پیر، 28 نومبر، 2016

بلوچ انقلابی جدوجہد



تحریر : کوہ زاد بلوچ
بلوچ قومی تحریک آزادی اپنے تعریف آپ ہے اپنے ظاہری مقصد محرکات اور پرتشدد عمل کے جواز و وضاحت کے ساتھ اس میں کوئی شک و دو رائے نہیں کہ یہ قومی آزادی کی تحریک ہے ۔
دراصل انقلاب کے لفظی معنی تبدیلی کے ہیں انقلاب ایک جبری و قطعی تبدیلی ہوتا ہے جسکو تاریخی واقعات کا نتیجہ بھی کہا جاتا ہے جہاں ہم بات روس، کیوبا،ایران یا چائنا کی کرتے ہیں تو انکے مقابلے ہمارے ہاں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بلوچ قومی جدوجہد آزادی نا تو حکمران طبقے میں تبدیلی کی جدوجہد ہے اور ناہی آئینی تبدیلی کی جدوجہد ناہی حکومتی یا نظام حکمرانی میں تبدیلی کی جدوجہد اور نا ہی طبقاتی ۔
لیکن اگر ہم غور کریں تو ان سب میں بنیادی "عمل پذیری" تبدیلی یعنی انقلاب ہی ہے 
جہاں تک بات لفظ انقلاب کی بےجا یا برجا استعمال کی ہے تو اسکو سمجھنے کےلئے ہمیں کتابی اور علمی محفلوں سے نکل کر برائے راست بلوچ معاشرے سے رجوع کرنا ہوگا وہ بھی ایک محقق کی حیثیت سے دنیا کو ہمیں کیا صورت دیکھنا ہے خارجی حالات سے مطابقت کےلئے ہمارے پاس کیا ہے اس سے قطع نظرکیونکہ خارجی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ ہمیں حقیقی داخلی تبدیلی پر نظر ڈالنا ہوگا بلوچ سماج میں قبائلی و سیاسی نظام کا تجزیہ ہمارے پاس کیا ہے ہمارےقبائلی نظام کے افکار و اعتقادات کو لیکر قومی تشکیل کےلئےاور سیاسی نظام میں پارلیمانی طرزسیاست کے مطالبات سے قومی آزادی کی عملی جدوجہد میں تبدیلی کے اصل محرکات کیا ہیں 
کیا ہم خارجی انقلابات بادشاہت اور فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد سے سامنے آنے والے جمہوری نظام ون مین ون ووٹ کے اثرات سے باہرہیں؟؟؟؟؟؟
اسی طرح خارجی مداخلت و قبضہ گریت کے خلاف ہونے والے منظم جدوجہد کے اثرات و ثمرات سے محفوظ ہیں؟؟؟
یہ بات تو طے ہے کہ عوامی شرکت کے بغیر کوئی بھی جدوجہد کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہوتی اس بنیادی نقطے کو سامنے رکھکر ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ سماج میں پنجابی قبضہ گریت کے علاوہ لنگڑا لولہ قبائلی نظام رائج ہے پارلیمانی طرزسیاست کا دارومدار بھی مکمل قبائلی نظام پر منحصر رہا ہے نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی قیادت اور نظریات کتنے متضاد صورت میں سامنے آتے رہے اینٹی سردار ہونے کے باوجود پارٹی میں سرداروں کا جمگھٹا یہ سب ہمارے قبائلی نظام کو سمجھنے کے لئے شاہد کافی ہوں ایسی صورت حال میں ہمارے اس حالیہ جدوجہد کے بانی سنگت حیربیار مری نے جس تبدیلی کی بنیاد رکھی کیا وہ ایک انقلابی تبدیلی کا آغاز شمار نہیں ہوگا ؟؟؟؟ کہ اس نے جدوجہد کو منظم کرنے کے لئے طاقتور سرداروں اور قبائلی و روایتی سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے شخصیات کی بجائے عام بلوچوں کو ترجیح دی قبائلت کی بنیاد سے ہٹ کر فکری حوالے سے جنگ کو منظم کرنے کی کوشش کی جو بلوچ سماج و سیاست میں بذات خود ایک انقلابی تبدیلی کی حثیت رکھتی ہے قبائلی نظام کی بقاء اور قومی تشکیل کی ابتداء ہی سرداروں اور وڈیروں پر حملوں کی وجہ بنے اور پنجابی قبضہ گیر کی قبائلی نظام کی پشت پناہی اور سرداروں کو تحفظ فراہم کرنا بطور ثبوت کافی ہے بلوچ سماج میں ایک تبدیلی کے لئے۔۔۔۔۔
فرض کریں ہم ناکام ہوتے ہیں آزادی پسند ایک قومی قوت کے تشکیل میں مکمل ناکام ہوتے ہیں اور پاکستان بھی نہیں رہتا تو کیا دنیا بلوچوں کے قبائلی اتحادیہ کو ترجیح نہیں دے گا افغانستان طرز حکومت انکی مجبوری نہیں ہوگی؟؟؟
پھر ایران و پنجابی کے پراکسی کشمکش میں کون کہاں ہوگا۔
ہاں اگر ایسا کوئی تجزیہ ہے کہ خارجی تبدیلی کے اثرات سے ہمارا داخلی جدوجہد میل نہیں کھاتا فکری حوالے سے ایک صبر آزما جدوجہد کے ذریعے قومی تشکیل کے مراحل طے نہیں ہوسکتے ہمیں جلدازجلد قبائلی اور روایتی سیاسی شخصیات و قوتوں کو انکے حثیت کے تسلیم کے ساتھ لیکر چلنا ہے تو الگ بات ہے لیکن اسکی وضاحت ہم کیسے کریں گے ۔
آج تک کے تجربات میں یہ میرا اپنا تجزیہ ہے کہ ہم قومی جدوجہد آزادی میں اپنے دشمن اور مخالفین کے خلاف بہت زیادہ اثررسوخ پیدا کرچکے ہیں اپنے لوگوں کے افکار و اعتقادات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئے ہیں اور ان میں تبدیلی کا باعث بنے ہیں جسکی وجہ سے اس جنگ نے وسعت اور شدت اختیار کی اور دشمن کی طرف سے جبر و تشدد میں اضافہ ہوا 
بلوچ عورتوں کی شمولیت اور عملی جدوجہد بھی تبدیلی کے لئے ایک ثبوت ہے ہم ان سب کو کس نظر سے دیکھتے ہیں میرے خیال سے یہ اہم نقطہ ہے ۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں