پیر، 21 نومبر، 2016

قلات کے بی بی آسمہ کی کہانی



تحریر: حبیب احمد بلوچ

قلات کے نواحی علاقے مورگن گاؤں میں ایک 16 سال کی لڑکی آسمہ رہتی تھی، آسمہ باقی گاؤں کی لڑکیوں سے کچھ مختلف تھی وہ اپنے ہم عمر لڑکیوں سے کافی تیز اور چالاک تھی۔ تعلیم سے لیکر زندگی کے ہر شعبے میں آسمہ سب سے آگے رہتی تھی، آسمہ کے والد کھیتی باڑی کرکے گھر چلاتا تھا، آسمہ ایک ایسی گاؤں سے تعلق رکھتی تھی جہاں پہ عورت ذات کو جنسی خواہشات پورا کرنے کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اس معاشرے میں عورت کی مثال پنجرے میں بند پرندوں کی مانند تھا جہاں پہ عورت سماج کے اقداروں میں قید تھے۔آسمہ اپنی باپ کی اکلوتی اولاد تھی، وہ اپنی ماں اور باپ علی احمد کے ساتھ ایک بوسیدہ گھروندے میں خوشی کی زندگی گزارتے تھے، آسمہ اپنی گاؤں کی باقی لڑکیوں میں سب سے زیادہ لکھی پڑھی تھی، گاؤں میں ایک ہی اسکول تھی جہاں پہ بچے اور بچیوں کو ایک ساتھ تدریس دی جاتی تھی،اس پورے اسکول کو ایک ماسڑ جی سنبھالتے ۔ گاؤں کے اکثر لڑکیاں کلاس سوئم پہنچتے ہی اپنے تعلیم کا اختتام کر لیتے تھے مگر علم حاصل کرنے کی جنون نے آسمہ کو پانچویں کلاس تک پہنچا ہی دیا۔اسمہ جب جماعت پانچویں کلاس میں پہنچ گئی تو وہ اپنے کلاس میں اکیلی لڑکی رہ گئی تھی مگر آسمہ کی حوصلہ و ہمت اتنی بلند تھی کہ وہ اکیلے ہی پوری کلاس کا مقابلہ کرتی تھی۔ کلاس میں ماسڑ جی کا سہارا دھیان اس دس سالہ آسمہ پے ہوتی تھی، ماسڑ جی کی شفقت دن بہ دن بڑھتی گئی مگر کسی کو پتہ نہیں تھا کہ ماسڑ جی ایک استاد ہونے کے ساتھ ساتھ کسی درندے سے کم بھی نہ تھا۔ ایک دن اسکول کی چھٹی ہونے پر باقی سب بچے اور بچیاں چلے گئے مگر ماسڑ جی نے کسی بہانے سے آسمہ کو چھٹی کرنے سے روک دیا۔ساری اسکول کی چاردیواری میں سناٹا چھایا ہوا تھا ماسڑ جی آگے بڑھتے ہوئے آسمہ کی ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے ، دیکھو آسمہ کسی کو مت بتانا کہ ۔۔۔۔ ماسڑ جی کے ارادے سمجھ کر جب آسمہ کو پتہ چل گیا کہ اسکی عزت تار تار ہونی والی ہے تو اپنی عزت بچاتے ہوئے بھاگ نکلا ، گھر پہنچتے ہی اس واقعہ کا ذکر اپنی ماں کے ساتھ کیا، ماں خون میں اُتر آتے ہوئے آسمہ سے کہا ، میں نے تمہیں کتنی بار اسکول جانے سے منع کیا تھا مگر تم باز نہ آئے ۔۔۔۔ دیکھ لیا آج خدا نے تمہیں بچالیا ۔۔۔۔ یا ا للہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے میری بیٹی کی عزت بچائی۔۔۔ خیر ماں کی مامتا نے چشم تر ہوکر اپنی لخت ء جگر کو سینے سے لگا کر دلاسہ اور حوصلہ دی تھوڑی دیر کے لیے تو آسمہ بھول گئی کہ اُس کی عزت اور آبرو کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔ ماسڑ جی کی اس حرکت کو دیکھ کر اب اُسی روز سے آسمہ کو تعلیم اور اسکول سے نفرت ہونے لگی۔آسمہ کی کچھ ایسی عادتیں جو اِن کے رشتہ داروں کو گوارا نہیں ہوتے تھے جس میں آسمہ کی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اپنے والد کے کام کاج میں ہاتھ بٹھانا، جہاں کہی عورت ذات پہ تشدد یا انصافی ہوا کرتی تھی وہی پے آسمہ اپنی سہلی رابعہ کے ساتھ فوراً پہنچ جاتی اور عورتوں کو اس کرب سے نکالنے کی جدوجہد کرتی ، گاؤں میں کچھ لوگوں کے لیے آسمہ کسی فرشتے سے کم نہیں تھی مگر چند کے لیے آسمہ بے غیرت، بد تمیز اور بے حیاء لڑکی تھی۔ آسمہ اکثر اپنی ماں سے پوچھتی تھی ۔۔۔۔ ماں کیا سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ کیا ہم مردوں کے خواہشات پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے دیکھ بال کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں ۔۔۔ ماں ہماری زندگی مردوں جیسے کیوں نہیں ہیں؟ ماں تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد مسکراتے ہوئے کہتی۔۔۔ آسمہ بیٹی ایسی باتیں مت کیا کر نہیں تو یہ مرد تمہاری بہت پٹھائی کرینگے۔آسمہ کی عمر ابھی 16 سال ہی نہیں ہوئی تھی کہ گاؤں کے اقداروں نے آسمہ کو شادی کی بندن میں جوڑنے کا فیصلہ سنا دیا جو کہ اسکی مرضی کی برعکس تھی۔ لاکھ منع کرنے کے باوجود بالاآخر آسمہ کی والد علی احمد اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی کے لیے رضامند ہوئے۔ آسمہ کی رشتہ اُس کی دگنی عمر (28) سال کے مرد سے طے پایا۔ آسمہ چشمِ تر ہو کر اپنی ماں سے بار بار کہتی تھی۔۔ ماں مجھے شادی نہیں کرنی۔۔۔میں آپ کو چھوڑ کر کہی نہیں جاؤنگی ۔۔۔۔ میں ابھی بہت چھوٹی ہوں۔۔۔ مجھے آپ لوگوں کے ساتھ رہنا ہے۔۔۔ اور یوں روتے ہوئے آسمہ کے دن گزر جاتے۔بالآخر شادی کی تیاریاں مکمل ہوکر آسمہ کی رخصتی دھوم دھام سے ہوئی۔ آسمہ کو کبھی علم ہی نہیں تھی کہ اسکی ایک نئی زندگی شروع ہونے سے پہلے ہی اختتام پزیر ہونے والی ہے۔ آسمہ اپنی عروسی لباس پہنے ہوئے اپنے کمرے میں چار پائی پے حواس باختہ بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک دروازے سے اسکی شوہر کمرے میں داخل ہوا۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد آسمہ کی شوہر کڑک آواز میں بولنے لگا۔ آسمہ! تمہاری مرضی کی مالک اب میں ہوں ۔۔ میں جو چاہوں گا تمہیں وہی کرنی پڑیگی وگرنہ تم ذلیل و خوار ہوجاؤگی۔۔۔ ابھی تک باتیں ختم ہی نہیں ہوئے تھے کہ ہوس کے پوجاری شوہر بے اپنی بڑھاس نکلانے کے لیے آسمہ کو جنگلی جانوروں کی طرح نوچنے لگی۔ آسمہ روتی اور چیختی رہی مگر اُس کے درندے شوہر بے آسمہ کی کرب باری آواز محسوس ہی نہیں کی اور آسمہ کو جانوروں سے بدتر درندگی کے ساتھ نوشتی رہی یہاں تک کہ طلوع آفتاب کا وقت ہونے لگا۔ بالاآخر آسمہ اس ظلمت سے تنگ آکر اپنے شوہر کو پیچھے دھکیل کر کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ کر روتی رہی۔ آسمہ کو کیا پتہ تھی کہ یہ گستاخی اِس کی آنے والی زندگی اجیرن بنا دے گی۔ابھی تک آسمہ کے آنسو خشک ہی نہیں ہوئے تھے کہ اچانک کمرے کے باہر شور کی آواز سنائی دینے لگی دروازے سے اچانک آسمہ کی ساس کمرے میں داخل ہو کر آسمہ کی ہاتھ پکڑ کر اسے باہر گھسیٹا، گھر میں جمع کچھ لوگ آسمہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے،،، کس کے ساتھ تم نے اپنا مُنہ کالا کیا ہے۔۔۔۔۔ تم ایک بے غیرت اور بد چلن لڑکی نکلی۔۔۔۔ اور پھر آسمہ پہ تہمت لگانے کا سلسلہ جاری رہا۔ پریشانی کی عالم میں آسمہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا مہاجرہ چل رہا ہے اچانک پیچھے کھڑے آسمہ کی شوہر نے چلایا۔۔ آسمہ کی ورجنیٹی نہیں تھی یہ ہمیں بدنام کریگی۔۔۔۔۔۔ بندوق لے آؤ ایسی بے غیرت لڑکی کی کوئی جگہ نہیں اس دنیا میں۔۔۔۔۔۔
اب آسمہ کو کیا پتہ تھی کہ بھاری وزن اٹھانے یا کھیل کود سے اسکی ورجینیٹی پے سوال اٹھیگی۔آسمہ تو اپنی عزت نفس بچانے کے لیے اپنی تعلیم کی قربانی تک دی۔ آسمہ قسم کھاتی رہی کہ اس بے کبھی کسی کے ساتھ غلط فعل نہیں کی ہے مگر ہمیشہ کی طرح عورت ذات پہ یقین کون رکھتا۔
آسمہ کو گھسیٹتی ہوئی اسکی والد علی احمد کے حوالے کر کے کہنے لگے۔۔۔ ایسی بے غیرت لڑکی واجب القتل ہے۔۔۔۔۔ یہ سب سن کر آسمہ کی والد نے آسمہ کی ہاتھ پکڑ کر اسے نوشہ خانہ میں بند کر کے کہنے لگا۔۔ آخر تم نے ایسا کیوں کیا؟۔۔۔۔۔ کیا ہماری محبت میں کوئی کمی تھی۔۔۔۔۔۔
آسمہ لاکھ قسمیں کھاتی رہی لاکھ روتی اور چیختی رہی مگر جب بات غیرت کی آجاتی ہے تب عورت کی کوئی نہیں سنتی۔ آسمہ کی ورجینٹی کی بات گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ابھی ایک دن ہی نہیں گزرا تھا کہ گاؤں کے معتبرین علی احمد کے گھر کے سامنے علی احمد کے غیرت کو للکار رہے تھے علی احمد کی آسمہ سے بے پناہ محبت کی وجہ سے ان باتوں کو رد کرتا رہا۔اِدھر آسمہ بھوک کے مارے اپنے خدا سے مخاطب ہو کر بار بار یہی کہہ رہی تھی کہ ' خدایا تو نے مجھے لڑکی پیدا کی مگر زلالت کی زندگی کیوں دی۔۔۔ میری زندگی تو آپ سے چھپی نہیں تھی پھر آپ ان کو سمجھاتے کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔۔ اُدھر باہر لوگ علی احمد کے گھر کے سامنے علی احمد کو بار بار کہہ رہے تھے کہ۔۔۔تم جیسا بڑا بے غیرت انسان نہیں جو اتنا کچھ ہونے کے باوجود ایک بے غیرت لڑکی کو اپنے گھر میں رکھ کر پورے گاؤں کی بد نامی کر رہے ہو۔۔۔۔۔ یہ لوگ چُھپ نہیں ہوئے تھے کہ کچھ مذہب کے دعویدار اُٹھ کھڑے ہوگئے اور زور سے کہنے لگے۔۔۔۔۔ تم ایک بے غیرت، بے دین اور شیطان لڑکی کو اپنے گھر میں رکھ کر نہ صرف اپنے اوپر خدا کا عذاب مسلط کر رہے ہو بلکہ پورے گاؤں کو خدا کا عذاب لپیٹ میں لے گا اپنی بد چلن لڑکی کی سرغناش کر دو نہیں تو ہم سب مارے جاءئیں گے۔۔۔علی احمد بالاآخر لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر اپنی بیٹی آسمہ کے ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے آیا۔ علی احمد من ہی من میں سوچ رہا تھا کہ اگر وہ اپنی بیٹی کی قتل نہ کرے تو سماج کے اقدار اور لوگوں کے باتیں اسے روز مرنے پر مجبور کریگی۔ 
علی احمد نے گلاس میں پانی اُٹھا کر آسمہ کی طرف۔۔ لو بیٹی پانی پیو، کل سے تم نے نہ کچھ کھایا ہے اور نہ کچھ پیا ہے۔۔۔۔۔ آسمہ نے ابھی تک پانی ختم ہی نہیں کی تھی کہ اسکے والد علی احمد نے نہ چاہتے ہوئے اپنی لخت ء جگر آسمہ کی گلہ دبا کر اسے قتل کر دیا۔ ادھر آسمہ کی سانس رکھ گئی تو دوسری جانب علی احمد بے قابو ہو کر چلانے لگا۔۔ مجھ جیسا بڑا بے غیرت انسان نہیں جس نے اپنی ہی ہاتھوں سے اپنی بیٹی کی جان لی۔۔۔۔۔۔۔.مگر گاؤں والوں کے نزدیک علی احمد ایک غیرت مند ثابت ہوا جس نے غیرت کے نام پر اپنی بیٹی کی جان لے لی۔کچھ دن ہی نہیں گزرے تھے کہ یہ معاملہ پولیس تک جا پہنچی اور علی احمد گرفتار ہوگئے سزا کاٹنے کے لیے علی احمد کو مچھ جیل بھیج دیا گیا۔ آج بھی علی احمد کے کانوں میں آسمہ کی آہ سنائی دیتی ہے اور آسکی ماں اپنے پروردگار سے آسمہ کے سوالوں کے جوابات کے لیے منتظر رہتی ہے۔ غیرت کے نام پر آسمہ نے اپنی جان کی قربانی دے دی۔ اور شاید مستقبل میں ایسے ہزاروں آسمہ کی جان چلی جائے صرف غیرت کے نام پر۔۔۔۔۔۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں