اتوار، 7 مئی، 2017

چہرہ شناسی



انسان کو سمجھنا اگر آسان ہوتا تو زندگی بھی آسان ہو جاتی۔ زندگی کی تمام تر پیچیدگیاں انسان کی فطرت کے تضادکا نتیجہ ہیں۔ قدیم فلسفی کہتے ہیں کہ فطرت میں جو بھنور پایا جاتا ہے۔ وہی بھنور انسان کے مزاج میں موجود ہے۔ فطرت کی متحرک قوت دائرے کے روپ میں موجود رہتی ہے۔ پانی، بادل، طوفان یا بارش اس قوت کا اظہار ہیں۔ دو یا اس سے زیادہ توانائی کے دھارے آپس میں ملتے ہیں تو وہ بھنور یا دائرے کی صورت اختیارکر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے انسان اندر کے بھنور یا ابہام سے لڑتا چلا آیا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی دقیق فلسفوں اور نفسیاتی تشریحات نے سوچ کے نئے زاویے متعارف کرائے۔ ماہرین نفسیات مزاج اور شخصیت کا جائزہ Endocrine Glands کے توسط سے جامع انداز سے کرنے لگے۔ قدیم یونانی ماہرین نفسیات نے شخصیت کو چار اقسام میں بیان کیا ہے۔

Phlegmatic بلغمی: پرسکون اور اعتدال پسند یہ افراد تضاد سے عاری ہوتے ہیں۔ وقت اور حالات کے ساتھ چلنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ Sanguine صفراوی: جذباتی طور پر متحرک، پرتجسس یہ لوگ زندہ دل ہوتے ہیں۔ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل یہ افراد پرجوش لب و لہجہ رکھتے ہیں۔ Choleric دموی:یہ لوگ خواب دیکھتے ہیں۔ اور یہ خواب انھیں کامیابی کی بلندیوں پر لے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں قائدانہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ مقصد کا تعین کر کے راستہ بناتے ہیں۔
Melancholic سوداوی: یہ خاموش اور تنہائی پسند لوگ ہیں جو کاملیت پسند کہلاتے ہیں۔ تخلیقی سوچ، گہرائی، منطق اور تجزیے کی صلاحیت، انھیں فنون لطیفہ کی طرف لے جاتی ہے۔ نقاد اور فلسفی بنتے ہیں۔ ان لوگوں کی بیماریاں بھی مزاج کے زیر اثر ہوتی ہیں۔
لیکن بات فقط مزاج اور شخصیت تک محدود نہیں رہی۔ ماہرین نفسیات، فلسفی اور اہل نظر مستقل انسان کو پرکھنے کی کھوج میں رہے۔ ارسطو نے چہرے کے نقوش کے ذریعے انسان کو سمجھنے کی کوشش کی اور انسان کے ظاہری روپ کے ذریعے اس کے اندر کا راز جاننے کے عمل میں مصروف رہے۔ شخصیت کو پرکھنے کی جستجو میں چہرے کا رنگ، بال، آواز، چال اور حرکات و سکنات آ جاتے ہیں۔ چہرے کے خدوخال کے وسیلے، انسان کی پرکھ کو قیافہ شناسی کا نام دیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنکھیں، ناک، کان، پیشانی اور ہونٹ وغیرہ انسان کی فطرت کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔
چینی قیافہ شناسی کا طریقہ بہت دلچسپ ہے۔ (فلیک سولوبی میں ہاتھوں اور پیروں کے پریشر پوائنٹس کے وسیلے علاج کیا جاتا ہے۔ یہ مختلف پوائنٹس انسانی اعضا سے جڑے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سے چہرہ شناسی کے چینی طریقے میں، چہرے کے چارٹ کے ذریعے آپ دل، گردوں، جگر و آنتوں کا حال جان سکتے ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ آنکھیں جگر کا آئینہ ہیں۔ آنکھوں کے رنگ جگر کی بیماری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ناک، دل سے منسلک ہے۔ سرخ ناک اور لکیریں دل کی بیماری کو ظاہر کرتی ہیں۔ پھیپھڑے گالوں کی ساخت سے تعلق رکھتے ہیں۔ گالوں کے گڑھے خوبصورتی کے علاوہ تنفس کی بیماری کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں جرائم پیشہ لوگوں کو زیر کرنے کے لیے چہرہ شناسی کا علم کارآمد ثابت ہوا۔ مڈل ایجز میں علم نجوم اور چہرہ شناسی کے ذریعے انسانی فطرت کو سمجھا جاتا تھا۔ عرب مصنف الرازی نے بھی چہرہ شناسی کے فن میں کئی دریافتیں کیں۔ بیسویں صدی میں یہ علم عروج پر پہنچا اور ذہن و کردار کو پرکھنے کا پیمانہ قرار پایا۔ طب، آیورویدک اور ٹریڈیشنل چائیز میڈیسن میں مرض کی تشخیص کے لیے قیافہ شناسی سے مدد لی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ Iridology میں آنکھوں کے ذریعے مختلف امراض کی تشخیص کر کے انھیں متعلقہ شعبوں میں مزید علاج کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ صحیح مرض کی تشخیص کے لیے مریض پر متعدد تجربے کیے جاتے ہیں۔ اس کوشش میں مرض انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔
چہرے کی ساخت شخصیت کو پرکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گول چہرے کے حامل افراد حساس، جذباتی، خیال رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ رشتے نبھانے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔
لمبا چہرہ، حقیقت پسندی، محنت اور منطق کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ انا پرست ہوتے ہیں۔ رشتے نبھانے میں مسائل پیدا کرتے ہیں۔ تکونی چہرہ تخلیقی صلاحیت اور غصے کو ظاہر کرتا ہے۔ مستطیل چہرے ذہین، تجزیہ نگار، فیصلہ کن ذہن کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ غصیلے ہوتے ہیں اور غلبہ قائم رکھتے ہیں۔ ناک چہرے کا اہم حصہ ہے۔ ناک کی بناوٹ دولت، رویہ و جذباتی زندگی کو ظاہر کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح کان کی ساخت سے شخصیت کا اتار چڑھاؤ پرکھا جا سکتا ہے۔ لمبے کان مادیت پرستی اور مغرور ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
چھوٹے کان فطرت میں احترام، توازن اور محبت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ چوڑا ماتھا ادراک، سوجھ بوجھ اور تصوراتی قوت کا مظہر کہلاتا ہے۔ ماتھے کی لکیریں گہری سوچ اور تحقیقی صلاحیتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ اسی طرح ہونٹ، بھنوؤں کی ساخت اور چہرے کے تل وغیرہ بھی اس ضمن میں شخصیت کے اسرار سے پردہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ انسان نے ہمیشہ اپنے اندر کے راز اور اصلیت کو دوسروں سے چھپانے کی کوشش کی ہے۔ جھوٹ پر سچائی کا نقاب اوڑھ کر وہ ہمیشہ فائدہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ جھوٹ، بناوٹ اور دکھاوا دنیاوی کامیابی کی علامت بن چکے ہیں۔ دغابازی، مکاری اور فریب وہ منفی رویے ہیں، جن کے ذریعے انسان دوسروں کا استحصال کرتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کا بہتر معیار، جھوٹ و فریب کے ستون پر کھڑا کرتا ہے۔ کیونکہ سیدھا، سچا و شفاف راستہ دنیاوی رنگینیوں و آسائشوں سے مبرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان متضاد راستے کی بھول بھلیوں کا انتخاب کر کے دنیاوی فائدے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن چہرہ شناسی کا فن سمجھنے
والے، نقاب در نقاب چھپے ہوئے کاغذی پھول سے چہروں کی اصلیت ڈھونڈ نکالتے ہیں۔
تحریر : شبنم گل

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں