اسلام ایک سادہ دین ہے جس کا مقصد انسانوں کو اخلاق وکردار کے اعلیٰ معیار پر پہنچا کر اللہ تعالیٰ کے قریب تر کرنا ہے. اسلام کو سمجھنے کے لیے قران مجید اور محمد کی حیاتِ طیبہ مشعلِ راہ ہےاسلام وہ مذھب ہے جس میں قدم قدم پر انسانوں کے لیے رہنمائی موجود ہے. ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک اسلام نے حیات انسانی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے. زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جو تشنہ رہ گیا ہو اور اسلام نے اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہو۔اسلام کوئی معجزاتی دین نہیں ہے بلکہ عقل ،دانش، فکر اور شعور کا دین ہے. اسلام انسانوں سے یہ تقاضا نہیں کرتا کہ کوئی آنکھیں بند کر کے اس کی پیروی کرے بلکہ اس کی تعلیمات یہی ہیں کہ اسے سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے. قرآن مجید میں بار بار آیا ہے کہ تدبر کرو غور کرو،تم عقل کو کیوں استعمال نہیں کرتے ہو، وغیرہ . مگر ھمارے معاشرے خصوصآ برصغیر میں المیہ یہ ہے کہ اسلام ملائیت کے نرغے میں ہے اور ملائیت اسلام کی اپنی من مانی تعبیر وتشریع کرتی ہے.برصغیر کی ملائییت اس قدر طاقت ور ہے کہ اس کے خلاف بولنا آسان نہیں ہے کیوںکہ اس نے اپنے لیے فتوے کا ایک ایسا ہتھیار ایجاد کیا ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی مخالف کو دائرہ اسلام سے خارج کرسکتا ہے. بدقسمتی سے اگر کوئی ملائیت کو ہدف تنقید بنائے تواسے اسلام کے خلاف سازش قراردیا جاتا ہے اور بعض اوقات اس کا خون بھی مباح ہوجاتا ہے.ملائییت کے نرغے میں آنے کے بعد اسلام کا اصل چہرہ مسخ ہوگیا ہے اور وہ دین جو پوری دنیا کی فکری قیادت کے لیے آیا ہے، آج خود مسلمانوں کی قیادت بھی نہیں کر پا رہا ہے. اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسلام کی تعلیمات پرانی ہوگئی ہیں یا وہ بدلتی دنیا کا ساتھ نہیں دے سکتا بلکہ اسلام کی اصل تعلیمات کی اپنی تشریح کرکے پیش کیا جاتا ہے جو متضاداور متنازع ہوتی ہیں اور عالم انسانیت تو کیا مسلمان بھی ان سے دور بھاگتے ہیں۔ملائیت نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سوال کو خلاف عقیدت قرار دے کر اپنی صفوں سے باہر نکال دیا. سوال کرنا شعور کی علامت ہے اور شعوریافتہ طبقہ آنکھیں بند کرکے کسی کے پیچھے نہیں چلتا لیکن ملائیت کی خشتِ اول سوال سے نفرت ہے. بس آنکھیں بند کرکے پیچھے چلیں کہیں غلطی دیکھیں تو بھی خاموش رہیں کیوں کہ یہ بہت بڑی گستاخی اور خلافِ عقیدت ہے۔لیکن اگر ہم اسلام کا مطالعہ کریں تو حضرت عمر کا واقعہ چشم تصور میں آجاتا ہے. جب وہ خلیفہ وقت تھے. مالِ غنیمت تقسیم کی تو سب کو ایک ایک چادر ملی. خلیفہ وقت جب تقریر کے لیے آئے تو اس کے پاس دو کپڑے تھے. ایک صحابی سے رہا نہ گیا. اس نے کھڑے ہوکر سوال کیا کہ، اے خلیفہ وقت آپ ہمیں بتائیں کہ ہمیں تو ایک ایک کپڑا ملا ہے لیکن آپ کے پاس دو کپڑے کیسے ہیں؟ خلیفہ وقت نے پاس کھڑے اپنے بیٹے (غالبآ عبداللہ بن عمر ) کو بلایا اور کہا کہ اس کے سوال کا جواب دیں تو بیٹے نے کہا کہ دوسرا کپڑا میرا تھا، میں نےاپنے والد کو دیا.نہ خلیفہ وقت نے اس سوال پر ناگواری محسوس کی اور نہ سوال کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوا. اس لیے کہ اسلام کی بنیادی تربیت ایسی تھی اور سوال کرنے والے کو معلوم تھا کہ 147رائٹ آف انفارمیشن148اس کا بنیادی حق ہے.لیکن آج آپ کسی مسجد کے پیش امام سے مسجد کے معاملات کے بارے میں کوئی سوال کر کے دیکھ لیں، جبہ و دستار کی حامل کسی شخصیت سے سوال کریں کہ آپ کا سورس آف انکم کیا ہے،کسی خطیب سے پوچھیں کہ آپ کی گفتگو میں فلاں جملہ اسلام کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہے توآپ کا شمار دین دشمنوں یا کم از کم گستاخوں میں ہوگا۔ملائیت کا دوسرا بڑا مسئلہ فرقہ پرستی ہے، جس نے عالم اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا. دینی مسائل میں اختلاف رائے کو فرقہ پرستی میں تبدیل کیا گیا اور ان فرقوں کی آڑ میں ایک عجیب و غریب مخلوق وجود میں آئی. اس مخلوق نے مختلف ناموں پر الگ الگ پلیٹ فارم بنادیے اور ان پر مذہب کا لیبل لگا کر ان کے وجود کے لیے جواز تراشا گیا، جس سے اسلام کے نام پر تقسیم در تقسیم اور انحطاط کا ایک ایساسفر شروع ہوا جو عربی النسل گھوڑے کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے.فرقوں کی تشکیل سے علمانما جہلا نے خوب فائدہ اٹھایا. ایک حدیث، 147العلما ورثتہ الانبیا148 (علما، انبیا کے وارث ہیں) کا سہارا لے کر ان لوگوں نے عوام کو یہ باور کرایا کہ وہ انبیا کے وارث ہیں، اس لیے ان کے بارے میں اپنے خیالات میں بھی کوئی غلط تصور پیدا نہ کریں، مبادا آپ گناہ گار نہ ہوجائیں.اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اَن پڑھ تو ان پڑھ تعلیم یافتہ طبقے کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ان کی عقیدت مند ہے اور وہ اسے اسلام کا نمائندہ سمجھتے ہیں. ان فرقہ پرستوں نے لوگوں کی عقل کی بجائے ان کے جذبات سے اپیل کی اور اپنے لیے ایک ایسا طبقہ تیار کیا جو اپنے شیخ، اپنے قائد، اپنے حضرت اقدس، اپنے پیرطریقت، اپنے علامہ، اپنے قاطع شرک وبدعت، اپنے ولی کامل، اپنے نمونہ اسلاف ، اپنے مجاہد اسلام کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا.آپ روزانہ سننتے ہوں گے کہ مجھے دیوبندیت پر فخر ھے،مجھے بریلویت پر فخر ھے،مجھے سلفیت پر فخر ھے،مجھے حنفیت پر فخر ھے، پھر ان بڑے بڑے مسالک کے اندر جھانک کر دیکھیں ھر مسلک میں درجنوں الگ الگ گروپ بندیاں ہیں. انحطاط یہاں تک کہ148 مردے سننتے ہیں یا نہیں سنتے148 اس مسئلے پر الگ الگ جماعتیں بنیں ہیں. ایک جماعت کہتی ہے کہ مردے سنتے ہیں اور دوسری کہتی کہ مردے نہیں سنتے ہیں. اب اندازہ لگائیں کہ وہ دین جس کا بنیادی مقصد عالم انسانیت کی رہنمائی تھا کس قماش کے شیخ الاسلاموں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔پاکستان میں ایسے علما ۃیں جو ملائیت کو اسلام کے لیے سخت نقصان دہ سمجھتے ہیں اور اس موضوع پر کام بھی کر رہے ہیں جن میں قابلِ ذکر مولانا زاہدالراشدی اور ان کے فرزند عمار ناصر اور ان کا ادارہ الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ پنجاب پاکستان ہے جو ملائیت کے خلاف میدانِ عمل میں آیا ہے. جب کہ 147ملائیت اسٹیس کو148الشریہ اکیڈمی کے خلاف متحد ہوچکی ہے اور انہوں نے اس ادارے اور اس کے منتظمیں (مولانا زائدالراشدی عمار ناصر وغیرہ) کے خلاف ایک متفقہ فتوی جاری کیا ہے جو رسالہ الصفدریہ میں چھپ چکا ہے.اگر ملائیت نے اپنی روش نہ بدلی اور نئے زمانے کی فطری نفسیات کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تو وہ وقت دور نہیں کہ اسلام صرف منبرومحراب تک محدود ہوگا اور اجتماعی زندگی میں اس کا عمل دخل یکسر ختم ھوکر رہ جائےگا.ایک غلط فہمی یہ ہے کہ اسلام کو جدید ذہن سے ہم آہنگ کرنے کی بات کی جائے تو اس رائے کو ھمیشہ اسلام دشمن سازش سے تعبیر کرکے صاحب رائے کو دین دشمن لبرل ازم اور سیکولر ازم سے متاثر قراردے کر قابلِ گردن زنی قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ نوشتہ دیوار ہے کہ اسلام کے لیے جو فکری اور عملی بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے، آنے والی نسلوں کے لیے اس کا ہضم کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوگا
اتوار، 19 فروری، 2017
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں