اچھے اور برے کے بیچ فرق جاننا بہت ہی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ یہ شعور بھی انتہائی ضروری ہے کہ امتیازات سکھائے جاتے کیوں ہیں اور ہم سیکھتے کیوں ہیں ؟؟؟؟
آگ میں جلانے اور پانی میں ڈوبونے میٹھے و کارے کی خاصیت (تاثیر و طاقت) کے علاوہ انکےباقی ماندہ فوائد کو انسانوں کےلئے سمجھنا اور ان پر مہارت حاصل کرنا ان میں امتیاز کے بعد شعور کی نشاندہی کرتا ہے۔
تو کسی بھی تعمیری عمل میں کمزوری،خامی و خرابی کی اصل نوعیت کی پہچان و نشاندہی،بیان و وضاحت کہنے سننے اور غور کرنے سے تعلق رکھنے کے ساتھ ہی بنیادی طور تعمیری عمل کو بہتر انداز میں جلد از جلد تکمیل پذیری سے گزارنا ہوتا ہے ناکہ اسکو تقسیم یا تخریب کا شکار کرنا ہوتا ہے۔
جب ہم کسی کو یا کوئی ہمیں اچھائی و برائی کے بیچ امتیازات کا درس دیتا ہے تو بظاہراسکا صاف اور سیدھا سا مقصد ہوتا ہے کہ دو کے بیچ فرق یعنی کسی بھی عمل میں اچھائی و برائی کے بیچ فرق کو سمجھنا لیکن وہ ہمیں دیکھائی نہیں دیتا ہم اپنے اور کہنے و نشاندہی کرنے والے کے بیچ فرق کو واضح کرنے لگتے ہیں ہم اس عمل میں اچھائی کو لیکر برائی کی نوعیت و حقیقت کو سمجھنے سمجھانے کی بجائے اپنے آپ کو اور کہنے والے کو صیح یا غلط اچھا یا برا ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں جو اشتعال انگیز ی جذباتی ردعمل کا سبب بن جاتا ہے ایسا ہوتا کیوں ہے کیا ہمارا طزر فکر یا زاویہ نظر درست نہیں ؟؟؟ ۔
مثلا جب اچھے عمل میں برائی کی موجودگی یا کسی بھی عمل سے برائی پیدا ہونے کے اندیشوں کا اظہارکیاجاتا ہے تو لازمی طور پر اس اظہار کے بیچ دو عوامل مربوط ہوتے ہیں یعنی ایک کہنے نشاندہی کرنے والا اوردوسرا سننے و غور کرنے والا( اس دوران یکجہتی ،یگانگت ،اتفاق،ہمراز و ہمراہی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ) سننے اور غور کرنے پر توجہ ہو سننا اور غور کرنا دو مختلف عملی مراحل ہیں سننے یا پڑھنے کا عمل یعنی اولین مقصد سمجھنا اور پھربعد میں سمجھے ہوئے پر غور کرنا۔۔۔
کچھ بھی سمجھ میں نہیں آنے کی صورت میں وضاحت طلب کرنا یا اس اظہار میں مفروضات خالی خولی خدشات وغیرہ کی نشاندہی کرکے ان کو بحث کےلئے پیش کرنا اسکے بعد تسلیم کرنے متفق ہونے یا رد کرنے یا اختلاف رکھنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے رد و اختلاف کے وجود کو بھی جواز ضرورت ہوتی ہے ایسا ہو نہیں سکتا کہ بس میں نہ مانوں تو نہ مانوں ۔
اتنے طویل مرحلے سے گزرے بغیر برائے راست ایک دوسرے کے گلے پڑجانا ایک دوسرے کی نفی کرنا کیسے اور کیونکر مثبت نتائج دے سکتے ہیں اور دیکھنے اور سننے والوں کو مسائل کی اصل نوعیت کو سمجھنے میں کیسے معاون ثابت ہوسکتے ہیں ؟؟؟؟در حقیقت ان سے تو طفلی رویوں کی نشاندہی ہوتی ہے
ہمارے مقصد کے حصول کےلئے کامیابی کا راز متفق الرائے، ہمراز ،یگانگت، اتفاق، اتحاد و یکجہتی پر منحصر ہے اور درحقیقت امتیازی تاثرات تنقید بحث مباحثوں کا مقصد صرف اور صرف کمزوریوں، خامیوں و خرابیوں پر قابو پاکر یکدلی کومزید مضبوط بنانا ہے۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مقصد ایک ہے ہمارا دشمن ایک ہے نفع و نقصان کو لیکر ہمارے بقاء کا مسئلہ ایک ہے؟؟؟؟؟ اگر ہم یہ جانتے ہیں تو یہ کیوں نہیں جانتے کہ ہمیں کرنا کیا ہے کئی سے بھی ہو ہمارے کمزوریوں،خامیوں و نادانیوں کی نشاندہی ان پر تنقید یا بحث مباحثے کیوں ہمارے اتفاق و یگانگت،یکدلی کو پارہ پارہ کرتے ہوئے ہمارے گروہی ،شخصی تعمیر پر معمور نظر آتے ہیں ہمارے تمام دعوے یکجہتی کے گرد تمام کاوشیں گرویت کے گرد اور نتائج مسلسل اندرونی تعصب و تقسیم کےطور پرسامنے آتے رہتے ہیں یہ کہنے میں شاہد آج عار محسوس نہ ہو کہ ہمارا طرز فکر ٹھیک نہیں جب طزر فکر ٹھیک نہ ہو تو مسائل کو دیکھنے،سمجھنے اور حل کرنے کا طریقہ کار کیسے صیح ہوگاسولہ سالہ جد مسلسل کوئی جھوٹی بات نہیں اتنے عرصے میں تو نرسری سے بچہ یونیورسٹی تک پہنچ جاتا ہے ہمارے پاس نتائج کیا ہیں؟؟؟
کیا ہم نے چالیس سے بڑھکر چار سو افراد کو یکجاء کام میں لانے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ چار سو سے بڑھکر چار ہزار افراد کی انتظامی صلاحیت حاصل کرلی ہے دشمن سے نبرآزما قوتوں کےلئے یہ ایک بنیادی سوال ہے کیا چالیس افراد کے بیچ بے یقینی اور بے چینی سیدھی طرح ہمارے کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں ؟ چائے ہم اسکو کوئی بھی نام دیں یا دن رات ایک دوسرے کے سر تھونپتے رہے۔
مجموعی طور پر پچھلے تمام عرصے کے تجربات سے دشمن کے جبر و بربریت سے تسلسل کے ساتھ اپنےناکامیوں سے قوم کے بدحالی و مظلومیت سے اگراحساس نہیں ہورہا تواپنے اپنے انا و ضد کے خاطر یہ احساس کریں کہ کل کو یہی سپریم کونسل یہی قومی لیڈرز یہی قومی دانشور و قومی لشکر و کمانڈرز ناکامی و شکست کےلئے قوم کو کیا جواب دینگے
کیا اس وقت بھی کسی کے قبر پے و کسی کے سر پر تھونپ کر خود کو بری الزمہ قرار دینگے ۔۔
ہم میں سے ہر ایک کےلئے اوپر سے لیکر نیچے تک نیچے سے لیکر اوپر تک مجموعی حالات کے ساتھ ہی ساتھ اپنے اندر کا جائزہ لینا ضروری ہوچکا ہے وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر کیونکہ آزاد ہونے کے لئے ہمیں سب سے پہلے اندر سے آزاد ہونا ہوگا کیونکہ موجود صورت حال میں باہر کے غلامی سے زیادہ اب ہمارے اندر کی غلامی کا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے کیونکہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اندر کے خواہشات کا غلام نظر آرہے ہیں اسی لئے تو تمام سرگوشیاں ہم سے زیادہ میں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں ۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں