بدھ، 11 ستمبر، 2013

حمایت یا حماقت


تحریر ۔۔۔ اسلم بلوچ
تنقیدی شعور کو لیکر جو قیاس آرائیاں آج بلوچ سماج میں بے بنیاد خدشات کا سبب بن رہے ہیں اگر باریک بینی سے غور ہو تو یہ انہی خیالات کا تسلسل ہے جو انسانی سماجی زندگی کے تاریخ میں ہمیشہ سے پیوست رہے ہیں، ماضی میں بھی تنقیدی شعور ی بیداری کو خطرہ سمجھا جاتا رہا ہے، پاولوفریرے مظلوموں کی ترقی نامی کتاب کے پیش لفظ میں یہ اقرار کرتے نظر آتے ہیں کہ کچھ کے نزدیک تنقیدی شعور انارکی (طوائف الملوکی) کا باعث بنتا ہے اور دوسروں کے نزدیک تنقیدی شعور انتشار کی طرف لے جاتا ہے تاہم کچھ لوگ اقرار کرتے ہیں کہ تنقیدی شعور کی اہمیت سے کیوں انکار کیا جائے ، میں پہلے آزادی سے خوف ذدہ تھا اب بالکل نہیں ہوں، تنقیدی شعور ی بیداری کے ممکنہ اثرات کے بارے میں شکوک و شہبات کا اظہار ایسے مقدمے کے ذریعے لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں شک کرنے والاہمیشہ وضاحت نہیں کرتا یعنی وہ چاہتے ہیں کہ غیر منصفانہ نظام کے شکار ہونے والے اپنے آپ کو پہچان نہ سکیں ۔ 
تنقیدی جذبے سے بھرپور انقلابیت ہمیشہ تخلیقی ہوتی ہے فرقہ بندی ماورائی جھوٹ (Myth) بناتی ہے اور بیگانگی پیدا کرتی ہے ، جب کہ انقلابیت تنقیدی ہوتی ہے اور آزادی دلاتی ہے انقلابی انتہاپسندی ایک شخص کی اپنی حالت کے ساتھ کمنٹ منٹ بڑھاتی اور ٹھوس حقیقت اور معروضی حقیقت کو تبد یل کرنے کیلئے دلی وابستگی کا تقاضا کرتی ہے اس کے برعکس فرقہ بندی اپنے غیر استدلالی اور ماورائی جھوٹ کی وجہ سے حقیقت کو بھی جھوٹی حقیقت میں تبد یل کر دیتی ہے ( حقیقت جو کہ ناقابل تبدیل ہوتی ہے)
میری ناقص رائے کے مطابق اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ، اس بحث کو بلوچ قومی سیاست کے تناظر میں ماضی اور حال کو جوڑ کر زمینی حقائق تجربات ، ناکامیوں اور کامیابیوں کے بیچ حقائق کے بنیاد پہ آگے لے جایا سکتا ہے مگر بدقسمتی گذشتہ تھوڑے سے عرصے میں سیاسی بحث مباحثوں کو لیکر ہمارے سیاسی منظر نامے میں حقیقت کے بدلے مجھے جن باتوں کا تاثر کچھ زیادہ ہی گہرا نظر آرہا ہے وہ سیاسی رویوں کے بدلے غیر سیاسی انفرادی رویے ہیں ، زمینی حقائق سے ہٹ کر افواء سازی پہ تکیہ کیا جارہا ہے کسی بھی شخص کے اعمال کا سیاسی حوالے سے تجزیے کی بجائے اس کے کردار کو مسخ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
حقیقی اور بنیادی اسباب جو ہمارے قومی اجتماعی تشکیل کے راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں ان سے ہٹ کر جھوٹے اور بے بنیاد قصے اور کہانیوں کے ذریعے الجھاؤ پیدا کیا جارہا ہے ، تنظیم ، گروہ ،شخصیات کی سرزد منفی یا مثبت عمال پر تنقیدی تجزیے کے بجائے الزام تراشیاں کی جا رہی ہیں ، بے بنیاد قصے کہانیاں گھڑے جارہے ہیں ، میں انفرادی حوالے سے بذات خود وجوہات پہ غور کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے کچھ باتیں واضح طور پر نظر آتے ہیں مگر ان میں سے کسی ایک کیلئے فیصلہ شاید میرے بس کی بات نہیں۔غور کیا جائے کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے قومی سیاست میں مجموعی حوالے سے شعور اور سیاسی پختگی کی سطح کو لیکر ان کی نیم پختگی کی نشاندہی تو نہیں کررہے ہیں ؟؟
یا پھر قومی جدوجہد کے حوالے سے حقیقی انقلابی اجزاء اور روایتی سیاسی ، قبائلی گروہی تمام اجزاء کو باہمی گڈمڈ کرکے ایک غیر حقیقی بڑھوتری والی دوڈ شروع کی گئی ہے( روایتی و علاقائی پارٹیوں کے عمل اور دائرہ کار سے صرف نظر کرکے ان کیلئے انقلابی اور قومی پارٹیوں کا مصنوعی منظر کشی و نعرہ بازی گروپ لیڈروں علاقائی اور قبائلی لیڈروں کیلئے ان کے عمل و کردار اور صلاحیت و قابلیت سب سے صرف نظر کرکے ان بارے وژنری لیڈر ، انقلابی اور قومی لیڈروں کے مقام کیلئے اخباری بیان بازی اور نعرہ بازی وغیرہ زیر غور ہو) اس غیر حقیقی دوڑ دھوپ کی شعوری تنقیدی مخالفت اور ساتھ ہی ساتھ انقلابی عمل کے تحت حقیقی اور غیر حقیقی اجزاء ترکیبی کے حوالے سے نشاندہی اور حد بندی کا مطالبہ جب زور پکڑتا گیا تو حقیقت کے آشکار اور مصنوعیت کے ڈھیر جانے کے خوف نے بوکھلاہٹ میں یہ طریقہ اپنانے پر مجبور کیا ؟؟ کیا جو نادانیاں پچھلے ایک عشرے میں ہم سے سرزد ہوئیں جنکی وجہ سے ہماری اجتماعی جدوجہد پر منفی اور برُے اثرات پڑے ان اعمال کے عوامی سطح پر تنقیدی تجزیے پر بوکھلاہٹ نے ہمیں اس طرح کی غیر سیاسی اور غیر اخلاقی اودھم بازی کروائی ؟؟یا یہ بالکل سیدھا سادہ ارتقاء کی دین ہے کہ اب تک قبائلیت اور قبائلی مزاج ہمارے انقلاب پر حاوی ہے ایک مرتبہ روسی کمینسٹوں کے بارے میں نواب خیر بخش مری سے یہ سننے کو ملا کہ وہ’’ اسکریچ رشین‘‘ کے محاورے کو لیکر شہرت رکھتے تھیں، ان کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ جتنا بھی کمیو نسٹ اور انقلابی بنیں ، ان کو ذاتی طور پہ ایک چھوٹا سا رگڑا دو تو اندر سے ایک پختہ رشین ہی نکلے گا ، تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم جتنا بھی سیاسی بنیں ، انقلابی بنیں ، کتابوں کے بوجھ سے ہمارے کندھے جھک جائیں ، یا پھر ذمہ داریوں کے بوجھ سے ، تجربے اور لمبی عمرو بزرگی کی وجہ سے ۔ مگر بھر بھی جب بات ہمارے ذات کی ہوگی تو ہم ایک مکمل آڑ جانے والا قبائلی ہی نکلیں گے یہاں بھی میرا مطالبہ غور و تحقیق کا ہے کہ اصل وجوہات کیا ہیں یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہم ترقی کے سفر و جدوجہد کا دعوی کررہے ہیں ہمیں درپیش تمام مسائل کا اگر ہم باریک بینی سے تجزیہ نہیں کریں گے ان مسائل کے حقیقی بنیادی اسباب و وجوہات کو سمجھ نہیں سکیں گے تو وہ مسائل ہمیں بار بار متاثر کرینگے اور ہر بار ہمارے اجتماعی مقصد میں رکاوٹ بنیں گے۔
بلوچ قومی سیاست کے تناظر میں تنقیدی شعور کو لیکر سیاسی معمولات پر تنقیدی رائے رکھنا تخلیقی عمل کا سبب ہوگا یا انتشار کا ، اس پر بحث شروع ہونے سے پہلے اور کسی بھی انجام پر پہنچنے سے پہلے ہی تنقیدی رائے پر چڑچڑاپن ایسے عروج پر ہے جسکو دیکھ کر یہ تاثر قائم ہونے میں دیر ہی نہیں لگتی کہ تنقیدی نقطہ نظر کوئی جرم ہے مجھے یہ سمجھنے میں کافی وقت لگا کہ ایسا کیوں ہے ؟؟ اب بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ اس وقت میں سمجھ چکا ہوں وہ بالکل صحیح ہوگا لیکن ساتھیوں کی اکثریت میرے اس خیال سے کم ہی اختلاف کرینگے کہ ہمارے ہاں قومی سیاست کے حوالے سے قومی سیاست اور اس سے جڑے تمام کے تمام اجزاء کی علمی حدبندی کی وضاحت اور تشریح کرنا ابھی باقی ہے ، یعنی سیاست و سیاسی طریقہ کار کی وضاحت ، پارٹی و تنظیم کے مقصد دائرہ کار کے حوالے سے ان کی شناخت اور کردار کو لیکر پھر اس پارٹی یا تنظیم کیلئے قومی پارٹی یا انقلابی پارٹی یا پھر روایتی ،گروہی ،علاقائی یا شخصی پارٹی ہونے کی علمی حد بندی اور وضاحت اس کے بعد وقت و حالات کو مد نظر رکھ کر کسی بھی قسم کی پالیساں طریقہ کار اور حکمت عملی اپنانے یا نا اپنانے کی وجوہات کو شعوری طور پر سمجھنے کے متعلق اگاہی کیلئے ان تمام کی الگ الگ حد بندی اور وضاحت ہو ، اسی طرح لیڈر ، ذمہ داراں ، کارکناں ، کمانڈر ، سپاہی و ہمدرد ان تمام کے بیچ ان کے حقیقی کردار کو لیکر ان کی اہمیت و حیثیت کی الگ الگ حقیقی پہچان کیلئے علمی حد بندی اور وضاحت ہواور اس کے بعد صرف اور صرف قومی جدوجہد کو مد نظر رکھ کر ان کے دائرہ اختیار ان کے فرائض ، اختیارات اور ان سے تجاوز کرنے کی نشاندہی اجتماعی نظم و ضبط وغیرہ کی وضاحت و تشریح ہو( ایسا نہ ہو کہ کوئی کمانڈر سپاہیوں کو پابند رکھنے کیلئے ذاتی اصول و ضابطے وضع کریں اور خود کو خود ساختہ آزادی کا مالک سمجھے، لیڈر صاحباں کارکناں و ذمہ داراں کیلئے اصول و ضابطے بیان کرتے پھریں، اور خود کو خود ساختہ مقام و حیثیت کا حق دار سمجھ کر اپنے کسی بھی عمل کے متعلق تنقید کو گناہ قرار دیں) ہمارے لئے یہ ضروری ہوچکا ہے کہ اول ہم لیڈر قومی لیڈر ، انقلابی لیڈر ، گروہی و علاقائی و قبائلی لیڈر، روایتی سیاسی لیڈر، سپاہی و کمانڈر ان سب کی حقیقی عملی حیثیت کی حد بندی کی وضاحت کریں پھر ہم میں سے ہر ایک کے کردار، قابلیت، و صلاحیت سے از خود اس کے مقام کا تعین ہوگا( نہ کہ ثناء خوانی سے) یہ سب کچھ ہونے کے بعد شاید ہمارے لئے تنقید کی پہچان، اور اس میں تعمیری یا تخریبی ، مثبت تنقید یا منفی تنقید کی پہچان کرنا زیادہ مشکل اور پیچیدہ نہ ہو، پروپنگنڈہ کے ذریعے سازشوں کو سمجھنا مشکل نہ ہو ، اور سیاسی حوالے سے ان تمام کی پہچان و مقام اور حدود کی وضاحت ہر قسم کے حالات میں ہم اپنے ہر عمل سے حقیقی طور پر شاید آسانی سے کر سکیں ، جس میں جھوٹ اور بے بنیاد قصے کہانیوں کا عمل دخل نہ ہو، ،تنقید ، منفی یا مثبت، تعمیری یا تخریبی ،سازشیں پروپنگنڈہ وغیرہ کی علمی پہچان و اہمیت کو لیکر معروضی حقیقت کے تحت وضاحت اور حد بندی، ان تمام کی تشریح اور وضاحت سے پہلے لازمی طور پر ہمیں یہ اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ ہمارا مقصد کیا ہے،جب تک ہم اپنے مقصد کو اس کے پورے عجم اور بنیادی تقاضوں سمیت نہیں سمجھیں گے اس وقت تک چھوٹے او ر معمولی مسائل بھی پیچیدگیوں کا طو فان بن کر ہمارا راستہ روکتے رہیں گے ، کیونکہ نقطہ آغاز کے طور پر متحرک ہونے کیلئے یہ خیال کہ ہمارا مقصد آزادی ہے بالکل ایک سیدھا سادہ خیال ہوگا ، قابض ریاست سے آزادی کا ابتدائی خیال اپنے اندر ظاہری طور پر جتناسیدھا سادہ ہے اس کیلئے جدوجہد اپنے اندر اس سے کئی گناہ زیادہ پیچیدگیاں لئے بیٹھا ہے تو میری ناقص رائے کے مطابق اس جدوجہد کا اہم اور بنیادی پہلو ان پیچیدگیوں کی شناخت ، ان کی وضاحت ، تشریح اور حل کرنے سے تعلق رکھتے ہیں، جو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیے جا سکتے ہیں ، میرے نقطہ نظر کے مطابق بلوچ سیاست کو اگر قومی جدوجہد کے تناظر میں دیکھا جائے تو تین اہم پہلو نمایاں نظر آتے ہیں جس سے باقی ماندہ سب کچھ وابسطہ ہیں 
اول بذات خود بلوچ ہے تو یہاں گہرائی اور باریک بینی سے مشاہدے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کیونکہ بلوچ ہی اس جدوجہد کا بنیادی ستون ہے تو بحیثیت قوم بلوچ کا تاریخی اور سیاسی سفر، سماجی ڈھانچہ، رسم و رواج ، لین دین، مجموعی علمی و شعوری سطح، قومی وحدت و قوت کو لیکر منظم اور غیر منظم صورت حال ، بلوچ جغرافیہ کی فطری اور تاریخی حقیقت اور موجودہ صورت حال یہ سب کچھ قومی جدوجہد سے برائے راست متاثر ہوتے آرہے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ ہمہ وقت قومی جدوجہد کو متاثر بھی کررہے ہیں تو کوئی حضرت اس اہم اور بنیادی پہلو کو کیسے نظر انداز کرکے اس جدوجہد کو حقیقی خطوط پر استوار کرکے کامیابی سے ہمکنار کرنے کا دعوی کرسکتا ہے۔
دوسرا اہم پہلو قابض غیر قوت اسکی قبضہ گیری ، لوٹ مار ، پالیساں، عزائم ہیں جن سے ہم برائے راست ظاہر اََ متاثر ہورہے ہیں، اب اس کی وضاحت اور تشریح ہم اس لئے بھی بہتر اور واضح انداز میں کر سکتے ہیں یا کررہے ہیں کیونکہ یہ غیر قوت ہے جو بلوچ کے ذات سے تعلق نہیں رکھتا ، خونی رشتوں ، قبائلی علاقائی تعلق و مفادات ، لین دین، رسم ورواج سب سے باہر ہے ۔
تیسرا جو نسبتاََ زیادہ پیچیدہ نہیں ہے وہ ہے باہری دنیا ، بین الاقوامی قوتیں ان کے عزائم پالیساں اور ان کی مفادات سے جڑے بین الاقوامی قوانین ہیں کیونکہ بلوچ صدیوں سے سامراجی سازشوں کا شکار رہا ہے اور آج بھی برائے راست ان سے متاثر ہورہا ہے،( چالیس کے
عشرے میں فرنگی سامراج کے سازشوں سے اب تک جوج رہے ہیں خالی خولی لفاظی سے سامراج مخالفت کی بنیاد پر لیڈری کے شوق پورا کرنا کرنا زیر بحث نہیں۔
تو یہاں قابل غور یہ ہے کہ قابض سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی جدوجہد ہو یا بین الاقوامی منظرنامے میں اپنا قومی تاریخی جغرافائی حیثیت کی بحالی کیلئے سیاسی سفارتی کوششیں، ان دونوں کے بیچ کامیابی کا انحصار بحیثیت قوم ،بلوچ پر اور اس کے قومی وحدت و قوت پر ہوتا ہے، تو یہ امر حقیقی ہے کہ اس جدوجہد کا اہم اور بنیادی ستوں بلوچ ہی ہر زاویے سے اس جدوجہد کا مرکزی کردار ہے، تو اس بنیادی ستون اور مرکزی کردار کے قومی وحدت و قوت کے تشکیل کے بنیادی اسباب کیا ہیں یا قومی وحدت و قوت کے تشکیل میں رکاوٹ بننے کے اسباب کیا ہیں یا پھر تھوڑی سی حاصل قوت کو تحلیل کرنے کے اسباب کیا ہیں، یہ سب جانے بغیر آزادی کو اپنا نصب العین قرار دے کر اس کے لئے جدوجہد کرنا شاید اندھوں کے دوڈ میں حصہ لینے کے برابر ہے ۔تو یہاں سماجی تبدیلی کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تو یہ بنیادی اور اہم پورے کا پورا پہلو بلوچ سے ہی تعلق رکھتا ہے ۔
دوسری طرف مکمل دباؤ کو لیکر بھی سارے کا سارا ملبہ بلوچ کے سر گرتا ہے یعنی قابض ریاست کے عزائم کو لیکر اس کے غیر انسانی پالیسوں کے تحت بے رحمانہ طاقت کا سامنا بھی بلوچ کو کرنا ہے اور بین الاقوامی قوتوں کے مفادات کو لیکر انکے عزائم سے جڑے پس پردہ سازشوں سے متاثر بھی بلوچ کو ہونا ہے ، ایسے حالات میں ہر طرح سے جبر کا شکار بلوچ اپنے قومی وحدت و قوت کے تشکیل سے بے نیاز گروہیت، پارٹی سیاست، روایتی فرسودہ سیاست اور اس بارے قبائلیت وعلاقائیت کا شکار ہو تو اس بد قسمتی کی نشاندہی اور اسکے وجوہات و اسباب بارے آگاہی ان پہ تنقید یا ان کے راہ میں رکاوٹ کی کوششیں کس قسم کے انتشار کا سبب بنیں گے، اس کی وضات اور تشریح ہونا ابھی باقی ہے، موجودہ سیاسی ڈھانچے میں بھونجال تو ضرور پیدا ہوا ہے لیکن اس بھونجال کے بنیادی وجوہات پر غور ضرور کیا جائے کہ وہ کیا ہیں اور آگے چل کر وہ تخلیقی نتائج دینگے یا تخریبی ۔
آپ اس بات پر ضرور غور کریں کہ ہمارے مقصد کے بنیادی اور اہم پہلو (بلوچ) کے تعمیر و ترقی کے عمل سے ہمیں روکا جا رہا ہے، اور دباؤ اس کو مکمل نظر انداز کرنے کی ہے، جب بات بلوچ کی اندرونی تعمیر و ترقی یا کمزوریوں و تخریب کی ہوتی ہے تو ہمیں دوسرے پہلو یعنی قابض ریاست سے ڈرا کر چپ کرانے کی کوششیں کی جاتی ہے کہ وہ سر پہ بیٹھا ہے اس کو فی الحال چھوڑ دو ، تو بنیادی اور اہم سوال ہی یہی ہے کہ جب یہ (بلوچ ) اندرونی طور پہ ترقی کے منازل طے کرتا ہوا ترقی نہیں کرئے گا۔سماجی ، سیاسی ، معاشی حوالے سے مضبوط نہیں ہوگا تو وہ کیسے اپنے وجود کو ان طوفانوں میں برقرار رکھ سکے گا ، تنقیدی شعوری حوالے سے ان تمام کا تجزیہ انتشار کا سبب بنے گا ، اس کیلئے اطمینان بخش بحث و مباحثوں کے نتائج آنا ابھی باقی ہیں ، یہ میرا ذاتی رائے ہے کہ ہم میں سے ہر ایک ، ایک گھریلو ڈھانچے ، خاندانی یا علاقائی ڈھانچے میں فکری حوالے سے پیدا ہونے والے انتشار کا ہی پیداوار ہے ہیں ، آج جب ہم اپنے آس پاس نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں قریبی فکری ساتھیوں کا جو جھرمٹ نظر آتا ہے، وہ تمام کے تمام کسی ایک خا ندان ، شہر، گاؤں کے روایتی ڈھانچے سے ٹوٹ پھوٹ کے دین ہیں، وجوہات کی بنیا د فکری حوالے سے آزادی ہے ، لیکن آزادی کا وہ سیدھا سادہ خیال نہیں جس میں صرف اور صرف قابض سے آزادی ہے بلکہ انسانی آزادی کے مقدس مقصد کو مد نظر رکھ کر اپنے مقصد کے پورے حجم اور تقاضوں کو مد نظر رکھ کر ہی قدم بڑھانا ہے۔
قابض قوت کا ہمارے ترقی کی راہ میں مکمل جبراََ رکاوٹ اور بین الاقوامی سامراجی قوتوں کا قابض کوآشیر باد سے قطع نظر بلوچ از خود تاریخی قبائلی زند و گزران بابت اپنے رسم و رواج ، لین دین، خونی و قبائلی رشتوں ، قبائلی علاقائی مفادات، گروہی اور روایتی سیاسی انداز و مفادات کو لیکر قومی تشکیل و قومی وحدت و قوت کے حصول میں کتنی بڑی رکاوٹ ہے ، شاید اس کا اندازہ اور شعور ہمارے اکثریت کو نہیں ہے۔
ان حالات میں اس بات پہ شدت کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اتنے قربانیوں کے باوجود ہم کس کی خدمت کررہے ہیں؟؟ انقلاب کی یا تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اسی روایتی فرسودہ سوچ رکھنے والی ذہنیت کی جو اب بھی ہمارے قومی پسماندگی کے اسباب میں مکمل پیوست ہے، ایک چھوٹا سی مثال دوں ، جو شاید ہم میں سے اکثریت پہ گراں گزرے،
آزادی کے دعوے دار ہم میں سے ہر ایک صرف اپنے آپ پہ ذاتی حوالے سے نظر دوڑایں کہ انسانی آزادی کو لیکر ہم میں سے ہر ایک انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی زندگی میں عورتوں کو لیکر بچیوں کی پرورش، تعلیم، شادی بیاہ اور معاشی و مالی حوالے سے ان کے جائز حق و مقام بابت جو اختیار ہم رکھتے ہیں ، اس کے تحت ان کی حقوق کی کیا پاسداری کررہے ہیں ، شادی بیاہ کو لیکر انکی زندگی کے متعلق ، ان کی مرضی و منشاء کے بغیر اپنے فیصلے مسلط کرنا ، لب کے نام پہ ان کی واپاری، کم عمری کی شادی وغیرہ ، تو کیا یہاں مظلوم خود جابر نہیں؟؟؟
ایسے بہت سے فرسودہ اور انسانی آزادی کے مقدس مقصد سے متصادم رسم و رواج جن کی آج بھی ہم چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے پاسداری کررہے ہیں آج تک بلوچ عوام میں شعوری حوالے سے ان کے خلاف کس نے کتنا کام کیا ؟؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے میں نے جو محسوس کیا ان مسائل پہ کام کرنا دور کی بات ،ان کے بارے میں بات کرنے سے ہم خوف ذدہ ہوجاتے ہیں 
میرے کہنے کا مقصد اس تسلسل کی نشاندہی ہے جو آج ہمارے قومی سیاست میں بھی بالکل اسی ذہنیت کی عکاسی کررہا ہے، باریک بینی سے غور ہو تو قبائلی زند و گذراں میں سردار، مقدم ، میر کردار کے حوالے سے جیسے بھی ہوں ان کا احترام لازمی قرار دیا جا چکا تھا دوسری طرف اگر انقلابی جد وجہد کے تقاضوں کو لیا جائے تو اس میں انقلاب دشمن جو بھی ہو جس حیثیت و مقام کا مالک ہو اس کا محاسبہ ضروری ہوتا ہے، ایمانداری سے اگر یہاں بھی ہم نظر دوڑایں تو ہمیں انقلاب کے خدمتگار کم اور روایات کے پاسدار زیادہ ملیں گے، بد قسمتی کچھ تو دونوں کو ہاتھ میں سجائیں آزادی کی نوید لئے پھرتے ہیں ، اب یہی روایتی ذہنیت ہمیں بلوچ سیاست میں قومی جہد کو لیکر انقلابی تقاضوں کی پاسداری سے ڈرا دھمکا کر خاموش کرانے کی بے ہودہ کوششوں میں لگی ہوئی ہے ، خاندانی، قبائلی رشتے ، قبائلی و علاقائی تعلق داری، گروہی و پارٹی مفادات ، علاقائی قبائلی مفادات، گروہیت کو لیکر نمود و نمائش کا خمار ذاتی تعلقات ، کیا یہ سب بلوچ قومی تشکیل کو لیکر قومی وحدت و قوت کی راہ میں رکاوٹ نہیں ؟؟
اور جب قومی وحدت و قوت کے حصول کیلئے برائے راست رکاوٹیں دور کرنے کی جہد ہو تو کیا ان تمام کا متاثر ہونا یا ان کا خاتمہ لازمی نہیں ؟
اگر یہ ہمارے قومی جد وجہد کیلئے حقیقی امر بن چکے ہیں تو اس میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ آپ اپنے مقصد کو لیکر قومی حوالے سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ درج بالا ذکر کئے گئے تمام کو رد کرکے دو قدم آگے کی طرف نکل جانے سے حاصل ہوگا۔
کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اوپر بیان کئے گئے تمام روایتی اجزاء کو تقویت فراہم کرکے ہم قومی تشکیل کو لیکر قومی وحدت و قوت حاصل کرسکیں گے؟
میرے حواس کے گرفت میں جس کو میں قومی بدبختی سے تعبیر کروں تو کم نہیں ہوگا پھنس چکا ہے وہ یہ ہے کہ اس جدوجہد کے طفیل بلوچ سماج میں جو بیداری پیدا ہوئی ہے اور بلوچ کی وابستگی ذہنی حوالے سے جس طرح آہستہ آہستہ عملی وابستگی کی طرف بڑھ رہا ہے اس کو قومی حوالے سے اجتماعی طور پر یکجہتی کی طرف لے جانے کے بجائے جس بے ہودہ انداز میں گروہیت کی طرف لے جایا جا رہا ہے شاید غور کرنے والوں سے ہرگز پوشیدہ نہ ہو ، انقلابی تقاضوں کو لیکر زمینی حقائق کو مد نظر رکھکر ایسے تمام اسباب جو ہمارے قومی جدوجہد کی راہ میں قومی تشکیل ، اجتماعی قوت و مرکزکی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں ان کی نشاندہی ، ان پرتنقید ،ان کے متعلق بحث و مباحثہ یہ ایک سیاسی اور انقلابی حق ہے ، ایسا ضرور ہو کہ ان نشان ذدہ عوامل جن پر تنقید یا بحث مباحثے زور پکڑ رہے ہیں ان کی بنیادیں جھوٹ یا بے بنیاد قصے کہانیوں پر مبنی نہ ہو ۔
اب اتنا شعور تو سیاسی کارکناں ضرور رکھتے ہونگے کہ من گھڑت قصے کہانیوں اور زمینی حقائق میں فرق کر سکیں ، مگر پھر بھی پچھلے تھوڑے سے عرصے میں ا ندورں خانہ کمزوریوں کولیکر فرسودہ خیالات پہ یا اعمال پہ جو تنقیدی سلسلہ شروع ہوا ہے اس کو جان بوجھ کر بد مزگی کے گرد میں ایسا آلودہ کررہے ہیں تاکہ ان کمزوریوں سے تعلق رکھنے والے حقائق آشکار ہی نہ ہو، جن دوستوں نے قومی سیاست کے نام پہ اپنی اپنی چھوٹی سی دنیا بنا رکھی ہیں ان سے قطع نظر اجتماعی قومی فکر رکھنے والے کارکناں اجتماعیت میں نقب زنی کیسے برداشت کرہینگے کیونکہ کوئی بھی پارٹی تنظیم قومی سیاست کو لیکر بلوچ سماج میں جد وجہد کررہا ہے اگر اس کی پالیساں اور افعال و اعمال قومی جہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہونگے تو ان پہ سوال ضرور اٹھیں گے، ایسے حالات میں ایک سوال بہت خوبصورتی سے میک اپ کرکے اڑایا جاتا ہے کہ یہ ہمارے پارٹی معاملات میں مداخلت ہے ، اور آگے چل کر زرا تبدیلی کے ساتھ یہ سوال کہ آپس میں مل بیٹھ کے ان مسائل کو حل کیا جائے ، عوامی سطح پر ان کا ذکر یا بحث قومی انتشار کا باعث ہوگا ۔
قومی جہد کے تقاضوں کو اگر مد نظر رکھ کر ان سوالات کی حقیقت کو موجودہ زمینی حقائق میں تلاش کریں تو یہ واضح ہے کہ کوئی بھی پارٹی برائے مقصد ہے ناکہ پارٹی ، از خود مقصد ہے ( مقصد کے بارے جو ذکر اوپر ہوا اسکو آپ مد نظر رکھیں) پارٹی کی وضاحت اس کے دائرہ کار ، اداروں کے سیاسی ، نیم سیاسی ہونے پارٹی کیلئے قومی ، انقلابی یاگروہی ہونے سے قطع نظر یہ دیکھتے ہیں کہ کیا جب آپ کے پارٹی کے ادارے بن رہے تھے تو ان میں مداخلت ہو رہی تھی ؟؟ اب تک اس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ، کیا جب آپ اپنے پارٹی کیلئے پالیساں بنا رہے تھے تب مداخلت ہورہی تھی؟؟ میری ناقص رائے کے مطابق اس بارے بھی کوئی وضاحت نہیں ۔
کیا جب آپ ان پالیسوں کو عملی جامہ پہنا رہے تھے تب مداخلت ہورہی تھی؟ اس کی بھی کوئی وضاحت نہیں ، اصل حقیقت تویہ ہے کہ جب وہ پالیساں عمل کے دور سے گزر کر سرزد ہوچکے ہوتے ہیں اور اپنے اندر موجود بہت سے تضادات کی نشاندہی کرتے ہیں تو ان پہ سوال یا تنقید پارٹی کے اندرونی معاملات میں کیسے مداخلت ہو سکتا ہے؟؟ مجھے یاد نہیں کہ اس بارے میں بھی کوئی وضاحت ہوئی ہو
کیا ا ب اس کی وضاحت کسی پارٹی کی طرف سے ہوگی،؟؟ اس کیلئے بھی میرے ہاں کوئی آس و امید نہیں۔
بحث عوامی سطح پہ پہ ہو یا محدود سطح پہ اداروں میں ہوں یا شخصیات کے بیچ، انکے تخلیقی اور ثمر آور ہونے کیلئے بحث مباحثوں کو پایہ تکمیل تک لے جانے والوں کے سوچ اور رویوں کا بنیادی کردار ہوتا ہے تو اس سوال کی حقیقت پر غور کرنے کیلئے ہمیں اپنا مقصدکو اس کے پورے حجم و تقاضوں کے ساتھ مدنظر رکھنا ہوگا قبائلیت سے قومی تشکیل کے سفر اور قومی وحدت و قوت کے حصول سے متضاد خیالات و اعمال جن کی متعدد بار نشاندہی ہوچکی ہے، ان کی حقیقت ہونے کا موجودہ سیاسی منظر نامہ ازخود ایک ثبوت ہے باریک بینی سے غور کریں تو پچھلے تمام عرصے میں قومی جہد سے منسلک تمام کے تمام شخصیات، تنظیمیں اور پارٹیاں جو اپنے حوالے سے متحرک رہے ہیں ان کے اعمال کے نتائج کو لیکر آج جو کچھ بھی ہمارے سامنے ہیں تعمیری حوالے سے یا پھر تخریبی حوالے سے یہ سب کچھ ان ہی کا حاصل حصول ہیں ، اس کیلئے تو کوئی اور ذمہ دار ہو ہی نہیں سکتا ، کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے حقیقی اسباب و وجوہات بھی ان ہی حضرات کے بیچ موجود ہیں، تو ان حقیقی اسباب کے پہچان اور تدارک کیلئے ٹٹولنا بھی ان ہی حضرات کو پڑے گا ، کیونکہ اس میں کوئی شک ہی نہیں رہا کہ موجودہ تمام پیچیدہ مسائل اور ان کے اسباب ہمارے جدوجہد کے بیرونی پہلو یعنی قابض سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ان تعلق اندرونی اہم اور بنیادی ستون بلوچ سے ہے ، بد قسمتی سے وہ انقلابی اور سیاسی اخلاقی جرات بھی نا پید ہے جس کا مظاہرہ ( اپنے طور حقائق کو تسلیم کرتے اور ا ز سر نو تمام معاملات کا تشکیل نو کی کوششیں کرتے ) کرکے حقیقی رخ کی طرف اپنے سمت کی درستگی کی جاتی یا تو اخلاقی جرات کے بجائے سیاسی منظر نامے کو ایسے شرم ناک کردیا گیا کہ وہ ہر مخلص بلوچ جہد کار کیلئے باعث شرم لگنے لگا ہے۔ہر مثبت اور بہتر خیال جو پالیسی بن کر افراد گروہ یا پارٹیوں کے ذریعے عمل سے گزر کر ناکام یا زوا ل پذیر ہوتا ہے اس کے ناکامی کے اسباب و وجوہات کی پہچان کیلئے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر ان افراد گروہ یا پارٹی و تنظیم کے بیچ تنقیدی شعوری حوالے سے تجزیاتی جائزے سے حقائق تک رسائی حاصل کی جاتی ہے تاکہ آئندہ کیلئے ان کی کامیابی کو ممکن بنایا جا سکے، اس عمل کو اپنے لئے شغان سمجھنے والے یا پھر اپنے خلاف پر و پنگنڈہ سے تعبیر کرنے والے یا پھر اپنے خلاف منظم سازش سمجھنے والوں سے معذرت ہی ہو سکتا ہے اور کچھ نہیں۔ 

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں