اتوار، 10 دسمبر، 2017

بلوچستان کا عظیم یادگار '' کولپور'' ـــ شعیب امان سمالانی



یوں تو بلوچستان پہاڑوں پر بسا ہے اور پہاڑوں کی سرزمین ہے لیکن کولپور بازار کا حسن کچھ الگ ہے جو پہاڑ پر بسا بازار ہے ۔کولپور ایک گزرگاہ
 بھی ہے لیکن غیروں کیلئے اپنے تو اس کی پہاڑی سے یوں منسلک ہیں جیسا کہ یہ بھی اس پہاڑ کا حصہ ہوں ۔ مختصر لیکن بل کھاتا راستہ اور پہاڑ ی پر قائم قدیم بازاراور اس کے قدیم مکین  قدیم مندر جو پہاڑی پر قائم ہے ۔کولپوردو انتہاءکے مذاہب کے پیروکاروں کا قدیم بسیرا ۔بالکل مذہبی ایلمی کی بہترین مثال۔ برف پڑتی ہے یہاں۔سردیوں میں قلعہ بند اور گرمیوں میں بلوچستان کے بہار کا دروازہ ۔ایک مشہور ریلوے اسٹیشن ۔جہاں سے ریل کلمہ پڑھ کر ول ولے بولان میں اترنے لگتی ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے سامنے کا پہاڑ نسبتا اونچا پہاڑ ہے اور ریلوے اسٹیشن کی خوبصورتی اپنی جگہ اسٹیشن کے پاس مغرب میں ایک خوبصورت ٹنل ۔ٹنل سے مغرب کی جانب نکلتے ہی دشت کے میدان اور کوئٹہ سے آتے ہوئے ٹنل سے پاس ہوکرکولپور کی وادی اورپھر اونچے پہاڑوں کا طویل سلسلہ ۔ یہ بولان کا نقطہ آغاز ہے اور یہ سرکاری حدبندی نہیں بلکہ یہ ہمارے آباﺅ اجداد کی حدبندی ہے جس نے جابجا پہاڑوں کو حدمقررکیا ۔پہاڑوں کو دیوتا مانا ان کے خوبصورت نام رکھے۔خود کولپور اور دزان سے بھی پرے شوگ نامی پہاڑ سراٹھائے چاروں طرف نظریں جمائے ہوئے ہے ۔کیسا نیلا پہاڑ ہے ۔اپریل تک اس کے سرے پر برف جمی رہتی ہے ۔عین سر پرسفید دستار کی مانند ۔
جب اوشوکوہ ہمالیہ کی بات کرتا ہے اور اس کے مراقبے سے لبریز ہونے کی بات کرتا ہے تو وہ اس وقت دل کو چھولیتے ہیں ۔بولان کے شوگ پر سبزہ نہیں نہ اس پر کسی بزرگ کا مزار ہے نہ کوئی یادگارنہ چڑھنے کیلئے یاتروں کا رش لیکن کاش اس کی چوٹی سرکرکے اپنے تاثرات بیان کرنے والا کوئی ہو ۔شوگ سے بولان کی ندیاں اور ان میں بہتے چشمے  طویل اور خشک پہاڑی سلسلے اور ان میں جگہ جگہ جنگل ضرور نظرآئیں گے ۔
کولپور کے مغر ب میں شیر چائی مٹی سے زرخیز دشت گندان(گنڈین) جلب گندان جنوب میں تاریخی علاقہ مرو جس کا ذکر تاریخ کے ان قدیم آبادیوں میں آتا ہے جن کا دمب ابھی بھی مرو میں موجود ہے ۔
کولپور کی چڑھائی اور اس چڑھائی میں آباد قدیم بازار اور اس کے نیچے آبادی پھر آبادی کے سامنے ریلوے اسٹیشن اور ریلوے کے کوارٹرز اور ریلوے اسٹیشن کے سامنے اونچا پہاڑ جو صبح نور کی کرنیں کولپور پر تادیر تک بکھیرنے نہیں دیتا ۔تب کولپور کی آبادی سردیوں کی صبح شدید سردی کے نرغے میں ہوتی ہے جبکہ گرمیوں میں اس کےخوشگوار میٹھے گہرے سائے سے لطف اندوز ہوتی ہے ۔ بازار ہندو کا ہے خریدار مسلمان ہیں کھاتہ دار ی چلتی ہے۔یہ بلوچستان کا بہت بڑا حسن ہے ۔بلوچستان کا حسن باقی ہے کہ کولپور میں ہندو باقی ہیں ۔ہندو میرے دادا کی تعزیت پر آئے تھے ۔ہندﺅں سے مرک وزند کی سیال سیال گری قائم ہے ۔
کولپور بازار میں دکانیں کیسے بنائی گئی ہیں یہ بھی ایک شاہکار ہے ۔اس بازار کو اپنی مدد آپ کے تحت بل کھاتے پہاڑی راستے پر کیسے مزین کیاگیا ہے یہ ایک آرٹ ہے ایک تہذیب کی ۔دکانیں پکی اورکچی ہیں لیکن اس قدر مضبوط کہ اب تک قائم ہیں ۔بڑی سائز کی دکانیں بنائی گئی ہیں ۔ بعض دکانوں میںپہاڑ کے چھوٹے ٹیلے بھی اندر ہیں۔ بازار کے درمیان سے ایک راستہ نیچے آبادی کے لئے نکلتا ہے اور آبادی کی طرف کی دکانیں دومنزلہ ہیں ۔ بازار سے نیچے اترکردکانوں کو دیکھاجائے کس مہارت سے جوڑی گئی ہیں اور دومنزلہ بنائی گئی ہیں۔ پھر مندر کے لئے سیڑھیاں بازار کے درمیان سے اوپر کوجاتی ہیں ۔کولپور کا گوبندام سمادھا آشرم مندر اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اس کا سالانہ میلہ لگتا ہے ،کولپور اپنے ہند سندھ سے آئے نسل درنسل یاتریوں کی آمد پر اور نازاں نظرآتا ہے ۔رنگ برنگے لوگ آتے ہیں ۔کولپور کو کوئی اس میلے کے دن آکر دیکھ لے کولپوربلوچستان اورہند سندھ کا حسین امتزاج لگے گا145اور دیکھنے والے کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ضرور بکھرے گی اور یہ یاتری کولپور سے باسن دیر (کوہ باش )تک موج میلے کرتے نظرآتے ہیں ۔باسن دیر کے میٹھے پانی پر بھی یہ بجھن گاتے ہیں ۔عجب سر بکھر جاتا ہے ۔بولان ان سروں سے ناآشنا نہیں ۔ بولان کی فضاﺅں میں ان سروں کی صدیوں سے گونج ہے ۔
بولان سے آنے والا تھکاماندہ شوہان اپنے بزگل (ریوڑ ) کو کولپور کے بائی پاس سے بھیج کر خود راشن لینے کولپور ضرور آتا ہے ۔یہاں چینکی ہوٹل پر چائے ضرور پیتا ہے ۔سیٹھ سے گڑ اوردیگر اشیاءخوردنوش ضرور لیتا ہے کہ اسے چلتن کے پار تک کیلئے راشن چاہئے ۔یہ شوہان کولپور کھنڈ سے پار ہوکر دشت کے میدانوں میں پھر سے اپنے سنگتوں سے جاملتا ہے ۔
کولپور بازار کی 1906کی ایک تصویر ہے ۔بازار میں اونٹ ہی اونٹ نظرآتے ہیں یعنی اس وقت سٹرک اس قدر استعمال نہیں ہوتی تھی ۔اونٹ یونہی باندھےہوئے ہوتے تھے ۔لوگ راشن خرید کر ان اونٹوں پرلادتے تھے پھرانہیں دشت جلب گندان گنڈین مرو اسپلنجی اور مشرق کی جانب محمد گزئی اور دزان تک جانا ہوتا تھا ۔کیا دور رہاہوگا ۔ کولپور کے اس وقت کے مکین کس شان سے چلتے ہونگے ۔بازار میں چائے پیتے ہونگے ،حال احوال کے دور پر دور چلتے ہونگے ۔کتنی سادگیاں ہونگی ،لوگ نوکریوں کے اشتہارات کی بجائے تیزبارش سے بھیگ کر اچھی فصل کی امید پر خوش ہوتے ہونگے اور پھر سے چائے کا دور چلتا ہوگا ۔ بلاسود وام وامداری (قرض قرضداری ) چلتی ہو گی ۔
کولپور میں ڈاکخانہ بھی بہت پرانا ہے اس کی عمارت شاہد وہاں موجودتمام عمارتوں سے بلند ہے ۔اس کی نئی عمارت باز ار سے مشرق کی جانب کچھ فاصلے پر سڑک کے بالکل پاس کھڑی ہے ۔یہ ڈاکخانہ بھی عمر میں بہت بڑا ہے اور کولپور کی تاریخ کا شاہد ہے اور یہ وہ مرکز رہا ہے جہاں چاروں طرف سے بند اس چھوٹے سے شہر اور اس کے لوگوں کیلئے امیدوں کا مرکز رہا ہے ۔چھٹیاں بانٹھی جاتی رہی ہیں یہاں سے۔ بلکہ ڈاک بابو خود ہی چھٹی پڑھ کر سنایاکرتا رہا ہے ۔لیویز تھانے کیلئے احکامات ہوں یا ریلوے ملازمین کیلئے کوئی سندیسہ یہ ڈاکخانہ ہمیشہ فعال رہا ہے ۔بعد کے وقتوں میں ریلوے اسٹیشن اور اس کے ملازمین کی اچھی خاصی تعداد اور پھر لیویز اہلکاروں کی موجودگی کی وجہ سے علاقے میں تنخواہ دار بھی موجود تھے اور اب بھی ہےں ۔سکول بھی پرانا ہے جو اب ہائی سکول ہے گرلز سکول بھی موجود ہے ۔
کولپور بولان کاتاریخی اور پرانا حصہ ہے ،یہاں کے مکینوں نے انگریز کو کولپور کا پہاڑ ہندوستانی محنت کشوں سے کٹواتے دیکھا جنہوں نے 1893میں اسے کاٹ کر ٹنل بنایا ۔پھر یہاں ریلوے اسٹیشن بنایا ۔اب تو ریلوے اور اس کی سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان انگریز کا خوبصورت طرز تعمیر بولان کی خوبصورتی کا حصہ بن چکا ہے ۔ کولپور اسٹیشن نے کولپور کی آبادی اور اس کے بازار کو وسعت دی اور یہاں کا بازار مزید بارونق بن گیا۔اور جب اس کے بازار سے ٹریفک کا گزر شروع ہوا تو اس کے کھنڈ پر گواڑخ کے گلدستے ہاتھ میں سجائے بہار کی آمد کا اذان دینے والے کھڑے نظرآنے لگے اور یہ کولپور کی خوبصورتی کا ایک اور جواز بن گیااب بہار کی آمد پر یہاں دشت کے گواڑخ گلدستے کی صورت میں ملتے ہیںاور قلعہ بند سردی میں نوجوان گرم انڈے بیچتے نظرآتے ہیں یہ اب روایت بن چکی ہے ۔ یہی کھنڈ کولپور کی آبادی اور اس کی قبرستان کو تقسیم کئے ہوئے ہے ۔
آج جب کولپور سے گزرتا ہوں تو پتہ نہیں کیوں نئی بائی پاس سڑک سے جانے کو دل نہیں کرتابس یونہی کولپور کی بال کھاتی سڑک اور ا س میں کچھ کھلی اور کچھ بند دکانوں سے گزرتے ہوئے آگے جاکر ایک نظرنیچے آبادی پر ڈالنے کو دل چاہتا ہے ۔یہ ہماری تہذیب کی ایک کہانی لئے ہوئے ہے ۔پہلے لگا کہ بائی پاس بن گیا تو کولپوربازار کے رونق کا کیا ہوگا ؟لیکن اب شکر بجالانے کا مقام ہے کہ اگر بائی پاس سڑک نہ بنتی تو کسی دن بڑے بڑے کنٹینروں کوراستہ دینے کیلئے تہذیب کے اس انمٹ گوشے پر بلڈوزر چل جانے تھے جیسے کہ مہر گڑھ پر چل گئے۔آج کے مفادات کے سامنے کولپور اور مہر گڑھ کے یادگاروں کی کیا حیثیت۔
صدیوں پہلے اس بازار میں بیٹھے لوگوں کی یادیں ان کی سود وضیاع سے پاک ہنسی اور کھلھلاہٹ اب بھی اس بازار کے درودیوار میں محفوظ ہے ۔قدیم بازار اوراس کے پرانے مکانات کے درو دیوار پر اگر دیکھنے والی آنکھ سے دیکھاجائے تو سب صاف نظرآئے گا اور سننے والے کان سے سنا جائے تو اس ہنسی اور کھلھلاہٹ ٹاکو  کی گونج اب بھی سنائی دے گی۔لوگوں نے یہاں بیٹھ کرعلاقے کے موسم پر بات کی ہوگی ۔کس سمت سے آنے والے بادل برسیں گے اور کون سے بادلوں کو تیز ہوا اڑا کرلے جائے گی۔فصل کیسے ہوگی مالداری کا کیاہوگا؟ کولپور کے بازار میں ان معاملات پر ماہرانہ رائے کا اظہار ہوتا ہوگا اور چائے پر چائے کا دور چلتا ہوگا ۔کوئی شوہان اگر بولان سے آتا دکھائی دیتاہوگاتو اسے ضرور حال احوال کرکے کچھی کے موسم اور آبادی(فصلوں کی پیداوار) کے بارے میں پوچھاجاتا ہوگا ۔
کولپور بلوچستان کے عظیم یادگاروں میں سے ایک یادگار ہے

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں