ہفتہ، 10 اگست، 2013

نوآباد یا تی نظام کی سوچ ہمیشہ ایک سی ہوتی ہے!



(پروین شاکر نے ضیاء آمریت کے دور میں شائع ہونے والی اپنی ایک کتاب کے پیش لفظ میں لکھا تھا کہ ’’ جب سچائی مخبروں میں گھر جائے تو گفتگو علامتوں کے سپرد کردینی چاہئے۔‘‘۲۰۰۸ء میں بی بی سی کے توسط سے دواسرائیلی اور فلسطینی نوجوان لڑکیوں کے درمیان ہونے والے درج ذیل مکالمے کو بھی علامتی طور پر ہی یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ اس مکالمے کی علامتوں کو اپنی سرزمین کے پس منظر میں دیکھئے اور ان علامتوں کو اپنے حالات کے عکس میں سمجھنے کی کوشش کیجئے تو ان کی وضاحت کیلئے مزید کسی تبصرے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔)
غزہ میں اسرائیلی کارروائی جاری ہے۔حال ہی میں رلیز ہونے والی ایک رپورٹ میں برطانیہ کی سرکردہ امدادی ایجنسیوں نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو چار دہائیوں میں سب سے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ اس پس منظر میں دو نوجوان خواتین نے، جن میں سے ایک کا تعلق اسرائیل اور ایک کا فلسطین سے ہے، ایک دوسرے کو بی بی سی کی ویب سائٹ کے ذریعے خط لکھے ہیں۔اناو طالب علم ہیں اور اپنا کچھ وقت اسرائیلی شہر سدرت میں گزارتی ہیں۔ مونا ان سے تھوڑے ہی فاصلے پر غزہ کی پٹی میں رہتی ہیں۔ مونا نے انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی ہے اور ایک مترجم کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔
پیاری مونا! 
میں اگست دو ہزار سات سے اسرائیلی شہر سدرت میں کام کرتی ہوں۔
یہاں زندگی ایسی ہے جیسی کسی جنگی علاقے میں ہو۔ پچھلے سات سال سے سدرت اور مغربی نگیو کے باشندے غزہ سے روزانہ ہونے والے راکٹ حملوں کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر ماہ یہ دہشت اور زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ 
میں سدرت کے میڈیا سینٹر میں کام کرتی ہوں۔ ہمارا مقصد یہاں کی صورت حال کو باقی ملک میں اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا ہے۔میں نے یہاں کام کرنے کا فیصلے اس لیے کیا کہ اس مشکل وقت میں اس شہر کے رہنے والوں کو حمایت کی ضرورت ہے۔ 
میں رات یہیں سویا کرتی تھی مگر کچھ عرصے پہلے میں نے رات میں آسمان سے گزرتے قسام راکٹوں کی آواز سنی۔ یہاں بموں سے بچنے کی پناہ گاہ نیچے ہے اور میرے لیے سائرن بجنے کے صرف پندرہ سیکنڈ بعد وہاں پہنچنا ممکن نہیں۔ اس لیے میں نے سدرت کے باہر ایک دوسرے کبْٹز میں راتیں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ میں جانتی ہو ں کہ میں خوش قسمت ہوں جو یہ کر سکتی ہوں۔ سدرت میں رہنے والے خاندانوں کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں۔یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ اقصادی طور پر اس علاقے سے بندھے ہوئے ہیں اور ان کے مالی حالات اتنے اچھے نہیں۔ سدرت ایک اچھی جگہ، یہاں لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور زیادہ تر خاندان تاریخی طور پر یہیں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی کئی نسلیں اس شہر سے وابستہ ہیں۔ 
میں یروشلم میں پیدا ہوئی مگر میں صرف دو سال کی تھی جب میرے والدین امریکہ منتقل ہوگئے۔ میں امریکی شہر مئین میں پلی بڑھی۔ چار سال قبل ہائی سکول تک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے وہ پرامن طرز زندگی پیچھے چھوڑ دیا اور یہاں اسرائیل آ گئی۔ میں بچپن سے جانتی تھی کہ میں ایک دن اسرائیل واپس آؤں گی۔ بائیبل میں اپنے پرکھوں اور اسرائیل میں ان کی زندگی کے بارے میں پڑھنے سے میرے ذہن میں اسرائیل ہی ہمیشہ سے میرا گھر تھا۔ جب ہم امریکہ میں رہتے تھے تو ہر سال چھٹیوں میں اسرائیل آیا کرتے تھے۔
کیا میرے خیال میں اسرائیل اور فلسطین ساتھ ساتھ امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں؟ نہیں۔ میں لفظ ’امن‘ کا استعمال بہت احتیاط سے کرتی ہوں کیونکہ اس لفظ کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ میرے خیال میں امن کی بنیاد محبت اور باہمی عزت پر ہوتی ہے۔ اس سے بھی اہم ایک ایسے نقطہ نظر کے لیے عزت ہے جس سے آپ اتفاق نہیں کرتے۔ 
دنیا سمجھتی ہے کہ اگر اسرائیل اپنی زمینیں دے دے تو امن ہوجائے گا، مگر ایسا نہیں ہے۔ سالوں سے فلسطینی بچوں کے دلوں میں نفرت بھری گئی ہے وہ صرف زمین دے دینے سے ختم نہیں ہو جائے گی۔ غزہ کی پٹی بھی تو دے دی تھی۔ امن کی بجائے قسام راکٹوں کی شدت میں اضافہ ہوا۔ 
میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں مونا، غزہ میں زندگی کیسی ہے؟ آپ کی تعلیم کیسی تھی؟ آپ کے گھر والے کیسے ہیں؟
مجھے امید ہے آپ جواب لکھیں گی۔ خلوص کے ساتھ۔
اناو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیاری اناو! 
مجھے خط لکھنے کے لیے بہت شکریہ۔ 
غزہ کے بارے میں بتانے سے پہلے یہ بتا دوں کہ میرا تعلق اصل میں ایشکلان سے ہے جو اب ایک اسرائیلی شہر ہے۔ میرے گھر والے انیس سو اڑتالیس میں ہزاروں دیگر فلسطینیوں کی طرح اپنے گھروں سے نکالے گئے۔ میرے دادا ان ہزاروں فلسطینیوں میں سے ایک تھے جو اسرائیل کے ساتھ لڑتے لڑتے مارے گئے۔میری دادی ابھی زندہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اسرائیلی حملے سے پہلے زندگی کتنی پرامن ہوا کرتی تھی۔ 
میں نے پہلے انتفادہ کے دوران ہوش سنبھالا۔ اب تو مجھے یاد بھی نہیں کہ کتنی بار اسرائیلی فوج نے میرے گھر پر حملہ کیا، مگر مجھے وہ دن یاد ہے جب میں ڈر کے مارے اپنے پلنگ کے نیچے چھپ گئی تھی۔ 
میرے تین چھوٹے بھائی ہیں۔ تینوں سکول جاتے ہیں۔ میرے چار بھائی ہوا کرتے تھے۔ میرے بھائی عامر کو ایک اسرائیلی فوجی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وہ بارہ سال کا تھا۔ خون اور موت کے منظر میں ذہن میں بسے ہوئے ہیں۔ مجھے کہنے پڑے گا اناو کہ ہمیں اسرائیل سے نفرت کرنا خود اسرائیل نے سکھایا اور کسی نے نہیں۔ 
آپ کہتی ہیں سدرت میں زندگی ایسی ہے جیسے کسی جنگی علاقے میں؟ تو پھر میں غزہ کے لیے کون سے الفاظ کا استعمال کروں؟غزہ میں زندگی جہنم ہے! 
ٍ صرف یکم مارچ کو اسرائیل نے غزہ میں ساٹھ افراد کو ہلاک کر دیا۔ ان میں کئی عام شہری اور بچے تھے۔ کیا اسرائیلی ہتھیاروں اور حماس کے گھریلو ساکھ کے قسام راکٹوں میں مماثلت ہے؟حماس کے راکٹوں سے اب تک کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں؟ کتنے گھر تباہ ہوئے ہیں؟آپ موازنہ کریں گی تو آپ کو احساس ہوگا کہ حماس کے حملے محض علامتی ہیں۔ 
جب دو ہزار پانچ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر قائم یہودی بستیوں سے انخلا کا اعلان کیا تو میں بہت خوش تھی۔ مجھے لگا کہ اب میں پہلی بار غزہ کی پٹی کے وسط میں رہنے والی اپنی سہیلی سے جب چاہے مل سکوں گی۔ مگر اسرائیل نے ہمیں چین سے رہنے نہیں دیا۔ ’سونک بوم‘ پیچھے چھوڑ گئے۔(ہوائی جہاز جب آواز کی رفتار سے زیادہ تیز اڑے تو ایک زور دار دھماکے کی آواز ہوتی ہے جسے سونک بوم کہتے ہیں۔) اسرائیل اس کے ذریعے ہمیں ذہنی طور پر کمزور کرنا چاہتا ہے۔ یہ دھماکے اتنے شدید ہوتے ہیں کہ گھروں کے شیشے ٹوٹ جاتے ہیں۔ 
آپ کیسا محسوس کرتیں اگر آپ کی ہر حرکت پر کسی اور کا قبضہ ہوتا ا؟اگر آپ کو اپنے ہی ملک میں کہیں آنے جانے کی اجازت نہ ہوتی؟ اگر آپ کو تعلیم کے لیے باہر نہ جانے دیا جاتا؟ اگر آپ کے ملک میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کا فیصلہ کوئی اور آپ کی سرحدیں بند کرکے کرتا؟ اگر آپ کی تمام راتیں بالکل اندھیری ہوتیں؟ 
پچھلے ماہ مجھے شدید سر کا درد تھا کیونکہ میں موم بتی کی ہلکی روشنی میں پڑھنے پر مجبور تھی۔ 
ہمیں ان اندھیروں کی سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ ہمارے مریضوں کو دواؤں سے محروم کیوں رکھا جا رہا ہے؟
یہ ہماری زمین ہے اور ہمیں حق ہے ان سب کو یہاں سے نکالنے کا جو ہماری طرف جارحیت کا مظاہرہ کریں۔ 
جب سے آپ کو خط لکھنے بیٹھی ہوں، شیلنگ ہو رہی ہے۔ میری ماں کہہ رہیں ہیں، ’نہ جانے آج رات کیا ہوگا‘۔
امید کرتی ہوں آپ کی رات سکون سے گزرے۔ 
خلوص
مونا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقتِ اشاعت: Tuesday, 01 April, 2008, 
پیاری مونا!
مجھے امید ہے کہ وہاں حالات اب بہتر ہوں گے۔ جنگ سبھی کے لیے نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ میں نے خود یہ پچھلا سال اس کے ساتھ گزارا ہے۔ 
میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ یہاں سدرت میں رہتے ہوئے میں وہی درد، تکلیف اور موت کے مناظر دیکھتی ہوں جن کے بارے میں آپ نے لکھا ہے۔ 
جنوبی اسرائیل میں رہنے والی اسرائیلیوں کے لیے حماس کی مزاحمت محض ’علامتی‘ نہیں۔ اوشر ٹویٹو کو ہی دیکھ لیں۔ یہ آٹھ سالہ بچہ اب چل نہیں سکتا۔ ایک راکٹ دھماکے میں اس کی بائیں ٹانگ جاتی رہی۔ سدرت میں کبھی چوبیس ہزار لوگ رہا کرتے تھے۔ پچھلے سات سال میں ان ’گھریلو ساخت‘ کے راکٹوں نے کم از کم پانچ ہزار افراد کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ 
فلسطینی ’دہشت گرد تنظیموں ‘کے ہتھیار چاہے اتنے اعلیٰ میعار کے نہ ہوں مگر ان کی وجہ سے اسرائیل کے اس علاقے میں اتنی ہی تباہی ہوئی ہے جتنی بڑے فوجی ہتھیاروں سے۔ میں جانتی ہوں کہ آپ کے لیے اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوگا، مگر اسرائیلی فوج بیگناہ فلسطینی عورتوں اور بچوں کو مارنا نہیں چاہتی۔ اسرائیلی فوج غزہ سے ان دہشت گردوں کا خاتمہ چاہتی ہے جو اسرائیل پر حملے کرتے ہیں۔ اس جنگ میں معصوم جانوں کے زیاں پر آپ کی تکلیف میں محسوس کر سکتی ہوں۔ آپ یاد رکھیں کہ اسرائیل پر داغے جانے والے زیادہ تر راکٹ سکولوں اور ہسپتالوں جیسے شہری علاقوں سے داغے جاتے ہیں۔ فلسطینی شدت پسند ،عورتوں اور بچوں کو ڈھال کی طرح استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر حملے کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔
حماس اسی وقت راکٹ داغتا ہے جب اسرائیلی بچوں کے نشانہ بننے کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ قصام راکٹ یا تو صبح اس وقت داغے جاتے ہیں جب بچے سکول کے لیے نکلتے ہیں، یا پھر دو پہر میں جب ان کے والدین انہیں سکول سے گھر واپس لا رہے ہوتے ہیں۔ 
حماس کی یہ ’علامتی‘ جنگ صرف اسرائیلی فوج کے خلاف نہیں، بلکہ ہمارے یعنی عام یہودیوں کے خلاف ہے۔ 
آپ کا کہنا ہے کہ آپ کا خاندان دراصل ایشکیلان سے ہے۔ یہ بتائیے کہ آپ کے آبا و اجداد دراصل کہاں سے آئے تھے؟ اور یہاں کتنی دیر تک مقیم تھے؟ 
میرے گھر والوں کو بھی اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔ میری دادی کا تعلق پولینڈ سے ہے۔ وہ تو وہاں سے بچ کر اسرائیل آنے میں کامیاب ہو گئیں مگر ان کا پورا خاندان ہولوکاسٹ کی نذر ہوگیا۔ 
کیا آپ مانتی ہیں کہ یہودیوں کو اس سر زمین پر آباد ہونے کا حق ہے؟ کیا آپ اسرائیل کو بطور ایک یہودی ریاست تسلیم کرتی ہیں؟
میں جانتی ہوں نہ آپ ایشکلان کو المجدال کہتی ہوں گی۔ اگر ان شہروں کے عبرانی نام اور ان میں یہودی موجودگی کو عرب برداشت نہیں کر سکتے تو پھر امن کیسے ہوگا؟ 
خیر، جنگ کی باتوں کے علاوہ یہ بتائیں کہ آج کل آپ کون سی انگریزی کتابیں پڑھ رہی ہیں؟ اس سال امیلی برانٹے کی ’وتھرنگ ہائٹس‘ میری پسندیدہ ناول ہے۔ میں یہ طے نہیں کر پا رہی کہ ہیتھکلف ہیرو ہے یا وِیلن! 
نیک تمنائیں،
اناو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیاری اناو! 
ایک بار پھر آپ کو خط لکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔ ہاں آج کل قدرے خاموشی ہے، فوجی حملوں کے حوالے سے۔ 
دراصل ایک جابر معاشرہ ہیتھکلِف کا قصور وار ہے، مگر ہیتھکلِف خود طاقت حاصل کرتے ہی جابر بن جاتا ہے۔ کیا آپ نے یہ محسوس کیا ہے کہ جب بھی مظلوموں کے ہاتھ میں طاقت آ جاتی ہے وہ خود ظالم بن جاتے ہیں۔ 
مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اس سے کہ میرے آباو اجداد کہاں سے آئے تھے اور کب۔ تاریخ اقوام کی نقل مکانی سے بھری پڑی ہے، جس میں آپ کی قوم بھی شامل ہے۔تین ہزار سال تک دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے کے بعد آپ کو اچانک اپنا ’گھر‘ یاد آگیا!
آپ نے کہا کہ آپ کی دادی نازیوں کی وجہ سے پولینڈ چھوڑ کر فلسطین آگئیں۔ دوسروں کے مظالم کا خمیازہ فلسطینی کیوں بھریں؟ اگر آپ کی دادی کے خاندان کو نازیوں نے ہلاک کر دیا، تو اس کے بدلے میں آپ ہمیں کیوں مار رہے ہیں؟ ظاہر ہے ’آپ‘ سے میرا مطلب اسرائیلی ریاست ہے، نہ کہ آپ خود۔
میں ایک ایسی ریاست کو کیسے تسلیم کر لوں جس نے میرے وطن پر پچھلے چالیس سال سے قبضہ کر رکھا ہے؟ جس کی وجہ سے نہ جانے کتنے فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں؟ 
جہاں تک ’دہشت گردی‘ کا تعلق ہے، یہ بتائیں کہ گھریلو ساخت کے ہتھیاروں سے سدرت کے بچوں پر حملے دہشت گردی ہے، تو پھر غزہ میں ایف سولہ طیاروں، مرکاوا اور ٹینکوں سے بچوں کو ان کے اپنے گھروں میں ہلاک کرنا دہشت گردی کیوں نہیں؟ 
سمر اور سماح تیرہ اور تئیس سالہ دو بہنیں تھیں۔ دونوں ایک ساتھ اپنے گھر میں بیٹھی تھیں، جب ایک اسرائیلی شیل نے دونوں کی جانیں لے لیں۔ وہ تو کسی کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کر رہی تھیں۔۔۔ 
میرے خیال میں ’دہشت گردی‘ کا تعلق ہتھیاروں اور اسلحہ کے معیار سے ہے۔ اگر ہمارے پاس بھی جدید اسلحہ ہوتا تو یہ سارا معاملہ ہی الگ طریقے سے دیکھاجا تا۔ تب یہ دو ممالک کے درمیان جنگ کہلاتی، اور کوئی ’دہشت گردی‘ کا ذکر نہیں کرتا۔ 
ایک اور بات، غزہ کی پٹی میں اشیائے خوردونوش اور ادویات کی سپلائی پر پابندی کو آپ کیا کہیں گی؟ کیا یہ ایک طرح کی دہشت گردی نہیں؟ 
امن کہیں بھی ممکن ہے، اگر اس پر توجہ دی جائے اور اگر لوگوں کو ان کے حقوق دیے جائیں۔ میں امن میں یقین رکھتی ہوں اسی لیے آپ کو خط لکھ رہی ہوں۔ 
میرے خیال میں امن ہی ہے جو ہمیں انسان بناتا ہے۔ آپ ایک یہودی، میں ایک عرب مسلمان، دونوں انسان ہیں، اس لیے امن ممکن ہے۔
مگر کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ اسرائیل کیوں ہماری سرحدیں سیل کرتا ہے، ہمیں ایک سے دوسری جگہ جانے نہیں دیتا؟
آپ کو نہیں لگتا کہ بین الاقوامی برادری کے متعصبانہ اور غیر منصفانہ رویے نے اس مسئلہ کو مزید الجھا دیا ہے؟ 
کیا آپ اس سب کو آپ کے اور میرے درمیان بقا کی جدو جہد تصور کرتی ہیں؟
میرا پسندیدہ انگریزی ناول جوزف کانریڈ کی ’ہارٹ آف ڈارکنیس‘ ہے۔ آپ کو نہیں لگتا کہ نوآبادیاتی نظام کی سوچ ہمیشہ ایک سی ہوتی ہے؟ 
کیا آپ کو شیکسپئیر پسند ہے؟ ’ہیملیٹ‘ میرا پسندیدہ ڈرامہ ہے۔ جتنی بار پڑھتی ہوں، اتنی بار ہیملیٹ کی کوئی نئی مصیبت آشکار ہوتی ہے۔ 
نیک تمنائیں،
مونا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں