ہفتہ، 11 جون، 2016

بلوچستان اور ملا اختر منصور کی ہلاکت




بلوچستان اور ملا اختر منصور کی ہلاکت

تحریر: محمد اکبر نوتیزئی 

یہ ڈرون حملہ، جس میں طالبان رہنماء کو نشانہ بنایا گیا، پاکستان کے سب سے بڑی صوبے کیلئے ایک پریشان کن مستقبل کی طرف اشارہ ہے۔جولائی 2015 میں، جب افغان انٹیلی جنس نے یہ خبر دی کہ در حقیقت طالبان رہنماء ملا عمر دو سال قبل وفات پاگئے ہیں، طالبان نے ملا اختر منصور کو اپنے نئے لیڈر کے طور پر منتخب کیا۔ اس انتخاب نے افغان طالبان میں دراڑیں پیدا کیں۔ حالیہ مہینوں میں یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ ملا منصور کچلاک، کوئٹہ سے تقریباً 25 کلومیٹر دور زیادہ تر افغان مہاجرین پر مشتمل پانچ لاکھ نفوس کا ایک شہر، میں ایک مخالف دھڑے کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے ہیں۔ ان افواہوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں طالبان کی طرف سے ایک آڈیو پیغام جاری کیا گیا جس میں ملا منصور نے اپنے مارے جانے کی تردید کی۔
تاہم، مئی میں ان کی قسمت جواب دے گئی۔ طالبان رہنما تفتان، کوئٹہ سے تقریبا 600 کلومیٹر دور بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ایک سرحدی شہر، سے سفر کر رہے تھے۔ سفر میں ملوث ایک شخص نے دی ڈپلومیٹ کو بتایا کہ، ’’جب ہم نے ان سے بس میں سیٹ مخصوص کرنے کا پوچھا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے، انہوں نے ایک کار کرایہ پر لینے کا کہا، اور ہم نے محمد اعظم کو بلایا کہ انہیں کوئٹہ لے جاؤ۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ طالبان کے امیر تھے؛ ہم نے سوچا کہ وہ ایک مقامی پشتون ہے جو ایران کا دورہ کرکے پاکستان پاس واپس لوٹا ہے۔‘‘
ملا منصور کوئٹہ کی طرف جارہے تھے جب ان کی گاڑی کو ایک ڈرون سے نشانہ بنایا گیا جس سے وہ اور بلوچستان کے ضلع نوشکی سے تعلق رکھنے والا ان کا ڈرائیور محمد اعظم ہلاک ہوگئے۔ ابتدائی طور پر مقامی حکام نے کہا تھا کہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد لیجایا جارہا تھا جس میں آگ لگ گئی تھی۔ لیکن مقامی لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے ’’ایک چھوٹا سا ہوائی جہاز‘‘، جس سے ان کی مراد ڈرون تھی، دیکھا جو حملے کے بعد گاڑی کے اوپر منڈلا رہا تھا۔ بعض مبصرین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ زمینی انٹیلی جنس کے بغیر ملا منصور کو نشانہ بنانا ممکن نہ ہوتا۔ وہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔ تو لہٰذا اس صورت وہ یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ شاید پاکستان نے خاموشی سے تعاون کیا ہو۔ سرکاری حکام ایسے کسی بھی دعوے کی سختی سے تردید کررہے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے حملے کی مذمت کی اور اسے پاکستان کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے میانمار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منصور ’’افغانستان میں تعینات امریکی اہلکاروں، افغان شہریوں، افغان سیکورٹی فورسز، اور ملک بھر میں تعینات ریزولوٹ سپورٹ کولیشن کے اراکین کیلئے ایک مسلسل اور واضح خطرہ تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ منصور پر فضائی حملے نے ’’دنیا کو ایک واضح پیغام بھیجا ہے کہ ہم اپنے افغان ساتھیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔‘‘
کیری نے کہا کہ، ’’ہم امن چاہتے ہیں۔ منصور اس کوشش کیلئے ایک خطرہ تھا۔ انہوں نے امن مذاکرات اور مصالحتی عمل کی بھی براہ راست مخالفت کی تھی۔ افغانوں کیلئے اب وقت آگیا ہے کہ وہ لڑائی بند کردیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک حقیقی مستقبل کی تعمیر شروع کردیں۔‘‘
کیری نے کہا کہ انہوں نے اس فضائی حملے کے بارے میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو مطلع کرنے کیلئے فون کیا تھا البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کب۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ ’’مکمل طور پر غیر قانونی، ناقابل قبول اور ملک کی خودمختاری اور سالِمیت کے خلاف ہے۔‘‘ انہوں نے امریکہ پر الزام عائد کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’’وہ افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو سبوتاژ کررہے ہیں۔‘‘
ڈرائیور محمد اعظم کے بھائی نے دی ڈپلومیٹ کو بتایا کہ، ’’میرے بھائی کو پتہ نہیں تھا کہ وہ افغان طالبان کے بڑے سربراہ تھے، اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی کی شناخت کرے یا اسے روکے۔ ان کا کام صرف یہ تھا کہ کسی مسافر کو اس کی منزل تک پہنچائے، اور وہ یہی کام سرانجام دے رہے تھے۔‘‘ انہوں نے حکومت سے اپنے مرحوم بھائی کیلئے معاوضہ دینے کی اپیل کی ہے جسکے چار بچے تھے۔
سینئر پاکستانی صحافی زاہد حسین نے ڈان میں لکھا: ’’ملا اختر منصور کی ہلاکت ایک زیادہ جارحانہ امریکی پالیسی اور موقف کی طرف اشارہ کرتا ہے چونکہ اب افغان طالبان کے مذاکرات کی میز پر آنے کی امیدیں دھندلا چکی ہیں۔ حال ہی میں منتخب طالبان رہنماء کی موت، جنہوں نے ابھی ابھی اس گروہ پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کی منظم کوششیں کی تھیں، نے پہلے سے بگڑے ہوئے افغان بحران کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ یہ کہ حملہ پاکستان کی حدود کے کافی اندر کیا گیا جس سے یہ خطرناک صورتحال مزید بگڑ گئی ہے، اس سے پاکستان کی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ اپنا اتحاد قائم رکھنے اور افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنے کے توازن میں پاکستان کی کمزوریاں بے نقاب ہوئی ہیں۔‘‘
خبر کے مطابق راولپنڈی کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کے ساتھ ایک اجلاس کے دوران پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ڈرون حملے پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ، ’’خود مختاری کی خلاف ورزی کی اس طرح کی کارروائیاں دونوں ممالک (امریکہ اور پاکستان) کے درمیان تعلقات کے لئے نقصان دہ ہیں اور علاقائی استحکام کیلئے جاری امن عمل کیلئے بارآور نہیں ہیں۔‘‘
پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی
واشنگٹن میں قائم وڈرو ولسن سینٹر برائے اسکالرز میں جنوبی ایشیا کے ایک ماہر مائیکل کگلمین نے دی ڈپلومیٹ کو بتایا کہ، ’’منصور پر ڈرون حملہ واشنگٹن کیلئے پالیسی میں ایک ڈرامائی تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسکا لب لباب یہ ہے کہ امریکی حکومت کا پاکستان کے حوالے سے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور یہ کہ اب اس نے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ منصور کو نشانہ بنا کر، واشنگٹن پاکستان کیلئے ایک بہت ہی واضح پیغام بھیج رہا ہے: اگر آپ اپنی سرزمین پر افغانستان کو غیر مستحکم کرنے اور امریکی فوجیوں کیلئے خطرہ بننے والے عسکریت پسندوں کیخلاف کارروائی نہیں کرتے تو ہم کریں گے۔‘‘
’’اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ یہ پاکستان میں یا تو کوئٹہ شوریٰ یا حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند رہنماؤں کے خلاف مزید امریکی حملوں کیلئے ایک نمونہ ہو سکتی ہے۔ یا پھر امریکہ مزید حملوں سے باز رہے گا اور یہ امید کرے گا پاکستان کو پیغام موصول ہوچکا ہے اور اسکے بعد وہ اپنے طور پر کارروائیاں کرے گا۔‘‘
ایک آزاد صحافی شہزاد بلوچ، جو کوئٹہ میں مقیم ہیں، نے دی ڈپلومیٹ کو بتایا کہ، ’’یہ امریکہ کی طرف سے ایک واضح پیغام ہے کہ جہاں کہیں بھی انہیں اپنے اہداف ملیں گے وہ انہیں ماریں گے، پاکستان کی مرضی کے بغیر، حتیٰ کہ پاکستانی سرزمین پر بھی۔ بلوچستان ایک بلوچ اکثریتی صوبہ ہے جو انتہا پسندی کی مخالفت کرتا ہے لیکن اس کے چند اضلاع افغانستان کی سرحد سے ملتے ہیں اور پاکستان کے لاقانون قبائلی علاقے جہاں شدت پسندوں کے خلاف کاروائی کی جاری ہے۔ لہٰذا اب طالبان کے اہم رہنماوں کی (بلوچ سرزمین )پر نقل و حرکت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی بھی رپورٹیں ہیں کہ وہ بلوچستان کے شمالی علاقوں کی پشتون پٹی میں بھی موجود ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ، ’’یہ بلوچستان میں پہلا امریکی ڈرون حملہ تھا، اور لگتا ہے کہ مزید حملے ہونگے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ملا منصور کی لاش کوئٹہ اسپتال لائے جانے کے بعد پاکستان کی طرف سے کوئی تحقیقات نہیں کی گئی۔ شناخت کی تصدیق کرنے کیلئے پوسٹ مارٹم ہونا چاہیے تھا۔‘‘
ایرانی تعلق؟
وال اسٹریٹ جرنل نے یہ خبر دی تھی کہ ایران میں اپنے خاندان سے ملاقات کے دوران امریکی خفیہ اداروں نے ملا منصور کا کھوج لگالیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نگرانی کرنے والے امریکی ڈرون ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقے میں پروازیں نہیں کرتے، لیکن مواصلات اور دیگر معلومات سے انٹیلی جنس ایجنسیاں اس قابل ہوئیں کہ انہوں نے منصور کا کھوج لگا لیا اور انہیں پھانسنے کیلئے دام بچھا دیا۔
ملا منصور اکثر ہوائی سفر کرتے رہتے تھے، اور مبینہ طور انہوں نے گزشتہ نو سال کے دوران بیرون ملک دوروں کیلئے دو پاکستانی ہوائی اڈوں کا استعمال کیا۔ ان کی لاش کے قریب محمد ولی کے نام سے ایک پاسپورٹ اور ایک پاکستانی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ملے۔ بعض اطلاعات کے مطابق منصور نے تفتان بارڈر کراسنگ کے ذریعے دو مرتبہ ایران کا سفر کیا تھا۔
ایران نے یہ اطلاعات مسترد کر دیں کہ حملے سے قبل منصور اسلامی جمہوریہ سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابر انصاری کا حوالہ دیا تھا کہ انہوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ منصور حملے سے قبل ان کے ملک میں تھے۔لیکن مبصرین کا کہنا ہے وہاں تین وجوہات ہیں جن کی بناء پر منصور ایران میں ہو سکتے تھے: اول، 2015ء کے اوائل کے بعد سے داعش افغانستان میں قدم جماتا جا رہا تھا، خاص طور پر ایران کی سرحد سے ملحق شہروں میں۔ افغان طالبان ان جگہوں پر داعش کیخلاف برسرپیکار رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اسی تناظر میں تہران نے ملا منصور کو ایران آنے کی دعوت دی ہو۔
دوئم، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ملا منصور سنی بلوچ اسلام پسندوں، جو کئی دہائیوں سے ایران کی شیعہ ریاست سے لڑ رہے ہیں، سے ملنے کیلئے ایران گئے تھے۔
سوئم، مشرقی ایران میں افغان مہاجرین، جیسا کہ مشہد اور زاہدان میں، رہتے ہیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان رہنما ان سے ملنے گئے تھے۔بعض اطلاعات میں حتیٰ کہ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ نومبر میں ملا منصور نے ایران میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات کی تھی جس نے امریکی حکام کو طیش دلایا تھا۔
خواہ اسکی رفتار کتنی بھی ہو، شہزاد بلوچ کے مطابق: ’’اس سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل قریب میں بلوچستان میں ایک بہت بڑا بحران پیدا ہونے والا ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بہت سے ممالک کے جاسوس بلوچستان میں موجود ہیں۔‘‘
افغانستان میں پاکستان اور ایران روایتی طور پر شدید حریف رہے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں ایران اور پاکستان پراکسی جنگوں میں ملوث تھے۔ 1996ء میں جب طالبان نے افغانستان میں اپنی حکمرانی شروع کی تھی، ایران کی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات خراب ہونا شروع ہوگئے تھے۔ 1998ء میں افغان شہر مزار شریف میں طالبان کے ہاتھوں 10 ایرانیوں کے قتل کے بعد تعلقات مزید بگڑ گئے تھے۔
بلوچستان کی طالبانائزیشن
بلوچستان، جو پاکستان کی زمین کے 43 فیصد پر مشتمل ہے، شورش زدہ رہا ہے۔ یہ پرتشدد حملوں کی لپیٹ میں رہتا ہے: بلوچ عسکریت پسندوں کے علاوہ مذہبی انتہاپسند گروہ بھی صوبے میں کام کررہے ہیں۔
سن 1979ء میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد افغان مجاہدین کو مبینہ طور پر پاکستان کے بلوچستان، صوبہ خیبر پختونخواہ اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں تربیت دی گئی تھی، وہ تمام علاقے جنکی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ بعد ازاں امریکی حملے کے بعد افغان طالبان انہی مقامات کو لوٹ گئے۔ چونکہ بلوچستان افغانستان کے دہانے پر واقع ہے، اس نے افغان مہاجرین کے ایک جم غفیر کی میزبانی کی ہے، ان میں طالبان کے ارکان بھی شامل ہیں۔ امریکہ پاکستان پر کئی عرصے سے یہ الزام عائد کرتا آرہا ہے کہ اس نے افغان طالبان بالخصوص اسکی اعلیٰ قیادت کو کوئٹہ میں پناہ فراہم کی ہے۔ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے، تاہم 2009ء کے اوائل تک، نیو یارک ٹائمز یہ رپورٹنگ کر رہا تھا کہ اوباما انتظامیہ طالبان کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کیلئے ڈرون حملوں کو بلوچستان میں وسعت دینے کے امکان پر غور کر رہی ہے۔
کوئٹہ میں مقیم ایک تجزیہ کار، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا، نے دی ڈپلومیٹ کو بتایا کہ، ’’ہاں، میں بلوچستان میں طالبانائزیشن کو مستقبل میں ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہوں چونکہ کوئٹہ میں طالبان نے اپنے نیٹ ورک کو کافی وسعت دی ہے۔‘‘ تجزیہ کار نے مزید کہا کہ بلوچستان میں طالبانائزیشن مقامی بلوچوں کی اس گروہ میں شمولیت کیساتھ نظریاتی اور علاقائی حصول کیساتھ طاقت حاصل کر رہی ہے۔
مائیکل کگلمین نے کہا: ’’اس مرحلے پر، ہم محض یہ جانتے ہیں کہ پاکستان مشکل حالت میں ہے۔ اب یہ بلوچستان میں افغان طالبان رہنماوں کی موجودگی سے انکار نہیں کر سکتا، اگرچہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی بہت زیادہ امکان نہیں ہے۔ بلوچستان کے لئے مضمرات پریشان کن تو ہیں البتہ واضح نہیں ہیں۔ علیحدگی پسند بغاوت اور پاکستان فوج کی سخت گیر پکڑ دھکڑ اور وہاں پر لاگو دیگر سفاکانہ پالیسیوں کے سبب بلوچستان پہلے سے ہی زبردست دباؤ میں ہے۔ پریشان حال مقامی آبادی کبھی بھی ڈرون حملوں کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہے گی۔ ایک اور خدشہ یہ بھی ہے کہ پاکستان بلوچستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاون کے بہانے مقامی آبادی کی پکڑ دھکڑ میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔‘‘افغانستان کے بلوچستان کی پشتون پٹی پر علاقائی دعوے ہیں اور یقیناًپاکستان کے دیگر پشتون علاقوں پر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے کابل کا پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کیلئے ایک نرم گوشہ رہا ہے۔ دریں اثنا، پاکستان بھارت پر الزام لگاتا آ رہا ہے کہ وہ افغانستان کے ذریعے بلوچ شورش کو ہوا دے رہا ہے۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو وہ پاکستان کو بلوچستان میں افغان طالبان کو پناہ فراہم کرنے کیلئے مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ ان تمام الزامات اور جوابی الزامات نے اس بات کو یقینی بنایا ہوا ہے کہ علاقائی تعلقات زیادہ سے زیادہ متزلزل رہیں۔
پاکستانی شناخت
بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ افغان مہاجرین کی 80 فیصد سے زائد پاکستانی قومی شناختی کارڈ کی حامل ہے اور وہ پاکستان کے شہری بن چکے ہیں۔ خود ملا منصور کے پاس ایک پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تھا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے حال ہی میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو رفیق ترین کو محمد ولی، طالبان رہنما ملا منصور کا مشتبہ شناختی نام، کی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی تصدیق کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔معروف پاکستانی قومی اخبار دی نیوز انٹرنیشنل کی خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مقامی حکام کو غیر قانونی طور غیر ملکیوں کی پاکستانی شہریوں کے کارڈ جاری کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ملک بھر میں کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈوں کی دوبارہ تصدیق کا حکم دیا ہے۔کِیّا قادر بلوچ، اسلام آباد میں مقیم صحافی جو بلوچستان کا احاطہ کرتے ہیں، نے دی ڈپلومیٹ کو بتایا کہ، ’’میرا ماننا ہے کہ اس ہلاکت نے نہ صرف دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے موقف کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں بلکہ اس نے یہ شکوک بھی پیدا کیے ہیں کہ طالبان تحریک کے اور بھی رہنماء یہاں ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا امریکہ اور اس کے اتحادی ان کو نشانہ بنانا جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بلوچستان میں پہلا ڈرون حملہ تھا لیکن آخری نہیں۔‘‘
کگلمین کے مطابق: ’’اگر یہاں امید کی کوئی کرن ہے بھی تو وہ یہ ہے کہ بلوچستان اور اس کے عوام کی نہایت پریشان کن حالت زار پر زیادہ
توجہ مرکوز کی جائے گی۔ بلوچستان کے بارے میں بہت کم سنا جاتا ہے، کیونکہ وہاں تک رسائی انتہائی کم ہے۔ شاید اب ہم زیادہ سننا شروع کریں گے۔‘‘کِیّا قادر بلوچ نے ایک زیادہ تشویشناک نقطہء نظرپیش کیا: ’’بلوچستان ہمیشہ سے افغان عسکریت پسندوں کیلئے ایک محفوظ ٹھکانے کے طور پر جانا جاتا ہے اور میرے خیال میں حالیہ حملہ ان دعووں کے حق میں ایک ثبوت ہے۔ یہ پہلا ڈرون حملہ بلوچستان میں ایک نئی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘
محمد اکبر نوتیزئی لاہور میں مقیم ایک صحافی اور دی ڈپلومیٹ کے نامہ نگار ہیں۔ انہوں نے ڈیلی ٹائمز، فرائڈے ٹائمز، دی نیشن، ویو پوائنٹ آن لائن اور دی نیوز آن سنڈے سمیت کئی پاکستانی قومی اخبارات اور میگزینوں کیلئے درجنوں مضامین لکھے ہیں۔ ان کی تحریریں اور انٹرویو پاکستان اور چین کے تعلقات، پاکستان کے خارجہ تعلقات، اندرونی سیاست، گوادر پورٹ، اور مذہبی انتہا پسندی پر مرکوز ہیں۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں