پیر، 24 ستمبر، 2018

ارتقاء اورانقلاب ـ تحریر : دلمراد بلوچ



ارتقاء اورانقلاب 
تحریر : دلمراد بلوچ

تغیرپذیری فطرت کی اٹل قوانین کے جزو لاینفک حصہ ہے ،کا ئنات کی وسعتوں اور کرہ ارض میں لحظہ لحظہ پرانے مظاہر مرگ دیدہ ہوکر تخلیق نوکیلئے مواقع فراہم کررہے ہیں ،سیمابی صفت فطرت کے گوشوں میں یہ تغیرپذیری کہیں سطح زمین کو چیرتی ہوئی پود واشجار کی صورت میں اول نو وآخر کہن ،کہیں طوفانِ باد باران کہیںآتش فشان،اورکہیں زلزلے کی دہشت خیز صورت میں ہورہی ہے، دن رات اپنی محور اور مدار پر محوِ رقصان اس دنیا کی کروڑوں سال پہلے کیا صورت رہی ہوگی جو آج ہماری نظروں کے سامنے ہے، واقفانِ جغرافیہ اور ہیّیت دان اس بات کی ہزارہا بار تصدیق کر چکے ہیں یہ کرّہ ارض ایک ثانیے کیلئے بھی سکون اور سکوت کا متحمل نہیں ہوسکتا ،یا یہ کہ جمود فطرت کی قوانین میں شامل ہی نہیں ،کیا زمین ،کیا آسمان ،کیا جاندار کیا بے جان ،سب ارتقاء کی سرُ سے تال ملائے جیون کی راگ گائے اپنی انتہا وُ منتہا کی جانب بڑھ رہے ہیں ،قومیں بھی اس طرح فطرت کی بُنے گئے تانے بانوں میں اپنی ارتقاء کے منزلیں طے کر رہے ہیں ،وہ خطے جو صدیوں تک آدم زاد کی دید کیلئے ترسے ،آج انسانیت کیلئے محبوب گہوارہ بن چکے ہیں اور وہ خطے جہاں تہذیب وتمدن نے آنکھ کھولی ،پرورش پائی ،آج دست برُدِ زمانہ کی وجہ سے طاقِ نسیان کے حوالے ہوچکے ہیں ،کرّہ ارض میں تغیروتبّدل کے تناظر میں قوموں کی زندگی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ جب تمام مظاہرِ کائنات کہن ونو اور تغیرو تبدل کے مراحل سے گزر رہے ہیں تو قومیں کیونکراس سے مبّرا ہوسکتی ہیں ،ماہرینِ عمرانیات بتاتے ہیں قوموں کی جملہ تاریخ انہی ارتقائی مراحل کے نشیب وفراز کوطے کر کے موجودہ صورت میں وقت کے بہاؤ میں بہہ رہا ہے ،الف ننگ دھڑنگ آدم زاد سے لیکر آج کی ترقی کی معراج کو چھونے والا انسان انہی جانکاہ اور مشکل و کٹھن راستوں سے گزر کر ظہور پذیر ہوا ہے ۔

پوری انسانیات سے یکسر کٹا ہوا اور اخفاء کے دبیز پردوں تلے دبی سرزمینِ امریکہ چیف سیٹل سے اوبامہ تک مختلف النوع اور کثیرالجہت سفر طے کرکے آج یک قطبی uni.polarدنیا کی کانٹوں بھری سہی پر تاج کا مالک ہے ۔۔۔۔۔روسی زار کے گندہ اور ظالمانہ حدتک سرمایہ داریت کے دو بھاری پاٹوں میں پسے روسی مزدوروں نے فطری بہاؤ کی روشنی میں اپنی قوت کو پہچان کر نہ صرف اپنے ملک میں حیرت انگیز انقلاب برپاء کردیا ،بلکہ سوشلزم کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے سوشلسٹ سماجوں کو قیادت کرنے کیلئے ماسکو اور کریملن کو قبلہ و کعبہ بنا دیا۔۔۔۔ ۔لاکھوں کی تعداد یورپی اور امریکی مارکیٹوں میں بردہ فروشوں کے ہاتھوں معمولی قیمت پر بکنے والے افریقی قوموں نے انسانی برادری میں نمایاں مقام حاصل کی ۔۔۔۔۔ انڈومان نکوبار کی سی زندگی بتانے والے انڈین سماج ،برطانوی نوآبادیت کیلئے زرخیز بن کر بھی اس کی تحکمانہ بادشاہت کو قے کرکے اپنی گنگا جمنی کوکھ سے ایسی نظام کو جنم دینے میں کامیاب ہوگیا کہ انسانی تہذیبوں کے سمندر ہندوستان اب ویشیا اور کسبیوں کا ٹھکانہ اور وسطیٰ ایشیا و یورپ سے آئے ہوئے فاتحوں کی مفتوحہ اور باج گزار نہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا لقب پاچکا ہے ۔۔۔۔۔دن رات افیم کے نشے میں پینک ماؤ کے چینی اب یک قطبی دنیا کے سپر طاقت کو آنکھیں بھی دکھاتا ہے اور دنیا پر راج کے نئے خواب بھی بُن رہا ہے ۔۔۔۔ایٹمی حملوں کے زخم سہنے والے پستہ قد جاپانیوں کا میڈان جاپان پوری دنیا کے اعتماد وبھروسے کا مالک ہے۔۔۔۔ریگستانِ عرب میں پانی کے دو بوند کو ترسے بدوآج دودھ میں نہا رہا ہے اور تیل میں بھی ،ریگستانِ عرب میں مختلف پھول کھلے ،مرجھا گئے ،بلکہ نئے ظہور بھی ہورہی ہے ۔۔۔۔ یورپ کے مکروہ کلیسا اور بادشاہ کی استحصالی گھن چکر ،اب تاریخ کے جھروکوں میں مشاہدے کے کام ہی آسکتے ہیں جبکہ یہ معاشرے تہذیب و تمدن کے سلسلے میں انسانی تاریخ کے دامن کو نئی پھولوں سے بھر رہے ہیں ،پنڈت ،شودر ،کھشتری ،اولوالامر اور آسمانی القاب سے مزّین شخصیات کی فرق مٹتا جارہا ہے ۔۔۔۔انسان روزافزوں برابری کی جانب بڑھ رہا ہے۔۔۔۔ ہٹو بچو کی صداؤں کے بجائے بُش اپنی دستی بیگ سنبھالے قصرِ صدارت کے پچھلے دروازے سے نکل کر سوئے گمنامی چلاجاتا ہے ۔۔۔۔آسمانی فرامین کی جگہ زمینی حقائق قوموں کی زندگی کے محور بنتے جارہے ہیں۔۔۔۔ معروض، موضوع کا گلا گھونٹ چکا ہے ،درجہ بالا یہ سب باتیں نہ خیالی ہیں اور نہ ہی آسمانوں کی وسعتوں میں کوئی غیبی قوت اِن کو ممکن بناکر زمین زادوں پر نازل فرمادیتی ہیں ۔۔۔۔یہ قوموں کی رہبروں کو الہام ہوئیں اور نہ ہی آسمانی مخلوقات نے گائے بہ گاہے ان کی مدد کی تھی ،کھلی حقیقت تو یہ ہے کہ سب مظاہر قوموں کی زندگی میں ارتقاء اور تغیر پذیری کی دین ہیں ،تبدیلی کے مراحل سے گزر کر اپنی وجود اور بقاء کی تحفظ میں وہ قومیں کامیاب و کامران ہوگئیں جنہوں نے اپنی اور آئندہ نسلوں کی بہتر مستقبل کیلئے غیروں کے عالیشان معبدوں میں جبین سائی کے بجائے اپنی جوہر کو شناس کر اور سرزمین کو آستانہ بنا کر ا س کی پاک مٹی پر بلیدان کے سلسلے چلائے تو اسی سے آزادی کے منور وتابان چندا اُبھرے ۔۔۔اسی سے خوشحالی کے کونپل پھوٹے ۔۔۔قومی گلدستہ میں وقار کے پھول کھلے اور اسی سے وہ اقتدار اعلیٰ کے مالک بنے ،مگر اس باب میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قومیں جب تبدیلی کے عمل کی دردِزِہ سے کراہ رہی تھیں تو اَناڑی داعیوں کے ہاتھ نہیں لگے بلکہ دانا و بینا رہبروں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر تبدیلی کے حمل کو کامیاب کراکر قوموں کو نئی زندگی بخشی ۔۔۔ نیا جنم دیا ۔۔۔۔نئی امکانات سے ہمکنا ر کیا ۔

قدرت کی ہزارہا صداقتوں میں سے ایک صداقت یہ بھی ہے کہ کوئی چیز بانجھ نہیں ہوتی ،ہر مظہر اپنی تسلسل کو جاری رکھ کر کسی نہ کسی طور پر اپنی نوع کو بڑھاتا رہتا ہے جبکہ کمزور اور قوتِ مدافعت سے محروم ضرور معدوم تو ہوتے ہیں مگر وہ بھی کسی نہ کسی اور صورت میں ڈھل کر ۔۔۔۔۔آج ہمیں جتنی اقوام ،انسانی برادری میں باوقار کھڑے نظر آتے ہیں یا واشنگٹن ڈی سی میں واقع قوموں کے انجمن اقوامِ متحدہ کے صدر دفاتر کی بلڈنگ پر اُن کی قومی پرچم ایک شانِ بے نیازی سے لہرا رہا ہے ،تو یہ اس حقیقت کی دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے تاریخ کا جبر سہا ۔۔۔۔۔استحصالی قوتوں کے بھینٹ چڑھے ۔۔۔۔۔جنگوں میں اپنی نسلیں جھونکتے رہے ۔۔۔۔۔سرمایہ داریت اور قبضہ گیریت کے دوزخ کی بھٹی میں جلتے رہے۔۔۔۔۔بالادست قوتوں کے زیرنگوں ہوکر بھی سرنگوں ہونے سے منکر رہے ۔۔۔۔عالمی کارپوریٹ، ساہوکاروں کی ہامانی اور مکروہ سازشوں کا شکار بنتے رہے ۔۔۔۔مٹتے رہے لیکن تھکے نہیں ہرچند کہ ہنر مند ہاتھ قلم ہوئے ۔۔۔نہ جھکنے والے سر قلم ہوئے ۔۔۔۔۔آزادی کی یافت کیلئے متحرک پاؤں شکنجوں میں کسے گئے۔ ۔۔۔قوموں کی آزادی اور بقاء کیلئے سوچنے والے دماغ بالا دست قوتوں کے زندانوں میں کیڑے مکوڑوں کے کامِ دہن کرگئے ۔۔۔۔ قوموں کی سیا سی سفر نشیب و فراز سے بھری پڑی ہیں ،تاریخ کی خون چکاں ہولناکیا ں صرف زیبِ داستان کیلئے افسانہ طرازوں کی ذہنی اخترا عات نہیں بلکہ اپنی اور بقاء کی لڑائی میں تہہ تیغ کئے گئے مجاہدوں کی بہت کم حصہ کو تاریخ محفوظ کرسکی ہے کیونکہ خودتاریخ ڈوبنے والے اُس بحری جہاز کی مانند ہے جس کے جتنے حصے بچائیں اس سے کہیں زیادہ بہہ جاتے ہیں ۔اسے کون جانتا ہے کہ فرنگیوں نے کتنے انڈین کو کالا پانی میں مار کھپایا ۔۔۔۔جلیانہ والا باغ میں تو ہندوستانی شہداء کے لاشوں کی گنتی سے خود انگریز بھی عاجز آگئے تھے ،تاریخ میں یہ بھی وافر مقدار میں معلوم داری نہیں کہ زار نے کتنے سوشلسٹوں کو سائبیریا میں منجمد کرادیا ۔۔۔۔۔ویتنام میں امریکی نیپام بموں نے کیا کیا حشر سامانیا ں ڈھائے ۔۔۔۔۔۔یورپی اور امریکی بردہ فروشوں نے افریکیوں کو کن کن ہوسناکیوں کا شکار بنایا ۔۔۔۔ ایٹمی حملوں کا زخم سہہ کر کفارہ ادا کرنے والے جاپانیوں نے چینیوں کو کس قیامت سے گزارا ۔۔۔۔قوموں کی آزادی اور بقاء کی جنگوں میں کروڑوں لوگ کام آئے ،تاریخ کہا ں تک سمیٹ سکتی ہے ،ہا ں صرف یہودیوں نے اپنی نسل کشی کو درجہ دے دلا کر 146146ہولوکاسٹ 145145 کے نام سے امتیازی حیثیت حاصل کی وگرنہ حقیقت تویہ ہے کہ ہر قوم اپنی تاریخ میں ایک آدھ ہولو کاسٹ سے ضرور دوچار رہا ہوگا،تاریخ محض چیدہ چیدہ واقعات کو اپنے دامن میں پناہ دے سکتی ہے ،جنگ زدہ خطوں کی تاریخ تو محض انسانی خون سے لبِ لباب بھرے ندی کے بہنے کی آواز ہے اس میں کس کس کی خون شامل ہے ،کوئی نہیں جانتا ہے،اس کے باجود انسان کی مجموعی شعور اس بات کا واضح ادراک رکھتا ہے کہ بگ بینگ یا عظیم دھماکے سے لیکر عصر جدید تک چشمِ فلک نے کائنات میں جن جن تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے اسی طرح انسانیت بھی حق وباطل اور غلامی سے آزادی کے جنگوں میں باآسانی ہرگز نہیں گزرا ہے ۔آج امریکی صدر کی ہر بات پردنیا کے آمناوصدقنا کہنے کی مطلب یہ نہیں ہے صدر امریکہ کو یہ قوت اس کی 146146آسمانی باپ145145 القاء کرتی ہیں بلکہ اس کے پیچھے گوروں کی قربانیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے امریکیوں نے منتظر فردا ہونے کے بجائے ارتقاء سے ہم آہنگ رہے ،تبدیلیوں کا ساتھ دیتے رہے اور انہیں اپنی قومی مفادکیلئے استعمال کرتے رہے۔ یہ کیا بوالعجبی ہے کہ جلیانہ والا باغ میں جب خون کی ہولی کھیلی گئی تو گوروں نے ہندوستانیوں کے لاشو ں کی باعزت تجہیز وتکفین اپنی جگہ ان کی گنتی تک گوارہ نہیں کیا،آج یہی گورے ہندوستان کی جدید تو کجا ،راجستھان کے لوک ثقافت کو انسانیت کا اثاثہ قرار دیتے ہیں ،ہندوستان سے برطانوی راج کی انخلا اور آ ج ہندوستانی چوکھٹ پر جبین سائی ، سادھوؤں کی دنیا کو تیاگ کر تپیسیا اور ماورائے عقل ریاضتوں کی کرامت نہیں بلکہ سبھاش چندر بوس کی ولولہ انگیز قیادت اشفاق اللہ خان ،بھگت سنگھ ،راج گرو،جتندر داس ایسے آتش بھرے نوجوانوں کی قربانیاں ہیں ۔۔۔۔آج چینی قوم کے سنگھاسن پر ہیرے موتی اک آب و تاب سے چمک رہے ہیں تو ماؤزے تنگ کی دانشمندہ قیادت ، جذبہ شہادت سے لبریز چینیوں کی جنگ آزادی اور دنیا کی سب سے بڑی لانگ مارچ میں ہر قدم پر موت کو گلے لگانے اور گور وکفن سے محروم جانبازوں کی بے مثال قربانیوں سے صرفِ نظر کرنا ہمیں انسانیات کے درجے سے گرا کر بونا ہی ثابت کرتا ہے ۔۔۔۔۔آج دنیامیں طیب اردگان اک آن کا مالک ہے ،انگریزی کے بجائے اپنی قومی زبان میں بات کرتا ہے تو کمال اتاترک کی اُس چاک اور تختہ سیاہ پر ایک نظر ضرور ڈالئے کہ جن کے ذریعے انہوں نے اپنی قوم کو سلطنت عثمانیہ کے باقیات پر نوحہ خوانی سے نکال کر جدید قوم بنایا ۔۔۔۔۔ترقی دلایا اور دنیا میں ہمسفری کے خواب دکھائے ۔

فطرت کا سفر جاری ہے ،کہیں آتش فشاں نئے جلوے دکھارہے ہیں تو کہیں سمندر نئی دنیا ؤں کی بنیادیں رکھ رہا ہے ،کہیں طوفانِ بادوباراں دنیا کو نئی امکانات سے روشناس کرہا ہے ،تو کہیں زلزلے انسانیت کو نئی درد کے لذت سے آشنا کرکے مثبت تخلیق کیلئے مہمیز دے رہے ہیں ،اسی طرح قوموں کے جاری سفر میں غلامی اور آزادی کی نئی تاریخ رقم ہورہی ہے ۔۔۔کل تک دردِ غلامی سے لوٹ پوٹ ہونے والے آج آزادی کی سرور سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔۔۔کل جو قومیں محض کالونی تھے ،نوآبادی تھے ،آج اپنی کالونائزر اور نوآباد کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر اپنی حیثیت مستحکم کرچکے ہیں ۔۔۔استحصال بھری غلامی اور قبضہ گیریت کے درد ناک تاریخ میں بلوچ قوم بھی آج انہی مراحل سے گزر رہا ہے جن پر کل تک ہندوستان ،افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک گزررہے تھے،آج بلوچ فرزند بھی غلامانہ ذہنیت کو اسی طرح چاک چاک کر رہے ہیں،جس طرح بھگت سنگھ اور ساتھیوں نے کی تھی ۔آج بلوچ بھی اسی طرح تاریخ رقم کررہا ہے جس طرح الجزائریوں نے فرانسیسی اور ویتنامیوں نے امریکیوں کے خلاف کی تھی ۔

آج بلوچ جاگا ہے ۔۔۔بھر پور جاگا ہے گو کہ ذرا دیر سے سہی ۔۔۔شاشان کی چٹانیں آج سرمچاروں کے پاؤں کی برْمش سے ترک رہے ہیں ۔۔۔۔۔ بولان نئی نظاروں سے محظوظ ہورہا ہے۔ ۔۔۔۔سیاہ آف ،ہڑب اپنی تجدید آپ ملاحظہ کررہا ہے ،تلار،سائیجی حق وباطل کے درمیان نئی معرکہ آرائیوں کی امین بن رہا ہے ۔۔۔۔۔ساحلِ بحرِبلوچ تاریخ کے نئے طلاطم کو اپنی دامن میں سمیٹ رہا ہے ۔۔۔۔سراوان ،جھالاوان اور خاران ،مکران کو گلے لگارہا ہے ۔۔۔۔کندھے سے کندھا ملا رہا ہے ۔۔۔۔دشت و صحرااور کہسارومیدان کی فرق مٹ رہا ہے ۔سرزمین آستانہ بن چکا ہے آزادی کے نور سے روشن گھر میں اب ابراہیم آذر کو حق کی سبق پڑھا رہا ہے ۔۔۔۔۔گھر کی کلہاڑی گھر میں موجود بتوں کو پاش پاش کررہاہے ۔۔۔۔بت اپنی وجود کو بچانے کو بڑے آذر کی منت سماجت کررہے ہیں مگر تا کد ۔۔۔۔۔چاروں سمتیں مرتکز ہوئے جارہے ہیں اپنی مرکز میں ،منبع میں۔۔۔۔۔تاریخ ہی اپنی شباب میں ایسے نظاروں سے لطف اندوز ہوسکتا ہے کہ سدّو کاہان کی بجائے مکران میں دھرتی ماں کی آغوش میں سمانا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔سورابی جلیل ریکی ، ملا فاضل کے ہدیرہ کے آس پاس نئی جنم پاتا ہے ۔۔۔۔۔۔مستونگ کے شاہوانی سنگت ثناء مرگاپ میں لالہ منیر اور غلام محمد سے قول نبھاتا ہے ۔۔۔۔کوہلو کا مری مشکئے کے اللہ نذر کی کمان میں سر بکف ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔سروں کے آپسی ضرب کاری میں مصروف منگچر کے لانگو میر غفار بالاچ کو رخصت کرکے بے مہر لسبیلہ میں حق وصداقت کی یافت کیلئے روشن لکیر چھوڑدیتا ہے ۔۔۔۔۔ناکو خیربخش میدانِ حق وباطل میں سرکٹواکر فرہادکی ہمسری پاتا ہے۔۔۔۔۔پیرانہ سالہ کماش نصیر کمالان سرزمین کی آجوئی کیلئے انقلابی گیت گاگا کر اپنی سر دان کردیتا ہے تو بارہ سالہ مجید جان اور وارث زہری بھی آتشِ عشق میں شعلوں کو خاطر میں لائے بغیر بے دھڑک کود پڑتے ہیں ۔۔۔۔۔صدقے جاؤں تاریخ اور فطرت کے اٹل قوانین کی ،کہ جب بلوچ نے آزادی کے پر کشش صدا پر لبیک کہی تو اس سے کوئی بھی اپنی دامن نہ بچا سکا ۔۔۔۔۔دوست تودوست بدترین دشمن بھی اقرار کر بیٹھا کہ واقعی بلوچ لڑرہا ہے، طبقاتی جالوں ، سطحی تفاخر اور غلامانہ اَنا کے دیواروں کو توڑ تاڑ کر سب لڑرہے ہیں ۔۔۔۔۔بولان کا نوجوان ، مکران میں لڑرہا ہے۔۔۔۔۔ اورماڑہ کاساحلی گبھروبابو نوروزکے میر گھٹ کو اپنی مستقربنا چکا ہے ۔۔۔۔۔قومی تحریک کے حوالے سے بانجھ پن کی طنز سہنے والی خاران بھی شہداء کے لہو سے سیراب ہو کر کاروان کیلئے نئی پھولوں کی نمو ایک ادائے بے نیازی سے کر رہا ہے ۔۔۔۔۔ بی این ایم اور بی ایس او کے سنگت اور مزاحمتی میدان کے سرمچار راہِ حق میں جامِ شہادت نوش کرتے ہیں، تواین جی اوزکے نعیم صابر اور گلوکار علی جان ثاقب ،فقیر عاجز بھی لونگ خان بن جاتے ہیں ۔۔۔۔اپنی جان نچاور کرکرکے بلوچ آزادی کے زیر تعمیر عمارت میں اپنی مضبوط خشت نمایاں جگہ پر لگادیتے ہیں ۔۔۔۔۔جنگ جاری ہے ،حال واحوال کے ذرائع روز خبر لاتے ہیں، جانبازوں اور جانثاروں کے دادوشجاعت کی نئی داستانوں کا ۔۔۔۔۔شہادت اور تشددکا۔۔۔۔ گاؤں کے گاؤں کی دشمن کے ناپاک ہاتھوں آتش زدگی کا۔۔۔قابض کے مرکھپنے والے دستوں۔۔۔۔کرایے کے سپا ہیوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا۔۔۔۔۔ قابض کے لوٹ مار کے ذرائعوں کی تباہی کا۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن مجال کہ کہیں سے پشیمانی یا جان کے زیاں پر افسردگی کا کلمہ، کوئی بات،کوئی خبر آئے،جھوٹ کے انباروں کے مالک دشمن بھی ہزارہا پینترا بازیوں کے باوجود اب تک پشیمانی اور معافی جیسی خبر تخلیق نہ کرپائی ۔غلامی کے تند وتیز نشتر جب روح پر چبھ جاتی تو اس کی لِذت آمیز دردپورے وجود میں سرایت کرجاتی ہے اس درد آشنائی کے بعدہر کَس اپنی بس اوربساط کے مطابق ہمسفر بن جاتی ہے اُن لوگوں کی، جو غلامی کے قہر سامان تاریکیوں میں آزادی کے نور گُل رہے ہیں ۔۔۔۔۔جو وقت کے فرعون کی جڑیں کاٹ رہے ہیں ۔۔۔۔۔جو آزادی کے دیوتا کی حضوراپنی لہو سے دیپ جلائے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔جو بقاء کی حصول کیلئے فناء کو گلے لگارہے ہیں ۔۔۔۔۔آج بلوچ دھرتی پر، ہرسو رقصِ بسمل بود شب جائے کہ من بودم ،لیکن تاریخ کے مزاج سے آشنابلوچ ،قومی تکمیل کے مراحل میں ان مظالم کو شفقت و رافت کے پھول سمجھتا ہے ۔۔۔۔۔ان کی خوشبو سے اپنے دل و دماغ کو معطر کردیتا ہے۔ ۔۔۔۔ پنر جنم کے صدیو ں کے انتظار کے بجائے نئی جنم کو آپ گلے لگاتا ہے ۔۔۔۔۔۔اپنی ہستی کو بظاہر نیستی کا رزق بنا کر ایسی ہستی پاتا ہے کہ جس کا کوئی انت نہیں ۔۔۔۔۔اور جسے کوئی فنا ء نہیں ۔۔۔۔بقاء بھی ایسی کہ اللہ رب العزت بھی گوائی دے
اور شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں ۔۔۔۔

آج کچھ نظاروں پر تاریخ بھی انگشت بدنداں ہے ذرا دھیاں دیجیے کہ ایک طرف شادی ہے جو نئی بندھن ہے اور تخلیق کے سفر کا آغاز ۔۔۔۔۔نئی امنگوں، نئی آرزوؤں کے در، واکرنے کی سبیل و سبب ہوتی ہے اس لئے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے، مبارک سلامت کے پیام و سلام آتے ہیں ،دوسری موت ہے جو زندگی اور اس کے لالہ زار خوشیوں کا گلہ گھونٹ دیتی ہے ۔۔۔۔دوست و عزیزاور رشتہ دار وسنگت کی جدائی ناقابلِ برداشت ہوتی ہے اس لئے ماحول پر رقت طاری ہوتی ہے۔۔۔ ماتمی لباس پہنا جاتا ہے۔۔۔ بیوائیں سیاہ پوش ہوجاتی ہیں اپنی سہاگ کے لٹنے پر مائیں بین کرتی ہیں اپنی گود اجڑنے پر ۔۔۔۔۔بہنیں چادر تار تار کرتی ہیں اپنی ننگ وناموس کے محافظ کی جدائی پر ۔۔۔۔۔مگر آج تاریخ اس بات پر ششدر وحیران ہے کہ بلوچ دھرتی پر جہاں کہیں کسی جان باز کی لاش آتی ہے تو کجا کہ ماتم ہوجائے ۔۔۔۔ماحول پر موت کی عفریت چھا جائے بلکہ اس کے بالکل برعکس کچھ نظارے دیکھنے کو ملتی ہیں مائیں سنگھار کرتی ہیں ۔۔۔۔۔بہنیں مہندی گوند کر شہید بھائی کو لگاتی ہیں ۔۔۔۔۔بوڑھا باپ فخر کا اظہار کرتی ہیں ۔۔۔۔۔بھائی پھولوں کے گجرے لاتی ہے ۔۔۔۔۔اہلِ محلہ طربی گیت گاکر شہید کو دولہا بنا کر سرزمین کے عجلہ عروسی کے سپرد کردیتے ہیں ۔۔۔۔۔یہ سب کسی پاگل پن کا شاخسانہ نہیں بلکہ آج بلوچ قومی شعور کی اُس نہج پر دستک دیکر یہ جان چکا ہے کہ سرزمین کی آزادی اور قومی بقاء کیلئے قربانیاں ہی اصل شادی ہے ۔۔۔۔۔آرزوؤں کی تکمیل ہے ۔۔۔۔۔تخلیق کا تسلسل ہے۔۔بقاء کا وصل ہے۔۔۔۔۔تاریخ کا نمو دہے ۔۔۔ ۔تاریخ سہل کاری اور جان دزی سے کبھی رقم ہی نہیں ہوتی ہے ،آج بلوچ کی قومی تاریخ شہداء کے لہو سے لکھی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ بہت ہی محکم و مضبوط ہے کیونکہ آج جہد کار، قناعت کے تانے بانے سے کاتے گئے محبت میں نیکی کی گرہیں اور سچائی کے بَل دے کر سرزمین سے اپنی تعلق اس طرح استوار کرچکا ہے کہ جس کا کوئی توڑ نہیں ۔۔۔۔ یہ شہداء ہی تاریخ کے ماتھے اصل جھومر بنتے جارہے ہیں اب ایسی صورت کسی قوم کو میسر ہو تو وہ کیونکر فناء کی خوراک بن جاتا ہے ۔

صدیوں کی ارتقائی منازل طے کرکرکے آج بلوچ دھرتی اس خطے میں روبہ عمل مثبت تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہو کر غلامی کی تاریک ترین دور سے چھٹکارا پا کر آزادی کی روشنیوں کو گلے لگا رہی ہے ،پرانے اور بوسیدہ نظام کی جگہ جدید علمی و سائنسی انتظام و انصرام کو اپنے معاشرے میں جذب کرکے کلاسیک روایات کی جدید عصری تقاضوں سے جدت طرازی کرکے خوب صورت اور باوقار مستقبل کومضبوط بنیادیں فراہم کررہا ہے ،طویل غلامی سے پیدا شدہ جمود اور لا حاصل ٹھہراؤ،جنگِ آزادی کے بابرکت حرکت میں معدوم ہورہے ہیں ۔

بلوچ سماج قابض کی تمام ہامانی ،شدادی اور فرعونی روپ بہروپ کا مشاہدہ کرچکی ہے۔۔۔ انہیں جھیل چکی ہے۔۔۔۔قوموں کے تاریخ اور جنگی روایات کو کسوٹی پر رکھ کر ان کی تجزیہ و تحلیل کرچکی ہے اور اٹل فیصلہ بھی کہ اب بس تیار ہے بلوچ نئے جنم کیلئے ۔۔۔۔نئے بلوچستان کی ظہور کیلئے ۔۔۔۔اور اس بلوچستان کی آزادی کیلئے جس کی معیت میں بہت سی قومیں صفیں بچھانے کیلئے بے قرار ہیں ،دنیا یہ باور کرچکی ہے کہ آج بلوچ لڑرہا ہے بندوق سے۔۔۔چاقوسے ۔۔۔ غلیل سے۔۔۔پتھر سے ،تو صرف آزادی کیلئے ۔۔۔اور لڑکر یہ ثابت کرچکا ہے کہ پاکستان کی مصنوعی طاقت اور اس کے طاغوتی حواری ،راندہ درگاہ کاسہ لیس جرائم پیشہ ساتھی تاریخ کے بے رحم موجوں میں کھوجانے والے ہیں ۔۔۔۔۔آج بڑھاپے میں جوانی بھری رنگ وروپ رکھنے والے فلاسفر بابا مری اُس منزل کو اپنی ادراک کی آنکھ سے ممکن ہوتا دیکھ پاتا ہے جس کیلئے انہوں بالاچ کھو دیا ہے تو ایک تین سالہ ننھا منھا بچہ بھی بلوچستان کے فضاؤ میں تحلیل آزادی کے جلترنگ کو اپنی توتلی زبان میں آجادی ،آجادی کہہ کر مسکائے جارہی ہے جس کیلئے انہوں نے اپنے ابو کو الوداع کہہ دیا ہے ۔

آج بلوچ نہ صرف قابض کے فوجی یلغار کے خلاف اپنی آزادی کے جنگ لڑرہا ہے بلکہ پنجابی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں اپنی تہذیب کی تجدید نو بھی کررہا ہے ،اس نوک پلک سنوار رہا ہے ، بلوچ بچیا ں پاکستانی پرچم کے بنی وردیا ں جلا کر بلوچی ڈریس پہن کر سکول میں پڑھائی لینے جا رہی ہیں ۔۔۔۔پاکستانی پرچم ناک کٹوا کر بلوچ دھرتی سے بھاگ نکلا ہے ۔۔۔۔بلوچ طلباء دروغ پر مبنی پاکستانی نصاب کے بجائے آزادی بخش کتابیں اور انسان دوست مفکروں کے شذرے پڑھ رہے ہیں ۔

جنگِ آزادی نے مختصر دورانیے میں وہ مقام حاصل کرچکا ہے کہ پوری عالمی برادری بلوچ قومی رہنماؤں سے پیام و سلام کو نئے بلوچستان کے ساتھ اپنی تعلقات کی خشت اول رکھنے کے مترادف قرار ددے رہے ہیں ،دنیا کے موجودہ سپر طاقت امریکہ بھی بتدریج احساس کرچکا ہے کہ پاکستان کی پیٹھ تپ تپاکر اس سے تاریخی غلطی سرزد ہوچکی پاکستان نہ صرف انسانی اقدار سے محروم ہے بلکہ دنیا میں امن اور ترقی و خوشحالی کا ازلی دشمن بھی ہے۔۔۔۔۔اس میں کسی قسم کا شک نہیں رہا کہ کل جب بلوچستان آزاد ہوگاتو یہ سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے اڈہ نہیں ہوگا بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں کا آستانہ ہوگا ،اور بلوچستان کی آزادی کوئی مشروط قسم کی آزادی نہیں ہوگی بلکہ ایک باوقار اور شاندار قومی آزادی ہوگا ،گوکہ آج کوئی ملک سرکاری طور پر بلوچ قوم کی آزادی کی حمایت سے گریزکررہا ہے مگر مخالفت بھی نہیں کررہا ہے لیکن انسانی اقدار اور بین ا لاقوامی اصولوں کے مطابق جوں جوں یہ جنگ منطقی انجام کی جانب بڑھے گا ،دنیا بھر کے لوگ اور سول سوسائٹیاں ہمارے حق میں آواز اُٹھانا شروع کریں گے ،میں اپنی چشمِ تصور سے واضح طور پر دیکھ رہا ہوں کہ دنیا بھرکے دارلحکومتوں میں بلوچ بارے عظیم الشان جلوس نکل رہے ہیں ،بلوچ نسل کشی پرپاکستان کے خلاف مذمتی قراردادیں پیش ہورہی ہیں، بین القوامی اداروں سے اس دہشت گرد اور انسان دشمن ریاست کی رکنیت ختم ہوتی جارہی ہے ،قوموں کی زندگی میں چند سال کوئی معنیٰ نہیں رکھتے لیکن آثار وقرائن یہ واضح طور پر ظاہر کررہے ہیں کہ بلوچ وہ عظیم منزل چند ہی سالوں میں پالے گاجسے حاصل کرنے کیلئے دوسرے قوموں نے شاید صدیوں کا سفر طے کیا ہو

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں