کی قتل کرنے کی جسارت نہ کی جبکہ ہم یہ کرسکتے تھے اور ایک دن تو ہمیں انہیں چھوڑنا ہی پڑے گا۔لیکن ہمیں اس دستیاب وقت کا فائدہ اُٹھانا ہے تاکہ انہیں پاگل بناسکیں۔‘‘
میجر آگومیڈس میچل ڈائریکٹر آف لیبر ٹاؤجیل،یوروگوائے۔
جب ایسے انسانی رویے سے سابق پیش آئے خصوصاً جب کہ وہ بہت منفی خصوصیت کا حامل ہوتا ماہرین نفسیات اور اس میدان سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگ اس کی جڑیں بنیادی طور سے فرد میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں یا بہت ہوا تواس کے آس پاس کے ماحول میں اس تنگ نکتہ نظر سے اذیت پسند ،معاشرت دشمن طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔جو والدین کی ناقص تربیت ،اپنی جذباتی محرومی پر ناراضگی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے یا مزید تخفیفی REDUCTIONISTکے حوالے سے جنسیاتی GENETICکمی یا دماغ میں کچھ کیمیائی توازن میں گڑبڑ کی وجہ سے ہوتا ہے۔اس اندرونی نظام فہم INTRESYSTEMATIC OFRIENTATONک امسئلہ یہ ہے کہ یہ سییت یا علیتCASUALITYکو کسی ایک یا کچھ عناصر سے جوڑتی ہے جبکہ معاشرتی ومعاشی حالات کو یا تو بالکل خاطر میں نہیں لاتی یا انہیں صرف اکثیرالوجوہات سبیبتMULTIDETERMINED CASUALITYمیں عناصر کا مجموعہAGGREGATE FACTORSقرار دیتی ہے۔معاشرتی و معاشی نظام اور اس سے بننے والی کلچر ایک بنیادی عنصر ہے جو تاریخ کو بنایا(اور اس سے بنتا بھی) ہے۔جو ترجیحات طے کرنا ہے اور ماحول میں تبدیلیاں لاتا ہے۔
جارحیتAGGRESSIONکا ماخذ فرد یا اُس کے قریبی خاندان میں تلاش کرنے کا نظریہ دراصل مسئلہ کے تنقیدی جائزے سے پہلو تہی کرتا ہے یہ نظریہ اُن معاشروں کی تاریخ کو نظر انداز کرتا ہے جہاں جارحانہ رویوں کو پسندیدہ تصور کیا جاتا ہے ،جنگی ہیروں کی مدح ہوتی ہے اور جہاں تباہی وبربادی کی قوتوں کی موجودگی کو امن کی ضمانت قرار دیا جاتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں جس شخص کا ہم مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اُس کے لئے ہمیں فرد اور اُ س کے قریبی خاندان سے باہر بھی جانا ہوگا اور ان حالات کا جائزہ لینا ہوگا جو معاشرے میں عمومی طور پر پائے جاتے ہیں اور جن کو تشدد آمیز کاروائیوں سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔سیاسی اذیت رساں دراصل معاشرے ،فوج اور قوم کے فائدے کے نام ہی پر تشدد کرتا ہے۔وہ اکیلا مجرم نہیں ہے جیسا کہ ہمارا ضمیر یقین کرنا چاہتاہے،وہ ایک منظم گروپ کا ممبر ہے جو نیم خودمختارانہ طور پر عمل کرتا ہے لیکن حکومت کی مختلف شاخوں کی رہنمائی میں وہ ایک بڑے جال کا حصہ ہے جو طاقت کو قائم رکھنے اور تسلط کو جاری رکھنے کے لئے بنایا گیا ہے۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کوئی اذیت رساں بن سکتا ہے۔جواب سیدھا سادہ سا دانہیں ہے۔شاید مندرجہ ذیل کلاسیکی تجربہ اس گومگوکی کیفیت کو بہتر طور پر بیان کرسکے۔چند سال پہلے ایس میلگرم نے ییل YALEیونیورسٹی کی تجربہ گاہ میں تابعداری کر کرداری مطالعہ BEHAVIORAL STUDY OF OBEDIENCYکے نام سے ایک تجربہ کیا۔تجربے سے 40رضاکار شامل تھے جنہیں یقین دلایا گیا کہ وہ ایک ایسے تجرباتی مطالعے میں حصہ لے رہے ہیں جو یادداشت اور سیکھنے کے عمل LEARNINGسے متعلق ہے۔
ہر رضاکار کو کہا گیا کہ وہ سیکھنے والے کے غلط جواب پر اُسے بجلی کا جھٹکا دے۔اگرچہ کسی کو حقیقی کرنٹ نہیں دیا گیا لیکن انہیں کہا گیا کہ وہ ایسا ظاہر کریں کہ انہیں جھٹکا لگا ہے تجربہ اس طرح سے بنایا گیا تھا ،سزاکا کرنٹ ایک خاص وولٹیج تک پہنچ جائے تو استاد رضاکار اور طالب علم رضاکار اس طریقے کو ختم کرسکتے ہیں۔لیکن زبانی طور سے اس بات پر ہمت بڑھائی جاتی اور بعض اوقات سختی سے حکم دیا جا تا ہے کہ اگر طالبعلم رضاکار اپنا کام صحیح نہ کرے تو زیادہ وولٹیج کے جھٹکے دئیے جائیں۔4رضاکاروں میں کسی نے بھی تجربے کو اس وقت تک نہ روکا جب تک کہ کرنٹ کی سطح 300وولٹیج تک نہ پہنچ گئی جس پر طالبعلم رضاکار دیواروں پر پیرمارنے لگتے تھے اور کثیر الجواب سوالات کے جواب بالکل نہ دے پاتے۔تجربے کے آخر تک 40سے 26رضاکار 520وولٹ کی حد تک پہنچ چکے تھے۔
یہ تجربہ ہمیں انسانی امکانات کے بارے میں بتاتا ہے اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص کس طرح متغیراتVARIABLEکی تبدیلی سے اپنی خواہشات کے برخلاف کام کرتا چلا جاتا ہے۔یقیناًتجربے کے بہت سے پہلو ہیں جن پر سوال کئے جاسکتے ہیں مثلاً حقیقی اذیت زدہ کون تھے؟ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ یہ تجربے کے ماحول کے بارے میں ایک اوسط آدمی شاید یہی یہ سوچ سکے کہ یہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔اس تجربے میں حصہ لینے والے بہت سے کردار اپنے ساتھیوں کو درد اور دباؤ کے باوجود جھٹکے دیتے رہے اور اپنے تضادات سے لڑتے ہوئے سائنس دانوں کی سفارشات کو حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
اس تجربے سے یہ نکتہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ انفرادی اذیت رساں کو ایک خاص نفسیاتی فتورPSYCHO PATHOLOGYکا نام دے دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اس قسم کے مشق کو اگر جاری نہ رکھا جائے تو وہ خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔الایہ کہ تشدد کرنے پر فائز شخص خود بھی کوئی سماج دشمن اور مجرم ہو۔
اذیت دینے والا اذیت رسانی کو پیشہ کے طور پر کیونکہ اختیار کرلیتا ہے۔پہلے بات تو یہ اس کے پس منظر میں ایسے معاشرتی اور مادی حالات کا ہونا لازمی ہے جو اس بدمعاشی کے کام کو آسانی سے سہارسکیں دوسرے اس کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے تاکہ وہ کام کو بہترین اور عزم کے ساتھ کرسکے۔یہ تعلیم اذیت رسانی کے اسکولوں اور بعض اوقات غیر ملکی ماہرین کے ذریعے دی جاتی ہے۔جس کا مطلب نہ صرف اذیت کی تکنیک سے آگاہ کرنا ہوتا ہے بلکہ اُسے نفسیاتی اور نظریاتی طور پر کام کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے۔یہ ذہنی تیاری کیسے حاصل کی جاتی ہے؟سب سے پہلے تشدد کا ہدف بننے والے شخص یا گروپ کو غیر انسانی باور کرایا جاتا ہے۔اس تربیت میں اذیت زدہ کو ایک شے کے طورپر دیکھنا ضروری ہوتا ہے جوکہ ریاست،شماجی طبقے جس کی وہ خدمت کرتا ہے،کا مخالف ہے اور سماج کے لئے اُسے سزادینا ضروری ہے۔اس ضمن میں دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ اذیت دینے کے کام پر فائز افراد کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ جو کھ کر رہے ہیں یا اُس سے جو کچھ کروایا جارہا ہے وہ ملک اور قوم کے فائدے میں ہے۔اس طرح اُن کے بدترین افعال بھی،اخلاقی اصولوں کی شدید خلاف ورزی نہیں کرتے تیسری اہم بات یہ ہے کہ ان کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ خود ان کی کاروائیاں ہمیشہ خفیہ رہیں گی۔اس یقین دہانی کے نتیجے میں انفرادی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے البتہ انفرادی خواہش کو تنظیم کے تابع کرنا پڑتا ہے۔تربیت کے ضمن میں چوتھا اہم پہلو یہ ہے کہ انسٹرکٹر پر اسراریت کی فضاء کو پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ طویل المدت لگاؤ اور گروپ کی جذبندی میں مدد ملے۔
اذیت رساں کو اکثر اوقات جھوٹے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔جس سے اُس کی شخصی خصوصیت کا اظہار ہوتا ہے اور چند کو قائدہ ڈاکٹر کہا جاتا ہے۔اس تربیت کے باوجود،یہ ممکن ہے کہ اذیت رساں اپنے عمل کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہواور یہ محسوس کرے کہ وہ بھی استحصال کا نشانہ بنے وہ عموماً کم درجے کا عہدیدار ہوتا ہے جوکہ اُس سماجی طبقے سے تعل رکھتا ہے جس کا وہ خود استحصال کرتے ہیں جن کی وہ خدمت انجام دیتا ہے اور نتائج کے فوائد بھی حقیقتاً اُس کے لئے نہیں ہوتے۔یہ صورتحال اُسے شدید تضاد کا شکار بنادیتی ہے جو اُس کے عمل میں بھی منعکس ہوتا ہے اور اس سے تقاضہ کرتا ہے کہ ذاتی سطح پر اُس کو سُلجھائے۔


0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں