منگل، 14 فروری، 2017

خوابوں پر لیکچر :تحریر :چندن ساچ



آج ایک لیکچر سننے کا موقع ملا۔ لیکچر کا عنوان "انسان اور خواب" تھا۔ میں نے لیکچر کو بہت غور سے سنا۔ مگر لیکچر دینے والے کا منطق ابھی تک بھی میرے سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک طرف وہ کہہ رہے تھے کہ یہ خواب ہی ہوتے ہیں جو ہماری زندگی کو دوزخ بناتے ہیں۔ پھر دوسری طرف یہ کہہ رہے تھے کہ خواب جب بھی دیکھوگے تو اپنی اوقات کے مطابق دیکھو۔ یہی بات کہ اپنی اوقات کے مطابق خواب دیکھو، ایسی بات نے مجھے بڑی الجھن میں مبتلا دیا۔ کیوں کہ میرے کانوں میں دو عظیم استاد سرگوشی کر رہے تھے۔ ایک تھا رسول حمزہ توف اور دوسرا استاد صبا دشتیاری۔
رسول حمزہ توف کہہ رہتے کہ " چھوٹے چھوٹے بچے بھی بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں"
اور صبا صاحب فرما رہے تھے کہ
من مہ باں بِلے واب زندگ بنت۔
میں رہوں یا نہ رہوں خوابوں کو زندہ رہنا چائیے۔ اصل میں صبا صاحب درست کہہ رہے ہیں۔ ہمارا ہونا ضروری نہیں۔ مگر خوابوں کو زندہ رہنا چائیے۔ انھیں اپنی سفر جاری رکھنا چائیے۔ کیوں کہ جب خوابوں کا سفر تھم جائے تو یہ زندگی ایک سراب کے علاوہ اور کچھ نہیں رہ جائیگی۔
لیکچر دینے والے صاحب کہہ رہے تھے کہ ایک شخص کا تنخواہ 9 ہزار ہے۔ اس کا گزر بسر ہو رہا ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال دیا ہے۔ ہمیں بھی خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا چائیے۔ اصل میں لیکچر دینے والا استاد جس نظریے کا تبلیغ کر رہا تھا میں اس نظریے کو بینکنگ سسٹم ایجوکیشن کا دیا گیا تحفہ تصور کرتا ہوں۔ ارے بھئی ہم گزارے والا زندگی کیوں قبول کریں؟ کیوں مطمئن رہیں؟ سوچنا اور فکر کرنا کیوں چھوڑ دیں؟ اس بات پر مجھے ایک روایت یاد آئی جو میں نے "آساپ" میں پڑھا تھا۔
"کسی سے پوچھا گیا آپ ایک جنگل میں جا رہے ہوں اور سامنے سے ایک خونخوار درندہ آجائے تو آپ کیا کریں گے؟ موصوف نے کہا جو کرنا ہے وہ درندہ ہی کرے گا، میں نے کیا کرنا ہے!
یہ روایت اس رویے کی عکاسی کرتی ہے کہ جب سامنے کوئی طاقتور دشمن ہو تو بلاچون و چرا اپنا مال و متاع پیش کر دینا چائیے"دانشممندی" کا تقاضا یہی ہے۔ لیکن کبھی کبھی حالات، روایات کے برعکس بھی ثابت ہوتے ہیں یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ ایک طاقت ور دشمن کو سامنے دیکھ کر بھی اپنا سب کچھ اسے پیش کرنے کی بجائے اپنی لامحدود طاقت کے ساتھ مزاحمت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ خانہ بدوش، جس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا، اس کے گدان میں کوئی چور گھس آئے تو وہ اپنی لاٹھی لہرا کر اپنے خزانے پر حق ملکیت کا اعلان کرتا ہے" (آساپ کتابی سلسلہ عابد میر)
زندگی کا اصل فلسفہ چیلنچز کا سامنا کرنا ہے۔ اس لیے تو شاعر نے کہا تھا کہ "زندگی ہر قدم ایک نئی جنگ ہے" اگر اس جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہو تو حالات کی غلامی نہ کرو۔ بلکہ حالات کو غلام بنانے کیلئے جدوجہد جاری رکھو۔ دانشمندی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ خوانخوار درندہ کے سامنے کھڑے رہو کہ مجھے کیا کرنا ہے! جو کرنا ہے اسی درندے کو کرنا ہے۔
"انسانی وجود اور اسکی موجودگی کا اثبات ایک ایسا مسلسل عمل ہے جس کی ماہیئت معینہ فطرت نہیں رکھتی۔ اس لیے فکری سطح پر اس کی منطقی جوازیت تلاش کرتے ہوئے انسان اپنی ذات کی اس موجودگی کو ہستی سمجھتا ہے جو زمان و مکان کی ممکنہ حدوں میں اپنا اساسی کردار ادا کرتی رہتی ہے۔ یہ موجودگی اس وقت تک نیستی کے مترادف ہے جب تک انسان اپنی ذات کی تشکیل نو کیلئے دہشت کے اضطراب سے نہ گزرے۔ دہشت کا یہ تجربہ اس کی انا اور اس کے گرد پھیلی ہوئی کائنات کو ایک مخصوص معنوی شکل عطا کرتا ہے۔
انسانی لایعنیت اور کائناتی لایعنیت کے معانی تلاش کرنے کا یہ خلا بے مائیگی کا وہ تجربہ ہے جس کے بطن سے نئی معنویت جنم لیتی ہے۔ انسانی وجود موت کی دہشت سے فرار حاصل کرنے کی سوچی سمجھی خواہش کے مطابق لامکان کی دہشت کے سمندر میں بے آسرا تنکے کی طرح ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور پھر کوئی چارہ نہ پا کر کسی سزا یافتہ کی طرح شش جہت کی نظر آنے والی دہلیز پر نہیوڑا کر بیٹھ جاتا ہے۔ فکری فراریت اک جہانِ تازہ تک پرواز چاہتی ہے۔ چناچہ کائنات کی جہالت کا یہ اسیر اپنے نجات دہندہ خواب دیکھتا ہے جو کسی دن آسمانوں سے اس زمین پر نازل ہوگا اور کائنات کے زندانیوں کی راندہ زندگیوں کو جنتِ گم گشتہ کی نعمت عطا کرے گا۔
پھر یہی نجات دہندگی کی واماندگی تاریخ، تہذیب، مذہب، نسل، زبان اور ارضی حدبندیوں کی دنیاوی پناہیں تراشتی ہے۔ اس طرح ایک تباہی سے ایک نیا اسقتلال اور ایک نئے استقلال سے ایک نئی تباہی کا راستہ استوار ہوتا ہے۔ اس انکار و اثبات کے سفر میں سب سے پہلے فرد اپنی جسمانی طاقت اور اس کے مزاحمتی نظام کو اپنی ڈھال بناتا ہے۔ جسمانی مزاحمت ایک معروضی طاقت ہے جس کے معنی ہیں اس دنیا میں انسان کے بطور فرد باقی چیزوں سے تعلقات کی نوعیت۔ اس معروضی طاقت کی کرشمہ سازیوں سے دنیاوی سطح  پر کامل آزادی کا خواب تخلیق کرتا ہے اور پھر اس آزادی کی جہات کا تعین کرتا رہتا ہے۔ جس لمحے انفرادی طور پر جسمانی طاقت کا مزاحمتی نظام کزور پڑتا ہے۔ فرد اجتماع کی صورت اختیار کرتا ہے اور پھر بہت سارے غلام آزادی کے خواب کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوکر اپنے مزاحمتی نظام کو مضبوط بناتے ہیں۔ یہ اجتماعی مزاحمتی نظام کاملیت absolute کی اصلاح تراشتا ہے۔ جس کے اصل معنی ہیں شاید کسی دوسرے کے حصے کی وصولی کو اپنا مکمل حق سمجھنا، پھر کاملیت کا یہ مرض obsession تاریخ کا حصہ بنتا ہے۔ جو کوئی ایسی تاریخ کو اپنی سپردگی اور جانثاری پیش کرتا ہے، سمجھ لیجئے کہ وہ انصاف کی دیوانگی کیلئے اپنی عدمیت کو گلے لگانے پر آمادہ ہے۔
عدم انصاف اور اپنی مصیبتوں کیلئے روئیں روئیں سے چلاتا فرد واحد کائنات کے اس مصیبت کدے کا نوالہ بنتے ہوئے "لا" کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس کی امید اور یقین بناء وضاحت کے اپنی موت آپ مرجاتے ہیں اور اس کے حصے کی جنت ارضی و سماوی خیال خام ثابت ہوتی ہے۔ جو کوئی اس اجتماعی کاملیت کے ڈھونگ سے منحرف ہوتا ہے۔ سوسائٹی اسے باغی rebellion کا نام دیتی ہے۔ یہ باغی۔۔۔۔۔ تاریخ، تہذیب اور جغرافیے پر یقین نہیں رکھتا اور کہتا ہے کہ وہ ان لوگوں کیلئے جئے گا جو اس کی طرح شرمندگی کیلئے زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس کا کہنا ہے کہ لحمہء موجود ہی زندگی ہے اور زندگی کی گواہی دینے کیلئے اس لمحہء موجود سے انکار ممکن نہیں۔ اس تصورِ عدمیت سے نئی روشنی پھوٹتی ہے جو اعلان کرتی ہے کہ یہ زمین انسانوں کی پہلی اور آخری محبت ہے جہاں ہمارے بھائی بند ایک آسمان تلے سائنس لے رہے ہیں اور انصاف ایک زندہ قوت ہے" (جدید اردو نظم میں وجودیت۔ ڈاکٹر شاہین مفتی)
اندھے لوگ حوزے سارا ماگو کا ایک ناول ہے۔ یہ ناول ان لوگوں کی عجیب و غریب کہانی بیان کرتی ہیں جو اچانک آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ ناول کے اختتام میں کچھ یوں تحریر ہے
"ہم اندھے کیوں ہوئے تھے؟ میں نہیں جانتا شاید ایک دن ہمیں معلوم ہوجائے گا۔ کیا تم چاہتے ہو کہ جو میں سوچتی ہوں تمہیں بتاؤں۔ ہاں میں چاہتا ہوں۔ میرا نہیں خیال کہ ہم اندھے ہوئے تھے میرا خیال ہے ہم اندھے ہیں۔ اندھے لیکن دیکھنے والے، اندھے لوگ جو دیکھ سکتے ہیں لیکن نہیں دیکھتے"
چمے بہ بیت پہ گندگ ءَ
گوشے بہ بیت پہ اشکنئگ
کیا مشکل حالات میں ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرکے بیٹھے رہیں؟ یا ہلنا جلنا شروع کریں؟ کب تک ہم یہ کہتے رہیں گے کہ "محبت اب نہیں ہوگی، یہ کچھ دن بعد میں ہوگی"

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں