ہفتہ، 11 جون، 2016

نیشنلزم ابھر رہی ہے نہ کہ فاشزم



نیشنلزم ابھر رہی ہے نہ کہ فاشزم 
تحریر : جان فریڈمین
یورپ اور امریکہ میں فاشزم میں اضافے کے دعوے اس اصطلاح کی غلط فہمی سے اخذ کردہ ہیں۔
حال ہی میں کئی مضامین اور بیانات کی ایک بڑی تعداد میں یہ زور دیا گیا ہے کہ یورپ میں فاشزم میں اضافہ ہو رہا ہے، اور ڈونالڈ ٹرمپ فاشزم کی ایک امریکی مثال ہیں۔ یہ ایک نہایت حقیقی رجحان کی بابت غلط بیانی ہے۔ قومی ریاست سیاسی زندگی کے بنیادی محرک کے طور پر خود کو دوبارہ منوارہی ہے۔ یورپی یونین جیسے کثیر القومی اداروں اور کثیر الجہتی تجارتی معاہدوں کوچیلنج کیا جا رہا ہے کیونکہ کچھ لوگ انہیں قومی مفاد کے برخلاف سمجھتے ہیں۔ فاشزم میں اضافے کا الزام فاشزم کی اصلیت کے بارے ایک گہری غلط فہمی سے ماخوذ ہے۔ یہ نیشنلزم کے دوبارہ ابھار کو بدنام کرنے اور کثیر القومی نظام، جو کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مغرب میں غالب رہی ہے، کا بھی دفاع کرنے کی ایک کوشش ہے۔
نیشنلزم لبرل جمہوریت کی روشن خیالی کے تصور کی اساس ہے۔ اس میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ان کثیر القومی خاندانوں، جنہوں نے جابرانہ طور پر حکومت کی، نے عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا ہے۔ ان میں قومی خود ارادیت کا حق اور قومی مفاد میں جو بہتر ہے، اس حوالے سے شہریوں کو فیصلہ کرنے کا حق بھی شامل تھیں۔ روشن خیالی کو جبر کا خدشہ تھا اور یورپ پر کثیر القومی سلطنتوں کے غلبے کو وہ جبر کے لب لباب کے طور پر دیکھتا تھا۔ ان کو ختم کرنے سے مراد ان کی جگہ قومی ریاستوں کا قیام تھا۔ امریکی اور فرانسیسی انقلابات دونوں قوم پرستانہ بغاوتیں تھیں، اسی طرح سے وہ بھی قوم پرستانہ بغاوتیں تھیں جو 1848ء میں یورپ بھر میں پھیلیں۔ معنوی اعتبار سے لبرل انقلابات قوم پرستانہ تھیں کیونکہ وہ کثیرالقومی سلطنتوں کے خلاف بغاوتیں تھیں۔
فاشزم دو لحاظ سے قوم پرستی سے بالکل مختلف شے ہے۔ اول، فاشسٹوں کی طرف سے خود ارادیت کو ایک آفاقی حق نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اگر تین واضح فاشسٹوں کا ذکر کیا جائے تو ایڈولف ہٹلر، بینیتو موسولینی اور فرانسسکو فرانکو نے صرف جرمنی، اٹلی اور اسپین کیلئے ہی قوم پرستی کی منظوری دی تھی۔ فاشسٹوں کے پاس دیگر اقوام کیلئے اپنی ایک قومی ریاست کے حقوق انتہائی حد تک غیرواضح رہی ہے۔ ہٹلر اور مسولینی حقیقی معنوں میں کثیرالقوم پرستی پر یقین رکھتے تھے ہر چند کہ اگر دیگر اقوام ان کی مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کرلیتے۔ فاشزم اپنی تاریخی شکل میں قوموں کے ذاتی مفاد کے حصول کے حق پر حملہ تھا اور فاشسٹوں کی طرف سے اس کے حصول کے حق کا ارتفاء اس دعوے کی بنیاد پر تھا کہ ان کی قوموں کو موروثی فوقیت اور حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔
لیکن زیادہ گہرا فرق اندرونی حکمرانی کا تصور تھا۔ لبرل نیشنلزم نے یہ بات قبول کی تھی کہ اقتدار میں رہنے کا حق عوام کی طرف سے رہنماؤں کے واضح اور متواتر انتخاب سے مشروط ہو۔ جس طرح سے اسے عملی جامہ پہنایا گیا وہ ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ امریکی نظام برطانوی نظام سے کافی مختلف ہے لیکن بنیادی اصول ایک ہی رہے ہیں۔ اس میں یہ بھی ضروری تھا کہ منتخب نمائندوں کے مخالفین کو ان کے خلاف بات کرنے اور مستقبل میں ان کو چیلنج کرنے کیلئے جماعتیں منظم کرنے کا حق حاصل ہے۔ سب سے اہم یہ کہ اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان طریق کار کے ذریعے خود عوام کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ امر ضروری ہے کہ عوام کی قیادت کرنے کیلئے منتخب ہونے والے لوگ عوام کے نام پر ان پر حکومت کریں۔ رہنماؤں کو حکومت کرنے کی اجازت ہونا ضروری ہے اور حکومت کو مفلوج کرنے کیلئے کسی بھی طرح کے ماورائے قانون ذرائع استعمال نہیں کیے جاسکتے ماسوائے اس کے کہ حکومت کو اختلاف رائے کو دبانے کا حق حاصل ہے۔
فاشزم میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ہٹلر یا مسولینی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن ان کو جوابدہ نہیں ہیں۔ فاشزم کی بنیاد کسی آمر کا تصور ہوتا ہے جو اپنی ہی منشاء سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔ عوام کو دغا دیے بغیر اس کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، آزادی اظہار اور حزب اختلاف کی جماعتوں پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور وہ لوگ جو حکومت کی مخالفت کرنے کی کوشش کریں ان سے مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ فاشزم، جو ایک آمر کے بغیر ہو، انتخابات کے خاتمے کے بغیر ہو، ایک جگہ جمع ہونے کے حق اور آزادی اظہار کو دبائے بغیر ہو، وہ فاشزم نہیں ہے۔
یہ دلیل دینا کہ یورپی یونین کا حصہ بننا برطانوی مفاد میں نہیں ہے، نیٹو اپنی افادیت کھو چکی ہے، تحفظیت کی پالیسیاں یا تارکین وطن مخالف پالیسیاں فاشسٹ پالیسیاں نہیں ہیں بلکہ ضروری ہیں۔ ان خیالات کا فاشزم سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بجائے اس کے وہ روایتی لبرل جمہوریت سے کہیں زیادہ قریبی طور پر منسلک ہیں۔ وہ لبرل جمہوریت کی بنیاد کے دعویٰ ء نو کی نمائندگی کرتی ہیں، جو ایک خود حکومتی قومی ریاست ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی اساس ہے جس کے ارکان قومی ریاستیں ہیں، اور جہاں قومی خود ارادیت کا حق بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
لبرل جمہوریت اس بات کا تعین نہیں کرتی کہ آیا کسی قوم کو ایک کثیر القومی تنظیم کا رکن ہونا چاہئے، وہ آزاد تجارتی پالیسیاں اپنائے یا تحفظیت کی، وہ تارکین وطن کا استقبال کرے یا انہیں نکال باہر کردے۔ یہ وہ فیصلے ہیں جنہیں لوگوں کی طرف سے کیا جائے، خاص طور پر ان منتخب نمائندوں کی طرف سے جنہیں لوگوں نے اپنی نمائندگی کیلئے چنا ہے۔ وہ فیصلے دانشمندانہ یا غیر دانشمندانہ یا حتیٰ کہ غیرمنصفانہ بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم، ایک لبرل جمہوریت میں ان فیصلوں کو کرنے کی طاقت شہریوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔
جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ کثیر القومی اداروں اور معاہدوں کی منشاء کیخلاف قومی ریاست کی بغاوت ہے۔ یہ یورپی یونین، نیٹو اور تجارتی معاہدوں میں رکنیت کے بارے میں سنگین سوالات ہیں، اور یکساں طور پر سرحدوں کو کنٹرول کرنے کے حق کے بارے میں بھی۔ سمجھدار لوگ اختلاف کر سکتے ہیں، اور یہ ہر قوم کا سیاسی عمل ہے کہ پالیسی میں تبدیلی کے تعین کرنے کی اپنی طاقت کو برقرار رکھے۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ شہری طبقہ دانا ہوگا لیکن اس کے اچھے اور برے اثرات ہوتے ہیں اور یہ ہر سمت میں اثر انداز ہوتے ہیں۔
یورپ میں قوم پرستی کا موجودہ ابھار یورپی اداروں کی مؤثر طریقے سے کام کرنے میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔ 2008ء کے آٹھ سال کے بعد، یورپ نے اب تک اپنے اقتصادی مسائل حل نہیں کیے ہیں۔ یورپ میں پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر آمد کے ایک سال بعد بھی اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے کوئی مربوط اور مؤثر پالیسی نہیں بنی ہے۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے، یہ بات شہریوں اور رہنماؤں کیلئے غیر ذمہ دارانہ ہوگی کہ وہ اس معاملے پر سوالات نہ اٹھائیں کہ آیا یورپی یونین میں رہنا یا اس کے احکامات پر عمل کرنا چاہئے یا نہیں۔ اسی طرح سے ڈونالڈ ٹرمپ کیلئے ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ آزاد تجارت کے ہمیشہ فائدہ مند ہونے کے خیال کو چیلنج نہ کرے، یا نیٹو پر سوال نہ اٹھائے۔ ان کا اسٹائل چاہے جتنا بھی قابل نفرت ہو اور ان کا اظہار چاہے جتنا بھی گمراہ کن ہو، لیکن یہ شخص وہ سوالات کو پوچھ رہا ہے جنہیں پوچھا جانا چاہیے۔
سن 1950 کی دہائی میں، میکارتھیائیٹس نے ہر اس شخص پر الزامات عائد کیے جنکا وہ کمیونسٹوں کیساتھ ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ آج، وہ لوگ جو موجودہ نظام کے چیلنجوں کو قابل اعتراض سمجھتے ہیں انہیں فاشسٹ کہتے ہیں۔ اسوقت یورپی یونین یا امیگریشن کے مخالفین میں سے کچھ واقعی فاشسٹ ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایک فاشسٹ ہونے کیلئے رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں۔ فاشزم نسل پرستی، عدلیہ کیساتھ چھیڑ چھاڑ، یا کوئی پر تشدد مظاہرے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی شے ہے۔ حقیقی فاشزم نازی جرمنی کا ’’اصولِ رہنماء‘‘ تھا جس میں جابر رہنماء کی مکمل اطاعت لازم و ملزوم تھی اور اسکے اختیارات قانون سے بالاتر سمجھے جاتے تھے۔
ہم یورپ اور امریکہ میں قوم پرستی کی واپسی کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ بہت سے لوگوں پر یہ بات واضح نہیں ہے کہ بین الاقوامیت، جسکی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تقلید کی جارہی ہے، اب ان کیلئے فائدہ مند نہیں رہی۔ وہ صحیح یا غلط ہو سکتے ہیں، لیکن یہ دعویٰ کہ یورپ اور امریکہ میں فاشزم پھیل رہی ہے، اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ جو لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں آیا وہ فاشزم کے بنیادی اصولوں یا قوم پرستی اور لبرل جمہوریت کے درمیان قریبی تعلق کو سمجھتے بھی ہیں یا نہیں۔
جارج فریڈمین بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ بین الاقوامی امور کے جغرافیائی سیاسی پیش بین اور اسٹراٹجسٹ ہیں۔ وہ جیو پولیٹیکل فیوچرز کے بانی اور چیئرمین ہیں، یہ ایک نیا آن لائن جریدہ ہے جو عالمی واقعات کی رو سے ان کی وضاحت اور پیشنگوئی کیلئے وقف ہے۔
بشکریہ: جیوپولیٹیکل فیوچرز، 31 مئی 2016

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں