تحریر : کوہ زاد بلوچ
چمکتے ہیں نقش راہ بن کرسربیاباں لہو کے قطرے
جو ہاتھ آج کٹیں گے نقیبِ جاں ہونگے
جو سَر زمین پہ گریں گے آسماں ہونگے۔
ابھی تو میں نے ہواؤں میں رنگ بھرنے ہیں
ابھی تو میں نے افق در افق بکھرنا ہے
دلیر ہیں کہ ابھی دوستوں میں بیٹھے ہیں
گھروں کو جاتے ہوئے سایے سے بھی ڈرنا ہے
ہزار صدیوں کی روندی ہوئی زمین ہے نسیم
نہیں ہوں میں کہ جیسے پہلا پاؤں دھرنا ہے
معصوم ماتھے پے یہ شکن اور یہ گہری فکر ضعیف و زوال پذیراحساس کیلئے بہت بڑی معنی رکھتے ہیں اگر پیشانی کے لکیر اور اس گہری فکرکے تعلق میں جھانکنے کی ہمت ہو تو ضعیف سے ضعیف اور زوال پذیر احساس بھی اس کی حقیقت کو دل کے قریب محسوس کرکے ضمیر کو یہ آواز ضرور دے گا کہ یہ درد تو گولی کی زخم سے پیدا نہیں اور نہ ہی موت کی دہلیز پر زندگی کو الوداع کہنے سے ہے اور نہ ہی اس بے بسی سے جس میں نہ دوا و علاج نہ رسد و کمک نہ کفن و قبرکچھ بھی میسرنہ ہوگا۔ کیونکہ یہ سب تو سلیمان بلوچ سالوں سے اپنے پیش روں کے ساتھ ہوتا دیکھتے و سہتے آرہے تھے تو یہ درد ہے کیا؟؟؟؟
یہ تو وہ درد ہے جس نے احساس کو بیدار کیا ضمیر کو تقویت دی فکرکو جلا بخشا جس کی وجہ سے باقی تمام مصائب و تکالیف بے معنی ہوکر رہ گئے جو اپنے لوگوں اور اپنی دھرتی سے جان قربان کرنے کی حد تک محبت کرتے ہیں ان کے ہاں خونی رشتوں خاص کر ماں بہن بھائی اور عزیز و اقارب کی کیا قدر و قیمت ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں لیکن یہی وہ درد ہے جو ایسے عظیم رشتے ناطوں سے بھی بے پرواہ کر دیتا ہے جب صرف خیال و تصور بہتری ہوتو دوسری بات لیکن جب ناانصافی و بے عزتی،ظلم وبربریت دیکھتے سہتے ہوئے حق انصاف مساوات امن خواب بن جائے تب یہ درد جنم لیتا ہے جب یہ درد احساس کو ضمیر و فکر سے مربوط کرتا ہے تب میرے لوگ میرا دھرتی امن وانصاف، مساوات عزت و وقار ہی میزان ٹھہرتا ہے جن کے سینے میں صرف اور صرف یہی درد پنپتا ہے وہ بے غرض ہوتے ہیں وہ ان مفادات و خواہشات سے بالاتر ہوتے ہیں جو انکے میزان کے توازن کو ذرا برابر بھی بھگاڑتا ہو وہ آسائش، آرام، کاہلی،حسد،جھوٹ،چاپلوسی اور
گروبندی سے نابلد سلیمان، امتیاز،ماما مہدو،صبادشتیاری
شہک اور ان جیسے ہزاروں ہوتے ہیں
میں اپنا بارگراں چھوڑکے جارہا ہوں سنو
اگر میرے درد سے آشنا ہو توآگے بڑھو
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں