ہفتہ، 22 اکتوبر، 2016

بلوچ اشتراک عمل کے تناظر میں



جہاں تک میرے حواس کا تعلق ہے اس تمام عرصے میں ہمارے قومی جدوجہد سے جڑے جنگی حالات نے جو درس مجھے دیا ہے اسکے مطابق اپنے ہی بازو اوراپنی طاقت کو کاٹنا آسان عمل نہیں ہوتا اور ایک دہائی سے زائد کا عرصہ ایک جنگ سے جڑے رہنے والے شخصیات و گروپ یا تنظیم کہے اتنے احمق ہوسکتے ہیں جو اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی ماریں۔ 
میں اپنے باتوں کیلئے ہرگز مکمل سچ ہونے کا دعوی نہیں کروں گا لیکن ایک گذارش ضرور کروں گا کہ خدارا متعصبانہ ذہنی کیفیت سے آزاد ہو کر ان پر غور ضرور کریں اس وقت تک مجموعی حوالے سے جو رویہ مجھے دیکھنے کو ملا ہے اس میں تمام خدشات خواہشات نیک تمنائیں سب کے سب کا تعلق مسائل پر غور کرنے سے زیادہ انکے حل کرنے پر مرکوز رہے ہیں بدقسمتی سے اکثر اوقات مسائل اپنے ابتدائی مراحل میں ہوتے ہیں اپنے حقیقت کو لیکر ظاہر بھی نہیں ہوتے انکو سمجھے بغیر ہمارے تمام کا تمام زور انکے جلدحل کرنے پرمرکوز ہوتا ہے مسائل کی مناسبت سے انکا حل تلاش نہیں کیا جاتا بلکہ درپیش حالات کے تحت اپنے تیار کردہ حل کو مسائل پر مسلط کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور اس سے بڑی بدقسمتی یہ سامنے آچکا ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ ان مسائل کے بل بوتے پر کسی کی قدر گٹھانے اور کسی کی قدر بڑھانے جیسے متعصبانہ عمل سے جڑے نظر آتے ہیں انکو مسائل سے ،مسائل کے بنیادی وجوہات و اسباب سے اور انکے حل سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا وہ صرف موقع غنیمت جان کر کسی کیلئے جگہ بنانے اور کسی دوسرے کیلئے جگہ گٹھانے کی عمل سے جوڑ جاتے ہیں،جسکا تعلق لازماََ کردار کشی کو لیکر حربوں کیلئے الزام بہتان ،جھوٹ اور بے بنیاد باتوں پہ آکر رُک جاتا ہے اور ایسے عمل سے جو ماحول جنم لیتا ہے وہ صرف اور صرف محدود ایجنڈے اور محدود مفادات کے حامل افراد کو ہی فائدہ دے سکتا ہے ناکہ اجتماعی مفادات کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو،اجتماعی مفادات کیلئے جدوجہد کرنے والے تمام حقیقی قوتوں کیلئے تو یہ بالکل ہی متضاد ماحول ہوتا ہے جو انکے مشکلات میں اضافے کا سبب ہی بنتا ہے ۔
غلطی انسانی فطرت سے جڑا ہوا عمل ہے جس سے انکار ممکن نہیں مسائل و پیچیدگیاں جدوجہد کا لازمی جزو ہیں اور ان سب کا حل ذہانت میں ہے ناکہ خواہشات و توقعات میں کہ کئی آپسی رشتوں کو لیکر خواہشات و توقعات کے پورا نہ ہونے پر معصومانہ ناراضگی کے اظہار سے یا کئی حسد و نفرت کی بنیاد پرخودساختہ اصولوں یا حربوں کی مار سے کوئی بھی مطلوبہ وقتی حل ان پر مسلط کیا جائے۔
قومی تحریک میں واضح مقصد و فکر اور ہدف کے باوجود مجموعی افعال صاف طور پرقدرے مختلف اورمتضادکیوں نظر آرہے ہیں؟؟؟
اگر کوئی شخص میٹھے پھل دار درخت کی نشوونمایہ سوچ کر کرتا ہے کہ درخت کے سایے میں اسکے آنے والی نسلیں بیٹھ کر اسکے پھل سے استفادہ کر سکیں لیکن اسکے سوچ اور محنت کے برخلاف درخت کڑوے یا زہریلا پھل دیناشروع کرتا ہے تو غور کی ضرورت کہاں ہوگی ۔
میٹھے پھلدار درخت کا ہونا مستقبل میں اس سے فائدہ اٹھانایہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں 
زمین پانی بیج اگانا کئی سالوں تک بغیر پھل درخت کی دیکھ بھال محنت و قربانی سے تعلق رکھتے ہیں 
فکر واضح مقصد محنت و قربانی کے باوجود بھی درخت اکثریتی حوالے سے کڑوے پھل دے تو پھر لازماََ بیج اور نشوونما کے طریقہ کار پر غور کرنا ہوگا، کیونکہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ میٹھا پھلدار درخت کڑوے یا زہریلا پھل دے تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے تمام مسائل کے پیچھے ٹھوس وجوہات و اسباب ہیں انکو جانے بغیر انکا سدباب کئے بغیر اگرہم ان پر وقتی اور خودساختہ مطلوبہ حل ٹھونسنے کی کوشش کریں گے تو اس سے مسائل مزید بڑھیں گے حل نہیں ہونگے۔
تمام مسائل کو انکے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھ کر انکے مناسب سے حل ہی بہتر ہوگا ناکہ اپنے مرضی اور منشاء کے حل ٹھونسنے سے۔
قومی آزادی کی فکرکو لیکر قابض سے نجات کیلئے ایک مضبوط منظم و موثر اور متاثرکن طاقت کا حصول اولین شرط ہے پچھلے تمام عرصے میں جس کے حاصل کرنے میں ہم مکمل ناکام رہے ہیں تحریک کے ابتدائی مراحل میں جدوجہد کا ظہور و ا س میں شراکت و شمولیت کا معیار مکمل ہمارے ارتقاء کو لیکر ہمارے نیم قبائلی ڈھانچے ونیم سیاسی روایتی (پاکستانی طرز سیاست) نظام سے جوڑا رہا جو لازمی و فطری تھا مگر بدقسمتی کہ پچھلے تمام عرصے میں جدوجہد کے دوران ان میں بدلاؤ کے تمام مواقع میسر آنے کے باوجود ان میں بدلاؤ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نہیں لایا گیا انقلابی اقدامات کے تحت علمی و شعوری حوالے سے جو تقاضے پورے کرنے تھے مواقع ہونے کے باوجود پورے نہیں کئے گئے اور جو تمام کوششوں کے باوجود بن چکے تھے وہ بھی تقسیم و محدود ہوتے گئے بلوچستان نیشنل فرنٹ ،بی این ایم (شہید غلام محمد) پی آر پی کا محدود ہونا بی ایل اے کا تقسیم ہونا بی ایس او آزاد بی ایل ایف وغیرہ وغیرہ یہ سب مسائل پیدا ہوئے یا کئے گئے انکے وجوہات و اسباب پر غور کرکے انکے سدباب کرنے کی کوششیں کون کرتا ہم نے ارتقاء اور روایتی طرز سیاست کو حاوی ہونے دیا ایک خطرناک فوجی جارحیت کا سامنا کرنے کے باوجود ،
توجب فکر و مقصد اور مجموعی افعال میں صاف طور پر تضاد نظر آئے تو اعتماد اور بد اعتمادی کے بیچ شک کا خلیج وسیع ہونا لازمی ہوتا ہے جو ہوتا گیا آج بد اعتمادی کی فضاء گروہی حدود سے پھیل کر عوامی سطح تک اور گروہ کے اندر فردی و شخصی حد تک ہمیں اپنے لپیٹ میں لے چکا ہے۔
تحفظات و شک تخلیق و حقائق سچ تک رسائی کا ذریعہ بنتے ہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا کہ تحفظات و شک کی بنیاد پر اپنے مفاد و ضد کیلئے راہ ہموار کی جائے. 
ہمارے ہاں ہو کیا رہا ہے وہ بہت ہی باریک بینی سے غیر جانبدارانہ غور کا متقاضی ہے
بالکل اسی تناظر میں ذرا سا ماضی میں جانکنے کی کوشش کریں تو تقریبا کوئی دس ماہ قبل سنگت حیربیارمری کا اتحاد کے حوالے سے کوشش دیکھنے کو ملے گے اتحاد کے حوالے سے یہاں انکے اخباری بیان کا کچھ حصہ پیش کررہا ہوں بقول سنگت حیربیارمری... میں اصولی اشتراک عمل کیلئے ہمہ وقت تیار ہو ں تاکہ ہماری قومی آزادی کی منزل قریب تر ہو۔لیکن کسی بھی قسم کی موثر اشتراک عمل کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ کیونکر آج ہم اس بحرانی کیفیت میں مبتلا ہیں اسکے بنیادی ذمہ دار کون تھے اور اسکی شروعات کہاں سے ہوئی، اور اس کے وجوہات کیا تھے۔ اگر ان کی وجوہات تلاش نہیں کی گئیں تو یہ تمام وجوہات مستقبل کے اشتراک عمل کے لیے دوبارہ مشکلات جنم دے سکتی ہیں۔ ہم نے بلوچستان کی آزادی کے لیے ہمیشہ اصولی اشتراک عمل کیلئے کوشش کی اور اب بھی اصولی اشترا ک عمل کے لیے تیار ہیں۔ موجودہ حالات اور ماضی کی تجربات کو مدنظر رکھتے ہو ئے کسی بھی اشتراک عمل کے آغاز کے لیے ہمارے دو شرائط ہیں۔ اول یہ کہ بلوچ قوم کی طرف سے عطا کردہ طاقت کو بلوچ کے خلاف استعمال کرنا، سماجی مسائل میں دخل اندازی کرکے رسم رواج کو پامال کرنا یا کسی بھی قوت کی پراکسی بن کر بلوچوں کے خلاف دشمن کی مدد کرنا جیسے پالیسیوں کو مکمل ترک کیا جائے۔دوئم یہ کہ جو بھی اشتراک عمل ہو اس میں تنظیمی پلاننگ سے ہٹ کر کہ جس سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے باقی قوم کے حوالے سے تمام پالیسیوں میں قوم کو نیک نیتی سے اعتماد میں لیا جائے،اسکے بنیادی نکات و اصولوں سے قوم کو مکمل آگاہی دی جائے تاکہ سابقہ تجربات کی روشنی میں ناکامی کی صورت میں ذمہ داروں اور اسباب کے تعین میں قوم کو کوئی ابہام نہ ہو، اس کے علاوہ اس سے ذاتی و گروہی مفاد پرستی کی حوصلہ شکنی اور مجموعی قومی مفاد کی حوصلہ افزائی ہو سکے گی۔ میرے نزدیک ان دونوں شرائط پر عمل کرنے سے ہی یہ ممکن ہے کہ قومی تحریک میں ہم آہنگی اور ایک مشترکہ ڈسپلن کی تشکیل ہوسکے۔ 
دیگرآزادی پسندوں کی طرف سے خیرمقدمی اخباری بیانات کے علاوہ پیش رفت کے حوالے سے قوم کو کون جوابدہ ہے کہ کیا ہوا یا کیا ہونے جارہا ہے؟؟؟؟؟
تازہ ترین بی این ایم کے سربراہ خلیل بلوچ کے طرف سے اتحاد کے حوالے سے بی آر پی کے سربراہ براہمداغ بگٹی سے رابطوں کا عندیہ اور اتحاد کے حوالے سے اپنے فارمولے کا بیانیہ سامنے آیا میرے ناقص رائے کے مطابق یہ دونوں بیانات اتحاد کے حوالے سے ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے کیلئے متضاد ہیں.
تو یہاں بھی ماضی کے تسلسل کو لیکر اتحاد کے حوالے سے بھی درپیش مسائل کی اصل نوعیت و انکے حقیقی وجوہات کو جانے بغیران پر اپنے مرضی کا حل مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے باوجود اس کے کہ خلیل بلوچ خود ہی باہمی احترام کے فقدان اور بدگمانیاں غالب آنے کا اقرار کررہے ہیں۔
ویسے تو اخباری بیانات میں لفاظی کوئی نئی بات نہیں لیکن یہاں کون پوچھے کہ انقلابی معیار اور برابری کے بنیاد پر اتحاد کی وضاحت و تشریح خلیل بلوچ کیسے کریں گے کس مقام و کیسے حالات میں کرینگے اور دوئم فرد کے کردار کو لیکر تحریک میں اسکی اہمیت اورافادیت و مضمرات کی منصفا نہ نشاندہی کیسے کریں گے
سب سے قابل غور بات یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ اتحاد و اتفاق کو لیکر باہمی احترام اور مضبوط تعلقات کے لئے بدگمانیاں پیدا کرنے والے عوامل کے سدباب کے لئے بالکل ابتدائی کوشش کی جارہی ہیں بلکہ یہاں تو بہت سے نقصانات کی وجہ بننے والے وجوہات کو ختم کرکے بہتری کی کوشش کرنی چاہئے
میرے ناقص رائے کے مطابق جب تک چھوٹے بڑے تمام مسائل کو ان سیاق و سباق کے ساتھ سمجھ کر انکے مناسب سے ان حل نہیں ڈھونڈا جائے گا اس وقت تک بہتری و کامیابی ایک خواب ہی رہے گا۔۔۔ !!!

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں