ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

نوآبادیاتی نظام میں پسماندہ اقوام کا نفسیاتی استحصال


تحریر: ہمایوں احتشام
 افریقہ پہ یورپی نوآبادیات کی تاریخ کا آغاز تیرہویں صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے، جب پرتگالی اور ہسپانوی سامراج نے دنیا کی تقسیم پر سمجھوتہ کیا اور اس سمجھوتے کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے میں اہم ترین کردار پاپائے روم نے ادا کیا.

ہسپانوی سامراج نے مغرب کی طرف نوآبادیاں بنانے کی راہ اختیار کی اور پرتگال نے جنوب کا راستہ پکڑا. ہسپانیہ نے لاکھوں سرخ ہندی لوگوں کا قتلِ عام کرکے اپنی سلطنت قائم کی تو پرتگال بھی پیچھے نہیں رہا. اس نے مغربی افریقہ کے ساحلی ملکوں انگولا، گنی، گنی بساؤ، گولڈ کوسٹ، سیرالیون، سلطنتِ مالی اور جزائر کیپ ورڈی اور ساؤ ٹوم پرنسائپ پہ قبضہ کرلیا، لیکن یہ کہانی ابھی مغربی افریقہ اور پرتگال کی ہے. مشرقی افریقہ میں پرتگال نے عدن، موزمبیق اور سوازی لینڈ پہ قبضہ کرلیا.

ادھر پرتگال کی بے مثال کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے دوسرے یورپی سامراجی ملک شہد کی مکھیوں کی طرح سونے کی چڑیا براعظم کی طرف لپکے. شمالی اور وسطی افریقہ، فرانسیسی تسلط میں چلے گئے تو جنوبی افریقہ، رہوڈایشیا اور نمیبیا برطانوی سامراج کے پنجے میں. اٹلی نے ایتھوپیا ہتھیا لیا اور بیلجیم کانگو پہ قابض ہوا. سترویں صدی تک افریقہ کی ایک انچ زمین بھی ایسی نہ تھی جو سامراجی قبضے سے آزاد ہو. لوگوں کی زمینوں پہ قابض ہونا، ان کی روایات کا مذاق اڑانا، جبراً مذہب تبدیل کرنا اور انہیں نام نہاد تہذیب سکھانا، یہ خداوند نے یورپیوں کو ڈیوٹی بخشی تھی. اور اس بات کا اعتراف ایک مشہور برطانوی وزیرِاعظم نے بھی کیا.

اسی مذہب تبدیلی پہ ایک گم نام پہاڑی ڈھلوان پہ بیٹھنے والے شاعر نے نوحہ لکھا: "جب یہ گورے افریقہ آئے تو ان کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس زمینیں، مگر پھر ہم نے آنکھیں بند کر کے بائبل سیکھی تو آنکھیں کے کھلنے پہ بائبل ہمارے ہاتھوں میں تھی اور زمینیں ان کے پاس".

الجزائر کے دس لاکھ لوگوں کا قتلِ عام ہو یا انگولہ میں دیسی باشندوں کے ہونٹوں میں سوراخ کرکے تالے لگانا یا کانگو میں باغیوں کے ہاتھ کاٹ دینا، سامراج نے وطن پرست سامراج مخالفوں اور شک زدہ لوگوں پہ اپنے تشدد کو جاری و ساری رکھا.
ملک غلام ہوگیا، سامراج فاتح ہوا. اس قبضے کے خلاف دیسی نوآبادیاتی لوگوں نے شدید مزاحمت دکھائی، مگر جب اپنا بااثر طبقہ غدار ہو، عددی کمی ہو اور بہتر ہتھیاروں کی عدم دستیابی ہو تو شکست مقدر بنتی ہے. سو افریقی لوگ ایک طویل، پُرتکلیف اور ظالم غلامی کی گود میں جا پڑے.

برازیل پرتگالیوں نے دریافت کیا تو وہاں مزدوروں کی کمی تھی. اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بیس لاکھ دیسی افریقیوں کو مغربی افریقہ سے جہازوں میں بھرا اور برازیل کی طرف کوچ کیا. راستے کی صعوبتیں، بھوک، پیاس، فاقہ، بیماری نے چھ لاکھ افریقیوں کو درانِ راستہ موت کے گھاٹ اتار دیا. افریقہ غلام تھا.

یورپ فاتح ہوا. غلامی کا شکار. پہلی نسل پر نوآبادیاتی مشنری نے کام شروع کردیا. پہلے سے موجود جاگیردار طبقہ سامراج کی گماشتگی کرتا تھا، اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف سامراج کے دفاع میں طاقت کا استعمال کرتا تھا. ایک نوزائیدہ بورژوازی تشکیل دی گئی جو سامراج اور استعمار کی ہی حاشیہ بردار تھی. یہ تارریخ میں کسی انقلابی کردار کو ادا کرنے سے بھی قاصر تھی. ان حالات میں درمیانہ طبقہ بھی کچھ حد تک استعمار کا کاسہ لیس بن گیا. مگر مزدور کسان اور پسماندہ طبقات ابھی تک سامراج مخالف ہی تھے، کیوں کہ ان کے لیے سامراج کی بربریت مکمل برہنہ تھی. یہ لوگ سامراج اور جاگیردار دونوں کا ظلم سہتے. بے تحاشا ظلم اور ڈر اور خوف نے ان دیسی لوگوں کو کام چور، ڈھیٹ اور کاہل بنا دیا. جیسا کہ عام زندگی میں ہوتا ہے کہ جس بچے پر بہت زیادہ تشدد کیا جائے وہ ڈھیٹ ہوجاتا ہے.

لیکن ابھی یہ دیسی باشندہ انسانیت کی آخری سیڑھی یعنی غلامی پہ براجمان تھا. سامراج نے تو ابھی اسے مزید ابتر حالاتِ زندگی سے دوچار کرنا تھا. سو مسلح فوجیوں کو گاؤں میں بھیجا جاتا، جہاں ان دیسی کسانوں سے زبردستی کام لیا جاتا، ان کی خواتین سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی، جو شخص ایسا کچھ برداشت نہیں کرتا اور علم بغاوت بلند کرتا اس کے لہو سے زمین رنگین ہو جاتی. مگر جو ایسا کچھ برداشت کر لیتا تو اس کے اندر کا انسان مر جاتا ہے. یہ شرمسار انسان اپنے اندر کے انسان کی تدفین کرکے ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ انسان اور حیوان کے درمیان کی مخلوق ہوتا ہے. ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے تقریباً ہر باشندے کی ذہنی صلاحیت ایسی ہی ہوتی ہے. ان لوگوں میں یورپ اور گورے کے خلاف شدید نفرت ہوتی ہے.

دوسری نسل آغازِ زندگی سے ہی اپنے والدین کو تشدد اور خوف کے زیرِ اثر دیکھتی ہے، ان پر کم عمری سے ہی تشدد شروع ہوجاتا ہے. ان میں سامراج سے نفرت بے تحاشا ہوتی ہے مگر وہ ڈرپوکی کی وجہ سے اس کا اظہار نہیں کرتے اور یہ ہی نفرت انہیں اندر ہی اندر گھول کر رکھ دیتی ہے. اسی لیے نوآبادیات افریقہ اور ایشیا میں خودکشیوں کی شرح بہت زیادہ تھی.

شرمساری، ہر روز کے سامراجی ٹٹوؤں کے ہاتھوں بیعزتی، یہ تمام چیزیں اس کے ضمیر کی آواز بن جاتے ہیں. یہ ضمیر کی آواز اسے کچوکے لگاتی ہے، طعنے دیتی ہے اور اسے پریشان رکھتی ہے. ان سے چھٹکارے کے لیے وہ مذہب کی طرف آتا ہے. پادری، مولوی، پنڈت اسے، "ہر چیز خدا کی طرف سے ہے" کا دلاسہ دے کر رخصت کر دیتے ہیں. اب اس میں سے سب اچھا ہے کی بھی صدا آنے لگتی ہے، لیکن ضمیر بھی سراسر اس کی کم ہمتی اور خوف سے بھرپور شرمسار زندگی پر تذلیل کرتا رہتا ہے، اور یہ دیسی باشندہ اب ذہنی شعور کے دو مدارج میں تقسیم ہوجاتا ہے: وہ زہنی طور پر اتنا تندرست نہیں رہتا، پھر یورپی ڈھونگی ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر بکواس کرتے ہیں کہ "افریقیوں کے ذہن کا ڈھانچہ کچھ ٹھیک نہیں، وہ اپنے ذہن کے گوشوں کو استعمال نہیں کرتے".

اسی درانیے میں سامراج کے گماشتے دانش ور منظرِعام پہ آتے ہیں. یہ سب اچھا ہے اور سامراج اور گورے آقاؤں کی قصیدہ گوئی کرتے ہیں. یہ دانش ور زیادہ تر درمیانے طبقے اور اعلیٰ طبقے سے ہوتے تھے. مزدور اور کسان ان سے شدید نفرت کرتے تھے،
کیوں کہ یہ استعمار کے وظیفہ خوار اور اس کے چمچے ہیں. اپنے اندرونی خوف کو مٹانے اور اندر کی خفت جو یہ سامراجی چمچوں کے ہاتھوں تذلیل کے بعد حاصل کرتے ہیں، کو ختم کرنے کے لیے یہ لڑتے ہیں. آپس میں خوف ناک قبائلی جنگیں لڑتے ہیں. یہ ذہنی انتشار اور تناؤ ہی ہوسکتا ہے کہ لوگ اصل دشمن کے مقابلے میں اپنے بھائی سے لڑتے ہیں.

سامراجی ان حالات میں بیٹھ کر مزے سے ساری صورت حال کا معائنہ کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ان کا لڑاؤ اور تقسیم کرو کا کلیہ کامیابی سے جاری و ساری ہے. دوسری نسل کے بعد تیسری نسل آتی ہے اس کا ذہنی شعور دوسری نسل سے زیادہ ہوتا ہے, اور بائیں بازو کے مارکسی لیننی نظریات ان کو جڑت کی بنیاد فراہم کرتے ہیں. یکساں نظریہ قبائلی مخالفتوں کے باوجود نوجوان طبقے کو جوڑ کر ایک کرتا ہے. یہ دیسی انسان جو جانور اور انسان کے درمیان کی پیڑھی پہ کھڑا ہوتا ہے، یہ اپنی تکمیل چاہتا ہے. اور اسی تکمیل کے حصول کے لیے وہ گورے کو قتل کرتا ہے. اس حالت میں وہاں اگر ایک انسان مرتا ہے تو دوسرے کی تکمیل ہوتی ہے، وہ سمجھتا ہے کہ وہ غلامی سے آزاد ہوگیا ہے. تیسری نسل تشدد کا راستہ اختیار کرتی ہے. وہی تشدد جس کے سہارے سامراج نے وطن پہ قبضہ کیا. تیسری نسل اسی تشدد کو ہی سامراج کو نکال باہر کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے. فینن کہتا ہے، " تیسری دنیا میں سب سے زیادہ انقلابی طبقہ بے زمین کسان ہوتے ہیں. اس کی وجہ یہ کہ ان کا ننگا استحصال ہوتا ہے."

دیسی باشندے کی تکمیل اس دن ہوتی ہے جس دن وہ دھکے دے کر سامراجی، استعماری ایجینٹوں اور گماشتوں کو اپنی زمین سے نکال باہر کرتا ہے. تیسری نسل کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ وطن سامراج کے چنگل سے مکمل آزاد نہ ہوجائے.

مگر جدوجہد کا اختتام یہاں ہی نہیں ہوتا. اگر اس قومی انقلاب کی قیادت مزدوروں اور کسانوں کے ہاتھ میں رہے یا ان کی اپنی پارٹیوں کے ہاتھ میں تو یہ اشتراکی انقلاب ہوتا ہے جو ردِ سامراج، ردِ استحصال اور ردِ سرمایہ داری، مظلوموں کے اتحاد کا پیش خیمہ ہوتا ہے. لیکن اگر یہ ہی انقلاب بورژوازی یا جاگیرداروں کے ہاتھ چڑھ جائے تو وطن دوبارہ سے سامراج کی غلامی یعنی سامراج کے گماشتوں کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور دوبارہ استحصال کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع…..
بشکریہ: حال حوال

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں