اتوار، 25 اگست، 2013

انگلینڈ کا بورژ وا انقلاب



(1628.1658)

انگلینڈ کے انقلاب سے متعلق تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ آج بورژ واطبقے یا بورژ واژی مورخ سولہویں صدی کا انگلینڈ اس انقلاب کو انقلاب ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اس حقیقت کا اصل سبب تاریخی طور پر بورژ وازی کا بدلا ہوا سماجی اور سیاسی کردار میں پوشیدہ ہے کیونکہ ماضی میں پیداواری قوتوں کے ارتقا کی علمبرداری آج اسے شمشان گھاٹ اور تاریخی موت کی طرف لے جائے گی۔ اس لئے یہ بورژ واطبقے کے مفاد میں ہے کہ وہ نہ صرف اپنے تاریخی کردار اور سماجی ارتقاء کی علمبرداری سے ہاتھ اٹھا لے بلکہ تاریخی حقائق اور قانون کو توڑ مروڑ کر پیش کرے جیسا کہ وہ انگلینڈ اور فرنچ انقلاب سمیت دنیا کے ہر انقلاب کو سمجھانے کے دوران کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں انگلینڈ کا سولہویں صدی کا انقلاب یا تو ایک حادثہ تھا یا بادشاہ چارلسlاور ایک جاگیردار الیور کرام ویل کا ذاتی جھگڑا۔۔۔اگر کوئی تیسرا پہلو ممکن ہے تو وہ ہے اس سارے تاریخی دور کو ایک مذہبی تضاد کے ذریعے سمجھانے کی کوشش۔یعنی کہ سماجی ارتقا کے قوانین ،تاریخی رجحانات کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اور وہ اس میں کتنے حق بجانب ہیں ۔اس کا اندازہ آپ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد باآسانی لگا سکیں گے۔اس عہد کا انگلینڈ ایک زرعی ملک تھا جس کی زیادہ تر آبادی دیہات میں رہائش پذیر تھی لیکن اس کے باوجود شہری آبادی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ 1500ء سے 1650ء کے درمیان انگلینڈ کی آبادی دگنی ہو چکی تھی اور ہر بارہواں آدمی شہر میں رہتا تھا۔ سارے وسطی عہد میں یا بظاہر رکے ہوئے جاگیرداری سماج کے اندر آنے والی چھوٹی چھوٹی مقداری تبدیلیاں اپنا معیاری اظہار کرنے کے اہل ہو گئی تھیں اور تاریخی طور پر پیدا ہونے والا ایک نیا طبقہ،اپنا فیصلہ کن معاشی اور سماجی کردار ادا کرنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہا تھا اور وہ تھا نیا ابھرنے والا بورژوازی!۔
فرانس کے ساتھ سو سالہ جنگ اور اسے اپنے صوبے کی حیثیت میں زیر کرنے کی ناکام کوشش کے بعد انگلینڈ ایک بڑے عرصے تک اپنے آپ میں محدود رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب وہ مزید منظم انداز میں بیرونی دنیا پر اثر انداز ہونے کا اہل بن گیا۔1492ء میں کرسٹوفر کو لمبس نے امریکہ کو دریافت کر لیا اور انگریز تاجر بھی اسی راستے کو لے کر انڈیا اور روس تک چلا گیا ۔دیگر ممالک کی مارکیٹ کے بننے اور وہاں ۔۔۔(Wool)کی ضرورت نے از خود انگلینڈ کے اندر محنت کی تقسیم کو نئے انداز سے منظم کیا ۔جنوبی انگلینڈ میں بالخصوص اجناس کی پیداوار کا عمل تیز ہوا۔۔۔ جنس کے بدلے جنس کی بجائے 16ویں صدی سے ہی انگلینڈ میں پیسے کا استعمال شروع ہوا۔ اسپین اور امریکی کانوں سے چاندی کے نکلنے اور پھر اس کی یورپ کی طرف منتقلی خود یورپ میں پیداواری تعلقات پر اثر انداز ہونے لگی۔ 1510ء سے لے کر 1580ء کے عرصے میں ٹیکسٹائل کی صنعت میں150فیصد اضافہ ہوا ۔1610ء میں انتہائی زیادہ مقدار میں کوئلہ کی دریافت کے باعث لوہا،شیشہ،صابن اور جہاز رانی کی صنعت پر بھی خاص بھاری اثرات پڑے ۔زمینوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور ہارنیوں کی اچھی خاصی تعداد روڈوں پر آگئی۔ ریاست کی طرف سے مراعات یافتہ طبقے کے کچھ افراد کی تجارت پر اجارہ داری کے نتیجے میں اشیاء مہنگی ہوئیں جس کا نتیجہ ملک میں انتشار میں اضافے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
بادشاہی آمریت کے زیر اثر سماج ابھی اپنے جو ہر خواہ ادارتی ڈھانچے میں جاگیردارانہ تھا جس کے نظریا تی چھپر کے طور پر اس عہد کا چرچ ریاست کا مضبوط ترین ادارہ تھا ۔چرچ پورے ملک میں جس فکر کی تبلیغ کر رہا تھا۔ وہ کسی بھی صورت میں آزاد سوچ اور آزاد تجارت کے حق میں نہ تھی حتیٰ کہ1945-47ء کے عرصے میں دو سو عورتوں کو ڈائن ظاہر کر کے مار دیا گیا۔ چرچ کا ادارہ ایک ایسی پولیس فورس کا کام بھی کر رہا تھا‘ جس کے ذمے سماج کا نظم و ضبط بحال رکھنے کی ذمہ ادری بھی تھی۔ ملک کا آئینی ڈھانچہ کچھ اس طرح تھا کہ بادشاہ اپنے منسٹر مقرر کرتا تھا جو پالیسیاں مرتب کرتے تھے ۔پالیسیوں کے اطلاق اس کے لئے لازمی مطلوبہ رقم کے باعث بادشاہ کو پارلیمنٹ کے دوہاؤسز سے رابطے میں آنا پڑتا تھا۔ ہاؤس آف لارڈز جس کی نمائندگی مختلف ریاستوں کے نواب اور پادری کرتے تھے اور ہاؤس آف کامنز جہاں چھوٹے زمیندار اور شہری آبادی کے نمائندے موجود رہتے تھے ،کے زیر اثر جاگیردار سماج سرمایہ دارانہ ارتقا کے لئے لازمی سرمایہ صرف مرچنٹ (تاجر)طبقہ ہی دے رہا تھا اور جو اپنے اور اپنے سرمائے کے تحفظ کے لئے اپنا سیاسی اظہار بلدیاتی نظام سے لے کر ہاؤس آف کامنز میں بھی کرنے لگا تھا۔ اس قسم کی تمام تبدیلیاں انگلینڈ کے نوابوں(Lords) پروہت(Bishops) اور جاگیرداروں (بادشاہ سمیت)کے خلاف تھیں جس کا لازمی نتیجہ بادشاہ اور پارلیمنٹ کے مابین بڑھتے ہوئے اختلافات تھے جس کے بارے میں آگے مزید وضاحت کے ساتھ لکھا جائے گا۔
آبادی اور شہروں کے بڑھتے غذائی ضرورتوں میں اضافے اور کانوں کی تلاش جیسے محرکات نے زمین کی اہمیت کو دو چند کر دیا تھا ۔شہری مرچنٹ طبقہ زمین کی خرید و فروخت میں اپنا سرمایہ لگانے لگا تھا۔ ایک مورخ کے بقول یہ دور انگلینڈ میں زمین کی بھوک کا دور تھا۔ نتیجتاً صدیوں سے دیہات کے منجمد سماج میں پرانے پیداواری تعلقات تبدیل ہو رہے تھے۔ دوسرے لفظوں میں زرعی سرمایہ دار(Capitalist Farmer)اور کھیت مزدور(Wage Labourer)پیدا ہو رہے تھے ،جن کے سیاسی مفادات شہری بورژوا کے ساتھ جڑے ہوئے تھے ۔چرچ اور بڑے جاگیردار(بادشاہ سمیت)اب تک اچھی خاصی زمین کے مالک تھے لیکن اسے نئے طریقے سے استعمال کرنے کے حق میں نہ تھے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے اپنے سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کا خوف تھا ‘نتیجتاً وہ روز بروز معاشی طور پر کمزور ہو رہے تھے اور اپنے جملہ سیاسی اتحادیوں سمیت مزید رجعتی بنتے جا رہے تھے۔
بحران سے انقلاب تک:سماجی بحران جیمسlکے آخری عہد1601ء سے بڑھ کر اس کے بیٹے بادشاہ چارلسlکی حکومت کے ابتدائی ایام میں ہی خطرناک صورت اختیار کر چکا تھا۔
درحقیقت 1590ء تک بورژ وازی اور بادشاہی آمریت(Monarchy)کے مفادات ،نوابوں کی باہمی لڑائیاں(War of Forces)اسپین اور چرچ کے خلاف ایک ہی تھیں ۔خود اس بورژ وازی کے جو چرچ کے زیر اثر زیادہ ملکیت پر سیخ پا تھا، ریاست نے چرچ کے خلاف استعمال کیا۔ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خاتمے کے بعد بورژوازی کو اپنے ارتقا کی راہ میں بادشاہی آمریت ایک رکاوٹ محسو س ہونے لگی اور خود بادشاہت نے بھی بورژوازی کی بڑھتی ہوئی دولت اور طاقت سے ڈر کر چرچ اور بڑے جاگیرداروں سے مصلحت کر لی ۔سماجی میں بدلتے ہوئے حالات کے تحت سیاسی طاقتوں کی از سر نو صف بندیاں ہو رہی تھیں۔ حکومت آزاد تجارت میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے کچھ لوگوں کی اجارہ داری کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی رہی تاکہ مختلف اجناس کی تجارت پر اثر انداز ہوا جاسکے اور سماج کو پرانے انداز میں چلایا جا سکے۔ یہی بنیادی تضاد تھا جس نے سماج میں مذہبی رنگ اختیار کر لیا۔ تخت اور چرچ کے مفادات میں جوں ،جوں مماثلت بڑھتی گئی ،ویسے ہی کیتھولزم پر سماج کے مختلف حصوں سے ہونے والی تنقید میں بھی شدت آتی چلی گئی ۔گو کہ یہ تنقید خود ایک اور مذہبی فکر کے تحت تھی یعنی پروٹیسٹنٹزم کے تحت ،لیکن یہ بورژوازی اور پروٹیسٹٹزم کا خوف ہی تھا جس نے چارلس lکے باپ، جس میںlکو اسپین کی طرف جھکنے پر مجبور کیا ،نتیجے کے طور پر پوری براعظم میں اسپین کی طاقت اور اثر میں اضافہ ہوا اور ڈچ بووژوازی بھی آگے نکل آیا۔ یہاں تک کہ جرمنی کی مارکیٹ سے انگریزی کپڑا خارج ہو گیا۔
جس میںlکی کمزور پالیسی کے باعث انگلینڈ میں1621ء میں کپڑے کی صنعت میں سخت بحران آیا 1625ء میں باپ کی جگہ چارلسlبادشاہ بنا ،جس نے پروٹیسٹنٹ مخالف فرانس کے بادشاہ کی بیٹی سے شادی کی اور اپنے ملک میں چرچ اور کیتھو لزم کو مزید مضبوط کیا کیونکہ اس کے باپ کے بقول اگر پادری نہ رہا تو بادشاہ بھی نہیں رہے گا۔(No bushop-No king)
چارلسlکو بھی معاشی طور پر کمزور حکومت اور پارلیمنٹ کے ساتھ جھگڑے ورثے میں ملے ۔چارلس نے زبردستی امراء سے قرض لیا اور جس نے نہیں دیا، اسے گرفتار کر لیا گیا۔ بڑوں سے ورثے میں ملنے والا کورٹس کا ایک ایسا جال بھی تھا جس کے ذریعے مخالفین کو سزائیں دی جاتی تھیں۔1628ء میں حقوق کی ایک نئی پٹیشن پارلیمنٹ میں داخل کی گئی ،جس میں پارلیمنٹ کی مرضی کے بغیر تھوپے گئے محصول اور گرفتاریوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ مارچ1629ء میں پارلیمنٹ پر فوج نے چڑھائی کر کے اسے ختم کر دیا۔ گیارہ برسوں تک بادشاہی آمریت چرچ اور جاگیردار شاہی کے گٹھ جوڑ سے حکومت چلائی۔1637ء میں اسکاٹ لینڈ میں ایک سخت مذہبی کتاب کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا گیا جس کے نتیجے میں اسکاٹ لینڈ میں امراء اور وکلاء سمیت سماج کے مختلف طبقات /گروہوں نے مل کر انگلینڈ کے خلاف فوج تشکیل دی اور بغاوت کا اعلان کر دیا۔ اسکاٹ لینڈ معاشی طور پرا نگلینڈ سے بہت پیچھے تھا لیکن سیاسی نقطہ نگاہ سے بہت آگے تھا اور وہاں قوم پرستی کا اثر بہت زیادہ تھا۔ اسکاٹ لینڈ کی فوج کے محلے کے وقت تباہ حال بادشاہ گیارہ برسوں کے بعد پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا تاکہ معاشی مدد حاصل کر سکے کیونکہ بادشاہ کے پاس اپنی فوج کو تنخواہ دینے جتنے پیسے بھی نہ تھے ۔معاشی اور اخلاقی مدد کے بدلے میں پارلیمنٹ نے بادشاہ سے درج ذیل اصلاحات طلب کیں؛
*تحفظات کا خاتمہ
*نئے تھوپے گئے محصولات کا خاتمہ
*غیر عبادت گزاروں کی سزا کا خاتمہ
*اسپیشل کورٹس کا خاتمہ
*پارلیمنٹ کی مرضی کے بغیر اسے توڑنے کے عمل کا خاتمہ
*ہاؤس آف لارڈز سے پادریوں کا انخلاء
*اسکاٹس سے صلح جو ایک کالونی (Calvinist)تھے (پروٹیسٹ فرقے کی ایک شاخ)
بادشاہ نے عارضی طور پر کچھ مطالبات تو تسلیم کر لئے لیکن ہمیشہ کے لئے انہیں ماننے کا مطلب صدیوں سے قائم بادشاہ کے حق سے ہاتھ اٹھ لینا تھا جبکہ یورپ میں دیگر مقامات پر اسی بادشاہ کے ہم عصر مزید مضبوط ہو رہے تھے۔ 1614ء میں آئرلینڈ میں سیاسی بحران عروج پر تھا اور پارلیمنٹ اس پہلی کالونی کو اپنے ہاتھوں سے گنوانے کے لئے تیار نہ تھی لیکن انہیں بادشاہی فوج پر اعتبار نہ تھا ،اس لئے فوج کا انتظام پارلیمنٹ کے ہاتھوں میں دینے کی بات ہو رہی تھی۔
جنوری1642ء میں بادشاہ نے اپنی قوت کو طاقتور سمجھے ہوئے 400فوجیوں سمیت پارلیمنٹ پر چڑھائی کر دی جس کے کچھ نمائندوں نے بھاگ کر لندن شہر میں پناہ لے لی جہاں کے تاجر طبقے کی اکثریت نے انہیں خوش آمدید کہا۔ بادشاہ اپنی فوج کو لے کر لندن شہر پر حملہ آور ہوا لیکن وہاں عوام کے بڑے احتجاجوں کے سامنے ہونے پر اسے اپنی شاہی فوج کو از سر نو منظم کرنا پڑا جسے کیولیئرز(Cavaliars)کہا جاتا ہے ۔ان حالات میں پارلیمنٹ اور تاجر طبقے کے لئے بھی ضروری ہو گیا کہ وہ اپنے اور اپنے سرمائے کے دفاع کے لئے کچھ نئی فوج تشکیل دیں ۔یوں حالات خانہ جنگی کی طرف بڑھنے لگے۔
یہ انگلینڈ کا وہ دور تھا جب جاگیردار اشرافیہ اور چرچ کے علاوہ سماج کے تمام طبقات اور معاشی گروہ تخت کے خلاف ہو گئی تھیں ۔پارلیمنٹ اس صورت حال کو ایک طرف بادشاہی آمریت کے خلاف اپنی سیاسی طاقت کے اظہار کے حوار پر استعمال بھی کر رہی تھی لیکن دوسری طرف وہ ایک طبقے(بورژوازی)کے عوام کی اس انقلابی کیفیت سے خوفزدہ بھی تھے کیونکہ ضابطے سے نکلے ہوئے حالات اس طبقے کے لئے بھی نقصاندہ تھے۔ یہی سبب تھا کہ پارلیمنٹ کچھ سیاسی مراعات (جو اس کی طبقاتی بقا کے لئے لازمی تھیں)کے عوض جلد از جلد اس بحران کا خاتمہ بھی چاہتی تھی۔ اس نسل میں پارلیمنٹ شاہی مذہب کے خلاف ایک اور مذہبی تعلیمات کی تبلیغ بھی کر رہی تھی، تاکہ عوام کے انقلابی مزاج کو ضابطے میں رکھا جاسکے۔ اس تعمیراتی ڈھانچے کی سیاسی قوت کو پریس بائٹرئینس(Presbyterians)کہا جاتا تھا۔
پہلی خانہ جنگی: 1642ء میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور پارلیمانی فوج اسکاٹ فوج کے ساتھ آمنے سامنے ہوئی اور انہیں لندن شہر سے50میل کے فاصلے پر روک دیا اور انہیں شہر کے اندر پہنچنے نہیں دیا ۔یوں1645ء تک مختلف مقامات پر یہ فوجیں آپس میں ٹکرائیں ۔اس خانہ جنگی کے خطرناک معاشی اثرات دونوں طرف پڑے۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ اپنی فوج کو تنخواہیں بھی نہیں دے پار ہی تھی اور اس کا بھی امکان موجود تھا کہ کہیں اسکاٹ فوج الگ سے بادشاہت سے صلح نہ کر لے۔ ان باتوں نے پہلے سے کمزور پارلیمنٹ کی فوج کے نظم و ضبط کو مزید خراب کیا۔
پارلیمانی فوج کے ایک جتھے(Ironside) کا رہنما اولبور کرام ویل(Oliver Cromwell)ظاہر ہوا جو خود پارلیمنٹ کا ممبر تھا اور پہلے سے ہی اپنی سیاسی اہلیت کے باعث مشہور تھا ۔اولیور کرام ویل نے منتشر اور غیر منظم پارلیمنٹ کی فوج کو از سر نو ترتیب دیا اور 1645ء میں ایک نئے ماڈل آرمی( New model army)کی بنیاد رکھی ۔اس نے جانا کہ بادشاہت کو شکست، اپنی صفوں کو مضبوط کئے اور عوام کے انقلابی رجحان کو خوش آمدید کئے بغیر نہیں دی جا سکتی۔ اس لئے اس نے فوج میں بھرتی کی نئی بنیاد یں طے کیں۔ فوج میں مختلف سیاسی معاملات پر بحث مباحثے کے ماحول کو مضبوط کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ؛’’ میرا سپاہی جانتا ہے کہ وہ کیوں لڑ رہا ہے اور اس ’سبب‘سے وہ محبت بھی کرتا ہے۔‘‘کرام ویل کو نچلے اور متوسط طبقے کی خاصی مدد حاصل تھی اور ان طبقات کا نوجوان از خود ’’نیو ماڈل آرمی‘‘کا حصہ بننے کے لئے تیار تھا۔
کرام ویل کو اس انقلابی حکمت عملی کا ایک بڑا صلہ جون1645ء میں ہی ملا ،جب نیو ماڈل آرمی نے شاہی فوج کو شکست دے کر شاہی علاقہ آکسفورڈ کو اپنے زیر قبضہ کر لیا۔ بادشاہ چارلس نے بھاگ کراسکاٹ فوج سے جا کر ہاتھ ملا لیا، جس نے کچھ پیسوں کے عوض بادشاہ کو پارلیمنٹ کے ہاتھوں پیچ دیا۔ یوں بادشاہی آمریت کا خاتمہ ہوا۔ یہ لڑائی خانہ جنگی کے دور کی سب سے زیادہ فیصلہ کن لڑائی تھی جس نے نیو ماڈل آرمی کے اندر عسکری اور سیاسی حوالے سے بہت زیادہ خود اعتمادی پیدا کی۔
نیو ماڈل آرمی کی فتح سے خوش اور خوفزدہ پارلیمنٹ نے اپنے اجلاس میں آرمی کے بے ہتھیار کر کے پارلیمنٹ کے براہ راست اختیار تحت لانے اور اسے زبردستی آئرلینڈ میں نظم و ضبط بحال کرنے کے لئے بھجوانے پر زور دیا۔ آرمی جسے اب تک تنخواہیں بھی نہیں ملی تھیں ،اس نے پارلیمنٹ کے ایسے کسی بھی قسم کے جبری فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی تنخواہوں و نچلے متوسط طبقے کے مفادات کی حامل اصلاحات کا مطالبہ کیا جس کا پارلیمنٹ پہلے وعدہ کر چکی تھی۔ آرمی نے اپنی صفوں سے لائق افراد کا چناؤ کر کے ایک ایسا جتھا ترتیب دیا جس نے پارلیمنٹ اور عوامی حلقوں میں آرمی کے موقف اور مقصد کو (اہم)رکھا۔ انہیں ایجی ٹیٹرز(Agitators)کہا جاتا تھا۔ ان میں چھوٹے آبادکاروں کے لئے آزاد تجارتی سہولیات چرچ کو ملنے والے مختلف ٹیکسوں کا خاتمہ اور قانون میں اصلاحات وغیرہ شامل ہوتے تھے ۔فوج کے ترقی پسند کردار کے پیچھے ایک بڑا کردار لندن شہر کے ایک بڑے سیاسی گروہ کا بھی تھا جنہیں لیولرز(Levellers)کہا جاتا تھا ۔یہ گروپ شہری مرچنٹ (تاجر)طبقہ چند دانشوروں وکلاء اور چھوٹے آبادگاروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ گروپ انگلینڈ کے انقلاب میں پیٹی بورژوا رجحانات کا اظہار تھا اور اس کا سیاسی اثر نیو ماڈل آرمی کے اندر اس قدر بڑھ گیا کہ اس کی رہنمائی رچرڈ اورٹن ،جان ولڈمین اور جان للبرن جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں تھی ۔اکتوبر1647ء میں کرامویل اور دیگر آرمی افسران کو ان فوجی افسروں کے ساتھ بیٹھ کر بحث کرنا پڑی جو لیولرز کی سیاسی فکر سے متاثر تھے۔
دوسری طرف پارلیمنٹ پر پسبائیٹرنس(Presbyternes)نیو ماڈل آرمی کے بڑھتے ہوئے ترقی پسند کردار سے خائف اور خوفزدہ بھی تھے۔ انہیں ایک ایسی عسکری طاقت کی کمی محسوس ہو رہی تھی جو ان کے زیر اختیار ہو ۔سابق حکمران طبقے کا تضاد اب ایک نئے انقلاب کو جنم دے رہا تھا۔ نتیجتاً پارلیمنٹ نے گرفتار بادشاہ سے بات چیت کرنا چاہی تاکہ بادشاہ کو چند ضروری اصلاحات کے بعد قبول کر کے شاہی فوج کو اپنے طبقاتی مفاد میں استعمال کیا جا سکے۔
پارلیمنٹ میں کرام ویل اور ان کے کچھ ساتھی(Independences)کمزور ہو رہے تھے اور نتیجے میں انہوں نے نیو ماڈل آرمی کے اندر ایک آرمی کونسل تشکیل دی جو آرمی افسران پر مشتمل تھی اور اس کونسل کے ذریعے کرام ویل نے بادشاہ سے بات چیت
کرنا چاہی کیونکہ وہ خود کو خانہ جنگی کی فاتح قوت تصور کر رہے تھے نہ کہ پارلیمنٹ کو ۔کرام ویل نے بادشاہ سے بات چیت کے دوران اس امید کے ساتھ انتہائی سخت شرائط رکھیں کہ بادشاہ کے پاس (انہیں)مان لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں اور بادشاہ کے لئے ان شرائط کو مان لینا اپنے سیاسی اور سماجی کردار سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کے برابر تھا ۔بادشاہ نے شرائط ماننے سے انکار کر دیا اور نومبر1647ء میں قید سے فرار ہوگیا۔
دوسری خانہ جنگی:بادشاہ سے مذاکرات کو اپنی بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کرام ویل مزید سخت موقف کے ساتھ سامنے آیا اور اپنے نیو ماڈل آرمی کے ذریعے پارلیمنٹ پر دباؤ بڑھا کر بادشاہ سے ایک نئی جنگ کے حق میں زبردستی ووٹ لئے آرمی نے لندن شہر کو اپنی تحویل میں لیا ۔بادشاہ کو گرفتار کیا گیا اور اسے عوام دشمن قرار دے کر سب کے سامنے وائیٹ ہال کے پاس قتل کر دیا گیا۔ اس واقعہ سے متعلق کرس ہیومن اپنی کتابPeoples World History میں لکھتا ہے؛
’’جنوری1649ء میں جلاد کی کلہاڑی نے اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ کا سرقلم کر دیا۔ اس واقعہ نے پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ پورے براعظم کے کیتھولک،لیوتھرین اور کیلونسٹ حکمرانوں کے انگریز حکومت کے ساتھ سفارتی ناطے تھے ۔یہ واقعہ اسی اصول کا انحراف تھا جس پر وہ سب کاربند تھے(دوسرے لفظوں میں)ایک اتفاقی جنم کے نتیجے میں اقلیت کے اکثریت پر راج کے حق کا خاتمہ تھا۔‘‘
نومبر1647ء میں لیولرز کی فوج میں بغاوت اور فوج کا انتظام سنبھالنے کی کوشش ناکام ہوئی۔ آرمی کونسل میں اور فوج میں جمہوریت کا خاتمہ ہوا اور کرام ویل نے فوج کو از سر نو منظم کیا۔ بادشاہی آمریت کا خاتمہ کیا گیا ۔ہاؤس آف لارڈز کو بھی توڑا گیا ۔مئی1649ء میں ای پبلک کا اعلان ہوا۔ پارلیمنٹ پر قبضے پر اور بادشاہت کے خاتمے کے بعد بورژوازی اور کرام ویل کی نیو ماڈل آرمی کی اتنی بڑی طاقت کا کوئی مقصد نہ رہا تھا ۔فوج کے اندر بغاوت کرنے والے لیولرز کو گرفتار اور دیگر رہنماؤں کو اب قتل کر دیا گیا اور ان کے اثرات کو فوج سے ختم کر دیا گیا۔ بورژوازی نے اس قسم کے اقدامات کے باعث کرام ویل کی آمریت کو قبول کر لیا۔ لیولرز کے مطالبات اور اس کی تحریک ،پیٹی بورژوا فطرت کی حامل تھی۔ ایک ایسا طبقہ جو ابھی تاریخ میں تشکیلی مراحل میں تھا ۔یہی سبب تھا کہ اس کے سیاسی کردار کو آج بھی بہ نسبت ختم کرنا آسان تھا لیکن اس طبقے کی لڑائی رائیگاں نہ گئی۔ انگلینڈ کے انقلاب کے حصول میں اس طبقے کا بھی بنیادی کردار تھا۔ نیو ماڈل آرمی سے ایجی ٹیٹرز کو بھی نکال دیا گیا اور آرمی کو آئرلینڈ بھیج دیا گیا۔ فوج کو آئرلینڈ بھجوانے پر کرسٹوفر ہال اپنے مضمون English Revolationمیں لکھتا ہے؛’’آئرلینڈ کی فتح اس کی زمین اور مزدوروں پر قبضہ انگریز سامراج کی پہلی بڑی کامیابی اور انگریز جمہوریت کی پہلی بڑی ناکامی تھا۔‘‘
کرام ویل کو ملکی آئین میں ’’محافظ‘‘ کا لقب دیا گیا اور اس نے اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر انگلینڈ پر تقریباً ایک دہائی تک حکومت کی ۔’کرام ویل محافظ ہے یا آمر؟‘یہ سوال آج بھی انگریز تاریخ دانوں کے لئے اہم ہے لیکن ہم دونوں کرداروں کے محرکات اور حاصلات پر بات کر رہے ہیں۔ فوج میں تب بھی جمہوری قدریں زندہ تھیں اور وہ مزید ترقی پسند تبدیلیاں چاہتے تھے لیکن پھر ایک اور سماجی انتشار کی صورت میں نہیں!۔
کرام ویل کے دور حکومت کے بڑے کام بیرونی مارکیٹ پر ڈچ اجارہ داری کا خاتمہ، فرانس کے ساتھ مل کر اسپین کو شکست دے کر جمائیکا کا علاقہ حاصل کرنا، نیوی کو مضبوط کر نا ،قلعوں کا خاتمہ ،شاہی فوج کا خاتمہ، ریاستوں کی از سر نو تشکیل اور چرچ و تخت کی جاگیروں کا نیلام وغیرہ شامل تھے۔ کرام ویل نے لانگ پارلیمنٹ کو زبردستی 1653ء میں ختم کیا اور آہستہ آہستہ اپنی عوامی حمایت کھوتا رہا۔ 1957ء میں کرام ویل نے دوسری پارلیمنٹ کے سامنے ہتھیار ڈال دے اور نئے پارلیمانی آئین کو قبو ل کیا۔ نئے آئین کے مطابق فوج پارلیمانی ضابطوں کے زیر اثر آگئی۔
1658ء میں کرام ویل کے فوت ہونے کے بعد1660ء میں پارلیمنٹ نے فوج کے اندر انتشار اور عوامی انقلابی مزاج سے بچتے ہوئے بادشاہ کے بیٹے چارلسllکو بلوا کر تخت پر بٹھایا اور یوں انقلاب کا اختتام ہوا ۔یہ اختتام ان تمام انقلابی رجحانات اور حاصلات کا نہ تھا جو اس انقلابی عمل کا حصہ تھے ۔تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا ہے مگر اسی انداز اور کیفیت میں نہیں۔
بادشاہ واپس تو آیا لیکن اسے کوئی قابل ذکر اختیار حاصل نہ تھا ۔بادشاہ کے ساتھ ملائیت بھی آئی ‘لیکن چرچ کا سابقہ عروج پھر ہاتھ نہ آیا۔ چرچ کی ریاست کی فکری محافظ والی حیثیت ، سول سروس اور دیگر ادارے اب چرچ کے آفاقی کام کاج کو سماجی انداز میں ادا کرنے لگے۔
کرسٹوفر لکھتا ہے؛’’چرچ اور بادشاہت اب الگ الگ باتیں تھیں ۔پادری چارلسlکے قابل بھروسہ افراد تھے اور اب چارلسllکی فرمانبرداری سے انکار کرنے والا پہلا شخص پادری تھا۔‘‘
بادشاہ اب پارلیمنٹ کا ایک تنخواہ دار افسر تھا۔ انگلینڈ کے انقلاب کی حاصلات صرف بادشاہ اور چرچ کے بدلے ہوئے کردار تک محدود نہ تھیں۔نئے پیداواری تعلقات کے لئے ماحول کو ساز گار کیا گیا۔ گلڈسسٹم اب تکنیکی ایجادوں اور ارتقا کے لئے رکاوٹ نہ تھا ۔تجارت پر اجارہ داری ختم ہوئی۔خود برصغیر پر قابض تاجر تنظیم، ایسٹ انڈیا کمپنی کو معاشی بحران سے نکالنے والا شخص کرام ویل تھا اور اب یہ کمپنی جوائنٹ اسٹاک ہولڈر بن چکی تھی۔سائنسی علوم کی ترقی ہوئی جس کا علمی ادبی مرکز آکسفورڈ تھا ۔بعد ازاں1688ء کے بعد بینک آف انگلینڈ کی بنیاد پڑی۔
یہ انقلاب اور انگلینڈ کی فکری آزادی لازماً فرانس کے انقلاب(1789ء)پر بھی اثر انداز ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ سترہویں صدی کے اس انقلاب کے بغیر انگلینڈ کا اٹھارویں صدی کا زرعی اور صنعتی انقلاب ممکن ہی نہ تھا۔
اسی انقلاب کے بعد ہی ایک نئے سماجی معاشی دور کا آغاز ہوا جسے ہم سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کا نام دیتے ہیں اور سیاسی طور پر ایک ایسے طبقے نے جنم لیا جسے آگے چل کر یورپ میں جاگیرداری کی باقیات کو ختم کرنا تھا۔
امدادی کتب اور مضامین:

1.A people history of world (Chris herman)
2.English revolution (Christofar hill)
3.IIIulstrated english (G.M.Treverlyan)
Social history

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں