جمعرات، 30 مارچ، 2017

"غازی یا غدار۔۔۔۔۔۔؟؟"



"غازی یا غدار۔۔۔۔۔۔؟؟"
(براہوئی ادب سے۔۔۔۔۔۔۔۔)
تحریر: رحیم زام
ترجمہ: عتیق آسکوہ بلوچ
آسمان کھا گئی یا زمین نگل گیا حقیقت میں کسی کو معلوم نہیں، کوئی کہتا کہ اس کے دوست اسے پہاڑوں وادیوں کے بیچ لے جاکر موت کی آغوش میں چھوڑ آئے ہیں۔ کوئی توبہ توبہ کہتے ہوئے کہتا کہ "آخر لوگوں کے ساتھ اس نے کیا کیا تھا کہ اسے ایسے دن دیکھنے پڑے!"
اسی طرح بہت سے لوگ اس کے گھر والوں کو تسلی دینے کے لئے بھی جاتے تھے لیکن جب ان کے گھر سے واپس جارہے ہوتے تو یہی لوگ باتیں کرنے لگتے کہ کچھ نہیں ہوا ہے ان کے بیٹے کو، کوئی بھلا نہیں گرا ہے اس پے بس یہی گھر کے جھگڑوں، یہی بے روزگاری کے طعنوں سے بیزار ہوکر گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنے منہ انتی باتیں۔۔۔۔۔۔۔ کبھی لوگ اس کے خلاف باتیں کرتے تو کبھی اس کے حق میں۔ اسی طرح دن گزرتے گئے۔
لوگ اپنی وقت گزاری کے لئے ان کے گھر جاتے، کوئی خاص بات نہ کرتے لیکن اس کے گھر والوں کے زخموں کو تازہ ضرور کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ایک سال گزرنے کے بعد کسی کو اس کے گھر والوں کے درد و غم سے کوئی سروکار نہیں۔
اس کے گھر میں ہزاروں مرادے دل میں رکھے ہوئے اس کی ماں بھی تھی جو اپنی زندگی کے آخری دنوں کو گزار رہی تھی، جو اپنے بچے کے خوشیوں کی جگہ اس کے اس طرح درگور ہونے پر صرف غم کے آنسوں بہا رہی تھی۔
اسی طرح اس کی چھوٹی بہنیں ہر وقت پوچھتے رہتے کہ ماں ہمارا بھائی کہا گیا ہے؟ تو ماں جواب دیتی؛ پردیس گیا ہے تمہارے لئے چیزیں خریدے گا، گڑیاں، چوڑیاں۔ اور اس طرح اس کے چھوٹے بہنوں کو تسلیاں دیتی تھی۔
یہ تسلیاں تو چھوٹی بہنوں کے لئے کافی تھی لیکن بڑی بہنوں اور بھائیوں کا کیا جو ماں سے پوچھ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کا بھائی کب آئے گا، لالا کب آئے گا؟
جب یادے حد سے زیادہ بڑھ جاتی تو بہنیں اپنے دوپٹے کے پلو سے اپنی آنسوں پونچتی رہتی اور پھر زندگی کے رسم و رواجوں میں خود کو مشغول کرتی اور خود کو تسلی دیتے ہوئے کہتی کہ مہمان آرہے ہیں ان کی مہمان نوازی بھی تو کرنی ہے، تیاریاں کرنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی حال بھائی کا بھی تھا لیکن جانے والے بھائی کے وہ ہی تھا، اس کے لئے یہی بات تھی کہ وہ مرد ہے۔ بعض دفعہ تو بہن بھی اسے طعنیں دیتی کہ تمہارے سینے میں دل مہیں بلکہ پتھر ہے تمہیں لالا کے جانے کا کوئی غم نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ کہا گیا اپنی خوبصورت زندگی کو چھوڑ کے، آنسوں بہانے کو ویسے بھی تم اپنے وقار سے باہر سمجھتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ بھائی کو ہی معلوم تھا کہ اس کے دل پے کیا گزر رہی ہیں، کیسے کیسے سوچ اسے دل گیرے ہوئے پریشان کررہے ہیں، کیسی کیسی باتیں اس کے بدن کو جلسا رہے ہیں۔۔۔۔۔ ایک آسکوہ (آتش فشاں) کی طرح سالوں سال کی خاموشی کے بعد ایک دناس سے ایسی آگ پھیلتی جسے بجانا آدمی کے بس میں نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ اس کے خاموشی میں بھی وہی۔۔۔۔۔۔۔
رات آتی تو لوگ خوابوں کی دنیا کی طرف ہولیتے لیکن اس کی ماں رات کی تاریکی میں گھر کے دروازے کے نزدیک آنکھوں کے ساتھ ایک نیم روشن چراغ پوری رات اس مسافر کے لئے جلائے رکھتی کہ شاید آج آجائے۔۔۔۔۔۔ قابل غور بات یہ تھی کہ رات کو ہی کیوں اس کے آنے کا انتظار، دن کو کیوں نہیں کیا جاتا۔۔۔۔۔؟!!
وہ دن بھی آگیا جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ جنگل کی آگ کی طرح یہ بات پورے گاؤں پھیل گئی بلکہ آس پاس کے کئی اور گائوں میں بھی پھیل گئی کہ دوستین باغی ہوگیا ہے۔
دوستین باغی ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیسے؟
کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے کو چھوڑوں یہ بتائوں کیوں؟
کیوں خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس سے باغی ہوسکتا ہے؟
اوپر والا ہی جانے۔۔۔۔۔۔!!
پھر نتیجہ کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔؟
غازی یا غدار۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات کس نے کہا کسی کو معلوم نہیں ہوا۔
غدار اڑے یہ تو غدار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات پے سب متفق ہوگئے کہ دوستین غدار ہے۔ اس غدار والی بات کے بعد اس بات کا جواب کوئی دے نہیں پارہا تھا کہ کسی کو غدار قرار دینے کا حق کس کے پاس ہے۔
ماں۔۔۔۔۔۔ بہن۔۔۔۔۔ بھائی۔۔۔۔۔ سب تک یہ بات پہنچی کہ دوستین غدار ہے تو ماں نے اپنے آنکھوں سے پوچھنے کی کوشش کی کہ کیسے مگر اسی وقت اس کو آنسوں بہنے کے لئے بے قابو ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنسوں بہتے گئے، بہتے گئے اور اپنے ساتھ ہزاروں مرادے بہہ کے لے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ماں تو ماں ہے بچہ بھلا ہو یا برا اس کے سینے میں وہی درد اس کے لئے ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ بہن تو پلو سے آنسوں پرونے سے فارغ نہیں ہوئی اب تو آنسوں ریزہ ریزہ ہوتے ہوا میں پھیل گئے۔ بھائی نے یہ بات سننے کے بعد کچھ دن خاموشی میں گزاری لیکن دل کو زیادہ دن روک نہیں پایا۔ ایک دن زور سے ہنسنا شروع کردیا اس دن اتنا ہنسا کہ ہنستے ہنستے بہت سو کو ہنسایا۔
خود سے لوتے ہوئے کہا کہ عجیب سی پارسائی ہے اس دن کی۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑ گیا اپنا گھر۔۔۔۔۔ اپنے تعلیم کے سفر کو ادھورا چھوڑ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی ماں، اپنی بہن کی وہ وشیاں بھی خاطر میں نہیں لایا جو اس کے لئے پروئے گئے تھے، اس کے شادی کے لئے، اس کے بچوں کے لئے۔ اور پھر بھی لوگ اسے غدار کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔!!
پھر رات ہوئی ماں نے چراغ روشن کرکے دروازے کے نزدیک رکھا۔۔۔۔۔۔
رات گزر گئی، صبح ہوئی، پورا دن گزر گیا پھر رات نے اپنا سیاہ دوپٹہ اوڑ لیا پھر چراغ روشن ہوا دروازے کے پاس رکھا گیا۔ اسی طرح رات کے نام کئی چراغ روشن ہوئے، سال گزرے دوستیں مہیں آیا۔۔۔۔۔۔۔ 
لیکن ایک رات پہاڑ کے اوپر ایک روشنی نے چیدہ بنائے ہوئے تھا۔
ماں مسکراہی، یہ مسکراہٹ برسوں گزرنے کے بعد ان کے چہرے پہ آئی تھی۔ لالا کے بھائی نے ماں سے پوچھا؛ کیا ہوا ماں آج آپ مسکرا رہے ہو؟
ماں نے جواب میں کہا؛ میرا بچہ دوستین آیا ہے جاکر اسے پہاڑی سے لے آئو۔
بھائی نے حیرانگی سے ماں کی طرف دیکھا۔ اسے تو یقین نہیں تھا کہ دوستین آئےگا لیکن ماں کی مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے وہ روشنی کی طرف روانہ ہوا۔
وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا یہ وہی چیدہ ہے جس کا ذکر ایک شاعر نے کیا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ وہی چیدہ ہے۔۔۔۔۔۔
وہاں ایک لشکر پڑائوں ڈالے ہوئے تھا۔۔۔۔ انہوں نے دوستین کو اس کے بھائی کے حوالے کیا، 
دوستین کا بھائی لشکر سے ایک سوال کرنے والا تھا کہ اسی وقت "چیدہ" کی سرخ روشنی زیادہ ہوئی، بھائی نے روشنی کو زیادہ ہوتے دیکھا تو خاموش کھڑا رہا۔۔۔۔۔۔
جب دوستین کا بھائی اسے ماں کے سامنے لے آیا تو ماں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔ غازی یا غدار؟

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں