بدھ، 4 مئی، 2016

عابد میر کی تحریر اور گلزار بلوچ کا جوابی تحریر



طبقاتی بلوچستان میں غیر طبقاتی سیاست

عابد میر

’’دنیا کے مزدورو‘ ایک ہو جاؤ‘ ‘۔۔۔یہ شاید دنیا کا اب تک سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نعرہ ہے۔ وہ نعرہ جو محنت کشوں کے بائبل ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ نامی مختصر کتابچے کی پیشانی پہ جگمگا رہا ہے۔ وہ مینی فیسٹو جس کا آغاز اس مشہورِ زمانہ فقرے سے ہوتا ہے کہ،’’یورپ کے سر پرایک بھوت منڈلا رہا ہے؛ کمیونزم کا بھوت۔‘‘اس مختصر پمفلٹ کے اس فقرے کو اس سال فروری میں 168سال مکمل ہو گئے، یورپ آج بھی اس بھوت سے پیچھا نہیں چھڑا سکا۔اپنی تخلیق(1848ء) کی انیسویں صدی میں دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا یہ مختصر کتابچہ اب تک سو سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو کردنیا کے کروڑوں انسانوں کی رہنمائی کا سنگِ میل رہا ہے۔ اس کا تازہ و آخری ترجمہ بلوچی زبان میں ابھی دو سال پہلے، بلوچستان میں ہوا۔ حالاں کہ یہ خطہ اس کتاب کے اولین ترجمے کا حق دار تھا۔ اس خطے میں سیاست کی بنیاد ہی اسی کتاب سے پڑی۔ جدید سیاست کا ہمارا امام یوسف عزیز مگسی اس کی تخلیق کے سو سال بعد سام راج مخالف جدوجہد کی پاداش میں جلاوطن ہو کراس کی جائے پیدائش(لندن) پہنچا ، تو اس کا سامنا مینی فیسٹو کے اصل ماخذ سے ہوا۔ جو اس کے مطالعے میں کہاں جگہ پاتا تھا، اس کا اظہار اُس نے اپنے دوست کے نام خط میں یوں کیا کہ،’’ان دنوں میرے سرہانے دو کتابیں دھری رہتی ہیں؛ ایک طرف ’دنیا کو جھنجھوڑ دینے والے دس دن‘، دوسری طرف داس کیپٹل!‘‘ اور پھر اُس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش بلوچ ان دونوں کتابوں کو اپنے مطالعے کا لازمی حصہ بنا لیں۔۔۔۔۔۔ بلوچ اس ماخذ سے دور رہے، سو منزل کہاں پانی تھی!!

المیہ ملاحظہ ہو،وہ دھرتی جس کے اکابرین نے کمیونسٹ مینی فیسٹو نامی مختصر کتابچے کو اپنی سیاست کا سنگِ میل بنایا، وہاں کے سیاسی کارکنوں کا ایک گروہ آج اس بات پہ مصر ہے کہ بلوچستان میں طبقات کا کوئی وجود ہی نہیں۔ سرداروں ، جاگیرداروں ، مڈل کلاسیوں کی دھرتی پہ یہ دعویٰ مضحکہ خیزی کے ساتھ ہمارے سیاسی شعور کا منہ چڑانے کو کافی ہے۔ اس دعوے داری میں محض نظریات کے سراب کے پیچھے جوانیاں گنوانے والے سفید ریش سیاسی کارکن ہی نہیں، تجربات کی بھٹی میں بال سفید کرنے والے اہلِ دانش بھی شامل ہیں، جنھیں بجا طور پر سرداروں اور جاگیرداروں کا’ فکری باڈی گارڈ‘ ہونے کا طعنہ ودیعت ہوا۔ سرداروں اور جاگیرداروں کے بلوچستان میں ‘طبقات سے انکار، ان سرداروں اور جاگیرداروں کو فکری ایندھن میسر کرنا ہی تو ہے جو کبھی قومیت کے نام پر اس دھرتی کو بیچتے رہے تو کبھی مذہب کے نام پر استحصالیوں کی بداعمالیوں کی پردہ پوشی کی۔ ان کی مثال پاکستان کے اُن دانش وروں کی سی ہے جنھوں نے آمریتوں کو جلا بخشنے کے لیے کبھی انھیں مذہب کا لبادہ اوڑھایا تو کبھی روشن خیالی کی چادر پہنائی۔ جیسے آمر خواہ کسی بھی پردے میں چھپ کر آئے، وہ اپنی آمرانہ فطرت پہ قابو نہیں پا سکتا، اسی طرح سردار اور جاگیردارکے فکری باڈی گارڈ خواہ انھیں کوئی بھی چولا پہنا دیں، وہ اپنی فطرت میں استحصالی اورعوام دشمن ہی رہتا ہے۔
بلوچستان میں طبقات سے انکاری سیاسی کارکنوں اور دانش مندوں کو جاگیرداری کے شکنجے میں جکڑے لاکھوں مزدور کسانوں والے نصیرآباد کی مثال دیں تو جھٹ سے کہیں گے صرف مشرقی حصہ ہی بلوچستان نہیں، ماہی گیروں کی مثال لائیں توانھیں صرف مکران کے ساحلوں تک محدودبتائیں گے، صنعتی مزدوروں کا ذکر کریں تو انھیں صرف حب و بیلہ تک محدود کر دیں گے، بلوچستان کے ہر شہر ہر قصبے میں موجود نائی، دھوبی، بوٹ پالش کرنے والے، ریڑھی بانوں،ڈاکیوں، کلرکوں کا نام لیں تو ایک طویل وقفے سے جواب آئے گا، ’یہ طبقات کی کلاسیکل تعریف میں نہیں آتے۔۔۔‘ پھر ’بلوچستان میں طبقات اُس طرح سے واضح نہیں۔۔۔‘ اور ’قومی سوال‘ کے طویل لاینحل مسائل کی گتھیوں میں اس سوال کو اس طرح الجھا دیا جائے گا کہ سوال کرنے اور جواب دینے والا دونوں ہی اس کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ جائیں!
یہ وہی بلوچستان ہے جہاں ایشیا میں سب سے زیادہ جاگیریں رکھنے والے جاگیردار بستے ہیں، جہاں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین کا مالک جاگیردار بستا ہے، جہاں دنیا کے ٹاپ ٹین اسمگلر کی فہرست میں جگہ پانے والا کھرب پتی اسمگلر مڈل کلاس سیاسی جماعت میں پناہ پاتا ہے، جہاں سردار‘ سردار کے مفاد میں اپوزیشن کی سیاست ہی ترک کر دیتا ہے۔ جہاں پاکستان میں عوام کی ازلی و ابدی دشمن مقتدرر قوتیں انھی عوام دشمن سرداروں کو پالتی پوستی ہیں، جب چاہیں اپنی ضرورت کے تحت انھیں ہیرو بنا دیں، جب چاہیں انھیں ولن دکھا دیں۔ 
وہی بلوچستان جہاں اپنے مخالف جاگیرداروں کو سبق سکھانے کے لیے بھٹو کی زرعی اصلاحات کے خلاف سبھی جاگیردار نسلوں سے ان کی زمینوں کو آباد کرنے والے ہاریوں کے خلاف یک جا ہو گئے۔ ہاری جس زمین کو اپنے پسینے سے سیراب کرتے تھے، جاگیرداروں نے اس زمین کو انھی کے خون سے سیراب کر دیا۔ جس کے بطن سے خونی پٹ فیڈر تحریک نے جنم لیا۔اس سے پہلے کہ یہ ہاری کسان ان جاگیرداروں کا اصل روپ دیکھ کر ان کا مکروہ استحصالی چہرہ ہمیشہ کے لیے پہچان لیتے، ان کے ازلی فطری اتحادی مذہب کا کاروبار کرنے والے آگے آئے اور ’زمین خدا کی ہے‘ ، ’خدا جسے چاہے جتنا رزق دے‘ ، جیسی تاویلوں اور قناعت کی نصیحتوں کا افیون دے دے کر ساری بغاوت کو سلا دیا۔
وہ بلوچستان جہاں مزدوروں، کلرکوں پر مشتمل ایسی منظم و مضبوط ٹریڈ یونین نے جنم لیا کہ اس سے خوف زدہ ہو کر،اسے توڑنے کے لیے مقتدرہ نے اس میں مافیاز بھرتی کر دیے۔ انھیں اس قدر بدنام بنا دیا گیا کہ آج ٹریڈ یونین کرپٹ نوکر شاہی اور کرپٹ ترین حکم رانوں کا حصہ بن چکی ہیں۔
ماہی گیر مزدوروں کے مسائل قومی سوال کے پردے میں دبا دیے گئے۔ باقی سرداروں کے باڈی گاڈ بننے والے، ان کے گھروں میں کھانا پکانے والے، ان کی جوتیاں سیدھی کرنے والے تو ایک ’قومی فریضہ‘ سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔تو یوں بلوچستان میں نہ کوئی طبقہ رہا، نہ کوئی طبقہ نواز۔ تو یہاں طبقاتی جدوجہد کا سوال ہی غیرمتعلق ٹھہرا۔
طبقاتی جدوجہد کی سیاست بلوچستان میں ایک عرصے سے ناپید ٹھہری۔ صرف بلوچستان ہی کیا، پورے پاکستان سے لے کر ایران ، افغانستان، ہندوستان تک آج طبقاتی جدوجہد، مزدور کسان سیاست کا نام و ہی نشان ہی نظر نہیں آتا۔ کمیونزم کے بھوت سے نمٹنے کے لیے یورپ اور سرمایہ داری کے سردار امریکہ بہادر نے دہشت گردی اور قومی جدوجہد کا ایسا ہوا کھڑا کیا کہ گذشتہ بیس برسوں سے اس خطے میں یوں لگتا ہے کہ دہشت گردی کے سوا نہ اور کوئی سماجی مسئلہ ہے نہ قومی سوال کے سوا کوئی سوال کوئی جدوجہد معنی رکھتی ہے۔ ان سوالوں کی کثرت سے عوام اگر بے زار ہو تو سیکولر ازم ، لبرم ازم کا تڑکا لگائیے اور بھوک و فاقوں کے مسائل بھول جائیے۔ان ریاستوں کے نصاب سے لے کر، ان کا کارپوریٹ میڈیا تک مزدور، کسان ، ہاری اور نچلے طبقات کو یوں حاشیے پر ڈال چکا کہ لگتا ہے جیسے سماج میں ان کا وجود ہی ناپید ہو چکا ہو۔ انقلابات کو قصہ پارینہ بتانے والوں میں سبھی شکم سیر ہیں۔ ہر وہ شخص جس کی شکم سیری کا سامان موجود ہے، امن کا داعی رہتا ہے۔ پیٹ خالی ہو تو ہر فکر اور جذبے کی مانندامن بھی اپنے معنی کھو دیتا ہے۔ یاد رکھیے، آسمان پہ ایک ہی چاند چمکتا ہے، کوئی اس سے حسن کشید کرتا ہے تو کسی کو یہ روٹی کی مانند دِ کھتا ہے۔ 
بھوکے پیٹ والوں کے لیے آئیے مینی فیسٹو کی سطریں یاد کیجیے۔ اس تاریخی کتابچے کے مصنفین نے خبردار کیا تھا کہ،’’محنت کشوں کے سامنے سوائے اس کے کوئی راستہ ہے ہی نہیں یا تو وہ ماریں یا مر جائیں۔‘‘ مت بھولیے کہ اب تک مرنے پہ اکتفا کرنے والا محنت کش کسی بھی وقت مارنے پر بھی مائل ہو سکتا ہے۔ اپنی محنت استحصالیوں کے ہاتھ گروی رکھنے والا یہ محنت کش طبقہ اُسی روز بیدار ہوگا جس روز اسے یہ احساس ہو گیا کہ،ان کے پاس کھونے کو صرف زنجیریں اور پانے کو سارا جہان پڑا ہے۔۔۔!





مزدور کو نصیحت
گل خان نصیر کی بلوچی نظم



شاہ و گدا‘ سیٹھ اور خوار
مزدورِ برہنہ اور سرمایہ دار
آقا اور بھوکا کاشت کار
مظلوم وظالم مردہ خور
باندی غلام اور تاج دار
جتنا بھی ہوں شیر و شکر
نہ ہوں گے بہن بھائی کبھی
کہ گرگ و گوسفند کی یاری نہیں ہو سکتی



گفت و شنید نہیں ہو سکتی ظالم اور طاقت ور کے ساتھ
رحم کی درخواست کبھی ان کے پاس نہ لے جا
اگر تم عاقل ہو، دانا ہو اور دانش مند ہو
تو اُن سے اپنے حقوق تیغ و تبر کے ذریعے لے لو



میں مزدور تو دہقاں، اُف تم پہ، آہ مجھ پہ
کب تک رہے گا ڈنڈا تیرے لیے اور گالی میرے لیے
یہ حیلہ و مکاری سے ہمارا خون چوستے ہیں
ہر ایک جونک کی طرح ہے؛ پیر تمہارے لیے ،شاہ میرے لیے 
ہم جاہل و کم زور ہیں، بے علم و ہنراندھے ہیں
یہ کاہلی نادانی بری تیرے لیے اور گناہ میرے لیے

بلوچی سے ترجمہ: شاہ محمد مری
___________________________________________________
طبقاتی بلوچستان میں غیر طبقاتی سیاست اور عابد میر کے تضادات

گلزار بلوچ
عابد میر کے یکم مئی کے آرٹیکل "طبقاتی بلوچستا ن میں غیر طبقاتی سیاست " کے عنوان سے پڑھا۔عابد میر نے جس نقطے کو یہاں زیر بحث لایا ہے وہ نقطہ ہے بلوچستان میں قومی سوال کا۔عابد میر نے بڑی ڈھٹائی سے بلوچستا ن کے ’’ قومی سوال ‘‘کو یورپ اورامریکہ کی پیداوار قراردیا۔عابد میر کے مطابق
’’ماہی گیری مزدوروں کے مسائل قومی سوال کے پردے میں دب گئے۔باقی سرداروں کے باڈی گارڈبننے والے ان کے گھروں میں کھانا پکانے والے ان کی جوتیاں سیدھی کرنے والے توایک ’’قومی فریضہ ‘‘سرانجام دے رہے ہیں۔تو یوں بلوچستان میں نہ کوئی طبقہ رہا اور نہ کوئی طبقہ نواز تو یہاں طبقاتی جدوجہد کاسوال ہی غیر متعلق ٹھہرا۔طبقاتی جدوجہد کی سیاست بلوچستان میں ایک عرصے سے ناپید ٹھہری۔کیمونزم سے نمٹنے کے لئے یورپ اور سرمایہ داری کے سردار امریکہ بہادر نے دہشتگردی اور قومی جدوجہد کاایسا ’’ہوا ‘‘ کھڑا کیا کہ گزشتہ بیس برسوں میں سے اس خطے میں یوں لگتا ہے کہ دہشتگردی کے سوا نہ اورکوئی سماجی مسئلہ ہے نہ قومی سوال کے سواکوئی سوال کوئی جدوجہد معنی رکھتی ہے’‘
یعنی بلوچستان میں قومی سوال اور دہشتگردی کو یورپ اورامریکہ کی جانب سے کمیونزم کے خلاف کھڑا کیاگیا۔آگے لکھتے ہیں کہ اب دہشتگردی اور قومی سوال کے علاوہ کوئی سوال رہا ہی نہیں۔ یعنی دہشتگردی اور قومی سوال ایک ہی معنی دیتے ہیں اور یہ کہ دونوں امریکہ کے پیداکردہ ہیں اور پھر اگر بلوچستان میں قومی سوال کو اہمیت حاصل ہے تو یہ خارجی ہے قومی سوال اندرونی جڑیں نہیں رکھتا۔
یہ الفاظ عابد میر کے مضمون میں پڑھ کرپروفیشنل لکھاریوں کی تعریف سمجھنے میں کچھ کچھ آسانی ہورہی ہے۔عابد میر کے سابقہ کچھ ہی تحریروں کاجائزہ لیاجائے تو یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ وہ یکم مئی کو "ایک دن کے لئے سوشلسٹ بننے " کااعزاز حاصل کرچکے ہیں اور ہر خصوصی دن کی مناسبت سے موصوف وہی روپ دھارلیتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں غور کیاجائے تو موصوف اور اسکے گروپ(سنگت اکیڈمی) کی تحریریں ایک دوسرے کا خود ضد بنتی رہتی ہیں یعنی اگلی روز کی تحریرپچھلی تحریر کو مکمل رد کرتی نظرآتی ہے۔ تب ہی اکثر اوقات قومی سوال کی اہمیت کا بیان اورقومی جدوجہد کے گن گانے تعریف وتوصیف اوراہم مسئلہ قرار دینے بعد قومی سوال ایک دم سے امریکہ کی جانب سے "ہوا" کھڑا کرنا قرارپاتا ہے ‘امید ہے آنے والے دنوں میں یہ ہوا پھر سے حقیقت بن جائے اور پھر کسی خاص موقع پر یہ محوہوجائے۔اب اگر ہم خود عابد میر کی تحریروں کا جائزہ لیں تو یہ تضادات سے پرہوتے ہیں اور ایک دوست زرک میر صاحب متعدد بار موصوف کے تضادات پر لکھ چکے ہیں۔ یہ موصوف ایک دن کے لئے جہاں سوشلسٹ بنتے نظرآتے ہیں تو وہاں ایک دن کے لئے کبھی یہ مسلم لیگی بن جاتے ہیں اوراس پر زرک میر نے بھی لکھا تھا۔ جہاں مہینوں پہلے ایک آرٹیکل میں مسلم لیگ نواز شریف کی خاتون رکن اسمبلی راحیلہ درانی کے بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہونے کو اہم پیشرفت اور انقلاب سمجھنے لگتے ہیں ،پھر جناب کمال مہارت دکھاتے ہوئے راحیلہ درانی کی اسپیکر شپ کو جہاں اہم پیشرفت قراردیتے ہیں وہیں گودی کریمہ کی بی ایس اوآزاد کی چیرپرسن بننے کوبھی اس جیسا انقلاب اور اہم پیشرفت قراردیتے ہیں‘کیا کمال سوشلزم ہے جہاں ایک طرف راحیلہ درانی کی اسپیکر شپ انقلاب قرارپائے جو خود ‘خود ساختہ سوشلزم کے چہرے پردھبہ ہے اورپھر راحیلہ اور کریمہ ایک ہی شخص کے لئے انقلابی خواتین قرارپاتی ہیں جو آگ اورپانی کے میلاپ کے مترادف ہے۔ممکن ہے ایک طرف ن لیگ جیسی غیر نظریاتی پارٹی کی غیر نظریاتی خاتون کے اسپیکر بننے کو سوشلزم کے ہاں انقلاب کا درجہ ملے تب یہ صاحب گودی کریمہ بلوچ کو کہاں اس عمل میں فٹ پاتے ہیں جہاں انہوں نے قومی سوال کو امریکہ کا ہوا قراردیا ہے۔مطلب عجیب تضاد ہے جو ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ درجنوں تضاد رکھتا ہے ‘کہاں راحیلہ درانی اور اس کے اسپیکر بننے کے پس پردہ عوامل کہاں اس کے اسپیکر بننے کاسوشلزم سے تعلق اور کہاں کریمہ بلوچ اوراس کی قومی سوال سے جڑت جدوجہد۔قارئین اس تضاد کی گتھی کو خود سلجھائیں میں تو کنفیوز ہورہا ہوں۔اب کچھ اور پیچھے چلے جائیں تو یہ مادیت پرست سوشلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں مست توکلی کے گن گاتے ہوئے ایک ایسے صوفی نظرآتے ہیں کہ فکر روحین کے داعی اور مادیت پرستوں کے اہم نقیب نظرآتے ہیں۔(مست توکلی کے عشق کو عورتوں کی تحریک کی بنیاد قراردینازیر بحث ہی نہیں )مزید غورکرنے پر موصوف عورتوں کے حقوق کے ایسے علمبردار نظرآتے ہیں کہ سموراج موومنٹ کی تشکیل کاربن جاتے ہیں اور پاکستان کے پائے کے سیکولراستادوں وجاہت مسعود وغیرہ کو استاد ماننے لگتے ہیں۔کچھ سال پیچھے نظرڈوڑائیں تو یہ بلوچ قوم پرست تحریک کے روح رواں کامریڈ خیربخش مری کے پیرو قرارپاتے ہیں اور بقول عابد میر کے نوابوں کے’’ بوٹ پالش کرنے والے ‘‘ایک رہنما جو آٹھ دس سال جیل کاٹ کر جب باہر نکلے تو عابد میر صاحب کی ان سے نظریاتی قربت دیدنی تھی۔یہی نہیں الفاظ کے گورکھ دھندوں سے لے کر کتابوں کے تعریفی وتوصیفی دیپاچے اس مہا نواب(کامریڈ مری) کے بارے میں لکھے گئے اور بقول عابد میر سیاسی کارکن اس نواب کے بولٹ پالشیئے رہے ہیں اور یہ تعریفی اور توصیفی دیپاچے کوئی اور نہیں عابد صاحب کے استاد محترم لکھتے رہے گویا ان نواب کے فکری باڈی گارڈوں میں اکیڈمی کے معزز سربراہ بھی سرفہرست نظرآتے ہیں (ہم انہیں بوٹ پالشیئے نہیں کہہ سکتے )اور خود عابد اس نواب کے ایک دیرینہ فکری ساتھی کے فکری آئیڈیل جانے جاتے تھے۔یعنی جناب کی پچھلی تحریروں کا اگر ریکارڈ حاصل کیاجائے تو اس نئے فکری مراجعت کی بنیادتضاد ہی نظرآئیگی۔اب ایسا لگتا ہے کہ اکیڈمی میں ایک مخصوص "کلینڈر " ترتیب دیاگیا ہے جس میں ماہانہ وار اوراق پر مخصوص ایام نشان زد نظرآتے ہیں۔یکم مئی ‘عورتوں کا عالمی دن‘ معذوروں کا عالمی دن ‘کتابوں کا عالمی دن ‘جانوروں کا عالمی دن پھولوں کا عالمی دن ‘اب اگر اقوام متحدہ سرمایہ داری کا عالم دن رکھ لے تو روایتی تسلسل کو دیکھ کر گمان کیاجاسکتا ہے کہ ایک خصوصی تحریر سامنے لائی جائے کہ صاحب مزدور بنتے ہی سرمایہ دار ی کی وجہ سے اگر سرمایہ دار نہ ہوگا تو سوشلسٹ انقلاب آئے گا کہاں سے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ انقلاب زندہ باد۔ اب اقوام متحدہ کی طرف سے اگر نیشنلزم کا کوئی دن مقررکیاجائے تواس دن یوسف عزیز مگسی بلوچ قوم پرست بنتے نظرآئیں گے تب شاہد وہ دیباچے بھی سا منے لائے جائیں جو فضول اور جاہلانہ دہشتگردانہ اور امریکیائی ہوا جیسے کھڑے قومی سوال کا پرچارکرنے والے نواب مری کے حق میں لکھے گئے تھے۔وہ تحریریں تو محفوظ ہونگی وہ ضرورسامنے لائی جائیں گی اور قوم پرستی کا پرچم ضرور بلند ہوتا ہوا نظرآئے گااور جواز دیاجائے گاسوویت یونین کے انہدام میں قومی سوال کا حل نہ کرنا بھی ایک بہت بڑا موجب تھا اورگمان غالب ہے کہ پھربوٹ پالیشیوں کوسرمچار اور کامریڈ بھی قراردیاجائے اس دن یقیناًسوشلزم سے قبل قومی سوال کی اہمیت کو مدنظررکھ کر ایسا کچھ لکھاجائے گا کہ سوشلسٹ بھی حیران رہ جائیں۔ یہ بنیادی نقطہ ہے کہ عابد میر قومی سوال کو کیسے غلط قراردیتے ہیں اور انتہائی طورپر اسے امریکہ کی پیداوار کیسے قراردیتے ہیں۔ عابد تاریخ سے ناواقف ہوسکتے ہیں لیکن اس قدر ناواقفیت تو پاکستان کے بڑے بڑے لکھنے والے وجاہت مسعود یا بڑے بڑے سوشلسٹوں کے ہاں بھی گمان نہیں کیاجاسکتا۔کیا بلوچ قومی سوال روس میں کمیونزم کے انقلاب سے نتھی رہا یا اس انقلاب کے بطن سے امریکہ کی جانب سے پیدا کیاگیا یا پھر یہ ہر اس ریاست اور اس کی قوم کے ساتھ جڑاہوتا ہے جو اپنا وجود او رشناخت رکھتی ہے ؟اس حوالے سے یہ سوال اہم ہے کہ کیا بلوچ قوم کا وجود سوویت یونین کے انقلاب کے بعد کی پیداوار ہے جہاں سب سے پہلے قوم کا ہوا کھڑا کیاگیا بعد میں قومی سوال کا وجود تخلیق کیاگیا ؟ چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عابد میر پہلے قومی سوال کی تعریف تو کرتے کہ بلوچ قومی سوال کیسے امریکہ کی پیداوار ہے ؟یوسف عزیز مگسی جب کہتے ہیں کہ کاش بلوچ نوجوان داس کیپٹل اور انقلاب کے دس دن والی کتابوں کا مطالعہ شروع کریں تو انہیں بلوچ کالفظ استعمال کرنے کی نوبت کیوں آئی ؟انہیں کیوں اس امریکہ کے کھڑے کئے گئے ہوا کا گمان نہ گزرا ؟گل خان نصیر جیسے سوشلسٹ (؟) کو اپنے اظہار میں بلوچ وطن اور بلوچ زبان وتہذیب کیوں رہ رہ کریاد آتے گئے جہاں ان کی تحریریں وطن سے محبت پر ہی محیط ہیں جبکہ جس سیاست کو عابد میر ان کے ہاں سوشلسٹ پہچان بتاتے ہیں وہ سب سرداروں اور نیپ کے زیر سایہ رہی اگر نیپ سوشلسٹ پارٹی تھی تو اس میں سردار مینگل نواب مری امیر الملک وغیرہ وغیرہ کیوں سوشلسٹ قرارنہیں پاتے ؟ فدا بلوچ جیسی شخصیت کا بھی حوالہ دیاگیا۔اب فدا ور پھر بلوچ اور پھر بی این وائی ایم جیسی پارٹی کے بانی رہنماء4 کے ذہن میں یہ امریکی ہوا کیوں محو ہوگیا کہ انہوں نے بلوچ قومی سوال کی ہی بات کی۔۔۔۔ پوری سیاست بلوچ قومی سوال کے گرد محیط رہی چنانچہ عابد میر نے جن شخصیات کا حوالہ بطور سوشلسٹ دیا ہے ان کے ہاں ہی ہمیں بلوچ قومی سوال جس شد ومد سے نظرآتا ہے کہ جس کو کوئی بلوچ یا غیر بلوچ بھی رد نہیں کرسکتا۔ان شخصیات کی شناخت ہی بلوچ قوم پرستی کے حوالے سے ہے ؟مجھے عابد سے کوئی بغض نہیں وہ سوشلسٹ ہیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں اچھی بات ہے لیکن اس بات پر اعتراض ضرور ہے کہ قومی سوال کو یورپ اور امریکی ہوا(بے بنیاد) قراردینا اور اس سے لاتعلقی کا اظہار کرناکسی طرح سے بھی تضاد سے خالی نہیں۔چنانچہ بلوچ قومی سوال کو بلوچ قومی تشکیل سے ہی لیا جاسکتا ہے جویقیناًسوویت یونین سے کہیں زیادہ پرانا ہے اگرقومی وجود کو لے کر قومی سوال کی اہمیت اور وجود کی بات کی جائے تو یہ کمیونزم اور خود امریکہ سے ہی بہت پرانے ہیں اور اگر سوویت یونین کے مختصر دور میں بلوچ قومی سوال کا ہوا کھڑا کرنے کو درست تسلیم بھی کیاجائے تو 90کی دہائی کے بعد سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس بلوچ قومی سوال کے ہوا کو کیونکر کھڑا کرنے کی اب تک ضرورت پیش آئی ہے۔ جہاں عابد میر اور ان کے استادوں کو بھی بلوچ قوم پرستی کے نواب رہنما?ں کی پیروی کرنا پڑی اور وہ بھی ان کے فکری بارڈی گارڈوں میں شامل ہونے کا شرف حاصل کرتے رہے۔چنانچہ عابد میر بلوچ قومی تشکیل اور وطن وقومی مفادات کے تحفظ کے فطری احساس کے تناظر میں ان مسائل کو دیکھنے سے قطعی قاصر رہے ہیں اور ایسے ماہر اساتذہ کی نگرانی میں بھی جناب موصوف فکری مغالطوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں جو دانش کے نام پر بلوچستان میں ہونے والی کوششوں پر ایک بنیادی سوال ہے۔کیا بلوچ قومی تشکیل امریکہ اور سوویت یونین سے جڑی ہے ؟ اگر جڑی ہے تو کیسے ؟جبکہ سادی سی حقیقت یہ ہے کہ بلوچ قومی تشکیل بلوچ ریاست اور قومی مفادات کے تحفظ کی جدوجہد تو مارکسزم سے بھی بہت پہلے کی ہے۔ بلوچوں کی یہاں آمد کی تاریخ بھی دیکھی جاتی تو شاہد عابد میر کو مبالغہ نہ ہوتا۔جب خان آف قلات محراب خان انگریز کے یلغار کے خلاف دوبدو لڑائی لڑرہے تھے تواس وقت داس کیپٹیل لکھا بھی نہیں گیا تھا اورنہ مارکس اپنے نظریئے کو متعین کرسکے تھے۔اگر بلوچ قومی وجود کو لیاجائے تو اس وقت امریکہ بھی دریافت نہیں ہواتھا بلوچ امریکی دریافت سے بھی کہیں پہلے کی قوم ہے۔خان محراب خان سے بھی اگر شروع کیاجائے تو یہ سوویت یونین اور امریکہ کے سردار بننے سے پہلے کا قومی سوال قرارپاتا ہے۔مطلب میںیہ لکھتے ہوئے کنفیوز ہورہاہوں اور میری کیفیت ایسی ہے کہ اگر کسی بچے کواس کی ذہن سے بھی ماورا شہ سمجھائی جائے تو ممکن ہے کہ ایسا کیفیوڑن نہ ہو جیسا کہ اس معاملے پر عابد صاحب کی خدمت میں کچھ لکھتے ہوئے مجھے کیفیوڑن ہورہی ہے۔چنانچہ بلوچ قومی سوال کو سوویت یونین اور امریکہ کی سرداری سے نتھی کرنا ایسا ہے کہ عابد کے لئے بلوچستان کی عمر اس قدر طویل نہیں اور یہ اسے ایک صدی قبل کی ہی دریافت تخلیق یا بنیادی طورپر ’’ہوا ‘‘ قراردیتے ہیں۔چنانچہ بلوچستان کی جس قدر عمر ہے بلوچ قومی سوال بھی اس قدر پرانا ہے جس کا نہ تو سوویت یونین سے کسی طور پرکوئی تعلق ہے اور نہ ہی امریکہ کی سرداری کا اس کے وجود سے کوئی تعلق ہے۔
عابد میر نے ایک او رنقطہ بھی اٹھایا جو بدقسمتی سے تضاد بیانی سے خالی نہیں ہے وہ یہ کہ بھٹو نے یہاں زرعی اصلاحات کی کوشش کی تو یہاں کے جاگیرداروں نے اس کو ناکام بنایا۔اول تو یہ کہ یہ ایک ایسا رویہ ہے جو وقتا فوقتا دہرایاجاتا ہے یہ ایسا ہے کہ ڈیرہ بگٹی میں سکولوں کے قیام اور سڑکوں کی تعمیر کی بات کی جاتی تھی تو وفاق کہتا کہ وہاں نواب بگٹی ایسا کچھ نہیں چھوڑتے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک نواب بگٹی اسکول وغیرہ نہیں چھوڑتے رہے زندہ رہے بلکہ وزیر مملکت سے لے کر گورنر اور وزیراعلیٰ تک بنتے رہے لیکن جونہی انہوں نے بلوچ قومی سوال کی بابت معاملہ اٹھایاتو اسے راستے سے ہٹادیاگیا یعنی جو چیز یہاں نہ کرنی ہواسے جاگیرداروں اور سرداروں کی بدمعاشی قراردی جائے اور اسکے سامنے وفاقجیسی طاقت بے بس ہوجائے لیکن جونہی کوئی قومی سوال کے حوالے سے موقف اپنائے تو یہی طاقت ان سرکش سرداروں اور جاگیرداروں کو غاروں میں جاکر مارے۔اب بھٹو کی زرعی اصلاحات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا۔ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ کی حکومت ختم کردیِ سردار مینگل وغیر ہ گرفتارکئے گئے ، بھٹو نے ان سرکش سرداروں کو سبق سکھانے کے لئے بلوچستا ن کے دورے پر تھے ،جھالاوان میں جلسہ سے خطاب کررہے تھے اور کہہ رہے تھے آج سے میں بلوچستان میں سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کرتا ہوں پھر فورا نیچے جھکے اور اسٹیج پر بیٹھے سردار دودا خان زہری سے کہنے لگے ’’آپ کے علا?ہ ‘‘ یعنی سرداری نظام کے خاتمے کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا تو زرعی اصلاحات کا عالم کا خود ہی اندازہ لگایئے جہاں آج گڑی خدا بخش میں شہداء4 پی پی کے لئے جو زمین مختص ہے اور وہاں کی وسیع وعریض زمین پرجس انداز سے مقبرے تعمیر ہیں۔اب یہ شاہانہ طرز زندگی اور بعداززندگی دیکھ کر مدفن شخص کو تاریخ زرعی اصلاحات کرنے والے رہنماء4 کے طورپر قطعی یادنہیں کرسکتی۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں